مشرقی کھانوں میں ایک خاص تناسب سے ادرک، لہسن ڈالے جاتے ہیں، ان سے جہاں کھانوں میں خوشبو اور مزہ پیدا ہوتا ہے وہیں یہ کھانوں کی اصلاح بھی کرتے ہیں۔ ادرک، لہسن کے طبی فائدے بے شمار ہیں۔ آج کل کی جو جدید بیماریاں ہیں ان کے لیے تو یہ اکسیر کا کام کرتے ہیں۔ ہم پہلے بھی لکھ چکے ہیں کہ ہمارے کھانوں میں جو مسالے استعمال ہوتے ہیں وہ ہماری صحت کے لیے فائدے مند اور غذا کو زود ہضم بناتے ہیں۔
ادرک، لہسن کو پہلے سل بٹے پر پیسا جاتا تھا، اب گرائنڈر میں پیسا جاتا ہے، بلکہ پیس کر رکھ لیا جاتا ہے اور روز کھانا پکاتے وقت شیشی کھول کر ڈال دیا جاتا ہے۔ سل پر پیسے ہوئے تازہ ادرک لہسن میں جو مزا تھا وہ گرائنڈر کے پسے ہوئے میں نہیں ہے۔ آج بھی جو باورچی کھانے پکاتے ہیں وہ تازہ لہسن، ادرک ڈالتے ہیں۔ آج ہم آپ کو ادرک، لہسن کے بارے میں بتائیں گے۔
ادرک
ادرک کو بھی کھانوں میں چرچرا پن اور خوشبو کے لیے مسالے کے طور پر ڈالا جاتا ہے۔ نہاری، پائے، ارد کی دال، گوبھی ، اروی جیسی بادی چیزوں میں اوپر سے چھڑک کر کھانے سے سواد بھی آتا ہے اور بادی بھی دور ہوجاتی ہے۔
مسالے سے ہٹ کر ادرک میں بے مثال شفائی خصوصیات پائی جاتی ہیں، اور یہ تقریباً تمام مشرقی جڑی بوٹیوں کے نسخوں میں شامل کی جاتی ہے۔ ایک ہندی کہاوت ہے کہ ادرک میں تمام طرح کی اعلیٰ خصوصیات پائی جاتی ہیں۔ سنسکرت میں اسے ’’مہایشودھا ‘‘ کہا جاتا ہے جس کے معنی عظیم دوا کے ہیں۔
سو گرام ادرک میں غذائی اجزاء کا تناسب: فاسفورس 60 ملی گرام، کیلشیم 28ملی گرام، نشاستہ 12ملی گرام، کیروٹن 40 مائیکرو گرام۔
بلغمی کھانسی اور دمے میں ادرک کا رس 4 گرام‘ شہد خالص 10گرام میں ملا کر چاٹنے سے فائدہ ہوتا ہے۔ نزلے میں ادرک کا رس 3 گرام‘ کالی مرچ ایک گرام‘ لہسن 6 گرام اور20 گرام شہد ملا کر چٹنی بناکر تھوڑا تھوڑا چاٹتے رہنے سے بہت فائدہ ہوتا ہے۔ ٹھنڈے نزلے میں یہ چٹنی خاص طور پر فائدہ دیتی ہے۔
ادرک خون کی روانی میں اضافہ کرتی اور رکاوٹیں توڑتی ہے۔ بڑی آنت کو صاف رکھتی، بے چین معدے کو قرار بخشتی اور پیٹ کے تناؤ (نفخ) اور کھنچاؤ کو ختم کرتی ہے۔ سردی میں آرام بخشتی اور جمے ہوئے بلغم کو اکھاڑ دیتی ہے۔ ادرک کا داخلی استعمال نظام ہضم کو متحرک کرتا اور خارجی استعمال یعنی جلد پر لیپ سرضخی پیدا کرتا ہے۔
چینی ملاح سمندری سفر میں قے اور اسہال کے مقابلے کے لیے روایتی طور پر ادرک کے ٹکڑے چوسا کرتے تھے۔ تحقیقات سے ثابت ہوا ہے کہ ادرک سفری بیماری میں انتہائی مؤثر ہے۔ چکروں اور دورانِ سفر متلی کے مریضوں میں ادرک کے استعمال سے کسی بھی مستند دوا کے مقابلے میں بہتر نتائج برآمد ہوئے۔
آدھا چمچ تازہ ادرک کا جوس، ایک چمچ لیموں کا عرق، ایک چمچ پودینہ کا جوس اور ایک کھانے کا چمچ شہد ملا کر دینے سے بدہضمی، متلی اور قے کا مؤثر علاج ہوتا ہے۔ ادرک کی ہاضم اور دافع عفونت خوبیاں، گیسوں سے آنتوں میں پڑنے والی خراشوں (گیسٹرو انسٹائن انفیکشن) میں زبردست فائدہ مند ہیں اور یہ کسی خوراک کے زہریلے ردعمل کا بھی علاج ہے۔ چین میں ہونے والے تجربات میں جراثیمی پیچش کے 70فیصد مریض ادرک کے باقاعدہ استعمال سے تندرست ہوگئے۔
ادرک کی ایک اہم خصوصیت یہ ہے کہ اس میں لہسن کے تقریباً تمام خواص پائے جاتے ہیں۔ یہ خون کی نالیوں کو ہی نہیں بلکہ جگر اور آنتوں کے سدوں کے اخراج میں بھی مدد دیتی ہے۔ اس کا تسلسل کے ساتھ استعمال کولیسٹرول کی بڑھتی ہوئی سطح کو اعتدال پر لاتا ہے جس سے بلڈ پریشر نارمل رہتا ہے۔ یہ جلے ہوئے زخموں اور جلدی سوزش کو آرام پہنچاتی ہے۔
دستوں کی پرانی شکایت میں سونٹھ کو بریاں کرکے دیا جاتا ہے۔ اس کو پیس کر دو گرام مقدار میں استعمال کرنے سے پرانی سے پرانی دستوں کی بیماری جاتی رہتی ہے۔ گلا بیٹھ جانے کی شکایت میں ادرک کے ساتھ گڑ ملا کر کھانے سے بیٹھا ہوا گلا کھل جاتا ہے۔ بے رغبتیٔ طعام میں ادرک کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کاٹ کر نمک لگا کر کھانے سے بھوک کھل جاتی ہے۔ ادرک کے رس میں قدرے لیموں کا رس شامل کرکے استعمال کرنے سے ہاضمے کی کمزوری دور ہوتی ہے اور معدہ قوی ہوتا ہے۔ ورم ریحی بارد میں ادرک کا استعمال بہت مفید ہے۔ ادرک میں تھوڑی شکر شامل کرکے کھانے سے معدہ کی زائد رطوبات خارج ہوجاتی ہیں اور معدہ و جگر کو تقویت حاصل ہوتی ہے۔ طبیعت ہشاش بشاش رہتی ہے۔ یہ سینے، کان، ناک اور گلے کے امراض میں خصوصیت سے فائدہ پہنچاتی ہے، ملین شکم ہے اور پیٹ کے کیڑے بھی مارتی ہے۔
دل کے مریضوں کے لیے حکیم محمد سعید کا ایک انمول نسخہ: پودینہ 6 گرام، ادرک 3گرام، پان کا ایک پتاآدھے گلاس پانی میں جوش دے کر پلائیں۔
لہسن
لسن یا لہسن ایک مشہور پودا ہے اور دنیا میں تقریباً ہر جگہ اس کی کاشت کی جاتی ہے۔ بعض علاقوں میں خودرو بھی ہوتا ہے۔ پرانے زمانے سے دوا کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ کھانوں میں مسالے کے طور پر بھی ڈالا جاتا ہے۔ اگر اس کو کچا کھایا جائے تو مزا تیز اور بو ناگوار ہوتی ہے، لیکن دوسری چیزوں سے مل کر یہ بات نہیں رہتی۔ گھی یا تیل میں بھون لینے کے بعد بدبو خوش گوار بو میں بدل جاتی ہے۔ اس کی ایک قسم پیاز جیسی بھی ہوتی ہے۔ اس میں جوے یعنی پھانکیں نہیں ہوتیں۔ یہ پہاڑی لہسن کہلاتا ہے اور عام لہسن سے تیز ہوتا ہے۔ اس کو دوا کے طور پر کھایا جاتا ہے اور لگایا بھی جاتا ہے۔آج کل یورپ اور امریکا میں اس پر بڑی تحقیقات ہورہی ہے اور اس کو بہت سے امراض میں نہایت مفید پایا گیا ہے۔
نبی مہربان محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’لہسن کھائو اور اس سے علاج کرو کیونکہ اس میں بیشتر بیماریوں سے شفا ہے‘‘۔ اللہ تعالیٰ نے اس میں کچھ ایسی خوبیاں رکھی ہیں جن کی وجہ سے یہ بجا طور پر غذا کا ایک اہم جزو بن گیا ہے۔ مثلاً یہ گوشت اور مچھلی جیسی بساند والی چیزوں کی بساند دور کرتا ہے۔ اس کے استعمال سے انسان خراب آب وہوا کے نقصانات سے محفوظ رہتا ہے۔
لہسن غذا کو ہضم کرتا ہے۔ جراثیم کش ہے۔ خون کو صاف اور رقیق کرتا ہے۔ گٹھیا، فالج، لقوہ اور رعشہ کو دور کرتا ہے۔ خون کے بڑھتے ہوئے دبائو اور کولیسٹرول کو کم کرتا ہے۔ حکیم جالینوس لہسن کو بہترین تریاق مانتا تھا۔ لہسن کو پکاکر کھانے سے جسمانی قوت میں اضافہ ہوتا ہے۔ مگر خشکی اور گرمی پیدا کرتا ہے۔ کچا لہسن پکائے ہوئے لہسن سے زیادہ قوی ہوتا ہے۔ ابن رشد نے لہسن کو مردانہ طاقت کے لیے بہترین دوا قرار دیا ہے۔ اس کا خارجی استعمال زخم ڈالتا ہے، مگر کھانے سے ایسا نہیں ہوتا، کیونکہ لہسن کی ترکیب میں جو جوہر گرم اور جوہر خاکی موجود ہیں، پکنے کے بعد جدا ہوتے ہیں۔ کیونکہ یہ دونوں مضبوطی کے ساتھ ملے ہوئے نہیں ہوتے۔
یہ معدے کو قوت دیتا، ریاح (گندی ہوا)کو نکالتا اور دمے میں بلغم کو خارج کرتا ہے۔ فالج ولقوہ، خدر (سن بھری) میں فائدہ پہنچاتا ہے۔ خون کے دبائو کو کم کرتا ہے اور بعض جلدی بیماریوں کو دور کرتا ہے۔ بلغمی امراض اور درد قولنج میں بھی مفید ہے۔ نزلہ، زکام، کھانسی، دمے اور گلے کی شکایتوں میں لہسن تریاق کا کام دیتا ہے۔ معدہ اور آنتوں کی نزلی سوزش میں کھلانے کے علاوہ لگایا بھی جاتا ہے۔ تیل میں جلا کر تیل کی مالش کی جاتی ہے۔ وبائی خناق (گلے میں ہوا کی نالی پر مکڑی کے جالے کی طرح جھلی بن جاتی ہے جس سے سانس کا راستہ بند ہوجا نے سے انسان ہلاک ہوتا ہے)کی حالت میں اس کی پھانک منہ میں رکھ کر چوسنے سے یہ فاسد جھلی گھل جاتی ہے۔ اس کے بعد بخار بھی اتر جاتا ہے۔ چار گھنٹوںکے عرصے میں ایک چھٹانک سے زیادہ لہسن مریض کو چوسنے کے لیے نہ دیا جائے۔ جھلی کے تحلیل ہونے کے بھی ایک ہفتے بعد تک تقریباً ایک چھٹانک لہسن کے جوئے چھیل کر چوسنا چاہئیں۔ عجیب بات یہ ہے کہ خناق کے مریض کو لہسن کی بو اور ذائقہ محسوس نہیں ہوتا۔ لہسن نمونیا میں بھی مفید ہے۔ دو دن کے اندر ہی حرارت، نبض اور سانس اپنی اصلی حالت پر آجاتی ہے۔
اس میں موجود روغن کثیف اور دوسرے اجزاء انتڑیوں سے جذب ہونے کے بعد خون میں شامل ہوجا تے ہیں اور لحمیاتی رطوبت کے ملاپ کو تیز کرتے ہیں۔ یہ پھیپھڑوں پر اثرانداز ہوکر ان کی رطوبتوں کو پتلا کرکے جسم سے خارج کرتا ہے۔ لہسن کا جسم سے نکاس کچھ پھیپھڑوں کے ذریعے اور کچھ پیشاب کے ذریعے ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے لہسن کا زیادہ استعمال پیشاب میں لہسن کی بو پیدا کرتا ہے۔ جو لہسن جذب نہیں ہوتا وہ اجابت کے ذریعے جسم سے خارج ہوتا ہے۔
لہسن کی ایک بڑی خوبی اس میں مانع تکسید (Antioxidants) اجزاء کا ہونا ہے جو اس میں کثیر مقدار میں پائے جاتے ہیں۔ اس لیے سانس اور پھیپھڑوں کے امراض میں بھی فائدہ دیتا ہے۔ اس میں ایڈینوسائن (ایڈینین رائبوز اور تین فاسفیٹ گروپوں پر مشتمل مرکب) بھی موجود ہوتا ہے اور اس کا کام پٹھوں کو سکڑنے سے بچانا ہے۔
اس میں خاص قسم کا تیل ہوتا ہے۔ انسان کے بدن میں پہنچنے کے بعد اس کی نکاسی پھیپھڑوں اور جلد کے ذریعے ہوتی ہے۔ لہٰذا لہسن پھیپھڑوں کی سل، کھانسی، دمے اور کالی کھانسی میں فائدہ دیتا ہے اور اس کی بو ان امراض میں خاص طور پر مفید ہے۔ کالی کھانسی میں لہسن کے فائدے سے عام لوگ واقف ہیں، چنانچہ لہسن کی پوتھیاں چھیل کر دھاگے میں پرو کر بچے کے گلے میں ڈال دیتے ہیں تاکہ اس کی بو ناک کے راستے پھیپھڑوں میں پہنچ کر سکون دے۔ اس کے علاوہ کالی کھانسی میں لہسن کے استعمال کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ لہسن کو چھیل کر بچے کے پائوں کے تلووں کے نیچے رکھ کر اوپر سے جراب اور جوتا پہنا دیتے ہیں۔ پھیپھڑوں کی سل میں لہسن کا سونگھنا اور اس کی ایک دو پوتھی شہد میں ملا کر چٹانا مفید ہے۔ بلڈ پریشر کے مریض روزانہ تین سے چار لہسن کے جوے کھایا کریں۔