سید اطہر علی ہاشمی صاحب سے میری پہلی ملاقات شاید 1981ء میں اُس وقت ہوئی تھی، جب میں نے روزنامہ جنگ چھوڑ کر جسارت میں ملازمت اختیار کی تھی۔ مجھے وہاں دوسرا یا تیسرا روز تھا اور میں نائٹ شفٹ میں سب ایڈیٹر کے فرائض انجام دے رہا تھا۔
کچھ عرصے قبل روزنامہ جسارت کے اداریہ نویس اور میرے جامعہ کراچی کے استاد پروفسیر متین الرحمٰن مرتضیٰ نے مجھے جسارت میں کام کرنے کی دعوت دی، چنانچہ میں روزنامہ جنگ کی ملازمت چھوڑ کر قریب ہی واقع روزنامہ جسارت کے دفاتر چلا آیا، جہاں جسارت کے مدیر محترم محمد صلاح الدین شہید نے بہت اپنائیت کا مظاہرہ کیا۔ میرے لیے اتنے بڑے صحافی کے ساتھ کام کرنا ایک اعزاز تھا۔
چند روز بعد ہی ایک ہیرو ٹائپ خوبرو جوان سے ملاقات ہوئی۔ گورے چٹے، کلین شیو، چہرے پر ہلکی سی مونچھیں، سیاہ بال، سفید کرتا پاجامہ۔ اور بہت عزت دینے اور عمدہ اور شگفتہ گفتگو کرنے والے۔ میں نے مظفر اعجاز صاحب (موجودہ مدیر جسارت) سے دریافت کیا کہ یہ کون صاحب ہیں؟ تو انہوں نے مسکرا کر کہا کہ اتنے دن ہوگئے اور تم انہیں نہیں جانتے! یہ ہاشمی صاحب ہیں (ہم لوگ سید اطہر علی ہاشمی کو ہاشمی صاحب کہا کرتے تھے)۔ یہ تھی میری ان سے پہلی ملاقات۔ ان کو اردو زبان و ادب پر مہارت تھی، وہ جسارت کے ادارتی صفحے کے انچارج تھے۔ لیکن میں حیران رہتا تھا کہ وہ تیسرے پہر دفتر آنے کے بعد گھر جانے کا نام ہی نہیں لیتے، ان کا ادارتی صفحہ شام کو پریس میں چلا جاتا، لیکن وہ رات گئے تک آفس میں رہتے۔ سگریٹ نوشی بہت کرتے تھے۔ اپنے کمرے میں لکھتے رہتے۔ میں نائٹ شفٹ میں تھا۔ وہ تھوڑے تھوڑے وقفے سے ہماری نائٹ شفٹ ڈیسک پر تشریف لاتے اور خوشیاں بانٹ کر چلے جاتے۔ اتنی عمدہ گفتگو، اور اتنی مہارت سے حاضر جوابی کہ اُس زمانے میں مَیں ان سے ڈرتا تھا۔ اُس زمانے میں جسارت کے نیوز ایڈیٹر آفتاب سید صاحب تھے۔
اُس وقت تک نوری نستعلیق اورکمپیوٹر کمپوزنگ کا دور شروع نہیں ہوا تھا، بلکہ نائٹ ڈیسک کے سامنے ہی ایک ہال میں کاتب حضرات کے بیٹھنے کا اہتمام تھا۔ وہ لوگ کرسیوں پر نہیں بیٹھتے تھے، بلکہ زمین پر بیٹھ کر لکھنے کے عادی تھے۔ اس لیے چھوٹے سے ہال نما کمرے کے تینوں جانب چبوترے تعمیر کراکے اس پر دریاں بچھا دی گئی تھیں، اور اس پر لکڑی کی چھوٹی چھوٹی ڈیسک رکھی تھیں۔ وہاں تقریباً ایک درجن کے قریب کاتب حضرات بیٹھا کرتے۔
ہاشمی صاحب ان کے پاس بھی جاتے اور ان سے بھی گفتگو کرتے۔ تھوڑا سا آگے، انتظامی دفاتر سے بھی آگے سٹی ڈیسک مع رپورٹنگ روم تھا۔ مجھے وہاں کام کرنے کا بھی موقع ملا۔ وہاں بھی ہاشمی صاحب تشریف لاتے۔ کبھی صلاح الدین صاحب سے باتیں اور بحث کرتے ہوئے دیکھتا۔ یعنی ہاشمی صاحب ملک کے سیاسی حالات یا کسی بھی ایشو پر صلاح الدین صاحب سے بحث کرتے لیکن دلیل کے ساتھ۔ جب آفس میں غیبت سیشن ہوتا تو میں نے کسی زبان پر ہاشمی صاحب کا نام نہیں سنا۔
رات کو نائٹ شفٹ ڈیسک کو گھر ڈراپ کرانے کے لیے ایک گاڑی تھی، پولیس موبائل جیسی بڑی گاڑی، جس پر ہڈ پڑا تھا اور آمنے سامنے نشستیں۔ روزانہ ہاشمی صاحب کے ساتھ ہی گھر جانے کا اعزاز حاصل ہوتا۔ میں اُس زمانے میں فیڈرل بی ایریا بلاک ون غریب آباد ریلوے کراسنگ کے سامنے لبِ سڑک رہا کرتا تھا۔ ایک دن کا ذکر ہے کہ راستے میں گھر آنے سے قبل میں اپنے بالوں میں کنگھا کرنے لگا تو ہاشمی صاحب نے ہمیشہ کی طرح بڑی سنجیدگی سے کہا کہ آج گھر ہی جارہے ہیں یا کہیں اور؟ میری بے ساختہ ہنسی نکل گئی اور دیگر ساتھی مسکرا دئیے۔ ایسے تھے میرے اطہر ہاشمی۔
پاکستان ٹیلی ویژن میں نیوز پروڈیوسر کی حیثیت سے جون 1985ء میں جاب ملنے کے بعد ان سے ملاقاتوں کا سلسلہ کم ہوگیا، بلکہ نہ ہونے کے برابر رہ گیا، لیکن ان سے ایک قلبی تعلق قائم رہا۔ میں پی ٹی وی کی طویل اور پیچیدہ راہ داریوں میں کہیں کھو کر رہ گیا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ میں اسے سرکاری ملازمت نہیں سمجھ رہا تھا بلکہ ایک پروفیشنل نیوزمین کے طور پر کام کرتا رہا، اور صرف پی ٹی وی ہی میری ترجیح بن گیا تھا۔
یوں برسوں گزرگئے۔ اس دوران زندگی میں بہت سے اتار چڑھاؤ آئے۔ میں نے نومبر 2012ء میں گلستان جوہر میں اپنا اپارٹمنٹ لے لیا۔ شاید یہ 2017ء کے وسط کی بات ہے کہ معلوم ہوا ہاشمی صاحب بھی میرے محلے گلستان جوہر میں مقیم ہیں۔ ان کا بلاک 12اور میرا13 تھا، وہ مجھ سے سینئر جو تھے۔ اسی دوران یہ اطلاع بھی ملی کہ وہ عارضہ قلب میں مبتلا ہوگئے ہیں اور اسپتال میں زیرعلاج رہنے کے بعد چند روز قبل ہی اپنے گھر واپس آئے ہیں۔ میں سوچ رہا تھا کہ وہ بستر پر لیٹے ہوں گے، لیکن جب میں ان کے ڈرائنگ روم میں داخل ہوا تو وہ میری توقع کے برعکس کسی شیر کی طر ح صوفے پر براجمان تھے۔ مجھ سے بغل گیر ہوئے اور بیٹھنے کو کہا۔ میں ان سے برسوں بعد دوبارہ ملا تھا، اس لیے انہوں نے اپنے خاندان اور اپنا مختصر تعارف کرایا اور مجھ سے میرے بارے میں معلوم کیا۔ پھر انہوں نے وہی پرانی شگفتگی کے ساتھ گفتگو کی تو دل میں گدگدی سی ہونے لگی۔ ان کی گفتگو اور تحریر مزاحیہ نہیں، بلکہ شگفتہ ہوتی تھی کہ آپ صرف مسکرائیں۔ واپسی پر وہ مجھے باہر تک چھوڑنے آئے اور مجھ سے کہا’’ کبھی کبھی اسی وقت یعنی صبح گیارہ سے ایک بجے کے درمیان آجایا کرو، میں تو گھر پر ہی ہوتا ہوں، شام میں آفس جاتا ہوں۔ اور میاں! بیل (گھنٹی ) بجانے کی زحمت نہ کیا کرو، میرے دروازے کھلے ہوتے ہیں، بالائی منزل پر پہنچ کر ڈرائنگ روم کے باہر لگی بیل بجاؤ یا مجھے آواز دے دیا کرو‘‘۔ اس کے بعد میں کبھی کبھی دوپہر میں ان سے ملنے جانے لگا۔
شاید فروری 2020کے اوائل کی بات ہے، میں حسب عادت ان کے ڈرائنگ روم میں گھسا تو وہ صوفے کے بجائے ایک خوبصورت تخت پر بڑی شان سے بیٹھے تھے۔ بہت محبت سے ملے اور اسی انداز میں گفتگو کرنے لگے۔ اس دوران انہوں نے کہا کہ تخت کے نیچے ہاتھ ڈالو۔ میں نے ازراہِ مذاق کہا کہ کہیں نیچے سانپ تو نہیں؟ میں نے ہاتھ ڈالا تو ایک بھاری کین پر ہاتھ پڑا، اسے نکالا تو اس میں شہد تھا۔ کہنے لگے کہ میاں شہد کھاتے ہو؟ میں نے کہا کہ پانچ سال قبل منہ کے کینسر کے بعد اب میرا گزارہ یا تو دودھ میں شہد، کھجور اور ڈبل روٹی یا’’ ثُرید‘‘پر ہے۔ فرمایا کہ اسے اپنے ساتھ لے جاؤ۔ میں نے ان سے پوچھنا چاہا کہ یہ کہاں سے آیا؟ تو برسوں قبل اُن کا ایک جملہ یاد آگیا کہ آم کھاؤ، گٹھلیاں مت گنو۔
ہاشمی صاحب 18اگست 1946ء کو پیدا ہوئے۔ ایف سی کالج لاہور اور جامعہ کراچی میں تعلیم مکمل کی۔ انہوں نے ’علاء الدین خلجی کی معاشی پالیسی‘ پر مقالہ لکھ کر ایم فل کی ڈگری حاصل کی تھی۔ ’’خبر لیجے زباں بگڑی‘‘ کے نام سے مستقل کالم لکھتے رہے، جو اپنے اندازِ بیان کے اعتبار سے پُرمغز ہوتا تھا۔ جسارت بلاگ بنا رکھا تھا جہاں ان کا کالم روزانہ اَپ لوڈ ہوتا تھا۔ وہ روزنامہ ’’امت‘‘ کے ڈپٹی ایڈیٹر انچیف بھی رہے، جبکہ روزنامہ ’’جنگ لندن‘‘ سے بھی وابستہ رہے۔ لاہور قیام کے دوران اچھرہ میں رہائش پذیر رہے۔ آپ 44 سال تک صحافت سے وابستہ رہے، اور اردو کے استاد بھی تھے۔ جسارت کے چیف ایڈیٹر اور مختلف اخبارات و میگزین میں لکھتے بھی تھے۔ ’’اردو نیوز‘‘ جدہ کے بانیوں میں سے تھے۔ آپ کے فرزند حماد علی ہاشمی بھی شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔
مجھے علم نہیں تھا کہ میری فروری 2020ء کی وہ ملاقات ہاشمی صاحب سے آخری ملاقات تھی۔ اس کے بعد میں مصروف ہوگیا اور پھر دو ماہ بیمار رہا۔ شفایابی کے بعد بقرعید آئی، خیال آیا کہ ہاشمی صاحب سے ملاقات کی جائے۔ 6 اگست 2020ء کو ان کے گھر جانے کا ارادہ تھا، لیکن اسی صبح واٹس ایپ پر معلوم ہوا کہ وہ توفجرکے وقت ہی عالمِ بالا چلے گئے ہم سب کو اداس کرکے۔ چنانچہ آج ان کے گھر گیا، مگر وہاں اطہر بھائی نہیں، بلکہ ان کا جسدِ خاکی رکھا تھا۔ آخری دیدار کے وقت چند سسکیوں کا خراجِ عقیدت میں نے انہیں پیش کردیا۔
میں چونکہ ذرا جلدی پہنچ گیا تھا، اس لیے اُس وقت چند لوگ جمع تھے۔ رفتہ رفتہ بہت سے لوگ آگئے۔ ان کے گھر کے سامنے ہی مسجد تھی۔ روزنامہ جسارت، دیگر اخبارات اور جرائد کے لوگ، جماعت اسلامی کے قائدین محمد حسین محنتی، حافظ نعیم الرحمٰن اوردیگر۔ خاص طور پر ان کے چھوٹے بھائی اور جامعہ دارالعلوم کراچی کے ناظمِ تعلیمات اور استاذِ حدیث حضرت مولانا راحت علی ہاشمی مدظلہ بھی ان میں شامل تھے۔
انہیں کراچی کے سخی حسن قبرستان لے جایا گیا۔ میں اپنی بیماری کے باعث گھر واپس آگیا۔ غضب کی گرمی پڑ رہی تھی، شام کو شدید بارش ہوئی اور پورا شہر جل تھل بن گیا۔ میں سوچ رہا تھا کہ اب ہاشمی صاحب کی شگفتہ گفتگو اور شگفتہ تحریر کبھی نہیں مل سکے گی۔ وہ بہت بااخلاق، منکسر المزاج، ہمدرد، غم خوار، نیک سیرت اور ایسی خوبیوں کے مالک تھے جو بہت کم لوگوں میں پائی جاتی ہیں۔ لیکن وہ وہاں چلے گئے ہیں جہاں سے کوئی واپس نہیں آتا۔ ان سے اب عالمِ بالا میں ہی ملاقات ہوگی، اِن شاء اللہ۔