اسلام آباد جب تعمیر ہورہا تھا تو خیال تھا کہ یہ شہر سرکاری ملازمین کے گھرانوں پر مشتمل ہوگا، اسی نسبت سے یہ سمجھا گیا کہ یہاں سکون ہوگا اور قانون کی پابندی دنیا کے لیے ایک مثال ہوگی۔ اُس وقت کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ یہاں جرائم بے قابو ہوجائیں گے، اور قانون کی دھجیاں بکھر جائیں گی۔ آج کا اسلام آباد کچھ ایسی ہی تصویر پیش کررہا ہے۔ حالیہ بارشوں کے باعث ایک رہائشی سیکٹر میں تباہی یہاں قانون کی دھجیاں بکھرنے کا ایک پہلو ہے۔ جس رفتار سے یہاں قواعد و ضوابط کی خلاف ورزیاں ہورہی ہیں اس کی نسبت سے یہ نقصان انتظامیہ کی بند آنکھیں کھولنے کی طاقت نہیں رکھتا۔ محض ایک دن کا افسوس ہوگا اور انتظامیہ کی پھر وہی پرانی ڈگر یہاں نظر آئے گی۔
سیلاب کا ذکر بعد میں… پہلے ذرا اسلام آباد میں تیزی سے بڑھتے ہوئے جرائم کی بات ہوجائے۔ اسلام آباد کی کچی آبادیاں جرائم کا گڑھ بنی ہوئی ہیں، یہاں پہلے شراب فروخت ہوتی تھی، اب بات بہت آگے تک بڑھ گئی ہے۔ موٹر سائیکل، موبائل فون اور خواتین سے پرس چھیننا اب معمول ہوگیا ہے۔ یہاں کوئی جرم، جرم نہیں سمجھا جاتا۔ معاملہ اب اس حد تک بڑھ گیا ہے کہ ہر بستی میں جرائم پیشہ نوجوانوں کا اپنا اپنا گینگ بنا ہوا ہے جو شہر میں خوف اور دہشت کی علامت بنے ہوئے ہیں۔ مقامی سیاسی شخصیات محض ووٹ کے لیے ان کے خلاف کارروائی نہیں کرنے دیتیں۔ کچی آبادیاں سرکاری زمین پر بنی ہوئی ہیں۔ ایک مافیا ہے جو سرکاری زمین پر ایک کمرہ اور باتھ روم تعمیر کرکے سات آٹھ لاکھ روپے میں فروخت کرکے خود سی ڈی اے کے اہل کاروں کی ہی دی ہوئی آڑ میں محفوظ راستے سے نکل جاتا ہے اور کچی بستیوں میں نہ جانے کون کہاں سے آکر رہ رہا ہے۔ محتاط اندازے کے مطابق سولہ سترہ لاکھ کی آبادی کے شہر میں کم و بیش پچاس ہزار افراد ایسے ہیں جو شہر کی ان بستیوں میں کسی ریکارڈ کے بغیر رہ رہے ہیں، اور نتیجہ یہ ہے کہ شہر میں جرائم کی رفتار بڑھ رہی ہے۔ اسلام آباد کے ایک اعلیٰ ترین تعلیمی ادارے قائداعظم یونیورسٹی کے آس پاس کی سرکاری اراضی بھی مقامی لوگ اونے پونے بیچ رہے ہیں۔ یہ غیر قانونی دھندہ ایک عرصے سے جاری ہے۔ بہارہ کہو میں سی ڈی اے اور قدرتی نالوں کی گزرگاہوں پر این ایچ اے کی اراضی پر قبضے کرکے پلازے کھڑے کیے گئے ہیں اور نالوں کی گزر گاہیں بند کردی گئی ہیں۔ جس رفتار سے یہاں غیر قانونی کام ہورہے ہیں یہ رفتار جاری رہی تو آئندہ بیس پچیس سال میں یہاں قدرتی نالے نظر نہیں آئیں گے۔ یہ اسلام آباد میں قواعد و ضوابط کی خلاف ورزیوں کی ایک ہلکی سی جھلک ہے۔ اسلام آباد قدرتی طور پر بہنے والے پانی کے نالوں کا شہر ہے، یہ سارے اپنی اپنی آبی گزرگاہوں سے ہوتے ہوئے راولپنڈی میں نالہ لئی اور دریائے سواں میں جا گرتے ہیں۔ اسلام آباد کے نالوں میں تجاوزات، راستے بند ہونے اور تعمیرات کے باعث آئندہ بھی مشکل پیش آئے گی، کیونکہ راول ڈیم کے اسپل ویز کے راستے بھی تجاوزات سے بھرے پڑے ہیں۔ راولپنڈی نالہ لئی، اور راولپنڈی کے نواح میں ہائوسنگ منصوبوں کی تعمیرات کے باعث دریائے سواں بھی تجاوزات کا شکار ہے، اور اب یہاں شدید بارشوں کے باعث سیلاب آجانا ایک معمول بنا رہے گا۔ حالیہ دنوں میں جب بارش ہوئی تو اس کی وجہ سے نجی ہائوسنگ سیکٹر پی ایم سی ایچ ایس سیلاب کی زد میں آیا اور دیکھتے ہی دیکھتے آس پاس کے سیکٹروں سے الگ تھلگ ہوگیا۔ اس کے تین اطراف پانی تھا اور چوتھی طرف شمالی پٹی کی باڑھ۔ پانی نے رہائشیوں کو بچنے کا کوئی راستہ ہی نہیں دیا۔ اس کے قریبی علاقے سیکٹر ڈی بارہ میں جب تک تعمیرات نہیں ہوئی تھیں، بارش کا پانی اس علاقے میں جذب ہوجاتا تھا۔ اب وہاں باقاعدہ رہائشی سیکٹر بن چکا ہے، لہٰذا پانی کے لیے قدرتی گزرگاہ میسر نہ رہی۔ ای الیون میں نجی مافیا نے نالے بند کردیے اور اراضی فروخت کرکے یہاں پلازے کھڑے کردیے۔ ایسی صورتِ حال میں سیلاب کیسے روکا جاسکتا تھا! سیکٹر ای الیون میں یہی کچھ ہوا ہے۔ اسلام آباد اور راولپنڈی کے نشیبی علاقوں کو سیلاب سے بچانے کے لیے تجاوزات ختم کرنا ہوں گی۔ یہ کام اب سی ڈی اے اور راولپنڈی ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے بس میں نہیں رہا۔
اسلام آباد انتظامی طور پر پانچ زون میں تقسیم ہے۔ زون ون میں پارلیمنٹ ہائوس سمیت سرکاری عمارتیں اور رہائشی سیکٹرز تعمیر ہیں، یہ سلسلہ ایک سیدھی پٹی میں جی ٹی روڈ تک پھیلا ہوا ہے۔ زون ٹو، زون تھری، زون فور اور زون فائیو میں باقاعدہ تعمیرات نہیں ہیں۔ زون ون سی ڈی اے کی عمل داری میں ہے، جبکہ دیگر زونز پر اس کی باقاعدہ عمل داری نہیں ہے۔ اسلام آباد جب تعمیر ہورہا تھا اُس وقت کچھ علاقے سی ڈی اے کی عمل داری سے باہر رکھے گئے تھے جنہیں ڈپٹی کمشنر اسلام آباد کنٹرول کرتے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان کی رہائش بھی انہی میں سے ایک زون میں ہے۔ تاہم سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں بنی گالہ کی رہائش گاہ کی تعمیر اب سی ڈی اے نے ریگولر کردی ہے۔ زون ریگولرائزیشن کے مطابق اسلام آباد میں اگر کوئی نجی فرم یا تعمیراتی ادارہ یہاں رہائشی سیکٹرز تعمیر کرے گا تو اُسے سی ڈی اے کے قوانین کی پابندی کرنا ہوگی، اور تعمیر کے بعد پورا منصوبہ سی ڈی اے کے حوالے کرنا ہوگا۔ سیکٹر ای الیون بھی انہی میں سے ایک رہائشی منصوبہ ہے جہاں ان دنوں سیلابی پانی نے بدترین تباہی مچائی۔ یہ رہائشی سیکٹر ایک نجی فرم نے تعمیر کیا، اور سی ڈی اے کے بائی لاز کی بدترین حد تک خلاف ورزی کی گئی۔ قدرتی نالوں کے راستے بند کرکے یہاں تعمیرات کی گئیں، اور یہ اراضی کروڑوں میں فروخت کی گئی۔ چمک کے باعث سی ڈی اے نے اپنی آنکھیں بند رکھیں، جس کے نتیجے میں موسلادھار بارش سے سیلابی کیفیت پیدا ہوگئی۔ 132ملی میٹر بارش کے باعث سڑکیں اور سیکٹر دریا بن گئے۔ ایک ماں اپنے بچے سمیت جاں بحق ہوگئی، گھروں میں پانی داخل ہوا اور درجنوں گاڑیاں سیلابی ریلے میں بہہ گئیں۔ محکمہ موسمیات کی طرف سے شمال کے پہاڑوں اور اسلام آباد سمیت وسطی پنجاب کے میدانی علاقوں میں موسلادھار بارش کی اطلاع دی گئی تھی، ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی نے بھی خبردار کیا تھا، تاہم بادل اس قدر برسے کہ شہریوں کے لیے اپنا سامان بچانا تو کجا، جان بچانا مشکل ہوگیا۔
بارش نے انتظامی اداروں کا بھرم کھول کر رکھ دیا ہے۔ اسلام آباد میں آبادی کا پھیلاؤ کسی مربوط منصوبہ بندی کے بغیر ہورہا ہے۔ اسلام آباد جیسے شہر کا ای الیون سیکٹر جس تباہی سے دوچار ہوا، یہاں بھی بدانتظامی ہوئی تھی۔ سی ڈی اے افسران کی نااہلی اور کرپشن کے باعث برساتی نالوں کی گزرگاہیں بھی بیچ دی گئیں، اسلام آباد انتظامیہ اور سی ڈی اے کی ملی بھگت سے پرائیویٹ ہاؤسنگ سوسائٹیز نے ان پر بڑے بڑے پلازے کھڑے کردیئے، جبکہ نکاسیِ آب کا کوئی بندوبست نہیں۔ مستقبل میں بھی تھوڑی سی بھی بارش ہوگی تو یہ علاقہ ندی نالوں کا منظر پیش کرے گا۔ سی ڈی اے اور ضلعی انتظامیہ اپنی نااہلی چھپانے کے لیے اسے قدرتی آفت قرار دے رہی تھیں۔ ڈپٹی کمشنر نے کہا کہ کلائوڈبرسٹ ہوا، جب کہ حقائق یہ نہیں تھے۔ بادلوں کے سارا پانی برسانے کے عمل کو ’کلائوڈ برسٹ‘ یا ’بادلوں کا پھٹنا‘ کہتے ہیں۔ 2001ء میں اسلام آباد میں 8 سے 10 گھنٹوں میں 650 ملی میٹر بارش ہوئی تھی۔ اسلام آباد کے متاثرہ علاقے میں ڈیڑھ گھنٹے میں 103 ملی میٹر بارش ریکارڈ کی گئی۔ نشیبی علاقے میں پہاڑوں سے پانی آنے اور نکاسی مناسب نہ ہونے سے سیلابی صورت حال پیدا ہوئی۔ اس سیکٹر سے ملحقہ علاقے سید پور میں 123 ملی میٹر بارش ہوئی لیکن نکاسی درست ہونے سے سیلابی صورت حال نہیں ہوئی۔ اب سی ڈی اے نے اعلان کیا ہے کہ جن نجی سوسائٹیز نے نالوں پر تعمیرات کی ہیں اُن کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔ مگر چائنا کٹنگ اور غیر قانونی تعمیرات کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوگی۔ شاید کارروائی اُس وقت ہوگی جب پورا اسلام آباد ڈوب جائے گا۔
کہنے کو تو اسلام آباد ایک بہت منظم شہر ہے، اس کا باقاعدہ ایک ماسٹر پلان موجود ہے۔ یہاں ماسٹر پلان کے برعکس کوئی تعمیر نہیں ہوسکتی، مگر کرپشن کی گنگا بہہ رہی ہے، اسی لیے ماسٹر پلان سے ہٹ کر ہاؤسنگ کالونیاں بنانے کی اجازت دی گئی، اور آباد کے نام پر لوگوں کو برباد کیا جارہا ہے۔ برساتی راستوں پر قبضے کرکے اربوں روپے لوگوں سے بٹورنے والے مافیا میں کون کون لوگ شامل ہیں، حکومت ان سب سے واقف ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت کے بعد یہ مافیا اسلام آباد آیا ہے، اس لیے ضروری ہوگیا ہے کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اسلام آباد کی صورتِ حال کا ازخود نوٹس لیں۔ آج ای الیون سیکٹر ڈوبا ہے، کل کوئی دوسرا علاقہ ڈوب سکتا ہے۔ جب تک سپریم کورٹ ماسٹر پلان کے مطابق اسلام آباد سے ناجائز تعمیرات ختم کرنے کا حکم نہیں دیتی اور برساتی نالوں کی گزرگاہوں کو دوبارہ اصل حالت میں بحال کرنے کا فیصلہ نہیں کرتی، اُس وقت تک اسلام آباد پر سیلابی ریلوں کی تلوار لٹکتی رہے گی، اور لوگوں کی اربوں روپے کی جائدادیں تباہ ہونے کے خطرات منڈلاتے رہیں گے۔ پورا شہر غیر منظم انداز میں پھیل رہا ہے، حالانکہ یہ شہر ایک ماسٹر پلان کے تحت بسایا گیا تھا، مگر سیاسی دباؤ پر ماسٹر پلان کی خلاف ورزی ہوتی رہی۔ سب سے کرپٹ محکمہ خود سی ڈی اے ثابت ہوا، جس نے غیر قانونی ہاؤسنگ کالونیوں کی اجازت دی، بر لبِ سڑک پلازے تعمیر کروائے، سرکاری زمینوں کو بیچا، حتیٰ کہ بارش کے پانی سے پیدا ہونے والی سیلابی صورتِ حال سے نمٹنے کے لیے جو برساتی نالے ماسٹر پلان میں رکھے گئے تھے، انہیں بھی بیچ کھایا۔
آج اسلام آباد کے بعض سیکٹر گندگی، بڑھتی ہوئی آبادی اور پھیلتے ہوئے جرائم کی وجہ سے اس شہر کے لیے دردِ سر بن گئے ہیں۔ بعض علاقوں میں جرائم کی شرح ناقابل ِ بیان ہے اور اسٹریٹ کرائمز معمول بن گئے ہیں۔گزشتہ چند ہفتوں سے اسلام آباد کا ذکر ایسے سنگین جرائم کے حوالے سے ہو رہا ہے، جن کا عام حالات میں تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ عثمان مرزا اور نور مقدم کیسز اس کی سب سے بڑی مثال ہیں۔ابھی تو بارش نے صرف ایک سیکٹر کے حالات کا بھانڈا پھوڑا ہے،نہ جانے باقی سیکٹروں کا کیا حال ہے،اس پر تو ابھی پردہ ہی پڑا ہوا ہے۔یہ پردہ سپریم کورٹ ہی ہٹا سکتی ہے تاکہ یہ حقیقت سامنے آئے کہ اس خوبصورت شہر کے ساتھ ہوا کیا ہے اور ہو کیا رہا ہے۔ اگر پورے اسلام آباد میں برساتی نالوں کی صفائی نہ کی گئی، اُن پر تعمیر ہونے والی عمارتیں نہ گرائی گئیں اور پانی گزرنے کے راستے مسدود رہے تو سیلابی ریلے پھر طوفان مچا سکتے ہیں۔ سی ڈی اے اور نجی ہائوسنگ سوسائٹی اسے قدرتی آفت قرار دے کر اپنی ذمہ داریوں سے جان چھڑانا چاہتی ہے جو ممکن نہیں۔ای 11 اور خاص طور پر ای 11/2 کافی نشیبی سا علاقہ ہے، مطلب یہ کہ ایک چھوٹی سے وادی کا ہے۔ اب جب بارش ہوتی ہے تو تین طرف کا پانی یہاں جمع ہوتا ہے اور ڈی 12 یا ای 12 کی طرف بہتا ہے اور وہاں سے کسی بڑے ندی نالے میں شامل ہوکر باہر نکل جاتا ہے۔پہلے یہ پانی ای 11/3 کی طرف نکلتا ہے اور وہاں سے چکر لگا کر مڑتا ہوا نالے میں جاتا ہے۔ چونکہ اس علاقے کو کسی خاص پلان کے تحت نہیں بنایا گیا اور بہت سارے افراد نے تھوڑی تھوڑی زمین خرید کر پھر اس کو بیچا۔ اونچے پلازے اور اچھی تعمیرات کرلیں تو اس علاقے کی زمینی ترقی میں کسی سروے اور پلاننگ کا خیال نہیں کیا گیا۔ پانی کی گزرگاہیں بہت ہی چھوٹی یا کم کردی گئیں، کیونکہ کاروباری افرادکو تو انچ انچ بیچ کر کمانا ہوتا ہے، اور گزرگاہ کا راستہ چھوڑنا اپنا منافع کم کرنے کے مترادف بن جاتا ہے۔ان گزرگاہوں کی صفائی بھی ایک سوالیہ نشان ہے، اور یہ معلوم نہ ہوسکا کہ کون اس صفائی کا بنیادی ذمہ دار ہے، کیونکہ یہ علاقہ اس طرح کبھی سی ڈی اے کی عمل داری میں آیا نہیں، اور ڈویلپر حضرات اپنا کام ختم کر کے منافع بٹور کے جا چکے تھے، تو آبی گزرگاہوں کی صفائی بند ہو گئی۔ اب جب اِس دفعہ معمول سے کچھ ہی زیادہ بارش ہوئی تو پانی کو نکاسی کا راستہ نہیں ملا۔