(دوسرا اور آخری حصہ)
خودکفالت و خودانحصاری بھی ترکی کی موجودہ حکومت کی اوّلین ترجیحات میں شامل ہے۔ ترکی میں حتی الامکان غیر ملکی مصنوعات کی درآمد سے احتراز کیا جاتا ہے۔ ڈیری اور پھلوں کی صنعت، فارمنگ اور ایگریکلچر کے خام مال، ان کی افزائش، تحفظ و ترسیل اور استعمال کے جدید نظام نے خوراک و زراعت اور دیگر ضروریات میں ترک قوم کو خودکفیل کردیا ہے۔ چمڑا، کاسمیٹکس، ملبوسات اور دیگر تمام صنعتیں ترکی کی شہرت اور خودکفالت کے اہم سنگِ میل ہیں۔ ترکی کے بازاروں، دکانوں، شاپنگ مالز اور فائیو اسٹار ہوٹلوں میں ترکی مصنوعات ہی استعمال کی جاتی ہیں، پورے احساسِ تفاخر کے ساتھ۔
ترکی سے دلچسپی رکھنے والوں کے لیے یہ خبریں بھی باعث ِ مسرت ہوں گی کہ وہ استنبول کے ساحلوں سے تیس کلومیٹر کے لگ بھگ طویل سرنگ زیرِسمندر تعمیر کرنے جارہا ہے، اور آبنائے باسفورس کو عبور کرنے کے لیے تیسرا بڑا جدید ترین پل بھی… اور یہ کہ اس نے ڈرائیور اور فیول کے بغیر بڑی بسیں بھی تیار کرلی ہیں جو بجلی سے چلیں گی، اور امریکہ سمیت دنیا کی ایک اور بڑی طاقت نے ان خودکار برقی بسوں کی خرید کا آرڈر بھی دے دیا ہے۔ تازہ خبر یہ بھی ہے کہ ترکی نے دنیا کا جدید ترین ڈرون بھی تیار کرلیا ہے جو اپنی کارکردگی میں امریکی ڈرونز سے کہیں آگے ہے۔ ترکی کے معاشی محاذ پر اپنے لیرا کی قیمت میں اضافہ، امریکی ڈالر یا یورپی یورو سے جان چھڑانے کے منصوبے اگر چہ کچھ واضح اور موثر شکل اختیار نہیں کرسکے، تاہم یہ ترک حکمرانوںکے اہداف میں اہم جزو کے طور پر نہ صرف شامل ہیں، بلکہ اس جانب ہرآن قدم بڑھتے ہی محسوس ہوتے ہیں۔ بلاشبہ وہ دن دور نہیں جب یورپی یونین کا دھتکارا ہوا، یورپ کے مردِ بیمار کا طعنہ سننے والا ترکی اپنے قدموں پر اس طرح کھڑا ہوگا کہ اس سے یورپی یونین میں شمولیت کی ہاتھ باندھ کر درخواست کی جائے گی۔
موجودہ ترک قائدین بالخصوص طیب اردوان نے اگرچہ عالمی تنازعات سے خود کو علیحدہ رکھا ہے، تاہم مختلف بین الاقوامی امور پر دوٹوک اور واضح مؤقف اپنایا ہے اور برملا اس کا کھل کر اظہار بھی کیا ہے۔ اقوام متحدہ اور دیگر عالمی سیاسی، اقتصادی اور باہمی تعاون کے فورمز پر جرات مندانہ اظہارِ خیال بھی طیب اردوان اور ان کے رفقاء کا طرہ امتیاز ہے۔ بالخصوص قومی مفادات، ملّی مسائل و معاملات اور امتِ مسلمہ کے حوالے سے ان کا نقطہ نظر بڑا بے باک اور فیصلہ کن ہے۔ انہوں نے کسی تحفظ و مداہنت کے بغیر فلسطین، کشمیر، افغانستان، غزہ، شام، لبنان، آذربائیجان، روہنگیا اور دیگر مسلمانوں پر ظلم و ستم کے خلاف توانا اور مؤثر آواز بلند کی ہے، اور ان کے مظلومین و مستضعفین کو پناہ، امداد اور سیاسی و مالی سرپرستی میں کوئی کمزوری دکھائی نہ تامل کا رویہ روا رکھا۔ طیب اردوان ان سب کے لیے مسیحا بنے، ان کا ہاتھ تھاما، ان کی دستگیری کی، مگر اس طرح کہ ان کے اپنے قومی مفادات پر نہ ضرب لگے، نہ قومی معاشرتی، سیاسی، اقتصادی زندگی اور نظام میں کوئی خلل واقع ہو۔
اگرچہ ترک حکومت نے عالمی سیاسی مسائل و تنازعات پر الجھے بغیر اپنے مؤقف کا واضح اظہار کیا، تاہم اسلامی شعائر، ملّی مسلّمات و معاملات بالخصوص رسولِ آخر صلی اللہ علیہ وسلم کی حرمت و ختمِ نبوت پر شدید ترین ملّی غیرت و حمیت اور ہر قومی مفاد بالائے طاق رکھ کر اپنے ردعمل کے ذریعے عالمِ کفر کو اشداء علی الکفار کی فضیلتِ ایمانی کے اظہار و اعلان اور طرزعمل کا پیغام دیا۔ فرانس کے صدر جس نے سرکاری سطح پر توہینِ رسالت کو اپنی سرپرستی اور حمایت سے نوازا، کے پڑوسی ہونے اور متعدد سیاسی و معاشی مفادات، تہذیبی مشترکات اور تاریخی و جغرافیائی روابط کے باوجود ساری دنیا کے میڈیا کے سامنے ایک بڑے عالمی فورم پر ہاتھ ملانے سے انکار کرکے اپنی ملّی ترجیحات کا واضح پیغام دینے میں کسی سفارتی و عالمی پروٹوکول اور ریاستی طور طریقے کو بالائے طاق رکھنے میں کوئی کمی نہیں کی۔ طیب اردوان کے اس اقدام نے مسلمانانِ ترکی ہی نہیں مسلمانانِ عالم، محبانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دلوں کو جیت لیا۔ یہ وہی نقشِ قدم تھا جس پر مصر کے منتخب صدر مرسی چلے، جنہوں نے اقوام متحدہ میں خطاب کرتے ہوئے واضح الفاظ میں اعلان کیا کہ عزت اُسی کی ہوگی جو ہمارے رسول کی عزت کرے گا۔ بلاشبہ عزت کے لائق تو اللہ، اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے پیروکار اہلِ ایمان ہی ہیں۔
عالمی سطح پر طیب اردوان کی ایک دلآویز، دلکش شناخت اہلِ ترکی اور مسلمانانِ عالم کے لیے افتخار کا باعث یہ ہے کہ انہوں نے ہر قسم کی عالمی مرعوبیت اور برتری کے خودساختہ معیارات و اقدامات کو بڑی شان اور وقار کے ساتھ اپنے پائوں تلے روند کر اپنی شخصیت، قومی اہمیت اور ملّی غیرت کے سائبان تلے برابری کے اصول کے تحت بین الاقوامی فورمز میں شمولیت اختیار کی، عالمی رہنمائوں سے ملاقات اور تبادلہ خیال کی محفل سجائی۔ ملکہ برطانیہ ہوں یا عیسائی روحانی پیشوا پوپ پال… ان سے ہاتھ اُس وقت تک ملایا نہ گفتگو کی جب تک برابر کا ماحول قائم نہ ہوگیا۔ دنیا نے دیکھا، کچھ نے انگلیاں دانتوں تلے داب لیں، اور کچھ کی آنکھوں سے تشکر و افتخار کے آنسو رواں ہوگئے جب طیب اردوان نے ویٹی کن سٹی میں پاپائے روم سے ملاقات کے لیے اُس چھوٹی کرسی پر بیٹھنے سے انکار کردیا جو میزبان کی کرسی کے ہم پلہ نہ تھی۔ عالمی دوروں اور مجالس میں خاتونِ اوّل کی مکمل باحجاب لباس میں شمولیت اس فکر کے منہ پر مسلسل طمانچے ہیں جس نے کبھی ترکی کی پارلیمنٹ میں اپنے ہی متعین کردہ اصولوں اور نظام کے تحت منتخب ہونے والی عوامی نمائندہ خاتون کو محض اُس کے اسکارف کی پاداش میں نہ صرف حلف اٹھانے سے محروم کردیا، بلکہ بعدازاں ساری پارلیمنٹ کو بیک جنبش قلم ساقط کردیا۔
طیب اردوان کے ان بظاہر معمولی مگر نہایت معنی خیز اور وسیع اثرات و ثمرات کے حامل مومنانہ فراست و جرات پر مبنی اقدامات نے مسلم حکمرانوں کو غیرت، حمیت اور عزت و وقار کے ساتھ جینے کے کئی معنی سمجھائے، مگر مٹی کے مادھو اور مفادات کے اسیر اور فکرِ اغیار کے مرہونِ منت حکمرانوں کے مُردہ ضمیر کو جھنجھوڑنے کے لیے یہ سب بے معنی اور بے فائدہ تھا۔ اس لیے طیب اردوان مسلمانِِ عالم کی آنکھ کا تارا اور امید کی واحد کرن بن گیا۔
عالمی سطح پر پاکستان، ترکی، ملائشیا کے مرکزی کردار کے ساتھ اسلامی بلاک، اسلامی اقتصادی نظام اور اسلامی مشترک تجارتی منڈی اور کرنسی کے نظام کی دبی دبی روشنی تو فیصلہ و مشاورت کے مراکز سے باہر نکل رہی ہے، مگر منزلِ مراد نہ واضح ہے، نہ اس کا سفری خاکہ، اور نہ ہی عالمی اقتصادی، سیاسی ٹھیکیداروں کو یہ گوارا اور قبول ہوگا۔ مگر یقین ہے کہ بالآخر یہ خواب بھی شرمندۂ تعبیر ہوگا اور طیب اردوان اس منزل کا قائد ٹھیرے گا۔
طیب اردوان کا یہ عالمی کردار اب ایسی کسوٹی اور معیار بن گیا ہے، جس پر اقوام عالم نہ صرف ترکی، بلکہ سارے عالم اسلام کو پرکھ رہی ہیں۔ بلاشبہ یہ کردار روشن بھی ہے، معنی خیز بھی اور اِن شاء اللہ نتیجہ خیز بھی بنے گا، خواہ اس میں دہائیاں صرف ہو جائیں۔
طیب اردوان کی شخصیت اور طرزِ حکومت کا ایک دوسرا کامیاب رخ داخلی محاذ ہے، جو اُن کی کامیابی کی شاہ کلید ہے، اور جس محاذ پر اُن کی مؤثر ترین حکمت عملی نے انہیں ہر نئی منزل پر کامیابی سے ہمکنار کیا ہے، جہاں اُن کی قوم کی غالب اکثریت اُن کے شانہ بشانہ کھڑی ہے۔
بلاوجہ متعصبانہ، جانب دارانہ اور معاندانہ اختلافِ رائے جسے غیر حقیقی طور پر جمہوریت کا حسن قرار دیا جاتا ہے، میری رائے میں وہ خلافِ فطرت ہے، بلکہ جدید جمہوریت کا المیہ ہے… جو سیاسی، معاشی نظام کو نہ مضبوط ہونے دیتا ہے، نہ کامیابی اور ترقی کی جانب قدم بڑھانے دیتا ہے۔ اور اس کا ایک بڑا نمونہ اور مثال پاکستان کا جمہوری نظام ہے، جو سراسر غلاظتوں اور قباحتوں سے لتھڑا ہوا ہے، جس کے زیراثر نہ کوئی قومی سوچ ہے، نہ مؤقف، نہ پالیسی، نہ منزل، نہ ہدف۔ 74 برسوں سے قوم ہر طالع آزما، اس کے خودساختہ نظام، فکر اور اعمال کا خراج دیتی اور قیمت چکاتی چلی آرہی ہے۔
ترکی بھی انہی جمہوری قباحتوں کا کسی حد تک شکار رہا ہے، مگر ایک مہذب، باوقار اور شائستہ قوم اور قومی فکر و ہدف رکھنے کے باعث اپنے موجودہ حکمرانوں کے ساتھ ہم آہنگ، ہم آواز و ہم دم و ہم ساز ہے۔ اس کا بڑا محرک شاید اسلامی فکر نہ ہو، بلکہ وہ فلاحی اقدامات ہوں جن کے باعث ترک عوام نظریاتی و سیاسی اختلاف اور محاذ آرائی کے باوجود اپنے حکمرانوں پر اعتماد کرتے ہیں۔
طیب اردوان نے اسی فلاحی طرزِ سیاست کو اپنی حکومتی حکمت عملی کے ایجنڈے میں سرفہرست رکھا ہے۔ وہ جب استنبول کے میئر منتخب ہوئے تو اُن کی ساری توجہات کا مرکز و محور یہی لائحہ عمل تھا۔ اسی سیڑھی سے وہ قدم بقدم آگے بڑھتے رہے، اور ترک قوم کا اعتماد حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے، جس نے بالآخر انہیں ترکی کے سب سے بڑے منصب تک پہنچایا۔ انہوں نے اپنی قوم کو اپنے مسلسل و مربوط اقدامات سے یقین دلایا کہ وہ اُن کے حکمران نہیں، خادم ہیں… اُن کے حکومت کو دیے گئے محاصل و وسائل کو دلِِ بے رحم کی طرح لوٹنے والے نہیں، بلکہ امین اور محافظ، اور ان کی صلاح و فلاح و بہبود پر خرچ کرنے کے ذمہ دار ہیں۔ مؤثر و مضبوط بلدیاتی نظام کے ذریعے صحت، صفائی، پانی، سفر، راستوں، عدل و انصاف کے قیام اور فلاحِ عامہ کا ہر وہ کام کیا گیا، جس کی قوم کے کسی بھی فرد کو ضرورت تھی اور جو ان کا حق بھی تھا۔ ان مسلسل اقدامات نے ترک قوم کو جہاں زندگی کی ہر جدید سہولت، نظام اور ہر کسی کے لیے بلاامتیاز میسر انفرااسٹرکچر مہیا کیا، زندگی کو باوقار و باسہولت بنایا، روزگار کے مواقع پیدا کیے، معاشرتی تحفظ کا احساس پیدا کیا… وہیں اچھے انسان، اچھے شہری اور مہذب و شائستہ قوم کی شناخت کی تعمیر و تشکیل میں مؤثر کردار ادا کیا۔ ترکی کے شہروں، قصبوں، بازاروں، رہائشی علاقوں میں ہر وہ سہولت موجود ہے، جسے یورپی ملکوں کا باعثِ تفاخر سمجھا جاتا ہے۔
طیب اردوان کی ترک عوام میں ہردلعزیزی کا ایک بڑا اور اساسی سبب اُن کا عوام سے مسلسل رابطہ ہے۔ وہ اپنے عوام کی خوشیوں اور غموں میں شریک ہوتے ہیں، کبھی پناہ گزینوں اور یتیم بچوں کو صدارتی محل میں بلاکر پذیرائی کرتے، تحائف دیتے اور دستِ شفقت سروں پر رکھتے ہیں، کبھی کسی شادی میں، یا کسی غریب اور غیر معروف کنبہ کے ساتھ اچانک افطار پر موجودگی، کبھی کسی میس میں کیڈٹس کے ساتھ کھانے کی ٹیبل پر اچانک ملاقات، کبھی کسی جنازے میں شرکت، کبھی کھلاڑیوں کی پذیرائی، کبھی فٹ بال گرائونڈ میں میچ میں ٹیم کے ساتھ ہم لباس ہوکر شرکت، کبھی معروف ڈراموں کے سیٹ پر اداکاروں کے ساتھ ملاقات، کبھی مساجد میں نمازیوں کے درمیان موجودگی، اور کبھی حفاظِ کرام کی تعظیم و تکریم کے لیے مجلسِ ختمِ قرآن میں حاضری، اور کبھی مساجد کے افتتاحی موقع پر خود تلاوتِ قرآن کی سعادت اور ایسے بے شمار اقدامات کے ذریعے عوام تک رسائی نے انہیں اپنی قوم کا ہیرو بنادیا ہے۔
طیب اردوان نے جہاں اپنی قوم کو فکری و عملی آزادیاں دے رکھی ہیں، وہیں فکرِ اسلامی کی آبیاری سے ہرگز غافل نہیں ہوئے۔ مساجد کی تعمیر، اشاعت و ابلاغِ اسلام، احیائے سنت، مدارس کے تعلیمی نظام پر توجہ، سرپرستی اور معاونت کے ذریعے نئی نسل کی ذہن و شخصیت سازی کا مسلسل عمل جاری ہے۔ اسی بتدریج مگر واضح و مربوط سلسلے کا اثر ترک نوجوانوں کے اس حیران کن عظیم اجتماع کی صورت دیکھا گیا جب انقرہ کے بڑے اسٹیڈیم میں نجم الدین اربکان مرحوم اور قاضی حسین احمد مرحوم کے شاندار استقبال کا تاریخ ساز لمحہ ظہور پذیر ہوا۔ سالہاسال کی تعمیر افکار کی اس جدوجہد کا دوسرا حیران کن نتیجہ چند سال قبل ناکام فوجی بغاوت کی صورت نکلا، جب نہ صرف بیرونی طاقتوں کو منہ کی کھانی پڑی بلکہ اندرونی قوتوں کو بھی شکستِ فاش ہوئی کہ ان میں سر اٹھانے کا حوصلہ رہا نہ جرأت۔ آج کا ترکی اسی جدوجہد کے ثمرات سمیٹنے کے لیے تیار ہے… عالمی، مقامی، معاشی، سیاسی ہر محاذ پر۔
گزشتہ چند سال میں صدیوں پرانی ترک تاریخ پر مبنی، موجودہ ترکی کے ماحول و معاشرت اور سیاسی و سماجی حالات سے یکسر مختلف طویل ڈراموں کے ذریعے نہایت حکمت کے ساتھ جہاں مغربیت اور لادینیت کے گرداب میں پھنسی قوم کو اپنی عظمتِ رفتہ، آباو اجداد اور شاندار ماضی سے مربوط کردیا گیا، وہیںمشرق وسطیٰ، ایشیا، عرب ممالک اور دیگر خطوں میں، مختلف زبانوں میں ان ڈراموں کو منتقل کرکے ترک قوم اور اس کے شاندار ماضی کا بہترین اور دلکش تعارف کراکے ابلاغی معرکہ آرائی کی گئی ہے۔
یہ ڈرامے جو یقیناً یورپ کے لیے نہیں بنائے گئے، نہ وہ ان کا ہدف ہے… انہوں نے جہاں ترک قوم کے تشخص کو ابھارا، مہذب و متمدن اور پُرشکوہ قوم کا منظر دکھایا، وہیں ترک معیشت کو ڈراموں کی فروخت اور اس کے ذریعے سیاحت کے فروغ، اور ترکی کو پُرکشش ملک بنانے میں اہم اور کلیدی کردار تو ادا کیا ہی، اعداد و شمار کے مطابق یورپ اور برصغیر ہی نہیں، دنیا بھر کی فلم انڈسٹری کا کباڑہ کرکے رکھ دیا ہے، اور دوسری طرف اداکاروں کے سحر سے نئی نسل کو نکال دیا ہے۔ یہ وہ بالواسطہ اثرات ہیں جو محض ترک نوجوانوں تک ہی محدود نہیں رہے، بلکہ دنیا بھر کے مسلمانوں اور یورپ سے مرعوب نوجوانوں تک پہنچے اور کسی حد تک اپنا جادو جگا گئے ہیں۔
طیب اردوان، ان کے رفقا اور سیاسی و انقلابی تحریک کے گہرے اور دیرپا اثرات ترک قوم پر اس طرح مرتب ہوئے کہ وہ بالآخر لادینیت کے علَم برداروں کو بھولنے لگی اور انہیں محض قومی یادگار کے طور پر جاننے پر اکتفا کرنے لگی ہے، اور اپنے ان مخلص و ہمدرد حکمرانوں کے فلاحی و قومی اقدامات و خدمات کو اپنے ووٹ کے ذریعے تسلیم کرتی چلی جارہی ہے۔ انتخابات کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ طیب اردوان اور ان کی سیاسی پارٹی کو ہر انتخاب میں پہلے سے زیادہ تناسب کے ساتھ عوامی مقبولیت، تائید اور سرگرم تعاون حاصل ہوتا چلا جارہا ہے۔ یہ حقیقت بھی قابلِ ذکر ہے کہ لادینیت کا جن بھی بوتل میں بند کیا جاچکا ہے، فوجی بالادستی کا خمار بھی جیلوں کی سلاخوں کے پیچھے دم توڑ رہا ہے، غیر اسلامی نظریات بھی مسلسل دم توڑ رہے ہیں، اور براہِ راست نہ سہی، بالواسطہ ترک قوم مسجد و محراب و منبر، اللہ و رسولؐ اور قرآن، اسلامی ملت، اس کے تشخص اور فکر ِاسلامی کی تفہیم و تبلیغ اور قبول و تعمیل کے راستے پر چلنے لگی ہے۔ اسلامی محبت جوش مارنے لگی ہے اور قدر و قیمت اپنا احساس قائم کرنے لگی ہے۔
بلاشبہ ترک قوم فکری طور پر بہت بالغ نظر اور مضبوط قومی اعصاب کی حامل ہے۔ اغیار کی فکری جفائوں اور یلغاروں کو کئی بار برداشت کیا، حتیٰ کہ اپنوں کے ستم بھی برداشت کیے، مگر اپنی اصل فکری بنیادوں اور رشتوں سے کبھی ناتا نہیں توڑا، اور صدیوں کے انقطاع کے باوجود جب موقع ملا اپنی وفائوں کا قرض اتارا۔ کوئی ترک قوم پر ہرجائی کا ٹیگ نہیں لگا سکتا۔ وقت کے جبر کے زیراثر یہ راستہ تو کبھی کبھی بھولے، مگر اُسے ذہن سے محو ہونے نہ دیا، اور جب موقع ملا، اپنے گھر لوٹ آئے۔
مستقبل کا ترکی بھی ایسے ایک عظیم اور بھرپور معرکے میں فتح یابی کا سفر طے کررہا ہے۔ سو سالہ فکری غلامی کے طوق، مردِ بیمار کے طعنے، اور پوری قوم کو مفلوج اور بے اصل کردینے والے عہدِ اتاترک کی یہ آخری سانسیں ہیں، جن کی تجہیز و تکفین کا ہر سامان کیا جاچکا ہے، 2023ء میں اس کے تاریخ کے کوڑے دان میں دفن کیے جانے کا اعلان کیا جاچکا ہے اور ترک قوم اس کے لیے ہمہ تن آمادہ وتیار ہے۔
آنے والے عہدِ قریب میں ترکی وحدتِ امت کا مرکز بننے جارہا ہے۔ امت کے جسدِ واحد اور بنیان مرصوص کا مضبوط قلعہ شمار کیا جانے والا ہے۔ دنیا بھر کے سب ضعیفوں، کمزوروں، مجبوروں، مقہوروں بالخصوص اہلِ اسلام کا سائبان، پشتیبان اور سہارا بن کر ایک نئی تاریخ کا دروازہ کھولنے جارہا ہے۔ سیاسی، معاشی، اقتصادی اور عالمی مسائل میں قائدانہ اور مرکزی کردار بھی اسی کے حصے میں آتا دکھائی دے رہا ہے۔ اگرچہ دشمنِ حق، دشمنِ اسلام قوتوں کو نہ اندرونِ ترکی یہ گوارا ہے، نہ بیرونی دنیا کے اجارہ داروں کے لیے قابل قبول… مگر لگتا ہے سپیدۂ سحر طلوع ہونے کو ہے، ظلمت کی رات چھٹنے کے قریب ہے۔ ترکی اہلِ اسلام، فکرِ اسلامی کا مرکز اور امت کا نکتۂ وحدت و اجتماع بن کر نیا منظرنامہ تخلیق کرنے کے قریب ہے۔
اور وہ خدائی وعدہ بھی یقیناً حقیقت میں بدلنے کے قریب تر ہے کہ اہلِ ایمان ہی غالب رہیں گے، اللہ کا دین اور کلمہ ہی سربلند ہوگاُ اور جو اہلِ ایمان اللہ و رسولؐ کے دین کو غالب و نافذ کریں اللہ اُن کے لیے زمین و آسمان کے سب خزانوں کے منہ کھول دے گا۔ اس بشارت کو ’’ترکی‘‘ میں پورا ہوتے دیکھا جاسکتا ہے، جہاں دسمبر 2020ء میں سوگوت کے علاقے میں ارطغل کے مزار کے احاطے سے ننانوے ٹن سونا جس کی مالیت 6 ارب ڈالر تھی، دریافت ہوا۔ اور ماہ جون 2021ء کے پہلے عشرے میں مشرقی ترکی سے ابتدائی طور پر بیس ٹن سونا اور ساڑھے تین ٹن چاندی کے ذخائر دریافت ہوئے ہیں، جن کی مالیت ڈیڑھ ارب ڈالر ہے۔ بلاشبہ اللہ کا وعدہ سچا ہے، اور اللہ اپنے وعدوں کی خلاف ورزی کبھی نہیں کرتا۔
مفکرِ اسلام سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی یہ پیش گوئی بھی پیش نظر رہے کہ یہ استعماری، استبدادی اور استحصالی نظام بالآخر زمین بوس ہوکر رہیں گے۔ روس کی تباہی سے ایک فکر و فلسفہ زمین بوس ہوا تو دوسرا نظام بھی بالآخر اپنے انجام سے قریب تر ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ قرآن اور صاحبِ قرآن صلی اللہ علیہ وسلم کے دعوے اور غلبۂ اسلام کی نویدیں تو پتھر کی لکیر ہیں، انہیں حرف بہ حرف پورا ہونا ہی ہے۔ اقبالؒ کی طلوعِ سحر کی نوید بھی ہنوز تشنۂ تکمیل ہے۔
غلبۂ اسلام کی اس سحر کی جانفزا روشنی اور ٹھنڈک سے اپنے دل منور اور مسرور و مطمئن بنانے کی امیدوں کے دیپ جلائے امتِ مسلمہ کی اَن گنت نسلیں گزر گئیں اور زمانے بیت گئے، امت کے اتحاد و یک جہتی کا خواب دیکھنے والی کتنی آنکھیں بند ہوگئیں، راہِ حق پر استقامت و عزیمت کے ساتھ سفر کرنے والے کتنے راستے طے کرچکے، کتنے لوگ اس یومِ فتح کی آرزو میں زندگیوں کی بازی ہار بیٹھے، بہت سوں نے اعلائے کلمتہ اللہ کے لیے اپنی زندگیاں لگادیں، اور کتنے ہی نفوسِ قدسیہ اس دن کے انتظار میں نظریں جمائے بیٹھے، راہِ حق میں ہر مشکل سرحد کو عبور کیے چلے جارہے ہیں۔
وقت آگیا ہے کہ مشرق و مغرب کے سنگم سے ابھرتا طلوعِ اسلام کا سورج ہم لازماً دیکھیں۔ لازم ہے کہ انقلاب کے انتظار میں جاگتے رہنے والے امت کے بدترین حالات کے باوجود، ہر روز کے المناک ملّی سانحات، دھچکوں اور نئے سقوط کے باوجود وہ دن ضرور دیکھیں جس کے وقوع کا وعدہ ہے۔ وہ دن جو لوحِ ازل پر لکھا ہے۔ جب ظلم و ستم کے کوہِ گراں روئی کی طرح اڑ جائیں گے۔ باطل کی بڑی بڑی طاقتیں، زبردست قوتیں، سب فلسفے، نظریے بودے ہوکر زمین بوس ہوجائیں گے۔ انسانیت عالمی اداروں اور خودساختہ سپر پاورز اور انسانوں کے ناخدائوں، ذہنوں، جسموں، نظریوں، فکر و عمل کے نام نہاد مالکوں کے نظامِ ظلم و جبر، تعصب اور جانب داری کے چنگل سے آزاد ہوگی۔ بلاشبہ مملوکوں کے پائوں تلے ان کے تاج اور نظام روندے جائیں گے، اللہ کا حکم غالب اور نافذ ہوگا۔ طیب اردوان کی قیادت میں ’’ترکی‘‘ سے طلوع ہونے والا یہ سورج ضرور طلوع ہوگا اور سارا جہاں نغمۂ توحید سے ضرور معمور ہوگا۔ اِن شاء اللہ۔