آج کے نثر نگار اور کلاسیکی سرمایے سے ان کی بے اعتنائی

آج ہمارے لکھنے والوں کی اکثریت سادہ نثر کے نام پر ایسی اکھڑی اکھڑی، کھردری اور ناہموار زبان لکھ رہی ہے جو اردو نثر کی روایت سے قطعاً بے گانہ اور بے نیاز ہے۔ یہ نثر نہ سبک ہے اور نہ شگفتہ و رواں، بلکہ اسے پڑھتے ہوئے ایک انقباض کا احساس ہوتا ہے۔ بے ربط عبارتیں، ڈھیلے ڈھالے جملے، لفظوں کی بھونڈی ترتیب اور ان کا بے محل استعمال عام ہے۔ حالی اور عبدالحق کی نثر اپنی تمام سادگی و سلاست کے باوجود اردو نثر کے کلاسیکی مزاج سے ہم آہنگ ہے۔ آج کے بیشتر لکھنے والوں کے یہاں ایک عجیب یک رنگی اور تھکا دینے والی یکسانیت پائی جاتی ہے۔ سادہ نثر لکھنا آسان نہیں۔ اچھی اور خوب صورت نثر لکھنا اچھے شعر لکھنے سے زیادہ مشکل کام ہے۔ آج کے نئے ادیب اپنے خیالات جوں توں لکھ دیتے ہیں اور اپنے تئیں یہ سمجھتے ہیں کہ ان کی نثر حالی و عبدالحق کی نثر کی طرح سادہ ہے۔ انھیں شاید یہ معلوم نہیں کہ حالی و عبدالحق کا اسلوب پیدا کرنے کے لیے بڑی محنت، مشق اور شعوری کوشش کی ضرورت ہے۔ اچھی سادہ نثر لکھنے کے لیے ضروری ہے کہ نثرنگار اپنی ادبیات سے گہری واقفیت رکھتا ہو، اور اس کی چھوٹی بڑی تقریباً تمام اہم تحریروں کو پڑھ چکا ہو، اسے لفظوں کے معنی اور ان کے درمیان پائے جانے والے باریک و لطیف فرق سے خوب واقفیت ہو، وہ محاوروں کے استعمال پر قادر ہو، اور مناسب لفظوں میں اپنی بات کہنا جانتا ہو۔ اس میں لکھ کر کاٹنے کی ہمت بھی ہو۔ لیکن آج کے بیشتر نثرنگار اپنے کلاسیکی سرمایے سے ناواقف اور اپنی روایت سے ناآشنا ہیں۔ انھوں نے باغ و بہار، فسانۂ عجائب، اردوے معلی، عود ہندی، آبِ حیات، یادگارِ غالب، مقدمۂ شعر و شاعری، شعر العجم، توبۃ النصوح، ابن الوقت، فسانۂ آزاد، تذکرہ، ترجمان القرآن، غبارِ خاطر، تفہیم القرآن جیسی کتابیں نہیں پڑھی ہیں اور نہ اردو نثر کے اصلی مزاج سے واقف ہونے کی کوشش کی ہے۔ جدید نثر کی سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ یہ بڑی پھیکی، سیٹھی اور بے جان ہے۔ اس میں نہ کوئی رنگ ہے، نہ خوشبو۔ ڈاکٹر جمیل جالبی نے جدید نثر کی اس خرابی کا ذکر کرتے ہوئے بہت صحیح لکھا ہے:
”جدید نثر کی خرابی کا سبب یہ ہے کہ اس کے بیش تر لکھنے والے اپنی روایت سے ناواقف ہیں۔ وہ صرف انگریزی پڑھتے ہیں اور اردو میں لکھتے ہیں۔ آج کی نثر کے جملوں کی ساخت میں ایسی الجھا دینے والی ترتیب ملتی ہے کہ آدمی اسے روانی سے نہیں پڑھ سکتا۔ اس لیے عبارت میں وہ شگفتگی اور رچاوٹ نہیں ہے کہ پڑھنے والا پڑھے اور مزا لے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مُردہ لفظوں کو جملوں کی قبروں میں اتار دیا گیا ہے، جہاں سے نہ وہ بولتے ہیں اور نہ حرکت کرتے ہیں۔ یہ جدید نثر کا اسلوب ہے جو آپ کو ہر رسالے، ہر اخبار اور ہر اچھی بری تحریر میں نظر آئے گا۔۔۔۔ طرزِ بیان کی اہمیت پر نہ تو کالج، مدرسوں میں زور دیا جاتا ہے، اور نہ نثرنگار اسے قابلِ اعتنا سمجھتے ہیں۔ ”خیال ہی سب کچھ ہے“ یہ ان کا نعرہ ہے، اور جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ دوسری زبان کے خیالات کو اردو میں اُن لفظوں کے ذریعے ادا کردیا جائے جو خود نثرنگار کو معلوم ہیں۔ اس ”ادائیگی“ کے لیے نہ کسی کوشش و کاوش کی ضرورت ہے اور نہ خود اردو زبان کے مزاج، روایات اور ادب سے کسی واقفیت کی۔ پھیکی، سیٹھی نثر کے انبار کے انبار نظر آتے ہیں۔ کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ حالات کے بدل جانے کی وجہ سے زبان اور اس کی ساخت بھی بدل رہی ہے، اور ایسے میں اس عمل کا ہونا فطری بات ہے۔ اس بات کی صداقت سے کون انکار کرسکتا ہے، لیکن اس بدلنے کے عمل کے دوران ہی میں ہمیں پوری احتیاط کی ضرورت ہے۔ جملوں کی ساخت بدلے، نئے لہجے زبان کے خمیر میں شامل ہوں، نئی ترکیبیں بنیں۔۔۔ لیکن یہ ساخت، یہ ترکیبیں، یہ محاورے زبان کی تہذیب کا حصہ بن کر آئیں۔ اور یہ کام ہمارے نثرنگار شعوری طور پر ہی کرسکتے ہیں۔ جدید نثر میں نہ تو سبک رفتاری ہے اور نہ عام طور پر اس میں کوئی خوشبو آتی ہے۔ الفاظ سخت پتھروں کی طرح صفحوں پر بکھرے پڑے ہیں۔ آپ جدید نثر کے بارے میں یہ ہرگز نہیں کہہ سکتے کہ وہ ”شگفتہ“ ہے۔“ (بزم خوش نفساں، از شاہد احمد دہلوی)
یہ بات آج ضرور اچھی اور اطمینان کی ہے کہ سادہ نثر لکھی جارہی ہے اور ہم پُرتکلف و پُرتصنع اسلوب سے بڑی حد تک چھٹکارا پا چکے ہیں۔ لیکن لفظوں کی فضول خرچی اور ان کا بے جا استعمال اتنا عام ہے کہ اچھے لکھنے والے اس کے شکار ہیں۔ اردو کی مرصع نثر کی روایت کے اس مطالعے سے یہ غلط فہمی بھی نہیں ہونی چاہیے کہ اردو نثر کے سادہ اور مرصع اسالیب کے دھارے الگ الگ بہتے رہے ہیں۔ اسلوب کے یہ دونوں دھارے ایک دوسرے سے ملتے رہے، ایک دوسرے کو متاثر کرتے رہے، ایک دوسرے سے اخذ و استفادہ کرتے رہے، اور ایک دوسرے کو معتدل بناتے رہے ہیں۔ عہدِ حاضر کے اچھے نثرنگار وہ ہیں جنھوں نے کلاسیکی سرمایے کا بہ غور مطالعہ کیا ہے۔ مرصع و پُرتکلف نثر کے مطالعے کے بعد ہی ہمارے اچھے لکھنے والے اردو نثر کے مزاج سے آگاہ، اس کی روایت سے باخبر، لفظوں اور محاوروں کے صحیح معانی سے واقف اور ان کے استعمال پر قادر ہوسکے ہیں۔ آج ہمیں سادہ نثر کی اہمیت پر زور دے کر اس حقیقت کو فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ رنگینی اور تکلف کا بھی ایک موقع و محل ہوتا ہے اور اس سے بھی مناسب مصرف لیا جاتا ہے۔ سادگی خوبی ضرور ہے لیکن اگر رنگینی اور آرائش کا موقع ہو تو وہی اچھی لگتی ہے۔ تنقید، تحقیق اور تاریخ کے لیے جو اسلوب موزوں ہوگا، وہ ڈرامے، افسانے، ناول اور انشائیے کے لیے مناسب نہیں ہوگا۔ تخلیقی نثر میں صرف معانی اور خیالات کی ترسیل مقصود نہیں ہوتی، بلکہ لکھنے والا اپنے جذبات و تاثرات کو بھی خاص آہنگ اور احساسِ لمس کو ابھارنے والے الفاظ استعمال کرکے قاری تک منتقل کرنا چاہتا ہے۔ آب حیات کو آپ آج کی سادہ نثر میں لکھ کر دیکھ لیجیے، وہ حسنِ بیان ہی ختم ہوجائے گا۔ فسانۂ آزاد کو آپ حالی یا سرسید کی نثر میں لکھ کر اس لکھنؤ کے مناظر و ماحول کی عکاسی نہیں کر سکتے جس کی عکاسی سرشار نے اپنے مخصوص اسلوب میں کی ہے۔ بڑا فن کار اپنا اسلوب خود پیدا کرتا ہے۔ آج فسانۂ عجائب یا فسانۂ آزاد کے اسٹائل میں ناول لکھنا یا تنقیدی مقالہ قلم بند کرنا یقیناً مضحکہ خیز ہوگا۔ لیکن آج بھی ایک مقالے کی زبان اور ایک انشائیے کی زبان میں واضح فرق ہوتا ہے ۔ ایک تنقیدی تصنیف کے اسلوب اور ایک ناول کے اسلوب میں بیّن فرق ہوتا ہے اور ہونا چاہیے۔“
(ڈاکٹر ممتاز احمد خاں،جرنل خدا بخش لائبریری، 2002ء)

اندھیری شب ہے، جدا اپنے قافلے سے ہے تُو
ترے لیے ہے میرا شعلہ نوا قندیل
علامہ اقبال امت ِ واحدہ یا ملّتِ اسلامیہ کی متحدہ قوت سے کٹے ہوئے مسلمانوں کو تلقین کرتے ہیں کہ میرے کلام سے رہنمائی حاصل کرو، اس لیے کہ غلامی کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں اپنے ملّی قافلے سے کٹ کر تم قدم قدم پر ٹھوکریں کھا رہے ہو۔ ایسے میں میرے کلام کی روشنیاں چراغِ راہ بن کر تمہاری رہنمائی کرتی اور تمہارے دلوں کو ایمانی جذبوں اور آزادی کے لطف سے روشناس کراتی ہیں۔ یوں وہ اپنے اشعار کو اندھیری راہ میں جذبے اور روشنیاں بخشنے والے چراغ قرار دیتے ہیں۔