شہید مرزا لقمان بیگ کی یادیں

جماعت اسلامی ضلع بن قاسم کے ہردلعزیز رہنما اور امیر جنھیں ظالم دہشت گردوں نے 19جولائی 1999ء کو ان کے گھر کے قریب فائرنگ کر کے شہید کردیا تھا،آج 22 سال کا طویل عرصہ گزر جانے کے باوجود ان کا ہنستا مسکراتا چہرہ آنکھوں کے سامنے موجود ہے۔ شہید مرزا لقمان بیگ کو اللہ تعالیٰ نے بڑی ہی خداداد صلاحیتوں سے نوازا تھا۔ وہ اسلامی تحریک کے سچے داعی اور کارکن تھے۔ ان کا ہاتھ لوگوں کی نبض پر ہوتا تھا اور وہ لوگوں کے دلوںکو جیتنے کا فن جانتے تھے۔ علاقے کے لوگ بھی بیگ صاحب سے اسی طرح والہانہ عقیدت اور محبت کرتے تھے۔ لوگوں کی خوشی غمی میں شریک ہونا بیگ صاحب کا معمول تھا۔ مرزا لقمان بیگ لانڈھی کے بلدیاتی حلقہ 85 سے بلدیہ عظمیٰ کراچی کے کونسلر منتخب ہوئے تھے۔ یہ وہی دور تھا جب کراچی کے حقوق کے حصول اور احتجاج کرنے کی پاداش میں اُس وقت کے وزیراعلیٰ سید غوث علی شاہ نے پوری بلدیہ کو توڑ دیا تھا۔ میئر سمیت تمام کونسلر برطرف کردیئے گئے تھے اور مرزا لقمان بیگ بھی ان ہی کونسلرز میں شامل تھے۔ لیکن مرزا لقمان بیگ کو جتنا بھی وقت میسر آیا انھوں نے اپنے حلقے کے عوام کی دن رات بلاتفریق خدمت کی، اور وہ ایک عوامی کونسلر بن کر عوام کے سامنے آئے۔ انھوں نے اپنے حلقے کی ہر گلی محلے میں ترقیاتی کام کروائے۔ اسکول، ڈسپنسری، لائبریری، پارک،کھیلوں کے میدان تعمیر کروائے گئے، حلقے کے عوام سے ذاتی روابط قائم کیے گئے۔ کسی کے گھر شادی، عقیقہ وغیرہ کی تقریب ہوتی اور انھیں دعوت دی جاتی تو وہ اس تقریب میں لازمی شریک ہوتے۔ اسی طرح وہ علاقے میں لوگوں کے جنازے، سوئم، چہلم، عرس کی تقریبات، محفل سماع میں شرکت کرتے۔ علاقے کی بریلوی مکتب فکر کی نورانی مسجد کے وہ پنج وقتہ نمازی تھے اور مسجد کے امام و نمازیوں کے ساتھ بھی ان کے وسیع تعلقات تھے۔ مرزا لقمان بیگ چھوٹے بڑے سب سے انتہائی محبت و عقیدت کے ساتھ پیش آتے۔
جماعت اسلامی ضلع بن قاسم کے پہلے امیر مولانا عبدالحئی اچانک دل کا دورہ پڑنے کے نتیجے میں رحلت فرماگئے تو ارکان کی آراء کے مطابق انھیں امیر جماعت اسلامی ضلع بن قاسم منتخب کیا گیا۔ اُس وقت ضلع بن قاسم کی حدود گھگھر پھاٹک سے شروع ہوکر قیوم آباد کورنگی میں ختم ہوتی، اور ریڑھی گوٹھ، لٹھ بستی، ابراہیم حیدری، علی اکبر شاہ گوٹھ، اراکان آباد کے علاوہ کاٹھور اور گڈاپ تک اس ضلع کی حدود تھی۔ ضلع بن قاسم کے پاس اُس وقت صرف ایک ہائی روف تھی۔ دن بھر یہ ہائی روف خواتین نظم کے استعمال میں ہوتی اور شام چار بجے کے بعد ضلعی ذمہ داران کے استعمال میں آتی تھی۔ اسی ہائی روف میں جماعت کے بزرگ، بیمار اور معذور ارکان کو کسی پروگرام، مظاہرے یا اجتماع میں شرکت کے لیے ان کے گھروں سے لے جایا جاتا تھا، اور بیگ صاحب ہمیشہ ان بزرگ ارکان کی خبر گیری کرتے تھے۔ ان میں حکیم احمد علی، مبین صاحب، جمال انصاری، ڈاکٹر قدیر، ڈاکٹر قدوس، صغیرالدین خان، یونس خان،کامو بھائی و دیگر بزرگ ارکان شامل ہوتے تھے۔ شہید مرزا لقمان بیگ ہر ماہ باقاعدگی سے ضلع کے بیت المال میں کچھ رقم پیٹرول کی مد میں یہ کہہ کر جمع کراتے تھے کہ جماعت کی گاڑی کبھی میرے گھریلو یا ذاتی استعمال میں بھی آجاتی ہے لہٰذا پیٹرول کے پیسے تو کاٹ لیے جائیں۔
شہید مرزا لقمان بیگ عشقِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سے سرشار تھے اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑی محبت اور عقیدت رکھتے تھے۔آپؐ کی سنتوں کو چلتے پھرتے زندہ کرتے تھے۔ بیگ صاحب کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ چھوٹا بڑا کوئی بھی ہو، اُس کو سلام کرنے میں پہل کیا کرتے تھے، اور ان کا ہنستا مسکراتا چہرہ لوگوں کے دل جیت لیتا تھا۔ ہمارے محلے کے دکان دار سجاد تنولی (جنھوں نے گزشتہ دنوں جماعت اسلامی میں باقاعدہ شمولیت اختیار کی ہے) بتاتے ہیں کہ میری دکان کے سامنے جب بھی بیگ صاحب کی ہائی روف گزرتی، میں انھیں سلام کرنے کی کوشش کرتا، لیکن بیگ صاحب پہلے ہی اپنا ہاتھ اپنے ماتھے کی جانب لے جاتے اور دور سے ہی ہاتھ ہلا کر میری خیریت معلوم کرتے، میری ان سے کوئی وابستگی تھی اور نہ ہی ملاقات، لیکن پھر بھی ایسے ملتے جیسے ہم ایک دوسرے کو برسوں سے جانتے ہوں۔ کمر میں درد کی وجہ سے کمپنی نے آخری دنوں میں کار دے دی تھی اور ان کی شہادت بھی اسی کار میں فائرنگ کے نتیجے میں ہوئی۔ بیگ صاحب کی ایک اور خاص عادت یہ تھی کہ وہ جب بھی کورنگی لانڈھی سے شہر کی طرف جاتے، راستے سے لوگوں کو اپنی گاڑی میں بٹھا لیتے اور ان کا حال احوال بھی معلوم کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی شہادت پر جہاں جماعت اسلامی کے کارکنان شدتِ غم سے پھوٹ پھوٹ کر رو رہے تھے وہیں کورنگی لانڈھی کی خلقت بھی غم میں ڈوبی ہوئی تھی۔
شہید مرزا لقمان بیگ اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھے، ان کے والدین نے انھیں بڑے نازونعم سے پالا تھا۔ ان کے والد عثمان بیگ کا علاقے میں بڑا راشن شاپ عثمان راشن شاپ کے نام سے تھا، اور شروع ہی سے ان کے گھر میں خوشحالی تھی۔ بیگ صاحب نے مجھے خود بتایا کہ جماعت میں آنے سے قبل میں اپنے علاقے کا بگڑا ہوا اور انتہائی شرارتی قسم کا بچہ تھا۔ ایک سے ایک نئی گالی ایجاد کرنا میرا مشغلہ تھا لیکن جماعت کی قربت نے مجھے ان تمام خرافات سے بچا لیا ہے۔
شہید مرزا لقمان بیگ کے تین صاحبزادے ہیں۔ سب سے بڑے مرزا نعمان بیگ جو کہ اس وقت علاقہ لانڈھی شرقی کے ناظم ہیں۔ دوسرے صاحبزادے مرزا فرحان بیگ، جو کہ ضلع بن قاسم کے سیکریٹری ہیں، نائب امیر ضلع کی ذمہ داریاں بھی ادا کرچکے ہیں اور اس وقت ہلال اسکول اور گرین کریسنٹ میں ڈائریکٹر کے عہدے پر بھی کام کررہے ہیں۔ تیسرے سب سے چھوٹے صاحبزادے مرزا ثوبان بیگ ہیں جو کہ ماشاء اللہ شہر کی اہم سیلبرٹی بن چکے ہیں۔ فنِ تقریر میں ان کا کوئی ثانی نہیں ہے۔ جماعت اور نوجوانوں کی تنظیموں کے پروگرامات میں ان کی کمپیئرنگ کو پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ مرزا لقمان بیگ کی شہادت کے وقت اُن کی والدہ حیات تھیں اور وہ اپنے اکلوتے بیٹے سے بے انتہا محبت کرتی تھیں، لقمان بیگ صاحب بھی اپنی والدہ سے والہانہ محبت کرتے تھے۔ بیگ صاحب کی شہادت کے دو تین سال کے بعد ان کا بھی انتقال ہوگیا تھا، لیکن جتنا عرصہ وہ حیات رہیں اپنے فرماں بردار بیٹے کو یاد کرتی رہتی تھیں۔ بیگ صاحب کی شہادت کا ایک اور اہم واقعہ بتانا بہت ضروری ہے کہ شہادت کے بعد بیگ صاحب کی میت کوغسل دیا گیا اور جسم پر موجود خون آلود کپڑوں کو ایک تھیلی میں رکھ دیا گیا۔ ایک ڈیڑھ ہفتے کے بعد گھر سے مہمان وغیرہ چلے گئے اور گھر کی صفائی کی گئی تو دیکھا کہ ایک کونے میں ایک تھیلی رکھی ہوئی ہے، جب اس تھیلی کو کھولا گیا تو اس میں بیگ صاحب کے خون آلود کپڑے تھے، اور ان کپڑوں سے خوشبو کی ایک مہک اٹھی جو پورے گھر میں پھیل گئی۔ بیگ صاحب کی اہلیہ کہتی ہیں کہ مجھے اس لمحے پختہ یقین ہوگیا کہ میرا شوہر اچھی جگہ پہنچ چکا ہے اور مجھے اس واقعہ سے صبر آگیا۔ محلے کی ایک معروف سماجی شخصیت اعجاز نقشبندی جو کہ ہمارے بھی قریبی دوست ہیں اور جے یوپی کے مقامی ذمہ دار ہیں، کہتے ہیں کہ لقمان بیگ صاحب کی کار پر جب فائرنگ ہوئی تو سب سے پہلے میں جائے وقوعہ پر پہنچا، میں نے دیکھا کہ بیگ صاحب نے اپنا ایک ہاتھ کار سے باہر نکالا ہوا ہے اور وہ آوازیں دے رہے تھے، ہم فوراً بیگ صاحب کو کورنگی نمبر پانچ ہسپتال کی جانب لے جانے لگے تو بیگ صاحب نے منع کیا اور کہا کہ کورنگی پانچ ہسپتال نہیں، آغاخان ہسپتال چلو۔ ہم نے گاڑی آغا خان ہسپتال کی جانب موڑ دی۔ بیگ صاحب پورے راستے کلمہ طیبہ اور کلمہ شہادت کا ورد کررہے تھے۔ ہم نے بیگ صاحب سے پوچھا کہ آپ فائرنگ کرنے والے افراد کو جانتے ہیں؟ تو انہوں نے سر ہلایا لیکن نام نہیں بتایا۔ بیگ صاحب کے جسم سے خون تیزی کے ساتھ بہہ رہا تھا۔ اچانک بیگ صاحب نے ہم سے کہا کہ ’’اگر مجھے کچھ ہوجائے تو حالات کو سنبھال لینا اور کو ئی ہنگامہ آرائی نہ ہونے پائے‘‘۔ آغا خان ہسپتال پہنچنے پر ڈاکٹروں نے آگاہ کیا کہ بیگ صاحب اللہ کے حضور پیش ہوگئے ہیں۔ اعجاز نقشبدی کہتے ہیں کہ لقمان بھائی درویش صفت انسان تھے، ایسی شخصیات روز روز پیدا نہیں ہوتیں۔ مرزا لقمان بیگ جے یوپی میں ہوتے تو ہم تو ان کا مزار بناتے۔ مرزا لقمان بیگ نے اپنے عمل اور کردار کے ذریعے لوگوں کے دلوں کو جیتا تھا۔ ان کے حلقے اور اطراف میں محمد شاہد، یونس خان، جمال طاہر، اطہر پاشا، طارق مسعود، عبداللہ صدیقی، شکیل پاشا، ناصر انصاری، دراز خان، جمیل قریشی رہائش پذیر تھے جو کہ لقمان بیگ صاحب سے بڑی ہی محبت اور عقیدت رکھتے تھے۔ اسی طرح پورے ضلع میں ڈاکٹر قدیر، سید عبدالرحیم، شہید محمد اسلم مجاہد، عبدالسلام، عبدالمجید چھالیہ والے، محسن غوری، حکیم شہاب الدین، عبدالجمیل خان، عاشق علی خان، اجمل وحید خان، سجاد حسین شاہ، عبدالخالق، مرتضیٰ غوری، نصیراحمد خان، عبدالستار شیخ، حسیب احمد خان، بابا غلام ربانی، مولانا خلیل الرحمان، نورحسین اراکانی، محمد اسلم شیخ، شکیل احمد، منہاج الدین، عارف رحمان، مولانا سلطان، محمد نواز خان، منصوراحمد، ڈاکٹر شبیہ الحسن، مولانا محمد صالح، مولانا عبدالمالک، مختار الحسن گوہر، قاری منصور احمد، ارشد شاہین اور سینکڑوں ذمہ داران وکارکنان سے وہ بڑی ہی محبت اور عقیدت رکھتے تھے۔ شہید مرزا لقمان بیگ کو ریڑھی گوٹھ قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔ اہلِ خانہ ودیگر احباب قبرستان جاتے رہتے تھے، اچانک دو ماہ کے بعد جب گھر والے بیگ صاحب کی قبر پر پہنچے تو دیکھتے ہیں کہ ان کی قبر کو کسی نے پختہ کراکے اس پر ٹائل اور کتبہ بھی لگا دیا ہے۔ کئی ماہ تک سب یہ بات معلوم کرتے رہے کہ یہ قبر کس نے بنوائی ہے؟ اچانک معلوم ہوا کہ بیگ صاحب کی قبرکے قریب ایک اور قبر غواث کے نام سے موجود ہے اور اس پر ویسا ہی ٹائل اور کتبہ لگا ہوا ہے۔ بعد میں معلوم چلا کہ یہ بیگ صاحب کے جاننے والے تھے۔ ملاقات پر بتایا کہ بیگ صاحب سے میری گہری وابستگی تھی۔ مجھے اپنے والد کی قبر بنوانی تھی۔ قریب ہی بیگ صاحب کی بھی قبر تھی، تو میں نے دونوں ہی کی قبر بنانے کا آرڈر دے دیا۔ بیگ صاحب نے جس طرح علاقے کے عوام کی خدمت کی ہے ہمارا بھی فرض بنتا ہے کہ ہم ان کے لیے کچھ کریں۔
بیگ صاحب کی مقامی و قومی سیاست پر بڑی گہری نظر ہوتی تھی۔ ایک مرتبہ کراچی ودیگر مسائل پر نائب امیر جماعت اسلامی پاکستان لیاقت بلوچ، اسد اللہ بھٹو، شہید محمد اسلم مجاہد، شہید مرزا لقمان بیگ اور راقم الحروف نے اُس وقت کے آئی جی رانا مقبول سے ان کے دفتر میں ملاقات کی۔ ملاقات کے دوران جامعہ ملیہ کالج کے گرفتار طلبہ کے مسئلے کے ساتھ مرزا لقمان بیگ نے انتہائی تفصیل کے ساتھ حیدرآباد میں چند شرپسند عناصر اور قبضہ گروپوں کی شکایت بیان کی تو لیاقت بلوچ اور آئی جی سندھ بھی بیگ صاحب کی معلومات اور حافظے سے شدید متاثر ہوئے اور حیدرآباد میں بیگ صاحب کی خالہ سمیت دیگر لوگوں کے گھروں سے لینڈ مافیا کے قبضے ختم کرائے گئے تھے۔ مرزا لقمان بیگ کو شہید کرکے دہشت گردوں نے لانڈھی کورنگی کے عوام کو ان کے سچے مسیحا سے محروم کردیا۔ آج 22 سال کا طویل عرصہ گزر جانے کے باوجود شہید مرزا لقمان بیگ لوگوں کے دلوں میں زندہ ہیں اور لوگ ان کی خدمات اور کارناموں کو یاد کرتے ہیں۔ ان کے تینوں بیٹے اور پورا گھرانہ بیگ صاحب کے مشن پر عمل پیرا ہے۔ مرزا لقمان بیگ کی شہادت کے بعد اللہ تعالیٰ نے جماعت اسلامی کو بہت نوازا۔ کورنگی ٹائون، لانڈھی ٹائون میں الخدمت کو نظامت حاصل ہوئی، اور بن قاسم ٹائون میں الخدمت کا حمایت یافتہ گروپ کامیاب ہوا۔ اس کے علاوہ پورے شہر میں نعمت اللہ خان کی سربراہی میں شہری حکومت قائم ہوئی۔ مرزا لقمان بیگ جیسے شریف النفس انسان کو دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنانے والے دنیا وآخرت میں ذلیل و رسوا ہوں گے۔ شہید مرزا لقمان بیگ کا مشن قیامت تک جاری رہے گا اور اس ملک میں اسلامی انقلاب ضرور برپا ہوگا۔ پاکستان اسلامی تحریکوں کا محور ومرکز بنے گا اور اس ملک میں قرآن وسنت کا نظام عملی طور پر نافذ ہوگا۔
باریابی جو تمھاری ہو حضور مالک کہنا ساتھی مرے سوختہ جاں اور بھی ہیں اپنے رِستے ہوئے زخموں کو دکھا کر کہنا ایسے تمغوں کے طلب گار اور بھی ہیں