کتاب
:
صحت ِزباں
الفاظ، محاورات اور
مرکبات کا درست استعمال
مصنف
:
ڈاکٹر رئوف پاریکھ
0300-2101864
صفحات
:
154 قیمت:400 روپے
ناشر
:
ڈاکٹر رئوف پاریکھ۔ ڈائریکٹر جنرل ادارۂ فروغِ قومی ورثہ۔ قومی ورثہ ڈویژن، ایوانِ اردو، پطرس بخاری روڈ، ایچ 4/8 اسلام آباد پاکستان
فون
:
051-9269760-61-62
فیکس
:
051-9269759
برقی پتا
:
matboaatnlpdisd@gmail.com
ہر زبان صحتِ زبان کی متقاضی ہوتی ہے، جس کی اُس زبان کے جاننے والے اہلِ علم ہمیشہ وضاحت اور اغلاط کی اصلاح کرتے رہتے ہیں۔ اردو زبان کے سلسلے میں بھی اہلِ علم کی اس پر توجہ رہی اور بے شمار مضامین اور کتب لکھی گئی ہیں۔ اس سلسلے میں تازہ ترین کتاب ڈاکٹر رئوف پاریکھ کی یہ ’’صحتِ زباں‘‘ ہے، جس میں اردو زبان میں در آنے والی اغلاط کی اصلاح کی گئی ہے۔
مشہور شاعر، ادیب اور دانشور افتخار عارف تحریر فرماتے ہیں:
’’ادارہ فروغِ قومی زبان (مقتدرہ) اپنے آغاز سے اب تک متعدد کتابیں شائع کرچکا ہے، جس میں ادارے کے بنیادی وظیفۂ کار کو پیش نظر رکھا گیا ہے۔ اردو کی ترویج، زبان کا فروغ، دوسری پاکستانی زبانیں اور اُن کے ساتھ قومی زبان کا تعلق، زبانوں کی تاریخ، لغات، تحقیق اور دوسرے اہم موضوعات پر کتابیں اسی غرض سے شائع کی گئیں۔ تمام زبانوں کی تاریخ شاہد ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ ان کے تلفظ، ان کے معنی، ان کے لہجوں میں تبدیلی ناگزیر ہوتی ہے۔ جیسے جیسے زبان پھیلتی جاتی ہے اُس میں تبدیلیاں رونما ہوتی چلی جاتی ہیں۔ دنیا کی تمام زبانیں اس عمل سے گزرتی ہیں۔ انگریزی ہو، فرانسیسی ہو یا ہسپانوی زبان… عربی ہو یا فارسی یا چینی… وقت کے بدلنے اور زبانوں کے پھیلنے کے ساتھ ساتھ تغیر و تبدل کے بعض مسئلوں سے دوچار ہوتی ہیں۔ اردو، زبانوں کے قبیلے میں شاید سب سے کم عمر زبان ہے مگر خوش قسمتی سے اس اعتبار سے اہم ہے کہ دنیا کی بڑی زبانوں کے زمرے میں اس کا نام لیا جاتا ہے۔ اردو کے علاقے اور بستیاں، اور اردو بولنے، سمجھنے اور لکھنے پڑھنے والوں کی تعداد دنیا کی دس بڑی زبانوں میں نمایاں نظر آتی ہے۔ ظاہر ہے کہ اس ساری صورتِ حال میں زبان کی صحت کے حوالے سے بہت سے مسئلے پیدا ہونا لازمی تھے۔ کون نہیں جانتا کہ اردو میں عربی، فارسی اور ترکی کے لفظ بھی شامل ہیں، اور برصغیر کی دوسری زبانوں کے بے شمار الفاظ بھی اردو کے ذخیرۂ الفاظ میں شامل ہوگئے ہیں، یہاں تک کہ اب انگریزی کے ساتھ ساتھ یورپ کی بہت سے زبانوں کے لفظ اردو میں آگئے ہیں۔ نامیاتی تبدیلی ضابطوں کی پابند نہیں ہوتی، مگر پھر بھی ہمیں کچھ اصول ضرور ایسے مرتب کرنا ہوتے ہیں جن کے سبب زبان کو منضبط رکھا جاسکے۔ ایسے اصول زبان کے علاقے، بولنے والوں کے مزاج اور ساخت و پرداخت کو مدنظر رکھ کر مرتب کیے جاتے ہیں۔ اردو میں یہ کام ہمارے ماہرینِ زبان نے بہت خوش اسلوبی سے سرانجام دیا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ کیے گئے کام کو پیش نظر رکھتے ہوئے نئے حالات کے پیش نظر ان کو ازسرِنو مرتب کیا جائے۔
ڈاکٹر رئوف پاریکھ دنیا میں اِس وقت علمائے لغت میں ایک نمایاں مقام رکھتے ہیں۔ ان کی علمی خدمات میں دوسرے موضوعات کے علاوہ انگریزی اور اردو میں دوسری لکھی گئی کتابوں میں لسانی مباحث، لغوی مباحث، فرہنگیں اور لغات کے علاوہ بعض اہم لغات بالخصوص اردو لغت بورڈ کی ضخیم 22 جلدی لغت کی تین جلدی بھی شامل ہیں۔ صاحبانِ علم میں ان کی کتابوں کی بہت پذیرائی ہوئی ہے۔ پیش نظر کتاب ’’صحتِ زباں‘‘ اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔
کسی بھی زبان کی دیرپا ترقی، وسعت اور فروغ کے لیے اس کی مستحکم بنیادوں کی ضرورت یقینی ہے۔ پیش نظر کتاب اسی مقصد کے تحت مرتب کی گئی ہے۔ جناب ڈاکٹر رئوف پاریکھ لسانیات کے موضوع پر سند کا درجہ رکھتے ہیں، اور انہوں نے ہمیشہ اس سنجیدہ موضوع پر مخلصانہ کوششیں کی ہیں۔ ادارہ فروغِ قومی زبان صحتِ زباں کے حوالے سے ان کی اِس کتاب کی اشاعت پر احسان مند ہے اور امید کی جاسکتی ہے کہ یہ کتاب قارئین، اساتذہ و طلبہ کے لیے بے شمار ابہامات کو دور کرنے اور درست زبان بولنے اور لکھنے میں معاون ثابت ہوگی۔‘‘
ڈاکٹر رئوف پاریکھ تحریر فرماتے ہیں:
’’ایک صاحب نے اپنے بے روزگار لختِ جگر کی ملازمت کے سلسلے میں مولانا ماہرالقادری سے سفارش کی درخواست کی۔ مولانا کی کوششوں سے موصوف کے صاحب زادے کہیں نوکر ہوگئے تو اُن صاحب کو خیال آیا کہ مولانا کا شکریہ ادا کرنا چاہیے۔ چنانچہ انہوں نے اپنے خط میں مولانا کا شکریہ ادا کرتے ہوئے لکھا ’’میرے بیٹے کو ملازمت مل گئی ہے، اور یہ سب آپ کی مہربانیوں اور ریشہ دوانیوں کا نتیجہ ہے‘‘۔
اپنی دانست میں انہوں نے ادبی زبان لکھی تھی، لیکن اگر انہیں لفظ ’ریشہ دوانی‘ کے صحیح معنی معلوم ہوتے (یعنی سازش) تو یوں کبھی نہ لکھتے۔ دراصل ہم لفظوں کی اصل اور بناوٹ پر غور نہیں کرتے، اور اُن الفاظ کو بھی بلاتکلف استعمال کرلیتے ہیں جن کا صحیح مفہوم یا املا ہمارے ذہن میں نہیں ہوتا۔ اب تو یہ عالم ہوگیا ہے کہ بعض اخبارات و رسائل بھی زبان کے استعمال میں احتیاط نہیں کرتے، اور بعض جرائد نے بعض الفاظ کا من مانا املا بھی لکھنا شروع کردیا ہے، حالانکہ املا کی تبدیلی سے بسا اوقات لفظ ہی بدل جاتا ہے اور مفہوم کچھ کا کچھ ہوجاتا ہے۔
ایسے ہی الفاظ کی تصحیح کے لیے اس طالب علم نے اخبارات و رسائل میں کچھ مضامین اور کالم لکھے۔ ابتدا میں اس سلسلے کا عنوان ’’اردو اور ذرائع ابلاغ‘‘ تھا، بعدازاں مختلف عنوانات کے تحت اس سلسلے کی کچھ تحریریں شائع ہوئیں، جن کے لکھے جانے میں محترم افتخار عارف صاحب کا پُرخلوص اصرار شامل تھا، اور انہوں نے ادارۂ فروغِ قومی زبان (سابقہ مقتدرہ قومی زبان) میں اپنے تین ادوار میں راقم سے ’’اخبار اردو‘‘ کے لیے لغات، لسانیات اور صحتِ زباں کے موضوعات پر مسلسل لکھوایا۔ اس کے بعد(باقی صفحہ 41پر)
2018ء میں انہوں نے تجویز پیش کی کہ صحتِ زباں کے موضوع پر لکھے گئے تمام مضامین کو کتابی صورت میں شائع کیا جائے، اور ’’اخبار اردو‘‘ میں اس کتاب کا اشتہار بھی شائع کردیا۔ راقم نے بھی ہامی بھرلی اور مضامین کتابی صورت میں پیش کرنے کی غرض سے الفاظ اور مرکبات کو الف بائی ترتیب سے مدون کرنا شروع کیا۔ تاہم کچھ نجی مصروفیات اور دیگر ادبی کاموں کے سبب یہ کام تعویق میں جا پڑا۔ کچھ اس میں دخل میرے عدم اطمینان کا بھی تھا، لیکن افتخار عارف صاحب کا اصرار بڑھا تو جس حال میں یہ منتشر تحریریں تھیں اُسی حال میں انہیں اس درخواست کے ساتھ روانہ کردیا کہ ان کی الف بائی ترتیب میں کچھ کمی رہ گئی ہے۔
محترم افتخار عارف صاحب اور ادارہ فروغِ قومی زبان کے افسران و کارکنان، بالخصوص محترمہ ڈاکٹر انجم حمید صاحبہ اور جناب منظور احمد کا شکریہ واجب ہے کہ انہوں نے ایک گنجلک مسودے کو جاں فشانی سے مرتب کردیا، جزاک اللہ خیراً کثیراً۔
عرض ہے کہ یہ کتاب طالب علموں اور عام قارئین کے لیے لکھی گئی ہے، لیکن اگر کچھ اختلافی مسائل زیر بحث آئے ہیں تو ان کی طرف بھی اشارہ کردیا گیا ہے، اور راقم کو اپنی رائے پر اصرار بھی نہیں ہے۔ قارئین کو اختلافِ رائے کا پورا حق ہے‘‘۔
کتاب مجلّد ہے اور خوب صورت طبع کی گئی ہے۔ چونکہ یہ کتاب طالب علموں کے لیے بھی ہے، اس لیے اس گراں قدر کتاب کا ایک کم قیمت یعنی سستا ایڈیشن بھی شائع کرنا چاہیے، تاکہ طالب علم سہولت سے اسے خرید سکیں اور فائدہ اٹھاسکیں۔