جوں جوں افغانستان میں طالبان کے قدم کابل کی طرف بڑھ رہے ہیں اور حکومت کی گرفت کمزور ہوتی جا رہی ہے، بھارتی ذرائع ابلاغ میں یہ بحث زور پکڑ رہی ہے کہ سقوطِ کابل کے کشمیر پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟ اس سوال کا جواب ماضی کے آئینے میں تلاش کیا جارہا ہے جب سوویت افواج کے انخلا کے بعد مجاہدین نے افغانستان کا زیادہ علاقہ کنٹرول میں لے لیا تھا اور افغانستان سے فارغ ہونے والے عسکریوں نے چیچنیا اور کشمیر کا رخ کیا تھا۔ اِس بار بھی امریکی فوجیں اسی اسٹائل میں افغانستان میں کسی تصفیے اور مستقبل کا نقشہ بنائے بغیر رخصت ہوچکی ہیں اور طالبان ماضی کے مجاہدین کی طرح تیز رفتار پیش قدمی کررہے ہیں، اور ایک بار پھر بھارت کو پرانا سوال اور پرانا روگ کھائے جارہا ہے۔
بھارت میں اس بات پر اتفاق پایا جاتا ہے کہ طالبان کی حتمی فتح کے کشمیر پر اثرات مرتب ہوں گے۔ ان اثرات کو کم کرنے کے لیے آخری تدبیر یہی ہے کہ دم توڑتی ہوئی افغان حکومت کو آکسیجن ٹینٹ فراہم کیا جائے، تاکہ وہ طالبان کو شکست دینے کی پوزیشن میں نہ آئے مگر خانہ جنگی جاری رکھنے کی سکت ضرور رکھے۔ افغانستان میں خانہ جنگی کا ماحول بنائے رکھنے کے پیچھے یہی خوف ہے کہ امن کی صورت میں اس محاذ سے فارغ ہونے والے عسکری کشمیر کا رخ کرسکتے ہیں۔ بھارت کے ایک دفاعی تجزیہ نگار پراوین سوانی نے کہا ہے کہ بھارت کو بدلی ہوئی صورتِ حال میں چین، پاکستان اور طالبان کے مشترکہ محاذ کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ سوانی کا کہنا تھا کہ وہ سقوطِ کابل کے کشمیر میں یقینی اثرات دیکھ رہے ہیں۔ ایک طرف بھارت کے فوجی حکام یہ تسلیم کررہے ہیں کہ حالیہ سیزفائر معاہدے کے بعد کشمیر میں حالات بہتر ہوئے ہیں اور وادی کے اندر بھی مسلح تصادم کے واقعات کم ہوگئے ہیں، دوسری طرف وہ افغانستان میں طالبان کی فتوحات کو کشمیر کے حوالے سے ایک نئے اور اعصاب شکن خطرے کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ اسی خطرے کوکم کرنے کے لیے بھارت نے دوجہتی حکمتِ عملی اپنائی تھی، اُس نے ایک طرف فوری طور پر طالبان سے دوحہ میں ملاقاتوں کے لیے سرتوڑ کوششیں کیں جو کامیاب نہیں ہوسکیں، دوسری طرف کشمیر میں پانچ اگست کے بعد پیدا ہونے والے سیاسی خلاء کو پُر کرنے کے لیے بھارت نواز سیاسی قیادت کی نریندر مودی کے ساتھ ملاقات کا اہتمام کیا، جس کا مقصد یہ تاثر دینا تھا کہ کشمیر میں سیاست اور طاقت کا کوئی خلا نہیں بلکہ بھارت بہت جلد کشمیر میں کشمیریوں کی اپنی حکومت قائم کرنے جارہا ہے۔
5 اگست 2019ء سے اب تک دوسال ہونے کو ہیں، بھارت جموں وکشمیر کو یونین ٹیریٹری قرار دے کر تمام معاملات لیفٹیننٹ گورنر کے ذریعے چلا رہا ہے۔ کشمیری سیاست دانوں سے یہ ملاقات بھی کچھ زیادہ نتیجہ خیز نہیں رہی، کیونکہ دونوں فریقوں کے پاس ایک دوسرے کو دینے کے لیے کچھ نہیں تھا۔نریندر مودی نے کشمیریوں کو پانچ اگست کا فیصلہ واپس لینے کا یقین دلایا اور معاملے کے عدالتی ہونے کا عذر ِلنگ اپنالیا، جبکہ مقبوضہ جموں وکشمیر کی سیاسی قیادت تو سرے سے خالی ہاتھ تھی جو اپنی داستان سناکر تھکے تھکے قدموں اور جھکی جھکی نگاہوں سے واپس لوٹ آئی۔ محبوبہ مفتی سے فاروق عبداللہ، اور جموں کے بھیم سنگھ سے بھارتیہ جنتا پارٹی کے رویندر رینا تک ہر شخص نے اپنی ہی کہانی باہر بیان کی۔ کشمیری سیاست دانوں سے یہ ملاقات عین اُس وقت ہوئی تھی جب بھارتی حکومت دوحہ میں طالبان کے نمائندوں کے ساتھ سلسلۂ جنبانی کی سرتوڑ کوششیں کررہی تھی، اور دوبار بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر دوحہ میں موجود پائے گئے تھے۔ طالبان سے بات چیت اور کشمیر سے نظریں ملانے سے گریز کے طعنے سے بچنے کے لیے بھارت نے یہ دونوں کام بیک وقت کرنے کی کوشش کی تھی، مگر یوں لگتا ہے دونوں کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔
طالبان بار بار یقین دہانی کرا رہے ہیں کہ وہ اپنی سرزمین کسی ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے۔ یہ صرف پاکستان ہی کے لیے نہیں، بھارت کے لیے بھی سندیسہ ہے۔ مگر بھارت چونکہ کشمیر کو ادھیڑ بیٹھا ہے اور یہ صورت ِحال سنبھلنے کی کوئی صورت اور طریقہ نظر نہیں آتا، اس لیے کابل کے حالات کا عکس کشمیر میں دکھائی دینے کا ایک خوف لاشعور میں موجود ہے۔ بھارت کی ایک اسکالر اکنکشا نرائن نے اس صورتِ حال کا تجزیہ یوں کیا ہے کہ افغانستا ن کی صورتِ حال پھر اسی مقام کی طرف جارہی ہے جب سوویت افواج کا انخلاہوا تھا، اور وہاں سے فارغ ہونے والے عسکری کشمیر سے چیچنیا اور مشرق وسطیٰ تک پھیل گئے تھے۔ اس لیے بھارت کے دروازے پر دوبارہ پرانا خطرہ نئے انداز سے دستک دے رہا ہے۔ ایک اور تجزیہ نگار راہول بیدی کا کہنا ہے کہ گوکہ حالات اب 1990ء کی دہائی والے نہیں ہیں، اُس وقت کشمیر میں عسکریت کا سیلاب اچانک تھا، بھارتی فوج اور کشمیر کی پولیس کے پاس اس صورتِ حال سے نمٹنے کا تجربہ نہیں تھا، مگر تین عشرے تک عسکریت سے مقابلے نے بھارتی فوج اور پولیس کو تجربہ کار بنادیا ہے۔ بیدی کے مطابق کنٹرول لائن پر سیزفائر کے باوجود پاکستان نے کشمیر میں اپنے عزائم اور ارادے ترک نہیں کیے۔ ایسے میں طالبان پاکستان کی طاقت میں اضافے کا عنصر ہیں۔ اگر، لیکن اور کب؟ کے سوالوں کی اس حقیقت کے سامنے کوئی اہمیت نہیں۔ یہ وہ خوف ہے جو بھارت کو افغانستان کو ایک دلدل بنائے رکھنے پر مجبور کررہا ہے۔ افغان سیاسی حکومت اپنی اتھارٹی بحال کرنے کے نام پر اس دلدل کو مزید گہرا اور وسیع کررہی ہے۔