معروف کالم نگار عبیداللہ چھجن ایڈووکیٹ نے اہلِ سندھ کو درپیش مسائل و مصائب اور حکمران طبقے کی اس حوالے سے روا رکھی جانے والی بے حسی اور نااہلی پر کثیر الاشاعت سندھی پندرہ روزہ ’’عبرت میگزین‘‘ حیدرآباد (16 جولائی تا 31 جولائی 2021ء) کی اشاعت میں جو مؤثر خامہ فرسائی کی ہے اس کا ترجمہ قارئین کی معلومات اور دلچسپی کے لیے پیش خدمت ہے۔
’’سندھ کے شمالی اضلاع گھوٹکی، شکارپور، جیکب آباد، کشمور، کندھ کوٹ کے مختلف شہروں میں جہاں قبائلی جھگڑے عرصۂ دراز سے مقامی عوام کا مقدر بنے ہوئے ہیں وہیں اس پر مستزاد بدامنی، اغوا برائے تاوان کی وارداتوں، لوٹ مار اور چوریوں نے بھی لوگوں کی زندگی اجیرن بنا رکھی ہے۔ ویسے بھی ان اضلاع میں موجودہ موسم کے دوران بدامنی کی آگ میں بہت زیادہ اضافہ ہوجاتا ہے، اور کہیں دن دہاڑے اغوا ہورہے ہیں، اور کہیں رات کی تاریکی میں چوری کی وارداتیں۔ مطلب یہ ہے کہ مختلف انواع کی بدامنی عوام کی تقدیر کا ایک ناگزیر حصہ بن چکی ہے۔ ایسے میں گاہے جرائم پیشہ عناصر کی کارروائیوں کے جواب میں پولیس ایکشن کی بھی اطلاعات سامنے آتی ہیں، لیکن درحقیقت یہ بے بنیاد ہی ہوا کرتی ہیں، اور بیشتر خبریں اس بارے میں جھوٹی نکلتی ہیں۔ گزشتہ ایک ماہ سے کندھ کوٹ، کشمور، شکارپور اور گھوٹکی کے اضلاع میں بدامنی کی جو آگ بھڑکی ہوئی ہے، اس کی تو مثال ملنا ہی محال ہے۔ مقامی انتظامیہ اور اربابِ اختیار بدامنی کے واقعات رونما ہونے کے بعد عوامی ردعمل سے بچنے کے لیے چار و ناچار بغیر کسی حکمتِ عملی کے عجلت میں جو کارروائیاں کرتے ہیں وہ نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوپاتیں، اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سنگین ترین جرائم کی وارداتیں بھی قصۂ پارینہ بن جاتی ہیں۔ جرائم پیشہ گرفتار ہوتے ہیں اور نہ ہی انہیں سزائیں ملتی ہیں، جس کی ایک حالیہ مثال کندھ کوٹ کے قریب درانی مہر تھانے کی حدود میں واقع کچے کے علاقے میں پیش آنے والا وہ دل دہلا دینے والا واقعہ ہے جس میں چاچڑ برادری کے 9 افراد کو گھروں سے بلاکر بے دردی کے ساتھ گولیوں کا نشانہ بنادیا گیا تھا، لیکن میڈیا پر واویلا ہونے کے باوجود قاتلوں کو تاحال پولیس گرفتار نہیں کرسکی ہے۔ حالانکہ اگر پولیس واقعے میں ملوث ملزمان کے خلاف بروقت مناسب حکمتِ عملی کے تحت کارروائی کرتی تو ان کی گرفتاری کوئی اتنا بڑا مسئلہ ہرگز نہیں تھی۔ البتہ پولیس کی جانب سے کھٹارا بکتربند گاڑیوں کے ذریعے کچے کے علاقے میں جو ناکام کارروائی کی گئی اُسے ’’پولیس آپریشن‘‘ کا نام دیا گیا۔ بالکل اسی طرح سے پولیس گزشتہ دنوں گھوٹکی کے کچے کے علاقے میں بھینس چوری کے ملزمان کے تعاقب میں گئی تو بھینس بازیاب کروانے کے بجائے ملزمان کی جانب سے پولیس اہلکاروں پر جو فائرنگ کی گئی اس کے نتیجے میں ایک نوجوان ہلاک اور ایک شدید زخمی ہوگیا۔ یہ ہے ہماری آج کی پولیس کی حالتِ زار اور ناقص حکمتِ عملی پر مبنی کارروائیاں، جنہیں دل کو بہلانے کی خاطر ’’پولیس آپریشن‘‘ کا نام دے دیا جاتا ہے۔ سندھ بھر کی پولیس ملزمان اور جرائم پیشہ عناصر کو گرفتار کرنے میں مکمل طور پر ناکام ثابت ہوچکی ہے۔ ایک سال پیشتر گھوٹکی ہی کے علاقے میرپور ماتھیلو سے اغوا ہونے والی نوجوان لڑکی زلیخا کو بھی پولیس تاحال بازیاب نہیں کرواس کی ہے۔ لڑکی کے والدین اور رشتے دار اس دوران مسلسل احتجاج کرتے رہے ہیں، لیکن لگتا یہ ہے کہ زلیخا اور ٹھل جیکب آباد کی دس برس قبل اغوا کی جانے والی معصوم بچی فضیلہ سرکی کا المیہ یکساں ہے جسے باوجود عدالتی احکامات کے، پولیس تاحال بازیاب نہیں کروا سکی ہے۔ سندھ کے شہر ہوں یا پھر کچے کے علاقے، عام افراد کا اغوا بہ غرضِ تاوان معمول کا ایک بدنما حصہ بن چکا ہے، لیکن پولیس جرائم پیشہ عناصر کے سامنے یکسر بے بسی کی تصویر دکھائی دے رہی ہے۔ آج کل تو ڈاکو مرد، خواتین بن کر بھی مردوں کو اغوا کررہے ہیں، اور عورتوں کی آواز میں سادہ لوح مردوں کو بذریعہ موبائل فون کال کرکے اپنے ہاں کچے کے علاقوں میں بلاکر قید کرنے کے بعد مغویوں کے ورثا سے بھاری تاوان طلب کرتے ہیں، مغویوں پر بہیمانہ تشدد کی ویڈیوز بناکر اُن کے اہلِ خانہ کو بھیجتے ہیں، جس کی وجہ سے مجبور ہوکر مغویوں کے ورثا کو ڈاکوئوں کو بھاری تاوان دینا ہی پڑتا ہے خواہ اس کی خاطر انہیں اپنے مال مویشی بیچنا پڑیں، یا پھر اپنا گھر بار۔ اس قسم کے افسوس ناک واقعات بھی معمول کی زندگی کا ایک حصہ بن گئے ہیں تاہم حکومتِ سندھ اور پولیس کے ذمہ داران ان کی روک تھام کرنے کے لیے قطعی سنجیدہ نظر نہیں آتے۔ معصوم کم سن بچیوں کو بھی ملزمان اکثر اپنی درندگی کا نشانہ بنالیتے ہیں، لیکن ان کے خلاف بھی کوئی مؤثر کارروائی ہوتی نظر نہیں آرہی ہے۔ جس طرح پنجاب کی معصوم زینب کے وحشی قاتل کو تاریخی اور مثالی سزا ملی تھی، اگر اس طرح کی سزائیں ہمارے ہاں سندھ میں بھی مجرمان کو دی جائیں تو معصوم بچیوں کے ساتھ درندگی کے واقعات میں روزافزوں ہرگز اضافہ نہ ہوسکے، لیکن المیہ یہ بھی ہے کہ اگر معصوم بچیوں کے ساتھ درندگی میں ملوث ملزمان خوش قسمتی سے گرفتار ہو بھی جائیں تو مقامی وڈیرے ملزمان کی حمایت میں جرگوں کا غیر قانونی انعقاد کرکے اور متاثرہ بچی کے والدین کو جرمانے کی معمولی رقم کی ادائیگی کے بدلے ملزمان کو تحفظ فراہم کرنے میں لگ جاتے ہیں۔ ضلع شکارپور جہاں اغوا برائے تاوان کی بہ کثرت وارداتیں ہورہی ہیں اور خوں ریزی کے بے حساب واقعات بھی، وہاں چند ماہ کے اندر تین ضلعی پولیس افسران تبدیل کیے جاچکے ہیں لیکن نتیجہ صفر ہی رہا ہے۔ اغوا برائے تاوان کی وارداتوں میں ملوث ڈاکوئوں کے خلاف وفاقی اور صوبائی حکومت کی جانب سے ’’گرینڈ آپریشن‘‘ کے احکامات سندھ پولیس کو دیئے جاچکے ہیں، لیکن اس کے باوجود بجائے آپریشن یا کارروائی کرنے کے، پولیس بذریعہ ڈیل ڈاکوئوں سے مغویوں کو بازیاب کروانے میں مصروف ہے، اور اس نے چند مغویوں کو اس طرح سے بازیاب کروا بھی لیا ہے، جبکہ جس ’’گرینڈ آپریشن‘‘ کا بڑا شہرہ تھا وہ محض باتوں تک ہی محدود رہا ہے۔ شکارپور کے نئے مقرر کردہ ایس ایس پی تنویر تنیو کی تعیناتی کے بعد تیغانی ذات کے مبینہ دو ملزموں کی لاشیں میڈیا پر پیش کی گئیں اور کچھ گرفتاریاں بھی عمل میں لائی گئیں، لیکن گرفتار شدگان کو تاحال عدالت میں پیش نہیں کیا گیا ہے۔ اطلاعات ہیں کہ پولیس اس وقت بھی گڑھی تیغو کے علاقے میں ڈیرہ جمائے بیٹھی ہے اور اس نے ہر قسم کی نقل و حرکت پربھی کڑی نظر رکھی ہوئی ہے، تاہم جس ’’گرینڈ آپریشن‘‘ کا وفاقی اور سندھ حکومت کی طرف سے بڑے زور شور کے ساتھ اعلان کیا گیا تھا وہ ہنوز روبہ عمل نہیں لایا جاسکا ہے، جس کی وجہ سے عوام کے اندر بے پناہ مایوسی نے جنم لیا ہے۔ جرائم پیشہ عناصر پہلے کی طرح دندناتے پھر رہے ہیں اور ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہورہی ہے۔ ضلع کشمور کے کندھ کوٹ کے کچے کے علاقے میں سبزوئی اور چاچڑ برادری کے مابین خونیں جھگڑے کے بعد جو آگ بھڑکی ہوئی ہے اب وہ نت نئی جہات اختیار کرتی جارہی ہے۔ متحارب قبائل کی اَنا اور قبائلی عصبیت کو بھڑکانے والوں کے خلاف کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا۔ چاچڑ برادری کے 9 بے گناہ افراد مارے گئے تھے جن کے خاندان اور 53 یتیم ہونے والے معصوم بچے عالمِ بے سرو سامانی میں اپنی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ قتل میں ملوث ملزمان کو تاحال پولیس گرفتار نہیں کرسکی ہے، درآں حالیکہ وفاقی وزیر داخلہ کو اس المناک واقعے کے بعد ازخود دورہ کرکے صورتِ حال کا جائزہ لینا چاہیے تھا، اس سے مقتولین کے ورثا کی بھی ڈھارس بندھتی۔ لیکن بے حسی نے یہاں بھی اپنا کام کردکھایا ہے۔ وفاقی حکومت کی نااہلی اور بے حسی تو اپنی جگہ… حکومتِ سندھ کے ذمہ داران بھی کسی سے کم نہیں ہیں۔ چند روز قبل وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ ضلع کشمور میں اپنی پارٹی کے ایک رہنما کی والدہ کی وفات کے بعد جب بہ غرضِ تعزیت پارٹی رہنما کے گھر آئے تو ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ وہ مقتولین کے ورثا کے ہاں بھی جاتے، اُن سے تعزیت کرتے اور یہ یقین دہانی بھی کراتے کہ 9 مقتولین کے قاتلوں کو جلد ہی گرفتار کرکے کیفرِ کردار تک پہنچایا جائے گا۔ اس عمل سے یقیناً مقتولین کے ورثا کی ہمت بندھتی اور ان کو اطمینان حاصل ہوتا کہ وہ بے سہارا یا لاوارث نہیں ہیں۔ لیکن افسوس کہ یہ سب کچھ نہیں ہوسکا ہے، جس کی وجہ سے مقامی عوام کے اندر مایوسی نے جنم لیا ہے، اور حکومتِ سندھ کے ذمہ داران کی بے حسی کا تاثر مزید بڑھا ہے۔
اوپر جن اضلاع میں بدامنی کا ذکر ہوا ہے، اس کی شدت میں آئے دن اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ شہروں میں رونما ہونے والے واقعات تو پھر بھی منظرعام پر آجاتے ہیں، لیکن دیہی علاقوں میں بہ کثرت رونما ہونے والے بدامنی کے واقعات بہت کم ریکارڈ کا حصہ بنتے یا منظرعام پر آتے ہیں۔ عوام کی جان بدامنی کی وجہ سے سولی پر لٹکی ہوئی ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ بدامنی سے شدید طور پر متاثرہ اضلاع کی بھاری پولیس نفری آخر کیا کررہی ہے! پولیس کے پاس لے دے کر صرف ایک ہی مؤقف بیان کرنے کے لیے رہ گیا ہے کہ جرائم پیشہ عناصر وارداتیں کرنے کے بعد کچے کے علاقے میں فرار ہوجاتے ہیں۔ کیا کچے کا علاقہ، علاقہ غیر ہے؟ وہاں پر پولیس کیوں نہیں جاتی؟ اب تو پولیس کو یہ بھی عذرلنگ ہاتھ آگیا ہے کہ کچے کے بعض علاقوں میں دریائی پانی آگیا ہے اور یہ علاقے اب ناقابلِ رسائی ہوگئے ہیں۔ تو آخر اس سے پہلے پولیس کیا کررہی تھی؟
آج سارا سندھ دکھوں اور غموں سے معمور ہے۔ کس معاملے پر لکھا جائے اور کسے چھوڑ دیا جائے؟ سندھ حکومت کے ذمہ داران ایسے میں لایعنی بحثوں اور معاملات میں الجھے رہتے ہیں۔ سندھ میں کہیں بدامنی ہے، اور کہیں پانی کی شدید قلت درپیش ہے۔ لوگ عالمِ مایوسی میں مہنگائی اور بے روزگاری کی وجہ سے خودکشیاں کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں، جبکہ سندھ کا حکمران طبقہ اہلِ سندھ کے مسائل اور مصائب سے لاتعلق بن کر عیاشیوں میں مصروف ہے۔ سندھ کے منتخب عوامی نمائندے بھی اہلِ حلقہ کو دکھائی نہیں دیتے، اور وہ اپنے اہلِ علاقہ کے دکھوں کو فراموش کرکے غیر ذمہ داری اور بے حسی کا مظاہرہ کررہے ہیں۔ سندھ اسمبلی کے مقدس فلور پر بجائے عوامی مصائب کو پیش کرنے کے، منتخب عوامی نمائندے فضول اور غیر ضروری بحث مباحثے میں مصروف رہتے اور زوردار قہقہے لگاتے نظر آتے ہیں۔ رات کو حکومت اور اپوزیشن کے اسمبلی اراکین ایک دوسرے کی دعوتیں کرتے ہیں اور دن کو ایک دوسرے پر تنقید کرکے عوام کو بے وقوف بناتے ہیں۔ سندھ کے قبائلی جھگڑوں اور مہنگائی، بدامنی، بے روزگاری، پانی کی قلت سے دوچار عوام کے لیے آواز اٹھانے والا کوئی نہیں ہے۔ حکمران بے حس اور ڈھیٹ بن چکے ہیں۔ سندھ کے آبادگار بھی پانی کی کمی کی وجہ سے بہ طور احتجاج سڑکوں پر آگئے ہیں۔ اہلِ سندھ کے جائز مطالبات کے حل کے لیے کوئی لب کشائی کرنے تک کو تیار نہیں ہے۔ یہ رویہ اور بے اعتنائی اہلِ سندھ کے لیے ناقابل ِقبول ہے۔