کالم نگار تو نہ پہنچا، اس کے کالموں کی کرنیں تاریک براعظم تک پہنچ گئیں۔ سو، براعظم افریقا کے انتہائی جنوب میں واقع خطے ’جنوبی افریقا‘ سے محترمہ ڈاکٹر آمنہ ڈار نے اس عاجز کے پچھلے کالم کے ایک املا پر گرفت فرمائی ہے۔ گزشتہ کالم میں ایک فقرہ یوں شائع ہوا تھا:
’’ناجائز کمائی سے پانچوں اُنگلیاں گھی میں ہوں اور سر کڑھائی میں…‘‘
ڈاکٹر صاحبہ یہ فقرہ پڑھ کرحیران ہوئیں کہ ’’پانچوں اُنگلیاں گھی میں اور سر کڑھائی میں؟؟؟ یہ کڑھائی کہاں سے آگئی؟ کڑھائی تو کپڑے پہ کی جاتی ہے۔ محاورہ یہ ہے: پانچوں اُنگلیاں گھی میں اور سر کڑاہی میں‘‘۔
سب سے پہلے ہم ڈاکٹرآمنہ ڈار کا شکریہ ادا کرتے ہیں کہ وہ انتہائی باریک بینی اور ’دُوربینی‘ سے اِن کالموں کا مطالعہ فرماتی ہیں۔ قومی زبان سے اُن کی محبت قابلِ ستائش ہے کہ انھیں دیارِ غیر میں بھی اس کی صحت کا خیال رہتا ہے۔وہ تاریک براعظم میں بیٹھ کر بھی اُردو محاوروں کے حلق میں اپنی طبی مشعل سے روشنی ڈال ڈال کر ان کے املا کی باریک بافتوں کا بغور معائنہ فرماتی رہتی ہیں۔ ڈاکٹر صاحبہ کے بعد ہم لاہور میں مقیم اُردو کی معلمہ اور افسانہ نویس محترمہ عطیہ یوسف کا بھی شکریہ ادا کرتے ہیں جنھوں نے ڈاکٹر صاحبہ کا یہ تبصرہ ہم تک پہنچایا۔ محترمہ عطیہ یوسف بھی ان کالموں کے مستقل قارئین میں شامل ہیں۔
’پانچوں اُنگلیاں گھی میں اور سر کڑاہی میں‘ ہونے کا محاورہ بالعموم اُن لوگوں کی شان میں استعمال کیا جاتا ہے جن کے ہاں دولت کی یکایک ریل پیل ہوگئی ہو اور وہ خوب اللے تللے کرنے لگے ہوں۔ اگر دولت ناجائز کمائی سے حاصل کی گئی ہو تب بھی اُن کی پانچوں انگلیاں گھی میں اور سرکڑاہی میں رہنا چاہیے، لیکن پھر یہ بھی چاہیے کہ گھی خوب کھولتا ہوا ہو۔
کڑاہی درست املا ہے۔ یہی فصیح ہے، یہی لکھنا چاہیے۔ مگر یہ واحد املا نہیں ہے۔ نوراللغات میں مولوی نورالحسن نیرؔ مرحوم لکھتے ہیں:
’’عورتوں کا خیال ہے کہ جو لڑکا یا لڑکی کڑھائی چاٹتی ہے، اُس کے بیاہ میں مینھ برستا ہے‘‘۔
ہم نے تو عورتوں ہی کی زبانی سنا ہے کہ یہ کام پتیلی چاٹنے سے بھی ہوجاتا ہے۔ مصنوعی بادلوں سے بارش برسانے پر زرِ کثیر صرف کرنے والوں کو یہ آسان نسخہ آزما لینا چاہیے۔ لڑکے لڑکیوں کو کڑھائی چٹوا کر چٹ منگنی، پٹ بیاہ کروا دیا کریں۔ ایک پنتھ دو کاج۔ کنوارے کنواریوں کی شادی بھی ہوجائے گی اور ان چٹوروں کی شادی ہوتے ہی اللہ کی رحمت سے جل تھل بھی ایک ہوجائے گا۔
کڑاہی ایک پھیلے ہوئے چوڑے برتن کا نام ہے، جس کے دونوں طرف کُنڈے لگے ہوتے ہیں۔ اس میں پکوان وغیرہ تلتے ہیں۔ مجازاً خود ایسے پکوان کو بھی’کڑاہی‘ یا ’کڑھائی‘ کہا جاتا ہے، جو کڑاہی میں پکائے گئے ہوں۔ مثلاً کڑاہی گوشت یا مرغ کڑاہی وغیرہ۔
کڑاہی کے املا ہی نہیں، تلفظ کا معاملہ بھی دگرگوں ہے۔ اہلِ زبان کو لکھنوی لہجے کے اہتمام کے ساتھ ’کڑاہی‘ کہتے بھی سنا ہے، اورکراچوی بے صبری کے التزام کے ساتھ ’کڑھائی‘ کہتے ہوئے بھی۔ ہمارے عزیز دوست اور مشہور مزاح گو شاعر خالدؔ عرفان ہیں تو کراچی کے، مگر مدتوں سے امریکا میں رہتے ہیں۔ اس شاعرِ شیریں بیان و بذلہ سنج کو بھی اپنے امریکی میزبانوں سے یہی کہتے پایا:
تمھاری دعوت قبول مجھ کو، مگر بس اتنا خیال رکھنا
بیئر کسی بھی برانڈ کی ہو، چکن کڑھائی حلال رکھنا
مثنوی گلزار نسیم میں پنڈت دَیا شنکر نسیمؔ لکھنوی نے چڑھائی کا قافیہ کڑھائی سے باندھا ہے۔ شہزادہ تاج الملوک جب ایک بھوکے دیو کے نرغے میں پھنس جاتا ہے تو اتفاقاً وہاں سے ساربانوں کا ایک قافلہ گزرتا ہے۔قافلے کے اونٹوں پر میدہ، گھی اورشکر لدی ہوئی تھی۔ بھوکا دیوقافلے والوں کا سب مال لوٹ کر لے آیا۔تب شہزادے نے:
حلوے کی پکا کے اِک کڑھائی
شیرینی دیو کو چڑھائی
مذکورہ مثنوی میں یہ نہیں بتایا گیا کہ شہزادہ کڑھائی ساتھ لیے پھرتا تھا یا یہ کڑھائی بھی دیو ہی قافلے سے لوٹ کر لایا تھا۔
قصہ مختصر، لغات میں کڑاہی اور کڑھائی دونوں املا موجود ہیں۔ آمنہ آپا نے جو پوچھا تھا کہ ’’کڑھائی کہاں سے آگئی؟‘‘ تو جواب یہ ہے کہ کڑھائی بھی لغت ہی سے آئی ہے اورکڑکڑاتی ہوئی آئی ہے۔
بڑی کڑاہی کو ’کڑاہ‘ کہتے ہیں، اور اُس سے بھی بڑے کو ’کڑھاؤ‘۔ مثلاً شِیر فروش جس بڑی کڑاہی میں سرِ عام دودھ اُبالتے اور دودھ ناپنے کے پیمانے سے اُچھالتے نظر آتے ہیں، اُسے ’کڑاہ‘ کہا جاتا ہے۔اُبلتے کڑاہ سے دودھ اُٹھا اُٹھا کر قدِآدم بلندی سے گراتے دیکھ کر ہی کسی گاہک نے فرمائش کی تھی کہ ’’بھائی دو گز دودھ مجھے بھی دے دو‘‘۔ دیہی علاقوں میں آج بھی جس وسیع و عریض کڑاہ میں گنے کا رس پکا کر گڑ بنایا جاتا ہے وہ ’کڑھاؤ‘ کہلاتا ہے۔ ایسے میں اگر کوئی گڑ مانگنے آجائے تو گڑ بنانے والا اُسے گڑ دیتا ہے نہ گڑ کی سی بات کرتا ہے۔ ڈانٹ کر بھگا دیتا ہے۔
محاوروں میں بھی کڑاہی اور کڑھائی دونوں املا مستعمل ہیں۔ کوئی چیز تلنے کے لیے کڑاہی چولھے پر رکھنے کے عمل کو ’کڑھائی چڑھانا‘ کہا جاتا ہے۔ نذر و نیاز کے لیے کچھ پکانے کو ’کڑاہی کرنا‘ کہتے ہیں۔ ’کڑاہی میں ہاتھ ڈالنا‘ بھی ایک محاورہ ہے۔ اس محاورے کے تحت کھولتے ہوئے تیل میں ہاتھ ڈال کر اپنے سچا ہونے کا یقین دلانے یا جھوٹے کا امتحان لینے کی دعوت دی جاتی ہے۔ سچا ہوگا تو ہاتھ نہیں جلے گا۔ یہ نسخہ بھی آزما کر دیکھ لینا چاہیے۔ عدالتوں میں برسوں انتظار کرنا پڑتا ہے۔ اگر ہر عدالت نے ایک ایک کڑھائی چولھے پرچڑھائی ہو تو انصاف جلد مل جایا کرے۔ خواتین جج یہ کام مہارت سے کرسکتی ہیں۔ جادو ٹونے کے قائل لوگوں میں ’کڑھائی باندھنا‘ بھی مستعمل ہے۔ مطلب ہے منتر کے زور سے کڑھائی گرم نہ ہونے دینا۔ نہ جانے اس کا کیا فائدہ ہے؟غالباً یہی کہ منتر پڑھنے والے منتری کو کھانے کے لیے کچھ نہ ملا تو وہ ’کڑھائی باندھ‘ دے گا، یعنی کڑاہی وال کو بھی کھانے نہیں دے گا۔
کپڑے پر جو ’کڑھائی‘ کی جاتی ہے، شاید خواتین کو یہ سن کر صدمہ پہنچے کہ، اس ’کڑھائی‘ کا لغت میں اب تک اندراج نہیں ہوپایا۔ خیر، خواتین کو اس سے کیا؟ خواتین کے اور بھی کئی مشاغل ماورائے لغت ہوتے ہیں۔ لغت میں ’کاڑھنا‘ ضرور ملتا ہے، جس کے ایک معنی (کھانا وغیرہ) نکالنے یا کسی چیز کو کسی چیز سے باہر کرنے کے ہیں، اور دوسرے معنی کشیدہ کاری کے ہیں۔ کشیدہ کاری والے معنی بھی پہلے ہی معنی سے کشید کیے گئے ہیں، کیوں کہ کپڑوں پر بیل بوٹے کاڑھنے کے عمل میں سوئی کو دھاگے کے ساتھ بار بار کپڑے میں داخل کرکے باہر نکالا (یعنی کاڑھا) جاتا ہے۔ لغت میں نہیں تو نہ سہی، خواتین کے ہاں روزمرہ بول چال میں تو ’سلائی کڑھائی‘ خوب ہورہی ہے۔
مگر اب گھروں میں رکھی ہوئی کڑاہی بھی کراہنے لگی ہے، کیوں کہ اس کی جگہ ’فرائی پین‘ نے لے لی ہے جس پر منجمد کھانے پگھلائے جاتے ہیں۔ اب اپنے باورچی خانے میں خود چولھے پر کڑاہی چڑھا کر مزے مزے کے پکوان تلنے کی بجائے شہروں کی خواتین ’شنواری‘ جاکر ’کڑھائی‘ کھانے پر اصرار کیا کرتی ہیں۔
منجمد کھانوں کو پگھلانے کے لیے گھروں میں برقی لہروں کے تنور بھی آگئے ہیں، جنھیں ’مائیکرو ویو اوون‘ کہا جاتا ہے۔ ننھی لہروں کے اس تنور میں سرد کھانوں کے ساتھ ساتھ سردمہری کا شکار ہوجانے والی بہت سی دوسری چیزیں اور بھی رکھ دی گئی ہیں۔ سب کی سب ساتھ ہی ’دم پُخت‘ ہوگئیں۔ گھروں میں بولی جانے والی شیریں زبان، رسیلا لب و لہجہ، بامحاورہ گفتگو، تربیتِ اطفال، بالخصوص بچیوں کی تربیت، خاندانی روایات، تہذیب اور تمدن سب ہی کچھ اس تیز رفتار چولھے میں جھونک دیا گیا ہے۔