طالبان آ رہے ہیں

طالبان نے بڑی سمجھ داری سے مذاکرات کا مرحلہ طے کیا۔ عام طور سے گوریلا تنظیمیں مذاکرات کی وجہ سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجاتی ہیں، کہ کمانڈر اور جنگجو سیاسی مصلحتوں سے ناآشنا ہوتے ہیں۔ مذاکرات کی میز پر فریقین کو کبھی آگے بڑھنا اور کبھی پیچھے ہٹنا ہی پڑتا ہے۔ طالبان کی موجودہ قیادت نے ہوشیاری سے اپنے کارڈز کھیلے۔ انہوں نے تین کام کیے: اپنے بنیادی نکات پر سمجھوتا نہیں کیا، افغان حکومت کو امریکہ سے مذاکرات سے باہر رکھا، امریکہ سے انخلا کی تاریخ کا اعلان کرایا اور نیٹو فورسز کی روانگی کا سلسلہ بھی فوری شروع کرایا، جبکہ اس کے ساتھ افغان حکومت کی قید میں موجود اپنے ہزاروں جنگجوئوں کو رہا کرا لیا۔ اس سے یہ تاثر ملا کہ طالبان قیادت نے مؤقف سے پیچھے ہٹے بغیر مطالبات منوا لیے۔ طالبان نے ایک پیچیدہ مگر مسلسل پراسیس کے ذریعے اپنے اہم کمانڈروں کو اعتماد میں لیا، انہیں کسی بھی مرحلے پر اندھیرے میں نہیں رکھا گیا۔ طالبان کی اصل کامیابی علما اور مفتی صاحبان کو بھرپور طریقے سے استعمال کرنا ہے۔ افغان خاص کر طالبان کی دنیا میں یہ مذہبی فیکٹر بڑا اہم اور طاقتور ہے۔ جہادی کمانڈروں اور جنگجوئوں کو بھی اپنی جدوجہد کے لیے مذہبی حمایت کی ضرورت پڑتی ہے۔ طالبان قیادت نے اس کا خاص خیال رکھا۔ یہی وجہ ہے کہ پچھلے ڈیڑھ دو سال کے مذاکراتی عمل کے دوران طالبان کے اندرونی حلقوں سے کسی ناراضی یا ناخوشی کی خبر نہیں ملی۔ طالبان کا متحد ہونا ہی ان کی اصل قوت ہے۔
اگلے چند ماہ میں اصل کشمکش طالبان اور موجودہ افغان حکومتی سیٹ اَپ کے درمیان ہوگی۔ اپنے سنگین اختلافات کو نظرانداز کرکے اشرف غنی، عبداللہ عبداللہ، رشید دوستم، استاد محقق اور دیگر ازبک، تاجک، ہزارہ لیڈر اکٹھے ہورہے ہیں۔ ان کی کوشش ہے کہ اینٹی طالبان بنیاد پر عوامی گروہوں، ملیشیاز اور نسلی، لسانی، مسلکی بنیاد پر جذباتی نوجوانوں کو اکٹھا کیا جائے۔ کابل سمیت مختلف شہروں میں ایسا کرنے کی کوشش ہورہی ہے۔ سوال پھر وہی ہے کہ کیا یہ سب مل کر بھی طالبان کی یلغار کو روک سکیں گے؟
امریکی انٹیلی جنس رپورٹ کے مطابق امریکی انخلا کے بعد چھ سے بارہ ماہ کے دوران طالبان چھا جائیں گے۔ طالبان کی کوشش ہے کہ سرکاری فوج اور انتظامیہ کو نیوٹرل کیا جائے۔ طالبان کی جانب سے انہیں ہتھیار رکھ کر اپنے گھروں کو لوٹنے کی صورت میں محفوظ راستہ دینے اور عام معافی دینے کے اعلانات کیے جارہے ہیں۔ پچھلے پندرہ بیس برسوں میں امریکیوں کا ساتھ دینے والے مخبر، جاسوس، مترجم اور دیگر خدمات انجام دینے والے فطری طور پر متفکر ہیں۔ طالبان کی عام معافی کے اعلان کے باوجود انہیں خطرہ ہے کہ بعد میں سخت کارروائی ہوسکتی ہے۔ امریکہ نے وعدہ کیا ہے کہ ساتھ دینے والوں کو ویزا دے کر بچایا جائے گا۔ سب لوگ مگر ظاہر ہے نہیں جا سکیں گے۔ یہاں پر طالبان کا امتحان ہے کہ وہ موجودہ سیٹ اَپ میں سے کتنے دھڑوں، لیڈروں یا لوگوں کو اپنے ساتھ ملانے میں کامیاب ہوں گے؟ اپنے پچھلے دور میں طالبان اس حوالے سے سخت اور بے لچک رہے تھے۔ وہ تب غیر مشروط بیعت کے سوا کسی بات پر رضامند نہیں تھے۔ اسی وجہ سے گلبدین حکمت یار اور بعض دیگر اہم لیڈر طالبان کے ساتھ نہیں مل سکے تھے۔ اِس بار دیکھیں طالبان کیا رویہ اپناتے ہیں؟
پاکستان کے لیے سب سے اہم یہ ہے کہ سوچ سمجھ کر درست فیصلے کیے جائیں۔ دو تین نکات ہمیں سمجھنے چاہئیں۔ دبائو یا عجلت میں کوئی بھی غلطی دو عشروں کی محنت ضائع کرسکتی ہے۔ سب سے بہتر یہی ہے کہ افغانوں کو اپنے فیصلے خود کرنے دیں۔ طالبان کو اپنے حملوں کے لیے پاکستانی مدد کی ضرورت نہیں، پاکستان پر اب یہ الزام نہیں لگایا جا سکتا۔ زیادہ تر لڑائی شمالی افغانستان میں لڑی جارہی ہے، جو پاکستان سے کئی سو کلومیٹر دور ہے۔ اس لیے اشرف غنی حکومت کے بے سروپا الزامات سے دبائو میں نہیں آنا چاہیے۔ پاکستان طالبان کو ڈکٹیٹ کرانے کی پوزیشن میں کبھی نہیں رہا۔ طالبان جب دنیا بھر میں تنہا تھے، تب بھی ملا عمر کی حکومت نے آزادانہ فیصلے کیے تھے۔ جنرل پرویزمشرف انہیں جھکانے میں بری طرح ناکام رہے۔ آج طالبان کا ساتھ دینے کے لیے کئی قوتیں متحرک ہیں۔ چین افغانستان میں اپنا اثر رسوخ بنانا چاہے گا۔ روس کی بھی یہی خواہش ہوگی۔ ایران اور طالبان کے مابین ماضی والی تلخی موجود نہیں۔ تاجکستان، ازبکستان، ترکمانستان اور دیگر وسط ایشیائی ریاستیں بھی شاید کھل کر مخالفت نہ کریں۔ بھارت بھی طالبان سے ہاتھ ملانے کو بے تاب ہے۔ ہم نے شدید امریکی دبائو کے باوجود طالبان کی جدوجہد کو سپورٹ کیا۔ جہاں تک ہوسکا، ان کی مدد کی۔ طالبان یقیناً اس کا احترام کریں گے، مگر ہمیں ان پر دبائو نہیں ڈالنا چاہیے۔ سلیقے اور حکمت سے نہ چلا گیا تو یہ رشتہ متاثر ہوگا۔ ہمیں امریکہ کو کسی بھی صورت میں اڈے نہیں دینے چاہئیں۔ اس حوالے سے وزیراعظم عمران خان کا مؤقف درست اور قابلِ ستائش ہے۔ یقینی طور پر اس فیصلے کو سول ملٹری مکمل سپورٹ حاصل ہوگی۔ یہ وقت ہے کہ ہماری انٹیلی جنشیا، میڈیا اور سیاسی جماعتوں کو بھی اس حوالے سے یکسو ہونا چاہیے۔ اڈے نہ دینے کے بارے میں پارلیمنٹ کو بھی استعمال کرنا چاہیے۔ جو غلطی ہم نے ماضی میں کی تھی، اسے کسی بھی صورت میں نہیں دہرانا چاہیے، امریکی دبائو خواہ کس قدر بڑھ جائے۔
بظاہر یوں لگ رہا ہے کہ ترک صدر امریکہ سے اپنے تعلقات بحال کرنے کے لیے افغانستان میں ایک بڑی غلطی کرنے جارہے ہیں۔ کابل ائیرپورٹ کی حفاظت کے لیے ترک فوجی دستوں کی تعیناتی کی پیش کش غیر منطقی اور نامناسب ہے۔ ترک دستے نیٹو کا حصہ ہیں، انہیں نیٹو کے ساتھ ہی چلے جانا چاہیے۔ افغان طالبان نے واضح الفاظ میں ترک پیش کش کی مخالفت کی ہے، انہیں اس کا حق پہنچتا ہے۔ ترکی اس کا اشارہ دے رہا ہے کہ کابل ائیرپورٹ کی حفاظت کے لیے پاکستانی دستے بھی اس کے ساتھ شامل ہوں۔ اس ٹریپ میں نہیں پھنسنا چاہیے۔ کابل ائیرپورٹ کی حفاظت ہمارا مسئلہ نہیں۔ پاکستان کو (طالبان کے لیے نرم گوشہ رکھتے ہوئے) غیر جانب دار رہنا چاہیے۔ افغانستان کے مستقبل کے حوالے سے ہمارے کچھ آئیڈیاز، تجاویز، خواہشات ہوسکتی ہیں، مگر ان کی افغان منظرنامے میں کوئی خاص اہمیت نہیں۔ طالبان ہمارے نہیں، اپنے ایجنڈے پر چلیں گے۔ افغان حکومت کے پاس بھی زیادہ آپشنز نہیں۔ اس لیے افغانستان کا معاملہ افغانوں پر چھوڑ دینا چاہیے۔ اس وقت طالبان ہی مستقبل کی سب سے بڑی افغان قوت نظر آرہے ہیں، انہیں چھیڑنا اور مشتعل کرنا دانش مندی نہیں۔ مجھے شدید حیرت ہوئی کہ اس وقت وزارتِ خارجہ نے اسلام آباد کی ایک سڑک کا نام احمد شاہ مسعود کے نام سے منسوب کرنے کا مشورہ دیا۔ اس سے زیادہ بے تکی اور غیر دانش مندانہ بات اس پورے سال میں نہیں کہی گئی۔ احمد شاہ مسعود زندگی بھر اینٹی پاکستان رہے، اب ہمارے دل میں اُن کی محبت کہاں سے جاگ اٹھی؟ اگر کسی مصلحت کے تابع یہ کام کرنا بھی تھا تو پانچ سال پہلے کیا جاتا۔ طالبان آرہے ہیں، اب تو کسی سڑک کا نام ملا عمر سے منسوب کرنے کی تجویز آنی چاہیے۔
(محمد عامر خاکوانی۔ دنیا، منگل 29 جون 2021ء)