وزیراعظم پاکستان عمران خان نے 5جولائی کو بلوچستان کے ساحلی شہر گوادر کا دورہ کیا۔ انہوں نے ناراض بلوچوں سے مذاکرات پر غور کی اہم بات کہی۔ صوبے میں بالخصوص وزیراعظم کے ارادے کو تحسین کی نگاہ سے دیکھا گیا ہے۔ یقیناً ماضی میں پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی حکومتوں کو اس سلسلے میں خاطر خواہ کامیابی نہیں مل سکی ہے۔ پیپلز پارٹی کی حکومت میں بارہا کمیٹیاں تشکیل دی گئیں، جو بلوچستان کے وزیراعلیٰ ہائوس سے آگے نہ بڑھ سکیں۔ پیپلز پارٹی کی حکومت نے بعض اقدامات ضرور کیے، مثلاً 2009ء میں پارلیمنٹ سے ’’آغاز حقوقِ بلوچستان پیکیج‘‘ کی منظوری لی، جس کے تحت نئی چھائونیوں کی تعمیر پر پابندی، سوئی سے فوج واپس بلانے، لاپتا افراد کی تلاش کے لیے عدالتی کمیشن، فرنٹیئر کور اور کوسٹ گارڈز وزیراعلیٰ کے ماتحت کرنے، نواب اکبر بگٹی کے قتل کی تحقیقات کے لیے کمیشن قائم کرنے، ڈیرہ بگٹی کے بے گھر افراد کی بحالی کے لیے ایک ارب روپے فراہم کرنے، اور سنگین جرائم میں ملوث افراد کے سوا تمام سیاسی کارکنوں کو رہا اور جلا وطن رہنماؤں کی واپسی کی سفارشات اور تجاویز دی گئیں۔ پانچ ہزار نئی اسامیاں پیدا کی گئیں۔ گیس ڈویلپمنٹ سرچارج کی مد میں بلوچستان کو 120 ارب روپے دیے گئے۔ جبکہ بلوچستان کے ذمے اوور ڈرافٹ کے ساڑھے 17 ارب روپے معاف کردیے گئے۔ آئین کے اندر اٹھارہویں ترمیم کے ذریعے صوبائی خودمختاری کا دیرینہ مطالبہ پورا کیا گیا، جس سے سبھی جماعتیں متفق ہیں۔ این ایف سی ایوارڈ پیپلز پارٹی کا امتیاز ہے، جس میں بلوچستان کا حصہ بڑھایا گیا۔ مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے بھی چند غیر مؤثراقدامات کیے، جیسے 2015ء میں ’’پُرامن بلوچستان مفاہمتی پیکیج‘‘ کا اعلان ہوا، جس کے تحت ہتھیار ڈالنے والے عسکریت پسندوں کو عام معافی اور کچھ رقم دی گئی۔
نواز لیگ کے دورِ حکومت میں بلوچستان کے اندر نیشنل پارٹی، مسلم لیگ (ن) اور پشتون خوا ملّی عوامی پارٹی پر مشتمل مخلوط حکومت تھی۔ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ وزیراعلیٰ تھے۔ ڈاکٹر عبدالمالک کی اپنی بھی خواہش تھی کہ وہ اس ضمن میں ملاقاتیں کریں اور بیرونِ ملک مقیم بلوچ رہنمائوں کو وطن واپسی پر قائل کریں۔ ممکن ہے ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کو فوجی اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے بھی اشارہ ملا ہو، البتہ وفاقی حکومت کے ساتھ صوبے کی حکومت کی ہم آہنگی تھی۔ چناں چہ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ حکومتی وفد لے کر لندن گئے، ان کے ہمراہ نیشنل پارٹی سے تعلق رکھنے والے صوبائی وزیر نواب شاہوانی، رکن قومی اسمبلی سردار کمال خان بنگلزئی، نیشنل پارٹی کے اُس وقت کے صوبائی وزیر خزانہ میر خالد لانگو اور پارٹی سے تعلق رکھنے والے سینیٹر میر کبیر احمد محمد شہی بھی تھے۔ یہ وفد خان قلات سلیمان دائود سے ملاقات کے بعد نواب اکبر خان بگٹی کے پوتے نواب زادہ براہمداغ بگٹی سے بھی ملا۔ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ بہت پُرامید تھے۔ اُن دنوں حکومت میں شامل نواز لیگ ان کی سوتن بنی ہوئی تھی جس کی قیادت نواب ثناء اللہ زہری کررہے تھے۔ وہ اسمبلی میں پارلیمانی لیڈر تھے، اُن کی اور پارٹی میں شامل ایک دو افراد کی خواہش تھی کہ ڈاکٹر عبدالمالک اس ذیل میں سرخرو ہوکر بڑے کریڈٹ کے حامل نہ بنیں۔ نواب ثناء اللہ زہری الگ سے خان قلات سے ملاقات کے لیے لندن گئے۔ اس طرح معاملہ گویا بے ربط بن گیا۔ ڈاکٹر عبدالمالک یہاں تک کہہ چکے ہیں کہ جلا وطن رہنمائوں کے مطالبات ایسے تھے کہ صوبے کی حکومت حل کرسکتی تھی۔
وزیراعظم عمران خان کی مذاکرات کی خواہش کے بعد صوبائی حکومت کی صفوں سے ایسی باتیں بھی نکل آئیں کہ بھارت کے ساتھ مل کر دہشت گردی کرنے والوں سے بات نہیں ہوگی۔ اگر پالیسی یہ ہے تو اس کا مطلب ہے کہ حکومت فی الواقع سنجیدہ نہیں ہے۔ ظاہر ہے کہ بلوچستان کی گڑبڑ میں بالواسطہ بھارت اور کابل کی حکومتیں شریک ہیں، لہٰذا حکومت اور اداروں کی پالیسی اور حکمت عملی اپنے لوگوں کو ان ممالک کے ہاتھوں مزید استعمال نہ ہونے دینے کی ہونی چاہیے۔ افغان طالبان اپنے مخالفین اور سفاک کمانڈروں کو بھی بڑی کشادہ دلی سے معاف کررہے ہیں تاکہ ملک کے اندر مزید خون خرابہ نہ ہو۔ پاکستان کی حکومت کو بھی یہی روش اپنانی چاہیے۔ سردست خان قلات سلیمان دائود اور براہمداغ بگٹی سے معاملہ قدرے آسانی سے آگے بڑھنے کا امکان ہے۔ نواب زادہ شاہ زین بگٹی وزیراعظم کے معاون خصوصی بنائے گئے ہیں، وہ براہمداغ بگٹی کے ساتھ رابطے میں ہیں، بلکہ شنید ہے کہ حکومت کی جانب سے رابطوں کا آغاز ماہِ اپریل ہی میں ہوچکا ہے۔ تاہم اس تناظر میں کم از کم ڈیرہ بگٹی کے اندر ہوش مندی کی ضرورت ہے۔ وہاں قبائلی رنجشیں موجود ہیں، اس لیے بہتر ماحول یقینی بنانے کی ضرورت ہے۔ سینیٹر سرفراز بگٹی اس جانب توجہ دلا چکے ہیں۔ نواب خیر بخش مری کے بیٹے حیربیار مری اور زامران مری سے بھی رابطہ مشکل نہیں ہے۔ حتیٰ کہ اتمام حجت کے لیے بلوچ لبریشن فرنٹ کے سربراہ ڈاکٹر اللہ نذر اور بلوچ لبریشن آرمی کے سربراہ بشیر زیب سے بھی رجوع ہونا چاہیے، بلکہ مفاہمت کا آغاز صوبے کے پہاڑوں میں موجود کمانڈروں اور جنگجوئوں سے ہو۔ سردار اختر مینگل کے بھائی جاوید مینگل کی جلا وطنی سمجھ سے بالاتر ہے۔ ان کی مسلح تنظیم لشکرِ بلوچستان ویسے بھی برائے نام ہے۔ بلوچ علیحدگی پسند اپنی سوچ میں مزید تبدیلی لائیں۔ افغانستان کے اندر سیاسی حالات تیزی سے بدل رہے ہیں۔ مستقبل قریب کی کابل حکومت سابقہ پالیسیاں ترک کردے گی۔ بلوچ علیحدگی و عسکریت پسندوں کے لیے وہاں کی فضا موافق نہیں رہی۔ حکومتِ پاکستان اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لیے بھی یہ بہتر موقع ہے۔ دوسری صورت میں بلوچستان کا امن و امان متاثر رہے گا۔
عالم یہ ہے کہ پچھلے دو ماہ میں سیکورٹی فورسز پر درجن سے زائد حملے ہوچکے ہیں جن میں 40کے لگ بھگ ایف سی اہلکار جاں بحق ہوئے۔ نجی موبائل کمپنی کے ٹاور پر کام کرنے والے تین مقامی افراد اس وقت بھی حیربیار مری کی بی ایل اے کی تحویل میں ہیں، جن کی رہائی کے لیے گروہ نے اقوام متحدہ کی ضمانت کی شرط رکھی ہے۔ (باقی صفحہ 41پر)
وفاقی حکومت نے گورنر بلوچستان کے تقرر میں سیاسی ناپختگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ سابق گورنر جسٹس (ر) امان اللہ یاسین زئی کو منصب پر رہنے دیا جاتا۔ اگر آئندہ کچھ وقت میں خان قلات سے بات چیت نتیجہ خیز ہوتی تو اُنہیں صوبے کا گورنر مقرر کیا جاتا۔ بلوچستان ایک مشکل اور حساس صوبہ ہے، سلیمان دائود کی تقرری سے صوبے کے سیاسی حالات پر دوررس اثرات مرتب ہوں گے۔ ظہور آغا تحریک انصاف کو عزیز ضرور ہوں گے، مگر وہ اس بڑے عہدے کے لیے قطعی موزوں نہیں ہیں۔ حیرت ہے کہ وزیراعظم نے قومی اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کے کہنے پر ایک عام شخص کو اتنے بڑے منصب پر بٹھادیا! دیکھا جائے تو خود قاسم سوری بھی سیاسی قد کاٹھ کے حامل نہیں ہیں۔ قاسم سوری کی اسمبلی رکنیت کی بحالی عدالت کے اسٹے آرڈر کی مرہونِ منت ہے۔ شفافیت ہو تو قاسم سوری کو شاید ان کی کمیونٹی یعنی شہر کے آبادکار بالخصوص پنجابی عوام بھی ووٹ نہ دیں۔
غرض بلوچستان کے ساتھ معاملہ انصاف، اسلام و قانون والا روا رکھا جائے۔ نو آبادیاتی طرز کے رویّے، شدت پسندی، عدم اعتماد کی فضا سماجی و معاشرتی دوریوں کو دوام بخشے گی۔