لاک ڈائون لگاکر سندھ حکومت نے اپنے ووٹر کو موت کے گھاٹ اتارنے کی جو کوشش کی ہے اسے معاشی موت کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ ”نزدیک آتی تباہی“ کے نام سے ڈیلٹا وائرس کے حوالے سے جو معلومات دستیاب ہیں انہیں جاننا بھی ضروری، اور اس کے سدباب کی تدابیر کرنا بھی ضروری ہے۔ دس دنوں میں صرف کراچی شہر میں ڈیلٹا وائرس سے متاثر ہونے والوں کی تعداد 8 فیصد سے بڑھ کر 25 فیصد ہوگئی ہے۔ پاکستان میں اب تک 3 فیصد لوگوں نے کورونا وائرس سے بچاؤ کی ویکسین لگوائی ہے، جبکہ محض 6 فیصد لوگوں نے سنگل شاٹ لگوایا ہے۔ ان میں سے اکثر لوگ یہ نہیں جانتے کہ دوسرا شاٹ بھی لگوانا ہے۔
انڈیا ڈیلٹا وائرس کا مرکز ہے جہاں سرکاری اعداد و شمار سے دس گنا زیادہ ہلاکتیں ہورہی ہیں۔ جو تباہی کورونا وائرس نے انڈیا میں پھیلائی ہے وہی تباہی اب انڈونیشیا میں پھیلا رہا ہے۔ پیرو نامی ملک میں کورونا وائرس کی نئی قسم لمبڈا (Lambda) نے قیامت ڈھادی ہے۔
پاکستان میں لاک ڈاؤن اور دیگر وجوہات کی بنا پر مہنگائی حد درجہ بڑھتی جارہی ہے۔ پاکستانی عوام اگر ویکسین لگوانا بھی چاہیں تو اتنی بڑی تعداد میں ویکسین دستیاب نہیں ہے۔ امیر ممالک کے پاس ضرورت سے زائد ویکسین موجود ہے مگر وہ یہ ویکسین غریب ممالک کو کیوں دیں؟ ایسے میں احتیاطی تدابیر رہ جاتی ہیں جنہیں اگر اختیار نہ کیا گیا تو وہ ہوجائے گا جس کا تصور بھی محال ہے۔ اگرچہ اس وائرس کی تباہ کاریاں اپنی جگہ ہیں، لیکن مکمل لاک ڈائون لگانا اور خاص طور پر محرم الحرام کے ایام سے دس روز قبل سندھ بھر کو مکمل بند کرنا، اور محرم کے ایام میں لاک ڈائون کا خاتمہ، سندھ حکومت کی جانب سے فرقہ واریت پھیلانے کے مترادف ہے۔ اس سلسلے میں تاجر اتحاد نواب شاہ کے سینئر وائس چیئرمین اور شہری اتحاد کے چیئرمین الحاج اسلم شیخ نے بتایا کہ 31 جولائی کو نافذ ہونے والے لاک ڈائون کی وجہ سے نواب شاہ کے ایک لاکھ سے زائد تاجر متاثر ہوئے ہیں اور سیکڑوں دکان داروں کا مستقبل مخدوش ہوکر رہ گیا ہے۔ کمر توڑ مہنگائی کی وجہ سے دکان داروں میں اتنی سکت بھی نہیں رہی کہ وہ دکان کا کرایہ بروقت ادا کرسکیں۔ بازار کے کئی دکان دار مسلسل کرایہ ادا نہ کرنے کی وجہ سے دکانیں خالی کرکے جا چکے ہیں۔ دیہاڑی دار طبقہ ذہنی خلفشار کا شکار نظر آتا ہے، ایسے میں یہ لاک ڈائون نہیں بلکہ مار ڈاؤن ہے۔
نواب شاہ پرائیویٹ اسکول ایسوسی ایشن کے صدر عبدالرحمان بھٹی نے لاک ڈاؤن کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ حکومت نے طے کرلیا ہے کہ سندھ کے عوام کو اگر معاشی طور پر کمزور کرنا ہے تو تعلیم سے بھی دور رکھنا ہوگا۔ دو سال سے اسکول مالکان جتنے پریشان ہیں اس کا اندازہ لگانا بھی مشکل ہے۔ نواب شاہ میں کئی نجی اسکول بند ہوچکے ہیں، ایسے درجنوں اسکول ہیں جو کرائے کے بوجھ تلے دب کر رہ گئے ہیں۔ پورا ایک سسٹم ہے جو زمین بوس ہورہا ہے، لیکن حکومت کو صرف ایک کام آتا ہے، اور وہ یہ کہ لاک ڈاؤن لگادو اور اپنی ذمہ داری سے عہدہ برا ہوجاؤ، حالانکہ اس فارمولے سے دنیا کے ترقی یافتہ ممالک بھی پناہ مانگتے نظر آئے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت لاک ڈائون فارمولے سے اجتناب برتے، اور وہ قابلِ قبول فارمولا اپنائے جس سے معاشرہ معاشی طور پر مفلوج نہ ہوسکے۔