حج کے لفظی معنیٰ زیارت اور ارادہ کے ہیں اور وہ عبادت بھی مراد ہے جس کی ادائیگی کا وقت ہر سال آئے۔ حج۔ ارکان اسلام کا آخری اور اہم ترین رکن ہے، جس کی ادائیگی ہر صاحب ایمان پر جسے صحت اور زاد سفر کی نعمت میسر ہو، زندگی میں ایک بار فرض ہے۔ اگر ہم فلسفہ ارکان اسلام پر غور کریں تو یہ امر بڑی وضاحت کے ساتھ ہمارے سامنے آتا ہے کہ شہادت توحید و رسالت، ادائیگی نماز و زکوٰۃ اور صوم رمضان دراصل حج بیت اللہ کی جانب سفر اور اس فرض کی ادائیگی کی مسلسل ٹریننگ اور ترغیب کا عمل ہیں۔ اس اعتبار سے حج تمام عبادات کی جامع ہے۔ اس میں قدم قدم پر توحید و رسالت کے اقرار و اعلان، اللہ کی کبریائی کا اعتراف۔ نماز کے تمام مراحل جسم، جگہ اور سوچ کی پاکیزگی، جماعت کا التزام، اوقات مقررہ کا خیال اور ایک ہی صف میں کھڑے ہوکر ایک امام و قائد کی آواز و پکار پر حرکت کے ذریعے بے مثال ڈسپلن اور اطاعت امر کا عملی اظہار ہے۔
زکوٰۃ ایک مالی عبادت ہے۔ حج میں کثیر رقم خرچ کرکے منزل مقصود تک پہنچا جاتا ہے۔ روزہ انسان کو بھوک پیاس میں مبتلا رکھ کر جسمانی مشقتوں سے دوچار کرتا ہے۔ سفر حج کی صعوبتوں اور پردیس میں ہر قسم کے آرام و راحت سے محرومی اور کھانے پینے کے مسائل سے دوچاری انسان کو روزے کی طرح جسمانی مشقتوں کا شکار کرتا ہے۔ یہ ساری عبادات انسان کو تطہیر فکر و عمل اور تزکیہ نفس سے مالا مال کرکے روحانی ترقی اور عظمت سے دوچار کرتی ہیں۔ حج کے ایک فرض کی ادائیگی میں یہ تمام مقاصد اپنے انتہائی بلند درجات کے ساتھ بندۂ مومن کو حاصل ہوتے ہیں۔ اس اعتبار سے حج مالی، بدنی، روحانی تمام عبادات کا مجموعہ، بلکہ ان فوائد کے حصول کی سب سے بڑی مؤثر اور دیرپا اثر رکھنے والی عبادت ہے۔
اسی لئے آنحضورؐ نے ارشاد فرمایا کہ وہ شخص جو خالصتاً اللہ کی رضا جوئی کے لئے حج کرے۔ اس دوران نہ تو کوئی بے ہودہ بات کرے یا عمل اس سے سرزد ہو، اور نہ ہی اپنے رب کی نافرمانی کا کام کرے، ادائیگی حج کے بعد وہ یوں واپس لوٹے گا جیسے کہ اسے اس کی ماں نے جنا ہو۔ رسول اللہؐ سے استفسار کیا گیا کہ کونسا عمل افضل ہے؟ تو آپؐ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ و رسولؐ پر ایمان اور جہاد کے بعد حج کو سب سے زیادہ فضیلت حاصل ہے۔ اسی لئے ہر صاحب استطاعت مسلمان پر زندگی میں کم از کم ایک بار اس فریضہ کی ادائیگی لازم ہے۔
اگر حج۔ اپنی حقیقی روح اور اللہ و رسولؐ کے احکامات کے عین مطابق ادا کیا جائے، اور اس کی ادائیگی محض اللہ کی رضا کی خاطر ہو تو، اس عبادت کے بے پناہ اجر وثواب کے ساتھ بے شمار انفرادی، اجتماعی، قومی و ملی، معاشرتی و معاشی، تہذیبی و تمدنی، جسمانی و روحانی، دینی و دنیاوی فوائد حاصل ہوتے ہیں۔ حج میں ادا کئے جانے والے مناسک ان تمام فوائد کا احاطہ کئے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ لاکھوں انسانوں کا ایک ہی لباس ان کے درمیان بے شمار امتیازات کا خاتمہ کرکے ایک رنگی عطا کرتا ہے۔ میقات کا لحاظ حدود اللہ کی پابندی کا احساس دلاتا ہے۔ زبانوں پر ایک ہی نغمہ لبیک اللھم لبیک۔ ایک خدا کی عظمت و طاقت، قوت و سطوت، جلال و جبروت، توحید، خالقیت، مالکیت اور معبودیت کا اظہار بنتا ہے۔ جمرات کو کنکری مارنا، اللہ ککے دشمن شیطان سے بھرپور نفرت کا اظہار اور بیزاری کی علامت بن کر اس سے دشمنی کا رویہ اپنانے کی ترغیب دیتا ہے۔ قربانی کا عمل اپنی ہر قیمتی متاع کو اللہ کی رضا، اس کے اشارے اور اس کے حکم کی تعمیل میں قربان کردینے کا عملی اظہار بن کر زندگی بھر اس جذبے سے سرشاری پیدا کرتا ہے۔ ایک میدان میں کھلے آسمان تلے وقوف۔ شب و روز گزاری۔ ایک منزل کی جانب سفر، ایک امام کی اقتدا، مرکزیت و وحدت کا بے مثال نمونہ بنتا ہے۔ حج کے آخر میں سر کے بالوں کو منڈوانا۔ اس امر کا اعلان ہوتا ہے کہ اللہ کے گھر کا مہمان۔ حاجی اب واپسی سے پہلے اپنے ہر گناہ کا بوجھ، معصیت کا ہر داغ، نافرمانی کا ہر شائبہ سر کے بالوں کی طرح اتار پھینک کر یہ عزم باندھتا ہے کہ وہ زندگی جو باقی رہ گئی ہے، اس میں کبھی اس آلائش سے اپنے دامن کو داغدار بنیں کرے گا۔
حج دیرپا اثرات کی حامل عبادت ہے۔ حج کے آغاز سے پہلے ہی ہر مومن جو صاحب استطاعت ہو یا مادی ذرائع سے محروم، ذہنی و عملی طور پر اس کی تیاری میں لگا رہتا ہے۔ زاد سفر اکٹھا کرنا، سفر کی تیاری، تمام مراحل اور رخصت کے وقت تمام عزیزوں، دوستوں سے اپنی کوتاہیوں، زیادتیوں اور رنجشوں پر معافی کی درخواست نہ صرف حج کا ارادہ کرنے والے بلکہ اس کے تمام لواحقین، اہل علاقہ، اہل محلہ سب میں وارفتگی، محبت، ذوق و شوق اور تقدس و احترام کا بے مثال جذبہ پیدا کرتا ہے اور حج سے واپسی کے بعد حاجی کا استقبال اسی محبت کا اظہار بنتا ہے۔ حج سے کئی ماہ پہلے شوق بھڑکتا اور حج کے کئی ماہ بعد تک یہ آگ جلتی رہتی ہے، اور حاجی حرم پاک کے سائے، اس کی گلیوں اور حج کے مناظر میں کھویا اور عملاً خود کو گناہوں سے محفوظ رکھتا ہے۔
حج۔ حاجی کے جسم و جان اور روح و قلب، ذہن و فکر پر گہرے اثرات مرتب کرتا ہے۔ یہ حج اسے ہمہ وقت اس احساس میں مبتلا رکھتا ہے کہ اب وہ کوئی عام مسلمان نہیں، بلکہ ایسا مسلمان ہے جس نے بارگاہ الٰہی میں، اللہ کے گھر بیت اللہ میں، اس کا غلاف تھام کر، حجر اسود کو بوسہ دے کر اور شیطان کو کنکریاں مار کر خود کو کامل بندگی رب میں دے دینے کا پختہ عہد کیا ہے۔ اس کے گواہ دنیا والے بھی ہیں، اور خود رب کعبہ بھی۔ لہٰذا اسے کوئی ایسا عمل نہیں کرنا جو اسے خود اپنے ضمیر، اپنے رب اور اپنے معاشرے میں بدنام کردے۔
حج۔ بے شمار قومی و ملی فوائد کا سبب بھی بنتا ہے۔ وحدت امت، اہل ایمان کی عظمت، باہمی رابطہ، وحدت عمل، ایک دوسرے کی تہذیب و ثقافت سے آگاہی، ایک دوسرے کے مسائل کا ادراک و شعور، ایک دوسرے کے ساتھ ہمدردی کا جذبہ، اسلامی اخوت کی ترویج، مساوات انسانی کا لازوال مظاہرہ۔ حج کے عملی فوائد ہیں۔
حج کے موقع پر دنیا بھر کے لاکھوں مسلمانوں کے درمیان رابطے بڑھتے، وطنیت، قومیت اور علاقائیت کے تعصبات ختم ہوتے ہیں۔ ایک ہی خدا کی خدائی کا اقرار و اعلان، ایک ہی مرکز پر اجتماع، ایک ہی ملت کا تصور، ایک ہی تہذیب کی جھلک، ایک ہی زبان کی ترویج کے فوائد بھی حاصل ہوتے ہیں۔
حج بتان رنگ و خون کو توڑ کر ایک ہی ملت میں گم ہوجانے کا نام ہے، حج محمود و ایاز کے ایک ہی صف میں کھڑے ہونے کا اعلان ہے۔ حج ابراہیم علیہ السلام کی قبولیت دعا کا نشان ہے کہ دنیا بھر کے لوگ اس کی طرف کھنچے چلے آئیں اور بے شمار روحانی فوائد کے ساتھ معاشرتی و معاشی فوائد بھی دامن میں سمیٹ کر واپس جائیں۔
حج اسلامی تاریخ کے لازوال نقوش کی تجدید ہے کہ جس میں ملت ابراہیمی کی بنا پڑی، دنیا کے بت کدوں میں پہلا گھر خدا کا تعمیر ہوا، جس میں وادیٔ غیر ذی ذرع میں نعمتوں اور برکتوں کے پھول کھلے، جس میں ایک باپ نے اپنی متاع عزیز، اولاد اپنے مالک کے اشارے پر اس کی راہ میں قربان کردی، ایک بیٹے نے آداب فرزندی کا لازوال مظاہرہ کرتے ہوئے باپ کے حکم اور مالک کی رضا کے سامنے سر تسلیم خم کردیا۔ وہ تاریخ جس کے نقوش میں سرور کائناتؐ کی حیات طیبہ کا ہر نقش نیرو تاباں ہے، امت کے لئے اسوۂ کامل اور راہ ہدایت، باعث مغفرت و نجات ہے۔
حج عبدیت کا اظہار بھی ہے اور عقیدت کا مظاہرہ بھی۔ حج تاریخ کا سفر ہے، جس میں ہر مسلمان اپنے فکر و عمل اور جسم و جان اور روح کے ساتھ خود کو شریک پاتا ہے۔ تاریخ کے اس سفر میں نمایاں کرداروں کی زندگیوں کو اپنانے کا عہد کرتا ہے اور ان کی طرح اپنے رب سے باندھے ہوئے عہد کو نبھانے کا عملی آغاز کرتا ہے۔
حج۔ فرد کی زندگی میں ہی تبدیلی پیدا نہیں کرتا، عالم اسلام کی بیداری، گہما گہمی، عالمی امن و مساوات کی بھرپور کوشش ثابت ہوکر بھولی بھٹکی انسانیت کو دامن اسلام میں پناہ لے کر روح و قلب و نظر اور جسم و جان کے سکون و اطمینان اور نجات اخروی و دنیاوی کا لازوال اور برحق پیغام پہنچاتا ہے۔