جدت
دیکھے تُو زمانے کو اگر اپنی نظر سے
افلاک منور ہوں ترے نورِ سحر سے!
خورشید کرے کسبِ ضیا تیرے شرر سے!
ظاہر تری تقدیر ہو سیمائے قمر سے!
دریا متلاطم ہوں تری موجِ گہر سے!
شرمندہ ہو فطرت ترے اعجازِ ہنر سے!
اغیار کے افکار و تخیل کی گدائی!
کیا تجھ کو نہیں اپنی خودی تک بھی رسائی؟
سیما: پیشانی
1۔ اگر تُو زمانے کو اپنی نظر سے دیکھے تو تیری صبح کی روشنی سے آسمان ہوجائیں۔
مراد یہ ہے کہ اگر عشقِ حق میں ڈوب کر خودی کو درجۂ کمال پر پہنچا لے تو تجھ میں ایسی بصیرت پیدا ہوجائے کہ جب تُو کائنات پر نظر ڈالے تو زمین سے آسمان تک ساری فضا تیرے روشن افکار کے نور سے منور ہوجائے۔
2۔ جب تجھ میں ایسی نظر پیدا ہوجائے گی تو سورج تیری چنگاری سے روشنی حاصل کرے گا اور چاند کی پیشانی سے تیری تقدیر ظاہر ہوگی۔
3۔ تیرے موتی میں آب و تاب کی جو لہریں ہیں، ان سے دریاؤں اور سمندروں میں طوفان پیدا ہوجائیں۔ تیری ہنرمندی میں معجزے کی وہ شان نمایاں ہوجائے، جسے دیکھ کر فطرت بھی شرمسار ہونے لگے۔
یہ سب کچھ اسی حالت میں حاصل ہوسکتا ہے کہ ہنرمند زمانے کو دوسروں کی نظر سے نہیں اپنی نظر سے دیکھنے لگے۔
4۔ اگر تُو غیروں کے افکار اور خیالات کا شکاری بن جائے تو یہ کس قدر افسوس کی بات ہے! کیا تیری پہنچ اپنی خودی تک بھی نہیں؟
لوگ حالات اور ترقی سے خوشی حاصل کرنا چاہتے ہیں، حالانکہ خوشی کا تعلق حالات سے نہیں۔ خوشی ایک حالت کا نام ہے۔ اپنی حالت، اپنا احساس، اپنا اندازِ فکر۔ احساس کی اصلاح ہوجائے تو غم اور خوشی کی بحث ختم ہوجاتی ہے۔ دلبر، دل کے پاس نظروں کے سامنے ہو تو تختۂ دار جنت سے کم نہیں۔ دلبر دور ہو تو جنت بھی جہنم۔ دلبر کی یاد سرمایہ ہے اور اس کے کوچہ کی گدائی بھی تاجِ شاہی سے کم نہیں۔ تو حاصل یہ ہوا کہ غم اور خوشی اپنے اندازِ فکر کے نام ہیں۔ نیکی کے راستے میں محرومی بھی خوشی کا باعث ہے اور گناہ کا حاصل ہوجانا بھی غم کا باعث ہے۔ دن کو لٹنے والا اگر رات کو آرام سے سو جائے تو راہزن کے لیے دعا کے سوا کیا ہوسکتا ہے۔ اگر زندگی کسی اور کی خوشنودی کا باعث ہوجائے تو غم نہیں ہوگا۔ اگر خودغرضی مقصدِ حیات ہو، تو کبھی خوشی نصیب نہ ہوگی۔ خوشی اور غم موسموں کی طرح آتے جاتے رہتے ہیں۔
غم خوشی بن کر زندگی میں داخل ہوتا ہے اور خوشی غم بن کر زندگی سے نکل جاتی ہے اور پھر محروم زندگی آشنائے لذت و کیف کرا دی جاتی ہے۔ اسی طرح جیسے خزاں زدہ باغ ایک دن سرسبز وشاداب کردیا جاتا ہے۔ بہار دو خزاؤں کے درمیانی وقفے کا نام ہے، اور خزاں دو بہاروں کے درمیانی زمانے کا۔ ایک دفعہ ایک انسان اپنے کسی عزیز کی موت پر رو رہا تھا۔ لوگوں نے کہا ’’روتے کیوں ہو۔ اب آنسوؤں کا فائدہ؟‘‘ اس نے جواب دیا ’’روتا اسی بات پر ہوں کہ اب رونے کا فائدہ ہی نہیں‘‘۔ جو شے رونے سے واپس نہیں ہوسکتی اس پر رونا کیا، اور رونا ہوتا ہی اس شے پر ہے جو رونے سے بھی واپس نہ آئے۔
خوشی کا تعاقب کرنے والا خوشی نہیں پا سکتا۔ یہ عطا ہے مالک کی، جو اس کی یاد اور اس کی مقرر کی ہوئی تقدیر پر راضی رہنے سے ملتی ہے۔ کپل دستو کا راجا خوشی حاصل نہ کرسکا۔ لیکن ’’گیا‘‘ کا گیانی خوشی سے سرشار ہوکر لوگوں کو خوشی کی منزل دکھاتا رہا۔ اسلام نے استقامت کو ذریعہ مسرت کہا ہے اور بجا کہا ہے۔ مستقل مزاج انسان غم اور خوشی کے حجابات سے نکلتا ہوا حقیقت کے نور تک پہنچ جاتا ہے اور یہی وہ مقام ہے جہاں نہ غم ہے نہ خوشی۔ بس ایک سرشاری ہے، ایک ایسی حالت کہ جہاں نہ دولت کی خواہش ہوتی ہے، نہ وجود کی تسکین کی آرزو۔
(واصف علی واصف)
چمن میں تلخ نوائی مری گوارا کر
کہ زہر بھی کبھی کرتا ہے کارِ تریاقی
علامہ بسا اوقات غفلت اور بے عملی میں ڈوبی ہوئی اپنی قوم کو جگانے کے لیے غصے اور جلال کا مظاہرہ بھی کرتے ہیںتو اگلے لمحے یہ بتا دیتے ہیں کہ میرے کلام کی تلخی دراصل اس کڑوی دوا کی طرح ہوتی ہے جس کے نتیجے میں مریض کو شفا نصیب ہوتی ہے، اور اسی طرح بعض اوقات کسی مہلک زہر کا مقابلہ بھی ایسے اجزا پر مشتمل دوا سے کیا جاتا ہے جو زہر کو کاٹ کر بے اثر کر دیتی ہے اور اسے تریاق کہا جاتا ہے۔