بھارت کو غیر قانونی طور پر اپنے زیر تسلط کشمیر کی اقوام متحدہ سے تسلیم شدہ متنازع حیثیت کو تبدیل کرنے کا ناجائز اقدام کیے دو برس مکمل ہوگئے۔ 5 اگست 2019ء کو بھارت میں نریندر مودی کی انتہا پسند حکومت نے آئین کی دفعات 370 اور 35-A میں ترامیم کرکے مقبوضہ کشمیر کی جداگانہ ریاست کی منفرد حیثیت ختم کرکے اسے بھارت کا باقاعدہ حصہ قرار دے دیا۔ اس طرح مقبوضہ کشمیر کے خطے کو بھارتی آئین کے تحت جو یہ تحفظ حاصل تھا کہ کوئی غیر کشمیری باشندہ کشمیر میں جائداد خریدنے کا حق نہیں رکھتا تھا، یہ تحفظ ختم کردیا گیا، اور بھارتی حکومت کو مقبوضہ کشمیر میں بھی بھارت کے دوسرے حصوں کی طرح سیاہ و سفید کے اختیارات حاصل ہوگئے۔ مودی حکومت نے محض قانونی حقوق حاصل کرنے پر ہی اکتفا نہیں کیا، بلکہ مقبوضہ خطے میں مسلمانوں کی واضح اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنے کے لیے عملی اقدامات کا آغاز بھی کردیا گیا، حالانکہ یہ اقوام متحدہ اور دیگر عالمی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ بھارتی حکومت ڈومیسائل قوانین میں تبدیلی کرکے چار لاکھ ہندوئوں کو کشمیر کا ڈومیسائل جاری کرچکی ہے۔ یوں لاکھوں سابق فوجیوں اور آر ایس ایس کے دہشت گردوں کی آبادیاں قائم کرنے کے منصوبے پر عملاً پیش رفت شروع کردی گئی ہے۔ دوسری جانب فسطائی ہتھکنڈوں پر عمل کرتے ہوئے پوری مقبوضہ وادی کو بھارتی فوج کے حوالے کرکے اسے دنیا کی سب سے بڑی جیل میں تبدیل کردیا گیا ہے۔ دو برس سے کشمیر کے بے گناہ شہری کرفیو کی پابندیوں اور سخت لاک ڈائون کی کیفیت میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ شہریوں کے تمام بنیادی حقوق سلب کیے جا چکے ہیں، کشمیری نوجوانوں کو ہر روز گولیوں سے چھلنی کیا جاتا ہے، جرمِ بے گناہی میں پکڑ کر عقوبت خانوں میں ڈال دیا جاتا ہے جہاں انہیں اذیت پہنچانے کے لیے تیسرے درجے کے گھٹیا حربے آزمائے جاتے ہیں۔ مجاہدین کی پناہ گاہ قرار دے کر کشمیری شہریوں کے گھروں کو نذرِ آتش کرنا اور ملبے کے ڈھیر میں تبدیل کردینا روزمرہ کا معمول بن چکا ہے۔ عفت مآب کشمیری مائوں، بہنوں اور بیٹیوں کی عزتیں پامال کی جاتی ہیں۔ بیماروں، زخمیوں اور معذوروں کی ہسپتالوں تک رسائی ناممکن بنادی گئی ہے۔ بزرگ، ضعیف اور بیمار مگر جواں عزم قائدِ حریت سید علی گیلانی، اور بیماری کے ہاتھوں لاچار یٰسین ملک سمیت تحریکِ آزادیِ کشمیر کے تمام رہنمائوں کو پسِ دیوارِ زنداں دھکیل دیا گیا ہے۔ تاہم جذبۂ حریت سے سرشار کشمیری عوام یقیناً ہدیۂ تبریک اور خراجِ تحسین کے مستحق ہیں کہ بھارتی حکومت اور فوج کے تمام تر جابرانہ اقدامات اور گھٹیا ہتھکنڈوں کے باوجود ان مجاہد صفت لوگوں نے جذبۂ آزادی کو سرد ہونے دیا ہے اور نہ ہی بھارتی تسلط کو قبول کرنے پر آمادہ ہوئے ہیں۔ پے درپے جانی و مالی اور عزت و آبرو کی قربانیوں کے باوجود ان کے پائے استقامت میں آج تک لغزش نہیں آئی، وہ تحریکِ آزادی سے والہانہ وابستگی کے ساتھ اپنے جواں ہمت قائد سید علی گیلانی کی گرج دار آواز میں آواز ملا کرآج بھی ’’ہم پاکستانی ہیں، پاکستان ہمارا ہے‘‘ کے فلک شگاف نعرے بھارتی فوج کی سنگینوں کے روبرو لگاتے سنائی دیتے ہیں۔
کشمیری عوام کی جدوجہد اور عزم و ہمت کو جس قدر بھی خراجِ تحسین پیش کیا جائے کم ہے، کہ ان کی جدوجہد کی تاریخ بھی بہت طویل ہے۔ اس کا آغاز اُس وقت ہی ہوگیا تھا جب برطانوی حکمرانوں نے 1846ء میں کشمیر کی جنت نظیر وادی کو چند لاکھ روپوں کے عوض لداخ کے راجا گلاب سنگھ کے ہاتھ فروخت کرکے ان کے مقدر کا سودا کیا۔ مگر کشمیری عوام نے اس اقدام کو اوّل روز ہی سے تسلیم نہیں کیا اور جدوجہدِ آزادی کا آغاز کردیا۔ اس جدوجہد میں 1930ء اور 1947ء اور اس کے بعد بھی مختلف مراحل آتے رہے ہیں۔ کشمیری عوام نے ان تمام مواقع پر ہمیشہ بے مثال استقامت اور جرأت کا مظاہرہ کیا ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ پاکستان جس کے بانی محمد علی جناح نے کشمیر کو اپنی ’’شہہ رگ‘‘ قرار دیا تھا، اس کے حکمرانوں کا آزادیِ کشمیر کے سلسلے میں کردار کیا رہا ہے؟ اس کا اندازہ پانچ اگست کے بھارتی اقدام کے بعد وزیراعظم عمران خان کے طرزِعمل ہی سے لگایا جا سکتا ہے، جنہوں نے اقوام متحدہ میں ایک نہایت زوردار تقریر میں دنیا کو بھارتی طرزِعمل کے سبب ایٹمی جنگ کے خطرے کا انتباہ کیا، مگر پھر سب کچھ فراموش کرکے اب معاملہ ہر سال پانچ اگست کو بھارت کے خلاف ’’یوم استحصال‘‘ منانے تک محدود ہوکر رہ گیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ قبل ازیں منائے جانے والے یومِ شہداء، یومِ الحاقِ کشمیر، یومِ یکجہتی کشمیر وغیرہ کے بعد کشمیر کے حوالے سے ایک اور دن ’’یومِ استحصال‘‘ کے اضافے سے کیا مسئلہ کشمیر حل ہوجائے گا؟ کیا کشمیری عوام کو آزادی مل جائے گی؟ جواب ہے: نہیں، ہرگز نہیں۔ مسئلہ کشمیر کا صرف ایک ہی حل ہے جس کی کم و بیش ساٹھ برس قبل مفکرِ اسلام، مفسرِ قرآن سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے نشاندہی کردی تھی… آج بھی مسئلے کا صرف اور صرف یہی حل ہے: جہاد اور صرف جہاد۔
(حامد ریاض ڈوگر)