گھریلو تشدد بل سیمینار

تحریک انصاف حکومت کے ان تین برسوں میں ملکی سیاست میں کیا تبدیلی آئی، اور سیاسی رویوں کے رنگ کس قدر بدل گئے ہیں، تلخیاں کہاں تک جاپہنچی ہیں، یہ سب کچھ ایک جانب… مگر جس طرح کی قانون سازی ہورہی ہے یہ بہت بڑا سوال ہے۔ دو عشرے قبل ملک میں جنرل پرویزمشرف اقتدار میں تھے۔ روشن خیال معاشرے کی تشکیل کے لیے وہ حدود آرڈیننس جیسے قانون لائے جو اسمبلی سے منظور کیے گئے۔ ایک جانب آئین کہتا ہے کہ پارلیمنٹ کو ہی قانون سازی کا اختیار ہے مگر یہ ادارہ بھی قرآن و سنت کے منافی قانون منظور نہیں کرسکتا، دوسری جانب ایسی قانون سازی ہورہی ہے جس پر پورا معاشرہ تذبذب کا شکار ہے۔ گھریلو تشدد بل بھی اسی میں شامل ہے۔ یہ قانون سازی بجٹ اجلاس میں ایک ایسے ماحول میں ہوئی جب خود وزراء نے اسمبلی اجلاس کا ماحول خراب کیا اور اپوزیشن کو دیوار سے لگانے کی کوشش کی۔ اسی ہلہ گلا میں حکومت نے متعدد بل قومی اسمبلی سے منظور کرا لیے۔ جب معاشرے سے ردعمل آیا اور اپوزیشن جماعتوں نے تیور دکھائے تو کہا گیا کہ بیٹھ کر بات چیت کرلی جائے۔ تاہم ایک فیصلہ سنادیا گیا کہ قومی اسمبلی میں پاس ہونے والے قوانین واپس نہیں لیے جا سکتے، تمام رولز اور پراسیس مکمل کرنے کے بعد یہ قوانین ایوانِ بالا (سینیٹ) کو بھیج دیئے گئے ہیں۔اب اگر اپوزیشن میں کوئی دم خم ہے اور سینیٹ میں اس کے اکثریت کے دعووں میں جان ہے تو وہ ان بلوں کی منظوری کا راستہ روک سکتی ہے،تاہم اگر یہ بل ایوانِ بالا سے بھی منظور ہوگئے اور صدرِ مملکت نے بھی ان پر دستخط کر دیئے تو یہ نافذ تصور ہوں گے۔
ان بلوں میں سے اگر کسی کے بارے میں خیال ہے کہ وہ آئین کے خلاف ہے تو اسے سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا راستہ کھلا ہے، اور ایسی نظیریں موجود ہیں کہ پارلیمنٹ سے منظور ہونے والے قوانین کو سپریم کورٹ نے کالعدم قرار دیا۔چونکہ پارلیمنٹ بے شک ہر قسم کی قانون سازی کا اختیار رکھتی ہے اور وہ اس مقصد کے لیے سب سے بالاتر ادارہ ہے،تاہم یہ اختیار اُسے بھی حاصل نہیں کہ وہ ایسی قانون سازی کرے جو آئین کی شقوں اور اس کی مرضی و منشا کے منافی ہو۔
انہی بلوں میں گھریلو تشدد بل پر جماعت اسلامی نے ایک سیمینار منعقد کیا جس سے سینیٹر مشتاق احمد خان، سینیٹر(ر) پروفیسر ابراہیم خان سمیت متعدد قانون دانوں اور علمائے کرام نے اظہارِ خیال کیا۔ یہ سیمینار الفلاح ہال میں ہوا، جس کی صدارت جماعت اسلامی اسلام آباد کے امیر نصراللہ رندھاوا نے کی۔ ڈا کٹر شاہد رفیع، معروف مذہبی اسکالر مولانا خلیل الرحمٰن چشتی، معروف قانون دان ذوالفقار عباسی ایڈووکیٹ سپریم کورٹ، علامہ زاہد الراشدی، ریسرچ آفیسر اسلامی نظریاتی کونسل عبدالرشید محمدی، ترجمان وفاق المدارس العربیہ پاکستان مولانا عبدالقدوس اور دیگر مقررین نے بھی خطاب کیا۔ تمام مقررین نے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے اسلامی اور نظریاتی مفادات کی روشنی میں اس بل پر گفتگو کی اور اپنی آراء دیں۔ سیمینار سے اظہارِ خیال کرتے ہوئے سینیٹر مشتاق احمد خان نے کہا کہ پاکستان میں تمام طبقات گھریلو تشدد کے خلاف ہیں، گھریلو تشدد کے حق میں کیا کسی عالمِ دین نے کوئی فتوی دیا؟ ہم پوچھتے ہیں آخر دینی طبقات کو قانون سازی میں شریکِ مشاورت کیوں نہیں کیا جاتا؟ بجٹ سیشن کے دوران گھریلو تشدد بل پیش کیا جانا سازش کے تحت تھا، گھریلو تشدد بل خاندان کے خلاف ٹائم بم ہے، ہماری پارلیمنٹ غلام ہے جو امریکن وائرس سے متاثرہ ہے، پارلیمنٹ کے ماتھے پر تو کلمہ لکھا ہے مگر اندر کلمے کے خلاف قانون سازی ہورہی ہے، جس طرح حکومت کے سربراہ کو اپنے عوام کا اختیار ہے اسی طرح خاندان کے سربراہ کو بھی اختیار ہے، اسلام عدالت میں جانے سے پہلے بھی مصالحت کا حکم دیتا ہے، گھریلو تشدد بل مصالحت سرے سے کرنے کا مخالف ہے، یہ عجیب قانون ہے کہ ملازم پر تشدد کیا تو ملازم گھر میں رہے گا مالک گھر سے نکال دیا جائے گا، یہ قانون قرآن و سنت کے خلاف ہے۔ سینیٹر مشتاق احمد خان نے کہا کہ عوامی دبائو پر اس بل پر پیش رفت تو رک گئی ہے مگر اسے ابھی تک اسلامی نظریاتی کونسل نہیں بھیجا گیا، لیکن ہمیں اس کے باوجود چوکنا رہنا ہوگا، تمام دینی جماعتیں قانون سازی کے لیے اپنا ایک نظام بنائیں۔ انھوں نے کہا کہ اسی طرح وقف املاک بل بہت ہی خطرناک ہے، اس بل کے تحت کسی مدرسے کی زمین نہیں لی جاسکتی، اس طر ح کا قانون انگریز نے بھی نہیں بنایا جو موجودہ حکومت بنانے جا رہی ہے۔ ایف اے ٹی ایف سے متعلق نئے قانون میں سیکرٹری داخلہ کو کسی بھی پاکستانی کو کسی ملک کے حوالے کرنے کا اختیار دے دیا گیا ہے، اس سے پہلے کسی پاکستانی کو حوالے کرنے کا اختیار ایک بڑی کمیٹی کے پاس تھا، یہ قانون ریاست کو اغواکار بناتا ہے۔ سینیٹر مشتاق احمد خان نے کہا کہ ہماری آزادی گروی رکھ دی گئی ہے، آزادی کی نئی تحریک کی ضرورت ہے۔
جماعت اسلامی پاکستان کے نائب امیر (سینیٹر) پروفیسر محمد ابر اہیم خان نے کہا کہ گھریلو تشدد کا بل کسی ایک جماعت کا نہیں بلکہ پوری پاکستانی قوم کا اجتماعی مسئلہ ہے جس میں خاندانی نظام پر حملہ کیا گیا ہے، اس بل میں لکھا گیا ہے کہ پاکستان میں گھریلو تشدد بہت زیادہ ہورہا ہے۔ تین صوبوں میں گھریلو تشدد بل پر عمل شروع ہوچکا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ریاست کو اس حد تک گھر میں مداخلت کا اختیار دینا گھر توڑنے کے مترادف ہے، ضرورت اس بات کی ہے کہ اس بل کے خلاف ساری قوم شاہراہ دستور پر نکل آئے۔ ملک میں اسلام سے متصادم قوانین کے حوالے سے ہماری عدلیہ کا بھی منفی رول رہا ہے۔ گھریلو تشدد بل کو تسلسل سے ہونے والے واقعات کی کڑی کے طور پر دیکھنا ہوگا۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ سیکولر عناصر آگے بڑھتے جارہے ہیں۔ پروفیسر محمد ابراہیم خان نے کہا کہ اس پورے بل میں اللہ کا نام نہیں۔ اسلامی اخلاق، اقدار، اصول اور تعلیمات کا ذکر نہیں۔ قانون سازی بین الاقوامی اداروں کے زیراثر جاری ہے، نہ کہ دستور کے مطابق۔ پروفیسرمحمد ابراہیم خان نے کہا کہ ملک کو ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت سیکولر ازم کی طر ف دھکیلا جا رہا ہے۔ ڈاکٹر شعیب سڈل کی یکساں نصابِ تعلیم کی رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش کی گئی ہے، جس میں انھوں نے انگریزی کی کتاب سے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا مضمون نکالنے کی سفارش کی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ جب بھی ڈاکٹر شعیب سڈل کیس لگے تو پوری قوم کو شاہراہِ دستور پر ہونا چاہیے۔ انھوں نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 227۔228کا اطلاق جس طرح پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں پر ہوتا ہے اسی طرح عدلیہ پر بھی ہونا چاہیے۔