ترکی مشاہداتی تجزیہ

گزشتہ برس نومبر 2020ء میں ترکی کے آٹھ روزہ سیاحتی سفر کا موقع میسر آیا۔ اس سفر کے دوران ترکی کی تاریخ، جغرافیہ، سیاسی، سماجی، معاشرتی، معاشی، علمی اور مذہبی احوال کے مطالعے و مشاہدے کو قریب سے ممکن بنایا۔ اس کے اکثر و بیشتر مشاہدات سفرنامہ ’’ترکی جو میں نے دیکھا‘‘ میں برمحل بیان کردیے گئے ہیں۔
جدید عالمی نقشے پر ترکی ایک نمایاں اور اہم مقام کا حامل ملک اور قوم ہے۔ جدت و قدامت کے اس حسین شاہکار خطۂ ارضی اور قوم کا ماضی علم و حکمت، شجاعت اور جنگجویانہ پہلوئوں پر محیط ہے۔ صفحۂ ہستی پر اس کا وجود تب نمایاں ہوا جب خلیفۂ راشد سیدنا عثمان بن عفانؓ کے عہدِ خلافتِ راشدہ میں ترک و حجاز کے روابط استوار ہوئے۔ اسی تعلق کا نتیجہ اس عظیم سلطنتِ عثمانیہ کے قیام کی صورت میں نکلا، جسے شاہ عثمان نے قائم کیا۔ اور شاہان و سلاطینِ عثمانیہ نے اس کی قومی و ملّی بنیادوں میں علم، حکمت، تصوف اور عقیدت، محبتِ رسولؐ کے ساتھ اسلامی جہاد کی مضبوط اینٹیں بھر دیں، جس کے نتیجے میں سلطان عبدالحمید غلبہ و نفاذِ اسلام اور وحدتِ امت کے عظیم منصوبے پر آگے بڑھتے چلے گئے۔ ملتِ اسلامیہ نے وہ وقت بھی دیکھا جب عثمانی سلطنت کئی براعظموں اور چالیس کے لگ بھگ ملکوں تک وسیع ہوگئی۔ یقیناً یہ عہد امتِ مسلمہ کی وحدت اور شان و شوکت کا قابلِ فخر باب ہے۔
ترکی اور پاکستان ایک طویل عرصے تک باہمی تجارتی، سیاسی اور معاشی روابط میں بندھے رہے۔ ان روابط کے قیام میں اسلامی اور ملّی ترجیح و مقصد محرک نہ تھا، اس لیے کہ استحکامِ پاکستان کے سفر کے وقت ترکی اپنے اسلامی ماضی کو دبا اور چھپا کر ترک کیے ہوئے اور اتاترک کے سیکولر اور غیر اسلامی ترکی کے نئے روپ اور شناخت کے راستے پر چل رہا تھا اور قدامت کے پُرشکوہ ماضی کو جدیدیت کی ملمع کاریوں کی تہوں میں چھپا رہا تھا۔ اس پاک ترک تعلق کی بنیاد میں یقیناً علاقائی تعاون سرفہرست تھا، جس کا مظہر ایران کی شمولیت کے ساتھ بننے والی تنظیم RCD کی صورت میں سامنے آیا، اور شاخِ نازک پر بننے والا یہ آشیانہ چند سال بعد ہی محض تاریخ سیاست کا ایک عملاً معلق و مقفل باب بن کر رہ گیا۔
جدید ترکی سے ذہنی تعلق کا موجب بھی وہی عوامل ہیں جنہوں نے کروڑوں اہلِ اسلام کو ترکی سے فکری طور پر مربوط کر رکھا ہے۔ ترکی کے وہ تاریخی حوالے جن کے نمایاں پہلو محبتِ رسولؐ، جہاد اور مظلوم مسلمانوں کی دادرسی ہیں، امتِ مسلمہ کے لیے باعثِ کشش و توجہ ہیں۔ خلافتِ راشدہ، عہدِ اموی و عباسی کے سرچشموں سے سیراب ہونے والی قوم نے رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی فکر، عقیدہ و عمل اور نظام سلطنت و حکومت کو بعینہٖ اپنانے کی شعوری کوشش کی۔ اللہ سے تعلق، رسولؐ سے محبت، علم و حکمت کا فروغ اور شعائر اسلامی کو اختیار کیا، اور اس کے لیے قوم کے مجاہدانہ کردار کو ذریعہ بنایا۔ اسی کا مظہر ملوک و سلاطین کی لشکر کشیاں، فتوحات اور فتوحات کی یادگار کے طور پر اللہ کی بندگی کے اظہار کے لیے بڑی بڑی مساجد کی تعمیر ہے۔ سلطان عبدالحمید کی سیاسی بصیرت اور حکمتِ عملی نے اسلام کے کسی بھی پہلو کو نہ نظرانداز کیا، نہ اس سے غفلت برتی، اور نہ کسی مداہنت سے کام لیا۔ بلاشبہ اسی فکری و عملی رسوخ اور اسلام کی مسلمات سے اس کی گہری وابستگی نے بالآخر اس کی حکومت کے خلاف سازشوں کا ایک ایسا محاذ کھول دیا جس کے نتیجے میں عثمانی سلطنت کا گرچہ خاتمہ ہوگیا، مگر سلطان نے اپنی ترجیحات تبدیل کیں نہ مصالحت کا راستہ اختیار کیا۔ خیر! یہ تو تاریخ کا ایک کھلا باب ہے، جس کے ہر پہلو پر تحقیق و خامہ فرسائی کی گنجائش موجود ہے۔
ہمارے مشاہداتی تجزیے کا محور جدید اور اکیسویں صدی کا ترکی ہے۔
جدید و قدیم ترکی اپنی اسی اسلامی اساس کی بنیاد پر عالمی افق اور عالمِ اسلام و عالمِ کفر کا بیک وقت مرکزِ نگاہ ہے۔ دو براعظموں ایشیا و یورپ میں جغرافیائی طور پر واقع ہونے کے ساتھ یہ دو بالعکس تہذیبوں کا مرکز بھی ہے۔ مشرقی اور مغربی تہذیب و ثقافت کا سنگم ترکی صدیوں تک مسلمانوں اور عیسائیوں/ رومیوں کے زیر تسلط بھی رہا اور مذہبی، سیاسی، فکری اثرات کے تحت بھی۔ اس سیاسی و فکری کشمکش میں دونوں ہی بار بار غالب رہے اور مغلوب بھی۔ کمال اتاترک کی فکرِ لادینیت نے اسے ایک صدی تک مغربی تہذیب کے زیراثر رکھا، لادینیت کو فروغ دیا اور اسلامی فکر کی جڑیں کاٹنے کا ہمہ گیر و مضبوط سلسلہ شروع کیا، اسے پروان چڑھایا اور گہرے اثرات چھوڑے۔
1950ء کا سال لادینیت کے اس آسیب کے خاتمے کا سال تھا، جب فکرِ اسلامی کی دبی ہوئی چنگاریوں نے بھڑکنا اور نہایت مضبوط فکری جڑوں نے پھر سے پھوٹنا شروع کیا۔ اس سال سیاسی محاذ پر اسلام پسندوں کو حوصلہ افزا کامیابی حاصل ہوئی۔ 1972ء میں جناب نجم الدین اربکان کی قیادت میں سیکولرازم پر گہرے اور شدید حملے شروع ہوئے۔ 1980ء میں طویل جدوجہد کے نتیجے میں ملّی سلامت پارٹی کھل کر سامنے آئی۔ مضبوط، واضح اور دوٹوک حکمت عملی اور شبانہ روز محنت نے سیکولرازم کے شجرِ خبیثہ کے مقابلے میں ’’قرآن ہمارا رہنما‘‘ کا نعرہ بلند کردیا، جسے ترک قوم نے دل و جان سے قبول کیا اور سخت فوجی اور حکومتی مزاحمتوں کے باوجود ترکی کی نئی شناخت کا ہدف بنایا۔
جمہوریت کے نام نہاد علَم برداروں اور اتاترک کے فکری پیروکاروں نے ’’اربکان‘‘ کی صورت طلوعِ سحر کے مضبوط و روشن ستارے کی ضوفشانیوں کو ہر جائز اور ناجائز طریقے سے روکنے کی کوشش کی، کبھی انتخابی عمل سے دور رکھ کر، کبھی عوامی فیصلے کو مسترد کرکے، کبھی اقتدار سے محروم کرکے، اور کبھی شعائرِ اسلامی کے اختیار کو خلافِ آئین گردان کر۔
سلام ہے نجم الدین اربکان اور ان کے ساتھیوں پر کہ جنہوں نے ناانصافی کے ہر مرحلے کو صبر و ثبات کے ساتھ اور حکمت عملی کی اعلیٰ صورت میں عبور کیا۔ اربکان کے تین اعلانات و اقدامات نے ترک قوم کے دل جیت لیے۔ اسلامی رفاہ پارٹی کے پرچم تلے اربکان نے اسلامی اقتصادی اصلاحات پیش کیں، مشترکہ اسلامی منڈی کا نظریہ امت کے سامنے رکھا، اور ترک قوم کی تنخواہوں اور معاوضوں میں حیرت انگیز اضافے کرکے اپنی قوم کی خوشحالی اور دلوں کی فتح کا سامان کیا۔ مخالفتوں اور مزاحمتوں کی داستان بھی طویل ہے اور جدوجہد، صبر و ثبات، قربانیوں اور عزیمتوں کے نشان بھی بڑے گہرے، اور منزل اور ہدف کی جانب ہر قدم مضبوط سے مضبوط تر اور مستحکم تر تاریخ عالم کا حصہ ہے۔ امت مسلمہ کے لیے سرمایۂ فخر و اطمینان، روشنی اور امید کی ایک مضبوط کرن۔ طیب اردوان اسی کہکشانِ انقلاب یعنی دُبِّ اکبر کا قائد اور سب سے روشن ستارہ ہے۔ چند سال قبل آخری فوجی بغاوت کو کچل اور پائوں تلے روند کر سیکولرازم کی تاریکیوں کے تابوت میں آخری کیل نہ صرف ٹھونکی جا چکی ہے بلکہ عملاً اس کا تسلط ختم کردیا گیا ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا 2023ء جب ترک قوم کی سیاسی، معاشی اور ذہنی آزادی کا نقطۂ آخر ہوگا، معاہدۂ لوزان کے خاتمے کے بعد اس کی خودمختاری اور معاشی ترقی کا سفر تیز ہوگا؟ کیا امتِ مسلمہ کی سربلندی، مستضعفین کی سرپرستی اور وحدتِ ملّت کا خواب دیکھنا اور اس کی تعبیر کی شاہراہ پر سفر کرنا ممکن ہوگا؟ میرا مطالعہ و مشاہدہ یقین دلاتا ہے کہ پختہ آثار و قرائن اس کی تائید کرتے اور اثبات میں جواب دیتے اور فتح کا علَم بلند کرتے ہیں۔
ترک معاشرت پر اتاترک کی مسلط کردہ جدت کے نام پر مغربیت کا بھوت ابھی تک سوار ہے، اگرچہ لادینیت کا عنصر قدرے دم توڑ چکا ہے۔ اس کے عوامل میں جہاں ترک قدامت کا مضبوط حصار ہے، وہیں شعائرِ اسلامی اور فکرِ اسلامی کی 70 سالہ آبیاری کی خفیہ و علانیہ جدوجہد بھی خاصی مؤثر رہی ہے۔ یقیناً اتاترک کی برپا کردہ لادینیت کی سو سالہ فکری تحریک اور جبری عملی اقدامات نے فکرِ اسلامی کا تسلسل توڑا، ملّت و شعائرِ اسلامی سے ربط و ضبط کو شدید نقصان پہنچایا، مگر ترک قوم نے اسے ناقابلِ تلافی نہ بننے دیا، اور بالخصوص اس صورت میں کہ انہوں نے فکرِ غیر کے سوسالہ تسلط کا مزا بھی چکھ لیا۔ اس کا سب سے بڑا مظہر یہ کہ جب یورپ کی سرزمین میں واقع ہونے، ان کے لیے اپنی فکر، مذہب، تہذیب و ثقافت سب کچھ تبدیل کرلینے کے مسلسل عمل کے باوجود انہوں نے ترکیوں کو یورپی یونین نامی معاہدے اور تنظیم میں شامل کرنے اور ان ہی کے اصولوں پر قائم سیاسی حکومت اور انتخابی عمل کے نتائج کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا، بلکہ ترک قوم کے مینڈیٹ کی توہین کرتے ہوئے اس سارے سیاسی عمل کو سبوتاژ کردیا۔ مغرب کا یہ امتیازی، غیرمنصفانہ اور منافرانہ رویہ بھی ان کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی تھا۔
بلاشبہ اس سو سالہ ذہنی غلامی کے نتیجے میں ترک قوم کی اصل شناخت متاثر ہوئی، عزت و عظمت کے ساتھ جینے اور غیرت کے ساتھ مرنے والی اور علم و حکمت اور اس کے منابع سے مربوط رہنے والی ترک قوم اور اس کی پُرشکوہ تاریخ پسِ پشت چلی گئی، مگر آفرین ہے ترکوں پر کہ بیگانوں کے راستوں پر ایک صدی تک چلتے رہنے کے باوجود اپنی اصل شاہراہِ فکر و عمل کی طرف لوٹ آئے۔ اگرچہ ترک قوم ان دو فکری راستوں پر ابھی تک بٹی ہوئی نظر آتی ہے، مگر قوم کی غالب اکثریت اپنے ماضی کے راستے پر ہی گامزن ہے، اور وہ نسل ختم ہو رہی ہے، جس نے انتقالِ تہذیب و فکر کی جنگ میں ہتھیار ڈال دیے تھے اور مصالحت و مداہنت کا راستہ اختیار کرکے جدھر کو اتاترک کی فکری جبری ہوا چل رہی تھی، چل پڑے تھے۔ نئی نسل کے اعلیٰ تعلیم یافتہ، فکری و عملی طور پر مضبوط، اعلیٰ صلاحیتوں کے حامل نوجوانوں نے مزاحمت کاراستہ اختیار کیا، مگر حکمت، تدبر، جرأت و ہمت کے ساتھ۔ اور یقینی طور پر لادینیت کے چنگل سے نکلنے، قومی تاریخ کے تسلسل کو بحال کرنے اور خوددار و خوشحال، خودمختار ترکی کے تشخص کی بحالی کے راستے پر نہ صرف چل نکلے، بلکہ مستحکم قدم جما دیے ہیں۔
ترک قوم کے جدیدیت کے پردے میں لپٹی لادینیت کے جال میں پھنسنے کے تین عوامل بڑے واضح ہیں۔ ایک تو یہ کہ جغرافیائی طور پر اس کا ایک بڑا حصہ یورپ میں اور بحر روم کے کنارے واقع ہے۔ یہیں سے رومی، بازنطینی حکمران داخل ہوئے اور اپنے ساتھ اپنا کلچر، تہذیب اور مذہبی افکار بھی لائے، انہیں غیرمحسوس انداز سے ترکوں میں منتقل کیا، اس محاورے کے مطابق کہ ’’الناس علی دین ملوکھم‘‘ یعنی محکوم لوگ بالعموم اپنے حکمرانوں کے دین، یعنی فکری و عملی طور طریقوں کے تابع اور عامل ہوتے ہیں۔ ترک شہروں، قصبوں اور ساحلوں میں ان رومیوں کے بڑے مستقل، واضح اور جاری نشانات و اثرات بالکل اسی طرح موجود ہیں، جیسے اسلامی آثار و نشانات۔
ترک قوم کی اسلام پسندی کے باوجود تاثر یہی ملتا ہے کہ وہ من حیث القوم دو کشتیوں کے سوار، دو تہذیبوں کے شکار اور ساتھ ساتھ بہنے والے دو فکری سمندروں کے سحر میں گرفتار ہیں، مگر وہ یہ باور کرچکے ہیں کہ ایک سمندر ذائقے اور اثرات میں ان کی نسلوں کے لیے نہایت کڑوا، تلخ اور بالآخر بے ثمر ہے، جب کہ فکرِ اسلامی کا سمندر جو میٹھا اور شیریں ہے، ان کی اصل بنیاد، شناخت اور نسلوں کے تحفظ و بقا کا ضامن ہے۔ سو سالہ تجربے سے شاید وہ اس حقیقت کا ادراک کرچکے ہیں کہ ان کے قومی و ملّی مفادات کی ترجیحِ اوّل کیا ہے۔
تیسرا عامل ان کی تہذیب و ثقافت میں مغربیت کی یلغار اور اثرپذیری کا ’’الکفر ملۃ واحدۃ‘‘ کا تلخ مگر بجا طور پر درست اور محقق نظریہ و فلسفہ ہے کہ اہلِ کفر جو دوردراز کی قوموں کو اپنی فکر اور معاشی ٹکڑوں پر پلنے اور محتاج اور دستِ نگر بنانے سے نہیں چوکتے، آخر ملّتِ اسلامیہ کے اس قابلِ فخر کردار، رویّے، قوم کو اپنی سرحدوں سے متصل کیسے قبول کرسکتے ہیں! فرانس کے راستے یقیناً مغرب کی اثرپذیری کے صدیوں پر محیط کئی مراحل و اقدامات اس کے پسِ پشت ہوں گے۔
ترک قوم کو سیاسی نہ سہی تہذیبی طور پر اپنے ماتحت رکھنے کا ایک اہم سبب عالمی اقتصادی و سیاسی مفادات بھی ہیں۔ خواہ کفر کی طاقتیں ہوں یا بدقسمتی سے مسلمانوں کی سیاسی قوتیں… ہرگز نہیں چاہتیں کہ ترکی عالمی بساطِ سیاست پر ان کے لیے مضبوط حریف کے طور پر ابھرے، نئے معاشی رجحانات و اقدامات کو فروغ دے، سیاسی و دفاعی طور پر اپنے قدموں پر کھڑا ہو، اپنی کرنسی مضبوط کرے یا امتِ مسلمہ کی وحدت، قیادت اور سلامتی و تحفظ کے وہ اقدامات کرے، جو ان کی سالہا سال کی کوششوں اور زرِکثیر خرچ کرنے کو بے کار و بے اثر کردیں، جو انہوں نے مسلمانانِ عالم کو خریدنے، کمزور کرنے اور فکری و تہذیبی طور پر اپنے رنگ میں رنگنے کے لیے کیے ہیں، اور ڈیڑھ ارب مسلمانوں اور ان کے سیاسی، دینی اور معاشی قائدین کے گرد اٹوٹ جال بُن کر انہیں جمال الدین افغانی کے بقول صحرا کی ریت کے ذروں اور پانی کے مینڈکوں سے بھی کم تر و بے اثر بنا دیا ہے۔ میں ترک قوم کی ہمت کو سلام پیش کرتا ہوں کہ جس نے سو سال کی ذہنی غلامی سے نکلنے اور زندہ ضمیر کے ساتھ جینے کا فیصلہ ہی نہیں کیا، بلکہ منزل و ہدف کی جانب مدبرانہ و حکیمانہ اور جرأت مندانہ قدم اٹھا لیے ہیں۔ محض ’’زندہ قوم‘‘، ’’پائندہ قوم‘‘ کے بے اثر نعروں، بے مطلب و بے معنی نغموں اور بے حقیقت بلکہ متضاد دعووں اور رویوں کے بجائے باعث ِسرور و اطمینان ہے کہ ترک قوم نے بالآخر شدید اندرونی و بیرونی دبائو کے باوجود عزت و وقار اور غیرت کا جرات مندانہ راستہ اختیار کیا ہے۔
ترک قوم سے اس بات کی توقع نہیں کی جا سکتی تھی کہ غلبہ و اقتدار اور حکومت کا شاندار ماضی رکھنے اور زریں کارناموں کی تاریخ رکھنے والی قوم، عیسائیوں کے ساتھ رہتے ہوئے نہ صرف اپنا تشخص برقرار رکھنے، بلکہ وجود کو منوانے اور اس پر بھی مستزاد یہ کہ اپنے بے شمار مفتوحہ علاقوں کو واگزار کروانے والے مستقلاً اپنے نظریاتی دشمنوں کے زیرتسلط یا مرعوب رہے۔ اپنوں کی سازشوں کے نتیجے میں ذہنی محکومی کا یہ صد سالہ دور گزر چکا۔ اب اپنی اصل کی جانب واپسی کا سفر شروع ہو چکا۔
موجودہ سیاسی قائدین نے قوم کو عقیدہ و عمل میں آزاد چھوڑا ہے۔ انہیں کسی جبر کے تحت اسلام اور اس کی اقدار کی طرف پلٹنے پر مجبور نہیں کیا۔ ان کی فکری تربیت اور جمہوری راستوں کے ذریعے واپسی کے اس سفر کو ہموار، آسان اور یقینی بنایا ہے۔ موجودہ ترک معاشرت پر پہلی نظر ڈالنے سے اس تاثر و یقین کی قطعی نفی ہوتی ہے، اور اتاترک کی مغربیت و لادینیت کے مہیب سائے ہر طرف پھیلے نظر آتے ہیں اور مایوسی کے اندیشے گہرے ہوتے چلے جاتے ہیں، مگر میرے نزدیک یہ بہترین حکمت عملی ہے، جسے حاکمانِ وقت نے اپنایا ہے۔ چند سال پہلے حکومت کی انتخابی حمایت کے موقع پر عظیم الشان اجتماعات، مظاہرے اور بغاوت کے خلاف قوم کے فقیدالمثال ردعمل کی مثال میری دسترس میں موجود تاریخ انسانی میں ملنا ناممکن ہے، سوائے سیاسی اجتماعات کے۔
میرے مشاہدے کے مطابق ترک قوم ایک مہذب قوم ہے، جو اپنے وقار، خودمختاری پر نازاں و فرحاں، اپنی سیاسی قیادت سے مطمئن و مسرور، اور عقیدہ و عمل میں آزاد ہے۔ مگر اپنے ماضی اور فکری بنیادوں سے ہرگز غافل نہیں۔ ان پر مغربیت اور لادینیت کی ملمع کاری آشکار ہوچکی ہے۔ بلاشبہ اسلام کا رنگ خالص ہے، جو اس ملمع کاری کے نیچے سے واضح اور نکھر کر سامنے آچکا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ اسلام کو جب اور جتنا دبایا گیا، یہ اسی قدر قوت کے ساتھ ابھرا ہے۔ ترک قوم اس کا عملی مشاہدہ کرچکی ہے کہ سو سالہ دبائو کے باوجود اسلام ترک قوم کی فکری و نسلی بنیادوں سے نہ نکالا جا سکا، نہ محو کیا جا سکا، البتہ لادینیت کا غیر فطری اور غیر حقیقی ملبہ ضرور دفن ہوکر رہے گا۔
ترک بحیثیت قوم و ملک بڑی تیزی سے عالمی افق پر حاوی ہورہے ہیں اور کسی حد تک عالمی طاقتوں کے سینے پر مونگ دَل رہے ہیں۔ یہ واحد ملک و قوم ہے جو سارے عالمِ اسلام میں بیک وقت اہلِ اسلام اور اہلِ کفر دونوں کی ہی نگاہوں کا مرکز ہے۔ چند دہائی پہلے کے ترکی کو کون جانتا تھا! محض ایک ملک اور دیگر قوموں کی طرح ایک قوم… مگر ماضیِ قریب میں ترک قوم نے ایک عجب معجزہ برپا کیا ہے اور عالمی سیاست، تجارت، معیشت اور مہذب قوموں کے تعارف کے محاذوں پر خود کو منوایا ہے۔ بلاشبہ یہ جہاں ترک قوم کی یکسوئی، تہذیب، وقار اور قانون و امن پسندی کی علامت ہے، وہیں اس کی موجودہ قیادت کی بہترین حکمت عملی، اعلیٰ تدبر اور مضبوط قدموں پر اپنے واضح اور قومی مؤقف کی بدولت ہے۔ ترک قیادت نے نہ اندرونی اور نہ بیرونی طور پر غیر ضروری محاذ کھولے ہیں، اور نہ دنیا بھر کے غیر ضروری جھگڑوں میں بلاوجہ ٹانگ اَڑائی ہے، اور نہ ہی دنیا بھر کو مسخر کرنے اور کسی خودساختہ ورلڈ آرڈر اور نظام حیات کا تابع بنانے اور اپنی اجارہ داری قائم کرنے کا خواب دیکھا ہے۔ ترک قوم کے لیے بجا طور پر باعثِ فخر ہے کہ اس کی قیادت بیدار مغز، قوم پرست، محب وطن اور قوم کی خیرخواہ ہے۔ اس کا مرکز و محورِ نگاہ اور ہدف و منزل اپنی قوم کا ہر فرد اور ہر حوالہ اور ہر طریقہ و راستہ ہے، جس کے ذریعے وہ اپنی قوم کو خودداری، خودکفالت، خودانحصاری اور اپنے شاندار ماضی کے تحفظ و تسلسل کے راستے پرگامزن کرسکے۔
ترک قیادت نے متعصب اور تنگ نظر مذہبی قائدین کی طرح قوم کی جدیدیت اور مغربی تہذیب کی تقلید اور طرزِ معاشرت کو ہدفِ تنقید نہیں بنایا۔ ہر شخص کو طرزِ زندگی اختیار کرنے کی اجازت دی، حتیٰ کہ لادینیت کے مظاہر کو بھی۔ البتہ کسی کے فکری و عملی اختیار اور آزادیِ اظہارِ رائے کے حق کو نہ سلب کیا، نہ مخصوص طرزِ فکر کو اختیار کرنے پر جبر کا راستہ اختیار کیا۔ لوگ حقیقت کا ادراک کرکے ہر انتخابی مرحلے پر خود ہی درست فکر و عمل کا راستہ منتخب کرتے ہیں، اور یہ عمل اسلام پسندی کے ہر قدم کو مزید مضبوط اور ثمر بار بنا رہا ہے۔ انتخابات میں یہ تناسب ہر مرحلے پر بڑھتا ہی چلا جارہا ہے، جو درست حکمت عملی کی کامیابی کی دلیل ہے۔ کامیابیوں کی اِن سر ہوتی منزلوں کی پشت پر ایک تجربہ کار، پختہ عزم، باصلاحیت، واضح فکر اور منزل و ہدف کی مالک قیادت اور اس کا سرخیل طیب اردوان اور ان کے رفقائے کار کی مقناطیسی اور زوداثر شخصیتیں موجود ہیں۔
طیب اردوان حکومت نے بہت مؤثر طریقے سے اپنے ملک کو دنیا بھر میں مشہور و متعارف کیا ہے۔ اس کے لیے اس نے کئی محاذوں پر کام کیا ہے۔ ان میں سرفہرست ترکی کی سیاحتی پالیسی ہے۔ سیاحت کو صنعت کا درجہ دیا گیا، سیاحوں کے لیے پُرکشش رہائشی و سفری انتظامات کے ساتھ، سیاحتی مقامات کا مؤثر تعارف، ترغیب، فضائی، برّی و بحری سہولیات میں دلکشی، سیاحتی مقامات کی تزئین و آرائش اور سیاحوں کے لیے جاذبیت کے پہلو، ترک شہروں بالخصوص سیاحتی مقامات اور خاص الخاص سمندری ساحلوں اور پانیوں کی صفائی و آراستگی کے ساتھ سیاحوں کے حفاظتی انتظامات کو قومی شعار کے طور پر اختیار کیا۔
اسی سیاحتی پالیسی اور اقدامات کا نتیجہ ہے کہ ترکی مشرق و مغرب میں بیک وقت مقبول و معروف اور ترجیح اوّل کے طور پر سیاحتی ملک شمار ہوا۔ جہاں قدامت و جدت کا ہر رنگ، سیاحتی دلچسپی کا ہر سامان، اور ہر قوم کے مزاج و مطلب کے سیاحتی مراکز و سامان موجود ہیں۔ دنیا کی سیاحتی تاریخ و مقامات کے حوالے سے بہت کم عرصے میں ترکی کے بطور سیاحتی ملک متعارف ہونے اور لوگوں کے شدید رجحان کی مثال کوئی اور نہیں ملتی۔ اسی کا مظہر یہ حقیقت ہے کہ ترکی کو استنبول کے عالمگیر شہرت، جغرافیہ، تاریخ اور معاشی اہمیت کے حامل شہر میں ترکی ہی نہیں، دنیا کا سب سے بڑا اور جدید ائیرپورٹ تعمیر کرنا پڑا۔ یہ شہرِ استنبول کا تیسرا ائیرپورٹ ہے، جہاں گزشتہ سالوں میں کم و بیش ایک کروڑ مسافروں نے آغاز و اختتامِ سفر کیا۔ اور بین الاقوامی اعدادوشمار کے مطابق اس ائیرپورٹ سے پروازوں کا عالمی ریکارڈ بھی ترکش ائیرلائن نے قائم کیا۔ امکان ہے کہ یہ ائیرپورٹ آئندہ سالوں میں ہر سال کم از کم دو کروڑ لوگوں کا خیرمقدم کرے گا اور سفری سہولیات فراہم کرنے والا ائیرپورٹ شمار ہوگا۔ حکومت کی اس سیاحتی پالیسی نے جہاں ملک کی اقتصادیات پر گہرے مثبت اثرات مرتب کیے، وہیں ہوٹل، ٹرانسپورٹ، سمندری جہازرانی، ماکولات و مشروبات، ترکی کھانوں اور مٹھائیوں کے ساتھ دیگر مقامی صنعتوں سے دنیا کو باخبر کیا اور مقامی ترکوں کو خوشحال بنایا۔ اس وقت ترکی کے ہر شہری کی ماہانہ آمدنی اوسطاً ڈھائی ہزار ڈالر ہے۔ ان سیاحتی اقدامات کے باعث ترکی کی سب سے بڑی صنعت ہوٹل سازی قرار پائی۔ استنبول کو جہاں مساجد کا شہر کہا جاتا ہے، وہیں اسے دنیا کا سب سے بڑا ہوٹلوں کا شہر بھی قرار دیا جاتا ہے۔ ہر درجے اور قسم کے صاف ستھرے، جدید سہولیات سے آراستہ ہوٹل ترکی کے ہر شہر بالخصوص استنبول کے ہر کونے، ہر شاہراہ، ہر محلہ، گلی، ضلع میں با آسانی مل جاتے ہیں
خودکفالت و خودانحصاری بھی ترکی کی موجودہ حکومت کی اولین ترجیحات میں شامل ہے۔ ترکی میں حتی الامکان غیر ملکی مصنوعات کی درآمد سے احتراز کیا جاتا ہے۔ ڈیری اور پھلوں کی صنعت، فارمنگ اور ایگریکلچر کے خام مال، ان کی افزائش، تحفظ و ترسیل اور استعمال کے جدید نظام نے خوراک وزراعت اور دیگر ضروریات میں ترک قوم کو خود کفیل کر دیا ہے۔ چمڑا، کاسمیٹکس، ملبوسات اور دیگر تمام صنعتیں ترکی شہرت اور خودکفالت کے اہم سنگ میل ہیں۔ ترکی کے بازاروں، دوکانوں، شاپنگ مالز اور فائیو اسٹار ہوٹلوں میں ترکی مصنوعات ہی استعمال کی جاتی ہیں، پورے احساس تفاخر کے ساتھ۔
ترکی سے دلچسپی رکھنے والوں کے لیے یہ خبریں بھی باعث مسرت ہوں گی کہ وہ استنبول کے ساحلوں سے تیس کلومیٹر کے لگ بھگ طویل سرنگ زیرسمندر تعمیر کرنے جارہا ہے اور آبنائے باسفورس کو عبور کرنے کے لیے تیسرا بڑا جدید ترین پل بھی او ریہ کہ اس نے ڈرائیور اور فیول کے بغیر بڑی بسیں بھی تیار کر لی ہیں جو بجلی سے چلیں گی اور امریکہ سمیت دنیا کی ایک اور بڑی طاقت نے ان خودکار برقی بسوں کی خرید کا آرڈر بھی دے دیا ہے۔ تازہ خبر یہ بھی ہے کہ ترکی نے دنیا کا جدید ترین ڈرون بھی تیار کر لیا ہے جو اپنی کارکردگی میں امریکی ڈرونز سے کہیں آگے ہے۔ ترکی کے معاشی محاذ پر اپنے لیرا کی قیمت میں اضافہ، امریکی ڈالر یا یورپی یورو سے جان چھڑانے کے منصوبے اگر چہ کچھ واضح اور موثر شکل اختیار نہیں کر سکے تاہم یہ ترک حکمرانوںکے اہداف میں اہم جزو کے طور پر نہ صرف شامل، بلکہ اس جانب ہرآن قدم بڑھتے ہی محسوس ہوتے ہیں۔ بلاشبہ وہ دن دور نہیں جب یورپی یونین کا دھتکارا ہوا، یورپ کے مرد بیمار کا طعنہ سننے والا ترکی اپنے قدموں پر اس طرح کھڑا ہو گا کہ اس سے یورپی یونین میں شمولیت کی ہاتھ باندھ کر درخواست کی جائے گی۔
موجودہ ترک قائدین بالخصوص طیب اردوگان نے اگرچہ عالمی تنازعات سے خود کو علیحدہ رکھا ہے۔ تاہم مختلف بین الاقوامی امور پر ایک دو ٹوک اور واضح موقف اپنایا ہے اور برملا اس کا کھل کر اظہار بھی کیا ہے۔ اقوام متحدہ اور دیگر عالمی سیاسی، اقتصادی اور باہمی تعاون کے فورمز پر جرات مندانہ اظہار خیال بھی طیب اردوگان اور ان کے رفقاء کا طرہ امتیاز ہے۔ بالخصوس قومی مفادات، ملی مسائل و معاملات اور امت مسلمہ کے حوالے سے ان کانقطہ و نظر بڑا بے باک اور فیصلہ کن ہے۔ انہوں نے کسی تحفظ ؟؟؟؟ کے بغیر فلسطین، کشمیر، افغانستان، غزہ، شام، لبنان، آذربائیجان، روہنگیا اور دیگر مسلمانوں پر ظلم و ستم کے خلاف توانا اور موثر آواز بلند کی ہے۔ اور ان کے مظلومین و مستفیفین کو پناہ، امداد اور سیاسی و مالی سرپرستی میں کوئی کمزوری دکھائی، نہ تامل کا رویہ روا رکھا۔ طیب اردوگان ان سب کے لیے مسیحا بنے، ان کا ہاتھ تھاما، ان کی دستگیری کی، مگر اس طرح کہ ان کے اپنے قومی مفادات پر نہ ضرب لگے، نہ قومی معاشرتی، سیاسی، اقتصادی زندگی اور نظام میں کوئی خلل واقع ہو۔
اگرچہ ترک حکومت نے عالمی سیاست مسائل و تنازعات پر الجھے بغیر اپنے موقف کا واضح اظہار کیا۔ تاہم اسلامی شعائر، ملی مسلمات و معاملات بالخصوص رسول آخر صلی اللہ علیہ وسلم کی حرمت و ختم نبوت پر شدید ترین ملی غیرت و حمیت اور ہر قومی مفاد بالائے طاق رکھ کر اپنے ردعمل کے ذریعے عالم کفر کو۔ اشداء علی الکفار۔ کی فضیلت ایمانی کے اظہار و اعلان اور طرزعمل کا پیغام دیا۔ فرانس کے صدر جس نے سرکاری سطح پر توہین رسالت کو اپنی سرپرستی اور حمایت سے نوازا، کے پڑوسی ہونے اور متعدد سیاسی و معاشی مفادات، تہذیبی مشترکات اور تاریخی جغرافیائی روابط کے باوجود ساری دنیا کے میڈیا کے سامنے ایک بڑے عالمی فورم پر ہاتھ ملانے سے انکار کر کے اپنی ملی ترجیحات کا واضح پیغام دینے میں کسی سفارتی و عالمی پروٹوکول اور ریاستی طور طریقے کو بالائے طاق رکھنے میں کوئی کمی نہیں کی۔ طیب اردوگان کے اس اقدام نے مسلمانان ترکی ہی نہیں مسلمانان عالم، محباب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دلوں کو جیت لیا۔ یہ وہی نقش قدم تھاجس پر مصر کے منتخب صدر مرسی چلے، جنہوں نے اقوام متحدہ میں خطاب کرتے ہوئے واضح الفاظ میں اعلان کیا کہ عزت اسی کی ہو گی جو ہمارے رسول کی عزت کرے گا۔ بلاشبہ عزت کے لائق تو اللہ، اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے پیروکار اہل ایمان ہی ہیں۔
عالمی سطح پر طیب اردوگان کی ایک دلآویز دلکش شناخت اہل ترک اور مسلمانان عالم کے لیے افتخار کا باعث یہ ہے کہ انہوں نے ہر قسم کی عالمی مرعوبیت اور برتری کے خودساختہ معیارات و اقدامات کو بڑی شان اور وقار کے ساتھ اپنے پائوں تلے روند کر اپنی شخصیت، قومی اہمیت اور ملی غیرت کے سائبان تلے برابری کے اصول کے تحت بین الاقوامی فورمز میں شمولیت اختیار کی، عالمی رہنمائوں سے ملاقات اور تبادلہ خیال کی محفل سجائی۔ ملکہ برطانیہ ہوں یا عیسائی روحانی پیشوا پوپ پال سے ہاتھ اس وقت تک ملایا نہ گفتگو کی جب تک برابر کا ماحول قائم نہ ہو گیا۔ دنی انے دیکھا، کچھ نے انگلیاں دانتوں تلے داب لیں اور کچھ کی آنکھوں سے تشکر و افتخار کے آنسو رواں ہو گئے، جب طیب اردوگان نے ویٹیکن سٹی میں بابائے روم سے ملاقات کے لیے اس چھوٹی کرسی پر بیٹھنے سے انکار کر دیا، جو میزبان کی کرسی کے ہم پلہ نہ تھی۔ عالمی دوروں اور مجالس میں خاتون اول کے کے مکمل باحجاب لباس میں شمولیت اس فکر کے منہ پر مسلسل تمانچے ہیں، جنہوں نے کبھی ترکی کی پارلیمنٹ میں اپنے ہی متعین کردہ اصولوں اور نظام کے تحت منتخب ہونے والی عوامی نمائندہ خاتون کو محض اس کے اسکار کی پاداش میں نہ صرف حلف اٹھانے سے محروم کر دیا، بلکہ بعدازاں ساری پارلیمنٹ کو بیک جنبش قلم ساقط کر دیا۔
طیب اردگان کے ان بظاہر معمولی مگر نہایت معنی خیز اور وسیع اثرات و ثمرات کے حامل مومنانہ فراست و جرات پر مبنی اقدامات نے مسلم حکمرانوں کو غیرت، حمیت اور عزت و وقار کے ساتھ جینے کے کئی معنی سمجھائے، مگر ؟؟؟ کے باوجود اور مفادات کے اسیر اور فکر اغیار کے مرہون حکمرانوں کے مردہ ضمیر کو جھنجھوڑنے کے لیے یہ سب بے معنی اور بے فائدہ تھا اس لیے طیب اردوگان مسلمانِ عالم کی آنکھ کا تارا اور امید کی واحد کرن بن گیا۔
عالمی سطح پر پاکستان، ترکی، ملائشیا کے مرکزی کردار کے ساتھ اسلامی بلاک، اسلامی اقتصادی نظام اور اسلامی مشترک تجارتی منڈی، کرنسی کے نظام کی دبی دبی روشنی تو فیصلہ و مشاورت کے مراکز سے باہر نکل رہی ہے۔ مگر منزل مراد نہ واضح ہے، نہ اس کا سفری خاکہ اور نہ ہی عالمی اقتصادی، سیاسی ٹھیکیداروں کو یہ گوارا اور قبول ہو گا، مگر یقین ہے کہ بالآخر یہ خواب بھی شرمندہ تعبیر ہو گا اور طیب اوردگان اس منزل کا قائد ٹہھرے گا۔
طیب اردوگان کا یہ عالمی کردار اب ایسی کسوٹی اور معیار بن گیا ہے، جس پر اقوام عالم نہ صرف ترکی، بلکہ سارے عالم اسلام کو پرکھ رہی ہیں، بلاشبہ یہ کردار روشن بھی ہے، معنی خیز بھی اور ان شاء اللہ نتیجہ خیز بھی بنے گا، خواہ اس میں دہائیاں صرف ہو جائیں۔
طیب اردوگان کی شخصیت اور طرز حکومت کا ایک دوسرا کامیاب رخ داخلی محاذ ہے، جو ان کی کامیابی کی شاہ کلید ہے، اور جس محاذ پر ان کی موثر ترین حکمت عملی نے انہیں ہر نئی منزل پر کامیابی سے ہمکنار کیا ہے، جہاں ان کی قوم کی غالب اکچریت ان کے شانہ بشانہ کھڑی ہے۔
بلاوجہ متعصبانہ، جانبدارانہ اور معاندانہ اختلاف رائے جیسے غیر حقیقی طور پر جمہوریت کا حسن قرار دیا جاتا ہے۔ میری رائے میں وہ خلافِ فطرت ہے۔ بلکہ جدید جمہوریت کا المیہ ہے، جو سیاسی معاشی نظام کو نہ مضبوط ہونے دیتا ہے، نہ کامیابی اور ترقی کی جانب قدم بڑھانے اور اس کا ایک بڑا نمونہ اور مثال پاکستان کا جمہوری نظام ہے، جو سراسر غلاظتوں اور قباحتوں سے لتھڑا ہوا ہے۔ جس کے زیراثر نہ کوئی قومی سوچ ہے، نہ موقف، نہ پالیسی، نہ منزل، نہ ہدف۔ 74 برسوں سے قوم پر طالع آزما، اس کے خودساخہ نظام، فکر اور اعمال کا خراج دیتی اور قیمت چکاتی چلی آرہی ہے۔
ترکی بھی اسی جمہوری قباحتوں کا کسی حد تک شکار رہا ہے۔ مگر ایک مہذب، باوقار اور شائستہ قوم اور قومی فکر و ہدف رکھنے کے باعث اپنے موجودہ حکمرانوں کے ساتھ ہم آہنگ، ہم آواز و ہم دم و ہم ساز ہے۔ اس کا بڑا محرک شاید اسلامی فکر نہ ہو، بلکہ وہ فلاحی اقدامات ہوں جن کیباعث ترک عوام نظریاتی و سیاسی اختلاف اور محاذ آرائی کے باوجود اپنے حکمرانوں پر اعتماد کرتے ہیں۔
طیب اردوگان نے اسی فلاحی طرز سیاست کو اپنی حکومتی حکمت عملی کے ایجنڈے میں سرفہرست رکھا ہے۔ وہ جب استنبول کے میئر منتخب ہوئے تو ان کی ساری توجہات کا مرکز و محور یہی لائحہ عمل تھا۔ اسی سیڑھی سے وہ قدم بقدم آگے بڑھتے رہے، ترک قوم کا اعتماد حاصل کرنے میں کامایب ہوئے۔ جنہوں نے بالآخر انہیں ترکی کے سب سے بڑے منصب تک پہنچایا۔ انہوں نے اپنی قوم کو اپنے مسلسل و مربوط اقدامات سے یقین دلایا کہ وہ ان کے حکمران ہیں، خادم ہیں، ان کے حکومت کو دیے گئے محاصل و وسائل کو دلِ بے رحم کی طرح لوٹنے والے نہیں، بلکہ امن اورمحافظ اور ان کی صلاح و فلاح و بہبود پر خرچ کرنے کے ذمہ دار ہیں۔ موثر و مضبوط بلدیاتی نظام کے ذریعے ترکی قوم کو صحت، صفائی، پانی، سفر، راستوں، عدل و انصاف کے قیام، فلاح عام کا ہر وہ کام کیا گیا، جس کی قوم کے کسی بھی فرد کو ضرورت تھی اور جو ان کا حق بھی تھا۔ ان مسلسل اقدامات نے ترک قوم کو جہاں زندگی کی ہر جدید سہولت، نظام اور ہر کسی کے لئے بلاامتیاز میسر انفرااسٹرکچر مہیا کیا، زندگی کو باوقار و باسہولت بنایا، روزگار کے مواقع پیدا کئے۔ معاشرتی تحفظ کا احساس پیدا کیا، وہیں اچھے انسان، اچھے شہری اور مہذب و شائستہ قوم کی شناخت کی تعمیر و تشکیل میں موثر کردار ادا کیا۔ ترکی کے شہروں، قصبوں، بازاروں، رہائشی علاقوں میں ہر وہ سہولت موجود ہے، جسے یورپی ملکوں کا باعث تفاخر سمجھا جاتا ہے۔
طیب اردگان کی ترک عوام میں ہر دلعزیزی کا ایک بڑا اور اساسی سبب ان کا عوام سے مسلسل رابطہ ہے۔ وہ اپنی عوام کی خوشیوں اور غموں میں شریک ہوتے ہین، کبھی پناہ گزینوں اور یتیم بچوں کو صدارتی محل میں بلاکر پذیرائی کرتے، تحائف دیتے اور دست شفقت سروں پر رکھتے ہیں، کبھی کسی شادی میں یا کسی غریب اور غیر معروف کنبہ کے ساتھ اچانک افطار پر موجودگی، کبھی کسی ؟؟؟؟؟ کے ساتھ کھانے کی ٹیبل پر اچانک ملاقات، کبھی کسی جنازہ میں شرکت، کبھی کھلاڑیوں کی پذیرائی، کبھی فٹ بال گرائونڈ میں میچ میں ٹیم کے ساتھ ہم لباس ہوکر شرکت، کبھی معروف ڈراموں کے سیٹ پر اداکاروں کے ساتھ ملاقات، کبھی مساجد میں نمازیوں کے درمیان موجودگی اور کبھی حفاظ کرام کی تعظیم و تکریم کے لئے مجلس ختم قرآن میں حاضری اور کبھی مساجد کے افتتاحی موقع پر خود تلاوت قران کی سعادت اور ایسے بے شمار اقدامات کے ذریعے عوام تک رسائی نے انہیں اپنی قوم کا ہیرو بنادیا ہے۔
طیب اردگان نے جہاں اپنی قوم کو فکری و عمل آزادیاں دے رکھی ہیں وہی فکر اسلامی کی آبادی سے ہرگز غافل نہیں ہوئے۔ مساجد کی تعمیر، اشاعت و ابلاغ اسلام، احیائے سنت، مدارس کے تعلیمی نظام پر توجہ، سرپرستی اور معاونت کے ذریعے نئی نسل کی ذہن و شخصیت سازی کا مسلسل عمل جاری ہے۔ اسی تبدریج مگر واضح و مربوط مسلسلے کا اثر ترک نوجوانوں کے اس حیران کن عظیم اجتماع کی صورت دیکھا گیا جب انقرہ کے بڑے اسٹیڈیم میں نجم الدین اربکان مرحوم اور قاضی حسین احمد مرحوم کے شاندار استقبال کا تاریخ ساز لمحہ ظہور پذیر ہوا۔ سالہاسال کی تعمیر افکار کیا س جدوجہد کا دوسرا حیران کن نتیجہ چند سال قبل ناکام فوجی بغاوت کی صورت نکلا، جب نہ صرف بیرونی طاقتوں کو منہ کی کھانی پڑی بلکہ اندرونی قوتوں کو بھی شکست فاش ہوئی کہ ان میں سر اٹھانے کا حوصلہ رہا نہ جرأت، آج کا ترکی اسی جدوجہد کے ثمرات سمیٹنے کے لئے تیار ہے۔ عالمی، مقامی، معاشی، سیاسی ہر محاذ پر۔
گزشتہ چند سلاوں میں صدیوں پرانی ترک تاریخ پر مبنی موجودہ ترکی کے ماحول و معاشرت اور سیاسی و سماجی حالات سے یکسر مختلف طویل ڈراموں کے ذریعے نہایت حکمت کے ساتھ جہاں مغربیت اور لادینیت کے گرداب میں پھنسی قوم کو اپنی عظمت رفتہ، آبائو اجداد اور شاندار ماضی سے مربوط کردیا گیا، وہیںمشرق وسطیٰ، ایشیا، عرب ممالک اور دیگر ملکوں میں، مختلف زبانوں میں ان ڈراموں کو منتقل کرکے ترک قوم اور اس کے شاندار ماضی کا بہترین اور دلکش تعارف کراکے ابلاغی معرکہ آرائی کی گئی ہے۔
یہ ڈرامے جو یقینا یورپ کے لئے نہیں بنائے گئے، نہ وہ ان کا ہدف ہے۔ انہوں نے جہاں ترک قوم کے تشخص کو ابھارا، مہذب و متمدن اور پرشکوہ قوم کا منظر دکھایا، وہیں ترک معیشت کو ڈراموں کی فروخت اور اس کے ذریعے سیاحت کے فروغ اور ترکی کو پرکشش ملک بنانے میں اہم اور کلیدی کردار تو ادا کیا ہی، اعداد و شمار کے مطابق یورپ اور برصغیر ہی نہیں، دنای بھر کی فلم انڈسٹری کا کباڑہ کرکے رکھ دیا ہے تو دوسری طرف اداکاروں کے سحر سے نئی نسل کو نکال دیا ہے۔ یہ وہ بالواسطہ اثرات ہیں جو محض ترک نوجوانوں تک ہی محدود نہیں رہے، بلکہ دنیا بھر کے مسلمانوں اور یورپ سے مرعوب نوجوانوں تک پہنچے اور کسی حد تک اپنا جادو جگا گئے ہیں۔
طیب اردگان، ان کے رفقا اور سیاسی و انقلابی تحریک کے گہرے اور دیرپا اثرات ترک قوم پر اس طرح مرتب ہوئے کہ وہ بالآخر لادینیت کے علمبرداروں کو بھولنے لگے اور انہیں محض قوی یادگار کے طور پر جاننے پر اکتفا کرنے لگے ہیں، اور اپنے ان مخلص و ہمدرد حکمرانوں کے فلاحی و قومی اقدامات و خدمات کو اپنے ووٹ کے ذریعے تسلیم کرتے چلے جارہے ہیں۔ انتخابات کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ طیب اردگان اور ان کی سیاسی پارٹی کو ہر انتخاب میں پہلے سے زیادہ تناسب کے ساتھ عوامی مقبولیت، تائید اور سرگرم تعاون حاصل ہوتا چلا جارہا ہے۔ یہ حقیقت بھی قابل ذکر ہے کہ لادینیت کا جن بھی بوتل میں بند کیا جاچکا ہی، فوجی بالادستی کا خمار بھی جیلوں کی سلاخوں کے پیچھے دم توڑ رہا ہے۔ غیر اسلامی نظریات بھی مسلسل دم توڑ رہے ہیں اور براہ راست نہ رسہی بالواسطہ ترک قوم مسجد و محراب و منبر، اللہ و رسولؐ اور قرآن، اسلامی ملت، اس کے تشخص اور فکر اسلامی کی تفہیم و تبلیغ اور قبول و تعمیل کے راستے پر چلنے لگی ہے۔ اسلامی محبت جوش مارنے لگی ہے اور قدر و قیمت اپنا احساس قائم کرنے لگی ہے۔
بلاشبہ ترک قوم فکری طور پر بہت بالغ نظر اور مضبوط قومی اعصاب کی حامل ہے۔ اغیار کی فکری جنائوں اور یلغاروں کو کئی بار برداشت کیا، حتیٰ کہ اپنوں کے ستم بھی برداشت کئے، مگر اپنی اصل فکری بنیادی اور رشتوں سے کبھی ناطہ نہیں توڑا اور صدیوں کے انقطلاع کے باوجود جب موقع ملا اپنی وفائوں کا قرض اتارا، کوئی ترک قوم پر ہرجائی کا ٹیگ نہیں لگا سکتا۔ وقت کے جبر کے زیر اثر یہ راستہ تو کبھی کبھی بھولے، مگر اسے ذہن سے محو ہونے نہ دیا اور جب موقع ملا، اپنے گھر لوٹ آئے۔
مستقبل کا ترکی بھی اسی ایک عظیم اور بھرپور معرکے میں فتح یابی کا سفر طے کررہا ہے۔ سو سالہ فکری غلامی کے طوق، مرد بیمار کے طعنے اور پوری قوم کو مفلوج اور بے اصلی کر دینے والے عہد اتاترک کی۔ آخری سانس میں جن کی تجہیز و تکفین کا ہر سامان کیا جاچکا ہی، 2023ء اس کے تاریخ کے کوڑے دان میں دفن کئے جانے کا اعلان کیا جاچکا ہے اور ترک قوم اس کے لئے ہم تن آمادہ تیار ہے۔
آنے والے عہد قریب میں ترکی وحدت امت کا مرکز بننے جارہا ہے۔ امت کے جسد واحد اور بنیان مرحوم کا مضبوط قلعہ شمار کیا جانے والا ہے۔ دنیا بھر کے سب ضعیفوں، کمزوریوں، مجبوریوں، مقہوروں بالخصوص اہل اسلام کا سائبان، پشتیبان اور سہارا بن کر ایک نئی تاریخ کا دروازہ کھولنے جارہا ہے۔ سیاسی، معاشی، اقتصادی اور عالمی مسائل میں قائدانہ اور مرکزی کردار بھی اسی کے حصے میں آتا دکھائی دے رہا ہے۔ ولو گیرہ اتکافیرون۔ اگرچہ دشمن حق، دشمن اسلام قوتوں کو نہ اندرونی ترکی یہ گوارا ہے، نہ بیرونی دنیا کے اجارہ داروں کے لٔے قابل قبول مگر لگتا ہے۔ سپیدۂ سحر طلوع ہونے کو ہے، ظلمت کی رات چھٹنے کے قریب ہے، ترکی اہل اسلام، فکر اسلامی کا مرکز اور امت کا نکتہ وحدت، اجتماع بن کر نیا منظرنامہ تخلیق کرنے کے قریب ہے۔
اور وہ خدائی وعدہ بھی یقینا حقیقت میں بدلنے کے قریب تر ہے کہ اہل ایمان ہی غالب رہیں گے، اللہ کا دین اور کلمہ ہی سربلند ہوگا اور جو اہل ایمان اللہ ، رسولؐ کے دین کو غالب و نافذ کریں اللہ ان کے لئے زمین و آسمان کے سب خزانوں کے منہ کھول دے گا۔ اس بشارت کو ’’ترکی‘‘ میں پورا ہوتے دیکھا جاسکتا ہے، جہاں دسمبر 2020ء میں سوگوف کے علاقے میں ارطغل کے مزار کے احاطے سے ننانوے گن سونا جس کی مالیت چھ ارب ڈالر تھی، دریافت ہوا اور اسی ماہ جون 2021ء کے پہلے عشرے میں مشرقی ترکی سے ابتدائی طور پر بیس ٹن سونا اور ساڑھے تین ٹن چاندی کے ذخائر دریافت ہوئے ہیں، جن کی مالیت ڈیڑھ ارب ڈالر ہے، بلاشبہ اللہ کا وعدہ سچا ہے اور اللہ اپنے وعدوں کی خؒاف ورزی بھی نہیں کرتا۔ ان اللہ لاتخلف المیتعاد۔
مفکر اسلام سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی یہ پیش گوئی بھی پیش نظر رہے کہ یہ استعماری، استبدادی اور استحصالی نظام بالآخر زمین بوس ہوکر رہیں گے۔ روس کی تباہی سے ایک فکر و فلسفہ زمین بوس ہوا تو دوسرا نظام بھی بالآخر اپنے انجام سے قریب تر ہوتے دکھائی دے رہا ہے۔ قرآن اور صاحب قرآن صلی اللہ علیہ وسلم کے دعوے اور غلبہ اسلامکی نویدیں تو پتھر کی لکیر ہیں، انہیں حرف بہ حرف پورا ہونا ہی ہے۔ اقبالؒ کی طلوع سحر کی نوید بھی ہنوز تشنہ تکمیل ہے۔
غلبہ اسلام کی اس سحر کی جانفزا روشنی اور ٹھنڈک سے اپنے دل منور اور مسرور مطمئن بنانے کی امیدوں کے دیپ جلائے امت مسلمہ کے ان گنت نسلیں گزر گئیں اور زمانے بیت گئے۔ امت کے اتحاد و یک جہتی کا خوا دیکھنے والی کتنی آنکھیں بند ہوگئیں۔ راہ حق پر استقامت و عزیمت کے ساتھ سفر کرنے والے کتنے راستے طے کرچکے، کتنے لوگ اس یوم فتح کی آرزویں زندگیوں کی بازی ہار بیٹھے۔ ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟۔ بہت سوں نے اعلائے کلمتہ اللہ کے لئے اپنی زندگیاں لگادیں۔ ؟؟؟؟؟؟ اور کتنے ہی نفوس ؟؟؟؟ اس دن کے انتظار میں نظریں جمائے بیٹھے، راہ حق میں ہر مشکل سرحد کو عبور کئے پیچھے جارہے ہیں۔
وقت آگیا ہے کہ مشرق و مغرب کے سنگم سے ابھرتا طلوع اسلام کا سورج ہم لازماً دیکھیں، لازم ہے کہ انقلاب کے انتظار میں جاگتے رہنے والے امت کے بدترین حالات کے باوجود ہر روز کے المناک ملی سانحات، دھچکوں اور نئے سقوط کے باوجود وہ دن ضرور دیکھیں جس کے وقوع کا وعدہ ہے۔ الاان حزب اللہ ؟؟؟؟؟۔ وہ دن جو لوح ازل پر لکھا ہے۔ وکلمتہ اللہ ہی ؟؟؟؟؟؟۔ جب ظلم و ستم کے کوہ گراں روئی کی طرح اڑ جائیں گے۔ باطل کی بڑی بڑی طاقتیں، زبردست قوتیں، سب فلسفے نظریے بودے ہوکر زمین بوس ہوجائیں گے۔ انسانیت عالمی اداروں اور خود ساختہ سپر پاورز اور انسانوں کے ناخدائوں، ذہنوں، جسموں، نظریوں، فکر و عمل کے نام نہاد مالکوں کے نظام ظلم و جبر، تعصب اور جانبداری کے چنگل سے آزاد ہوں گے۔ بلاشبہ مملوکوں کے پائوں تلے ان کے تاج اور نظام روندے جائیں گے، اللہ کا حکم غالب اور نافذ ہوگا۔ طیب اردگان کی قیادت میں ’’ترکی‘‘ سے طلوع ہونے والا یہ سورج ضرور طلوع ہوگا اور سارا جہاں نغمہ توحید سے ضرور معمور ہوگا۔ ان شاء اللہ۔