اللہ تعالیٰ کے حضور حج کا فریضہ ادا کرنے کے بعد حجاج کرام کا قافلہ منزل بمنزل فاصلہ طے کیے جارہا تھا۔
راستے میں بے آب و گیاہ صحرا ان کے لیے بڑا تکلیف دہ سفر تھا۔ جب وہ قافلہ تھل کے درمیان پہنچا تو پانی نام کی کوئی شے ان کے پاس نہ بچی۔ دوپہر کی گرمی، تپتا صحرا اور دور دور تک سائے کا نام و نشان بھی نہ تھا۔ قافلے والے آرام کرنے کے لیے کوئی مناسب جگہ تلاش کررہے تھے۔
حضرت موسیٰؑ گئے آگ لینے، اللہ تعالیٰ نے انہیں پیغمبری عطا کردی۔ قافلے والے سایہ ڈھونڈ رہے تھے لیکن وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ خدا کا ایک برگزیدہ بندہ تانبے کی طرح تپتی ریت پر نماز کی نیت باندھے اس طرح کھڑا ہے جیسے کوئی صحنِ گلشن میں پہنچ کر مست و بے خود ہوجاتا ہے۔ انہیں اپنے گرد و نواح کی کوئی خبر نہ تھی۔ وہ نماز میں اپنے پروردگار سے محو ِ راز و نیاز تھے۔ حاجیوں کی جماعت یہ عجیب و غریب اور تھرتھرا دینے والا منظر دیکھ کر اپنی تکلیف بھول گئی۔ پھر وہ اس زاہد کے نماز سے فارغ ہونے کا انتظار کرنے لگے۔ بہت دیر کے بعد جب وہ مردِ خدا بحرِ معرفت کی گہرائی سے ابھر کر آیا تو حاجیوں نے دیکھا کہ اس کے چہرے اور بازوئوں سے پانی کے قطرے ٹپک رہے ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اس نے ابھی ابھی تازہ پانی سے وضو کیا ہے۔ قافلے والوں کو پانی کی طلب ستا رہی تھی۔ وہ نورانی، وجدانی اور ایمانی منظر بھول گئے جو چند لمحے پہلے انہوں نے دیکھا تھا۔ ان سے پوچھنے لگے: حضرت آپ نے یہ پانی کہاں سے لیا؟ درویش نے آسمان کی طرف نگاہ اٹھا کر انگلی سے اوپر کی طرف اشارہ کیا۔ جلالت ِ خداوندی کے حضور عبادت میں مگن اور محویت کے سمندر میں غوطہ زن ہوئے اور خوفِ خدا سے ان کے بدن اور چہرے سے وہ شبنم کے موتی ٹپک رہے تھے۔
قافلے والوں نے پھر عرض کیا:یہ پانی آپ کو کب ملتا ہے؟ اے سلطانِ دین! ہمیں اس معاملے سے باخبر کر،تا کہ تیرے حال سے ہمارا یقین اور توکل بڑھے۔ ہم جو ظاہری اسباب پر فریفتہ ہیں اور دیوانہ وار ان کی پرستش کرتے ہیں، اس بت پرستی سے نجات پائیں۔ مردِ فقیر نے آسمان کی طرف نگاہ اٹھائی اور عرض کرنے لگا: اے میرے مالک! ان مسافروں کی سن، ان کی طلب پوری فرما، ان کے سینے کھول دے اور اپنا حق ان پر واضح فرما۔ تُو نے اپنے رحم و کرم سے مجھ پر اپنے فضل کا دروازہ کھولا ہے، ان پر بھی کھول دے… اللہ کے حضور وہ درویش دست ِ دعا بلند کیے دعا مانگ رہا تھا کہ یکایک ایک جانب سے کالی گھٹا اٹھی اور دیکھتے ہی دیکھتے مینہ برسنے لگا۔ اس زور کی بارش ہوئی کہ ہر طرف جل تھل ہوگیا۔ قافلے والوں کے دل خوش ہوگئے۔ انہوں نے بارانِ رحمت سے اپنے اپنے مشکیزے بھر لیے۔ بے آب و گیاہ اور تپتے صحرا میں رحمت ِخداوندی کا یہ روح پرور منظر دیکھ کر اللہ تعالیٰ کی ذاتِ مقدسہ پر ان کا ایمان پختہ ہوگیا۔ ان میں جو ظاہری اسباب پر یقین رکھنے والے تھے، اُن کے ایمان مضبوط ہوگئے، اور جن کے دلوں میں اللہ والوں کے خلاف بعض تھا انہیں اولیا اللہ کی قوت پر کامل یقین ہوگیا۔
افلاک سے آتا ہے نالوں کا جواب آخر
کرتے ہیں خطاب آخر اٹھتے ہیں حجاب آخر
احوالِ محبت میں کچھ فرق نہیں ایسا
سوز و تب و تاب اول سوز و تب و تاب آخر
درسِ حیات: خدا پر توکل کرو، وہ قادرِ مطلق ہے۔
(مولانا جلال الدین رومیؒ۔” حکایات ِرومی“)