پچھلا کالم ’بغض‘ کے موضوع پرتھا۔ پورے کالم میں بغض ہی نکالتے رہتے تو شاید سب کو تسکین رہتی۔ مگر ’غضب‘ کا ذکر کرنا غضب ہوگیا۔ کئی احباب کالم پڑھتے ہی غضبناک ہوگئے کہ تم نے یہ کیاغضب ڈھایا؟ غضب خدا کا، غضب کا صرف ایک ہی مفہوم بتایا۔ ارے بھائی! غضب کا مطلب صرف قہر، غصہ، غیظ، ناراضی، آفت اور مصیبت ہی نہیں، اردو میں اسے کلمۂ حیرت اور کلمۂ مبالغہ کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ بلکہ برادرِ بزرگوار خواجہ سید محمد ظفر عالم طلعت نے تو فی الفور حیرت اور مبالغہ کرکے بھی دکھا دیا۔ فرمایا:
’’بھئی واہ! تم نے کس غضب کا کالم لکھا ہے‘‘۔
حالاں کہ غضب وَضب کیا؟ ہم نے تو صرف ’موازنۂ بغض و غضب‘ کیا تھا اور بتایا تھا کہ ان دونوں الفاظ کی ولادت کیسے ہوئی۔ بس اتنے ہی میں کالم تمام ہوگیا۔ مزید بقراطی کی گنجائش نہ نکل سکی۔ چلیے خیالِ خاطرِ احباب کرکے آج کیے لیتے ہیں۔
مگر آگے چلنے سے پہلے یہ بتاتے چلیں کہ غضب کے ’غین‘ اور ’ضاد‘ دونوں پر زبر ہے۔ آپ کو نہیں بتا رہے ہیں، آپ کے توسط سے ایک اور صاحب کو بتا رہے ہیں۔ خدا کرے، بات اُن تک پہنچ جائے۔ پنجاب کے سرائیکی خطے سے تعلق رکھنے والے ایک ماہرِ ابلاغیات کو بولتے سنا کہ وہ غَضَب کے ض پر بھی جزم لگاکر اسے غَضْب بروزنِ کرب بول رہے ہیں اور غَضَبناک کو بھی ’غَضْ بَناک‘۔ ہمارے مردانِ ابلاغیات جتنی توجہ حصولِ توجہ پر دیتے ہیں اگر اس سے نصف توجہ حصولِ علم پردیا کریں تو شاید اُن کی بات لوگ زیادہ توجہ سے سنیں۔ علم پر یاد آیا کہ بڑے بڑے صاحبانِ علم اور صاحبانِ جبہ و دستار جب قرآنی آیات یا احادیث کا عربی متن پیش کرتے ہیں تو علم کا درست تلفظ ادا کرتے ہیں، مگر اردو بولنے پر اُترتے ہیں تو ’عِلَم‘ بروزنِ ’چِلَم‘ بول کر دعویٔ علم اور دعوتِ حق کو حقے کی گڑگڑاہٹ کی طرح گڑبڑا دیتے ہیں۔
فارسی اور اردو زبان کے شاعروں کو، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ، محبوب کبھی نیک سیرت، نیک چلن، رحم دل اور خوش اطوار نہیں ملا۔ جو ملا وہ دروغ گو، دھوکے باز، عیار، مکار، چالاک، وعدہ خلاف، دشمنِ جاں، ظالم، جابر، حتیٰ کہ قاتل بھی نکلا۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے شعرا نے ایسے محبوب کی ہر ادائے محبوبی کو اپنے اوپر ٹوٹنے والا غضب ہی ٹھیرایا اور اپنے آپ کو ہمیشہ مغضوب ہی بتایا۔ جیسا کہ مصحفیؔ نے شور مچایا:
گر ایک غضب ہو تو کرے کوئی گوارا
رفتار غضب ہے، تری گفتار غضب ہے
رفتار وگفتار ہی نہیں، محبوب کا حسن میں یکتا ہونا بھی غضب ہوگیا۔ لہٰذا حضرتِ داغؔ حضرتِ واعظ کوبڑے فخر سے جتاتے ہیں:
مرتے نہیں حوروں پہ تری طرح سے واعظ
ہم جس پہ ہیں عاشق وہ پری زاد غضب ہے
ظاہر ہے کہ ایسا محبوب جیسا غضب نہ ڈھائے کم ہے۔ لیکن محبوب کی آنکھیں، غضب ڈھائیں تو ان کے ہوتے ہوئے فوت ہونے کے لیے مقدر سے مدد مانگنا شاعر کی نظر میں ایک اور غضب ہوجائے گا، یعنی بالکل بے جا اور نامناسب بات ہوگی۔ بقولِ ذوقؔ:
اے شوخ تری چشمِ غضبناک کے ہوتے
ہم چاہیں قضا سے اگر امداد، غضب ہے
تو صاحبو! محبوب کا وعدہ کرنا ایک غضب، وعدہ پورا نہ کرنا ایک اور غضب، لیکن محبوب کے وعدے پر اعتبار کرلینا تو سب سے بڑا غضب ہے۔ اسے حماقت ہی کہنا مناسب ہے۔ مگر، اپنی اس حماقت کو بھی حضرتِ داغؔ غضب ہی سے تعبیر کرتے ہیں۔ کہتے ہیں:
غضب کیا ترے وعدے پہ اعتبار کیا
تمام رات قیامت کا انتظار کیا
القصہ مختصر، غضب کا لفظ بھی غضب کا ہے۔ خوشی کا اظہار کرنا ہو تو ’’واہ غضب‘‘۔ رنج و افسوس کی کیفیت ہو تو ’’ہائے غضب‘‘۔ حیرت و تعجب کا عالَم ہو تو ’’کیا غضب‘‘۔ بلکہ حضرتِ اقبالؔ تو حضرتِ یزداں میں جاکر اسی لفظ کی مدد سے حیرت و تعجب کا اظہار کر آئے:
تُو نے یہ کیا غضب کیا؟ مجھ کو بھی فاش کر دیا!
میں ہی تو ایک راز تھا سینۂ کائنات میں
اسی طرح خوف وخطر کی حالت ہو تو ’’ارے غضب‘‘ ہوگیا، غصہ چڑھ جائے پھر تو ’’غضب خدا کا‘‘،لیکن اگر تعلّی اور مبالغہ کرنا ہو تو دیکھیے ’’کس غضب کا‘‘ کرتے ہیں:
بہرِ نظّارہ چلا ہے کوچۂ قاتل کو داغؔ
کس قیامت کا کلیجہ، کس غضب کا دیدہ ہے
بس بھئی بس، جتنا غضب توڑ سکتے تھے، ہم توڑ چکے۔ اب اس غضبناک موضوع کو چھوڑ کر شروعات کرتے ہیں اگلی بات کی۔
پچھلے دنوں ہمارے ایک عزیز دوست کا لکھا ہوا ایک خاکہ شائع ہوا، جس کی ابتدا انھوں نے کچھ اس طرح کی تھی :
’’جب میں نے خاکہ لکھنے کی شروعات کی تو …‘‘
پروفیسر ڈاکٹر غازی علم الدین (میر پور، آزاد کشمیر) نے یہ خاکہ پڑھا تو ’شروعات‘ ہی پر غضبناک ہو گئے۔ فرمایا:
’’یہ بتائیے کہ لفظ ’شروعات‘ کس چیز کا نام ہے؟ بھلا ’خاکے لکھنے شروع کیے‘ یا ’خاکے لکھنے کا آغاز کیا‘ سے اظہار میں کچھ کمی یا کجی رہ جاتی ہے؟ لفظ ’شروعات‘ اپنی ساخت کے اعتبار سے جمع ہے، اور آخر میں پوری شکل میں لکھی ہوئی ’ت‘ اس لفظ کے مؤنث ہونے کو ظاہر کرتی ہے۔ تو اِس اعتبار سے تو یوں لکھنا چاہیے کہ ’جب میں نے خاکے لکھنے کی شروعات کیں تو…‘ اب آج کل لکھنے والے پتا نہیں کیوں اپنا کام شروع کرنے کی بجائے یا اپنے کام کا آغاز کرنے کی بجائے ’شروعات‘ ہی کرتے ہیں‘‘۔
ڈاکٹر صاحب ماہر لسانیات ہیں۔ اُن کے پہلے ہی فقرے سے ہم بھی اس فکر میں پڑ گئے کہ لفظ ’شروعات‘ کی شروعات کب ہوئیں؟ متداول لغات میں تو یہ لفظ ملتا ہی نہیں۔ البتہ ’فرہنگِ تلفظ‘ (مرتبہ شان الحق حقی، شائع کردہ مقتدرہ قومی زبان پاکستان) میں لفظ ’شروع‘ کے ذیل میں یہ لفظ موجود ہے، جسے اسمِ مؤنث ظاہر کرتے ہوئے اس کا مطلب ’تحریک اور سلسلہ جنبانی‘ بتایا گیا ہے۔ اردو لغت بورڈ کی (تاریخی اصول پر) مرتب کردہ اردو لغت میں ’شروعات‘ کو ایک الگ لفظ کے طور پر شامل کیا گیا ہے اور اس کا مطلب ’ابتدا اور آغازِ کار‘ بتایا گیا ہے۔ اسی لغت میں ’شروعات لانا‘ کی ایک نئی ترکیب بھی درج ہے۔ اس کامطلب بھی شروع کرنا اور آغاز کرنا لکھا ہوا ہے۔ اساتذہ کے کلام سے بھی ہمیں اس لفظ کی ’شروعات‘ نہ مل سکیں۔ ہاں جدید شاعروں اور جدید افسانہ نگاروں کے ہاں نہ جانے کب سے اس لفظ کے استعمال کی شروعات ہوچکی ہیں۔ سلیم احمد مرحوم کی زبانی سنا ہوا اُن کا یہ شعر تو ہمیں آج بھی ازبر ہے:
بانوئے شہر سے کہہ دو کہ ملاقات کرے
ورنہ ہم جنگ کریں گے وہ شروعات کرے
یہ شعر پڑھ کر ہم ہنسا کرتے ہیں۔ سلیم بھائی بھلا جنگ کیا کرتے؟ مرنجاں مرنج آدمی تھے (بلکہ ہمارے ایک دوست کی قرأت کے مطابق ’مربخاں مربخ‘ آدمی تھے)، وہ کاغذ کے سپاہی کاٹ کر لشکر بناتے تھے۔ اُن کی آنکھیں بند ہوتے ہی اُن کا لشکر بھی تتربتر ہوگیا۔ تاہم اگر اُن کا کوئی کاغذی سپاہی اب بھی کہیں دادِ صحافت دیے جا رہا ہو تو آپ جا کر سیکھ سکتے ہیں کہ جنگ کی ’شروعات‘ کیسے کرتے ہیں۔