حافظ ابنِ کثیرؒ نے ابنِ عساکرؒ کے حوالے سے لکھا ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کے مرضِ وفات میں حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ ، ان کی بیمار پرسی کے لیے تشریف لے گئے اور فرمایا:
’’ماتشتکی؟‘‘ (آپ کو کیا تکلیف ہے؟‘‘(
حضرت عبداللہؓ نے جواب دیا: ’’ذنوبی!‘‘ (اپنے گناہوں کے وبال کی تکلیف ہے)
حضرت عثمانؓ نے فرمایا: فما تشتھی‘‘( آپ کی خواہش کیا ہے؟)
حضرت عبداللہؓ نے فرمایا: ’’رحمتہ ربی‘‘ (اپنے پروردگار کی رحمت چاہتا ہوں)
’’آپ کے لیے کوئی طبیب بھیج دوں؟‘‘ حضرت عثمانؓ نے پوچھا۔
’’طبیب ہی نے تو مجھے بیمار کیا ہے‘‘۔ حضرت عبداللہؓ نے جواب دیا۔
’’تو پھر اخراجات کے لیے کچھ رقم بھجوادوں؟‘‘ حضرت عثمانؓ نے فرمایا۔
’’نہیں، مجھے اس کی ضرورت نہیں‘‘۔ حضرت عبداللہؓ نے جواب دیا۔
’’یہ رقم آپ کے بعد آپ کی صاحبزادیوں کے کام آجائے گی‘‘۔ حضرت عثمانؓ نے فرمایا۔
’’کیا آپ کو میری بیٹیوں پر فقر و فاقہ کا اندیشہ ہے؟ میں نے تو انہیں ہر رات سورۂ واقعہ کی تلاوت کی تاکید کر رکھی ہے، کیونکہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص ہر رات سورۂ واقعہ پڑھے اسے کبھی فاقہ کی مصیبت نہیں آئے گی‘‘۔
(تفسیر ابن کثیر، ص 281، ج 1-4، المکتبتہ التجاریہ الکبریٰ 1356ھ) (مفتی محمد تقی عثمانی۔” تراشے“)