کامل مومن

’’حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاصؓ نے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم میں سے کوئی شخص اُس وقت تک مومن نہیں ہوگا جب تک اُس کی خواہش میرے لائے ہوئے طریقے کے تابع نہ ہوجائے‘‘۔
تشریح: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی جامع احادیث میں سے یہ حدیث بھی ہے، اس میں دین کی ایک ایسی اصولی بات کی گئی ہے جو دین کے چھوٹے بڑے تمام معاملات پر چسپاں ہوتی ہے۔ اس حدیث کو سورۂ احزاب 33 میں آمدہ آیت 36 سے ملاکر مطالعہ کیا جائے۔ ارشاد ہے:
(ترجمہ)’’کسی مومن مرد اور مومنہ عورت کو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ان کے کسی معاملے کا فیصلہ کرنے کے بعد انہیں (قبول کرنے یا نہ کرنے کا) اختیار نہیں ہے‘‘۔ (احزاب: 33: 36)
مطلب یہ کہ خدا کو معبود ماننے، رسول کو اپنا ہادی اور رہنما ماننے کے بعد مومن کا طریقہ، ڈھنگ اور سوچ کا انداز یہ ہو کہ اُس کے عقائد، عبادات، معاملات، معاشرت، اخلاق و آداب اور انفرادی و اجتماعی زندگی کے لیے جو احکام اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے دیئے گئے ہیں، وہی صحیح اور ضروری ہیں، پھر زندگی گزارنے میں جو بھی معاملات سامنے آئیں تو ان کا فیصلہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی ہدایت میں سے ہی حاصل کرے، یعنی صبح سے شام تک اور شام سے صبح تک، پیدائش سے موت تک، گھر سے بازار تک، اور مسجد سے کچہری تک کوئی بھی معاملہ ہو، اس کے صحیح یا غلط، حق یا ناحق، حلال یا حرام اور جائز یا ناجائز ہونے کا فیصلہ کتاب اللہ اور سنتِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حاصل کرے، اور اپنی خواہشات، برادری کے رسوم و رواج، اور وڈیروں، پیروں اور سرداروں کے احکام کو چھوڑ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی ہدایت کی طرف رجوع کرے، ان کی ہدایت کو اوپر رکھے اور دوسروں کی باتوں کو نیچے رکھے۔ یہ ہے ایمان باللہ اور ایمان بالرسول کا تقاضا جو ہر مومن کو اختیار کرنا چاہیے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’نہیں! (اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم) تمہارے رب کی قسم! یہ اُس وقت تک مومن ہو نہیں سکتے جب تک اپنے جھگڑوں میں آپؐ کو فیصلہ کرنے والا نہ سمجھیں، پھر آپؐ جو فیصلہ کریں اس کے لیے اپنے دلوں میں کوئی تنگی محسوس نہ کریں اور پوری طرح قبول کرلیں‘‘۔ (النسا: 4: 65)
یہ ہے مسلمان کے لیے قرآن کا حکم کہ وہ اپنے تمام معاملات میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو فیصلہ کرنے والا مان کر، ان کے فیصلے کے سامنے سرِ تسلیم خم کرے۔ اس بات کو ایک حدیث میں اس طرح بیان کیا گیا ہے:
’’حضرت عبادہ بن صامتؓ کہتے ہیںکہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بات پر بیعت کی کہ آپؐ کا فرمان سنیں گے، چاہے تنگی ہو یا فراخی، اور ہمارا دل چاہے یا نہ چاہے‘‘۔
چونکہ دینِ اسلام ایک مکمل دین ہے اور زندگی کے تمام معاملات میں رہنمائی کرتا ہے، ہدایات دیتا ہے اور واضح احکام دیتا ہے، تو پھر ہم مسلمانوں کا یہ رویہ کیوں ہے کہ شادی، برات، ختنے و عقیقے (چھٹی)، موت، فوت اور دوسرے معاشرتی معاملات کا ٹکرائو ہو تو وہاں پر شریعت کو پسِ پشت ڈال کر برادری کی رسموں کو اختیار کرتے ہیں۔ یہ بات کوئی ڈھکی چھپی نہیں ہے بلکہ ایک عملی حقیقت ہے، اس کی ایک مثال کسی خاندان میں اُن کے کسی بزرگ اور بڑی عمر کے آدمی کے انتقال کرنے پر میراث کی تقسیم کے وقت دیکھی جاسکتی ہے۔ اس موقع پر اگر کوئی دین دار شخص کہے کہ برادر! میراث اس طریقے سے اور اُن حصوں میں تقسیم کریں جو قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے مقرر کیے ہوئے ہیں، یعنی مردوں اور عورتوں کو حصے دو اور کسی وارث کو محروم نہ کرو، تو کیا جواب ملے گا؟ جناب! ہماری برادری میں عورتوں کو میراث میں سے حصہ دینے کا رواج نہیں ہے۔ یہ شریعت کو پسِ پشت ڈالنے اور برادری کے رواج کو فوقیت دینے کی واضح مثال ہے۔ اسی طرح زندگی کے دوسرے معاملات ہیں جن میں مسلمان کہیں انگریزوں کے قانون اور طریقے کی پیروی کرتے ہیں، کہیں ہندوئوں، بدھوں اور سکھوں کے طور طریقوں کو شریعت کے مقابلے میں اختیار کیے بیٹھے ہیں، کہیں اپنی خواہشات کے پیچھے چل رہے ہیں، تو کہیں باپ دادا کے جاہلی طریقوں کو اپنائے ہوئے ہیں۔ یہ تمام باتیں کامل مومن بننے کی راہ میں رکاوٹیں ہیں، ان تمام رکاوٹوں کو توڑ کر اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت کی پیروی کی جائے گی تب ہی مسلمان کامل مومن ہوگا اور دنیا و آخرت کی کامیابی حاصل کرے گا۔