پاکستان ریلوے ایمپلائز(پریم) یونین سی بی اے کے مرکزی رہنماؤں نے حکومت کی جانب سے ریلوے ٹرینوں کی نجکاری روکنے کے لیے ملک گیر سطح پر مزاحمتی تحریک چلانے کا اعلان کردیا ہے۔ اس تحریک کو ’’ریل بچائو مہم‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔ اس تحریک کا آغاز راولپنڈی ریلوے اسٹیشن پر7 اگست بروز ہفتہ ایک بڑے احتجاجی جلسے سے ہوگا جس سے جماعت اسلامی پاکستان کے مرکزی نائب امیر لیاقت بلوچ، اور پریم یونین کے مرکزی قائدین خطاب کریں گے اور اپنے اگلے لائحہ عمل کا اعلان کریں گے۔ پریم یونین کے مرکزی چیئرمین ضیاء الدین انصاری مرکزی صدر شیخ محمدانور کے ہمراہ ملک گیر دورہ کریں گے۔ مزید تفصیلات کے لیے فرائیڈے اسپیشل نے ان سے گفتگو کی، جو ذیل میں پیش کی جارہی ہے۔
………٭٭٭……
فرائیڈے اسپیشل: پریم یونین نے ریلوے ملازمین کے مسائل اور محکمے میں پائی جانے والی بدعنوانیوں کے خلاف ملک گیر تحریک چلانے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ فرمائیں کہ یہ فیصلہ اس قدر تاخیر سے کیوں ہوا اور اس کے اب اہداف کیا ہوں گے؟
ضیاء الدین انصاری: پریم یونین ایک عرصے سے حالات کا جائزہ لے رہی تھی، اور متعدد بار تحریک کے لیے سوچا گیا، تاہم کووڈ جیسے حالات اور دیگر مسائل کی وجہ سے تحریک چلانے کا فیصلہ نہیں ہورہا تھا، تاہم اب وقت آگیا ہے کہ ریلوے کو بچایا جائے، کیونکہ پانی سر سے گزر چکا ہے، اگر ہم خاموش رہے تو ریلوے ملازمین کے دو لاکھ گھرانے متاثر ہوں گے۔ پاکستان ریلوے ملک کا دفاعی ادارہ بھی ہے اور ہماری فوج کی ساری ٹرانسپورٹیشن اسی ریلوے کے ذریعے ہوتی ہے، لیکن بدقسمتی سے حکومت اس ادارے کی نجکاری کررہی ہے جس کی ہم مذمت کرتے ہیں۔ ریلوے ملازمین اور ریل کے مزدور اس فیصلے کے خلاف ملک گیر سطح پر منظم ہورہے ہیں۔ ہم ٹرین مارچ کریں گے اور ہڑتال بھی کی جائے گی، لیکن ہم کوئی کام بھی غیر قانونی طریقے سے نہیں کریں گے۔ ہماری حالیہ تحریک کا آخری جلسہ لاہور میں ہوگا۔
فرائیڈے اسپیشل: کہا جاتا ہے کہ ریل کا محکمہ خسارے میں ہے، اس لیے نجاری کی بات کی جارہی ہے؟
ضیاء الدین انصاری: یہاں ایک بنیادی بات سمجھنے کی ہے، دنیا بھر میں حکومتیں عوام کو مواصلات کے لیے زرِتلافی دیتی ہیں، پاکستان میں بھی میٹرو بس دیکھ لیں، اورنج ٹرین دیکھ لیں، ان کے لیے سبسڈی ہے مگر ریلوے کے لیے نہیں۔ ایسا کیوں ہے؟ یہ ایک غلط نظریہ ہے کہ ریلوے تجارتی ادارہ ہے اور منافع پر چلے گا، نقصان میں نہیں جائے گا۔ ریلوے مواصلات کے نظام کا حصہ ہے، لہٰذا سبسڈی بنتی ہے۔ اس محکمے میں کرپشن ختم ہوجائے تو خسارہ بھی ختم ہوجائے گا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ نج کاری کا ادارے کو بہت نقصان ہوگا، جو فرم نجکاری کے عمل کے ذریعے گاڑی لے رہی ہے سب سے پہلی بات یہ کہ یہی فرم نادہندہ تھی، مگر اب نام بدل کر سامنے آئی ہے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ ریلوے اس فرم کو اپنا سارا اسٹاف دے گا، اسے ریلوے لائن بھی دے گا، گاڑی کی صفائی بھی ریلوے ہی کرے گا، یہ فرم صرف ٹکٹ فروخت کرنے اور چیک کرنے کے لیے اپنا عملہ رکھے گی، جب کہ ریلوے کا جو اسٹاف سرپلس ہوگا اسے محکمہ ریلوے ہی تنخواہ دے گا۔ یہ بات قابلِ فہم ہے کہ ریلوے انتظامیہ اور وفاقی وزیر کس قیمت پر ریلوے کی نج کاری چاہتے ہیں۔ ہم ریلوے ملازمین کی بہبود کے لیے، اور ان کی فلاح کے پروگرام کے ساتھ میدانِ عمل میں ہیں، اور ہم بتائیں گے کہ ریل کیسے چلائی جارہی ہے اور اس میں وزراء اور ریلوے بیوروکریسی کی کرپشن کہاں کہاں ہے۔ ہمارے ہمسایہ بھارت میں 74 سال سے ایک سرکاری پالیسی کے تحت روزانہ 14ہزار سے زائد مسافر، اور 8ہزار مال بردار ٹرینیں چلتی ہیں، وہاں ایک مستقل ریلوے بورڈ ہے۔ جب کہ ہمارے ہاں ہر حکومت اپنی مرضی کا ریلوے بورڈ بناتی ہے۔ وفاقی وزیر ریلوے اعظم سواتی ریلوے کو اونے پونے داموں فروخت کرنے میں مصروف ہیں۔ وہ ریلوے افسران سمیت تمام ملازمین کو چور اور کرپٹ قرار دے رہے ہیں۔ ریلوے کی نجکاری سے 70 ہزار سے زائد ملازمین بے روزگار، اور ایک لاکھ 30 ہزار پنشنرز پنشن کے حق سے محروم ہوجائیں گے۔ جبکہ ریلوے جو کہ ایک حساس دفاعی ادارہ ہے جسے ٹھیکے پر چلایا جائے گا، یہ ملک اور قوم کے مفاد میں نہیں ہوگا۔ ہم قومی مفاد کے منافی اس اقدام کی شدید مزاحمت کریں گے۔
فرائیڈے اسپیشل: مزاحمت کی کیا صورت ہوگی؟
ضیاء الدین انصاری: ملکی سطح کی مزاحمتی تحریک چلائیں گے۔ ریل بچاؤ مہم ہوگی۔ اس مہم کے سلسلے میں راولپنڈی ریلوے اسٹیشن پر7اگست کو ایک بڑا جلسہ منعقد کیا جائے گا، جبکہ اس کے بعد ملک بھر میں احتجاجی جلسے، جلوس منعقد کیے جائیں گے۔ اس دوران پریم یونین کی قیادت وزیراعظم عمران خان سے ملاقات کرے گی اور انہیں نجکاری کے نقصانات سے آگاہ کیا جائے گا، جبکہ ملک کی تمام سیاسی قیادت جوکہ پارلیمنٹ میں نمائندگی رکھتی ہے جس میں چودھری پرویزالہٰی، بلاول بھٹو زرداری، شہبازشریف اور دیگر رہنما شامل ہیں، ان سب سے ملاقاتیں کرکے انہیں بھی اس سلسلے میں اعتماد میں لیا جائے گا۔ ریلوے کی نجکاری کا وفاقی کابینہ کا فیصلہ غیر قانونی اور غیر آئینی ہے، ہم حکومت کے اس اقدام کو سپریم کورٹ میں چیلنج بھی کریں گے، کیونکہ کسی بھی قومی ادارے کے بارے میں کوئی فیصلہ کرنے کے سلسلے میں اس ادارے کی سی بی اے کو اعتماد میں لینا ضروری ہوتا ہے، جبکہ حکومت نے ایسا نہیں کیا۔ ہمیں یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ سابق وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے ریلوے کو احسن انداز سے چلایا اور ریلوے کا خسارہ کم کرکے آمدن میں اضافہ کیا، جبکہ شیخ رشید احمد نے بھی ریلوے کی وزارت اچھے انداز سے چلائی ہے، لیکن اب جس وزیر کے ذمے یہ ریلوے ہے انہیں علم ہی نہیں کہ ریلوے کو کیسے چلایا جائے۔