مقابلہ

انسان کے اندر موہوم خطرات کے الارم بج رہے ہیں۔ صحت بیماری کی زد میں ہے۔ بیماری ڈاکٹر کے عذاب میں ہے۔ مسافر راہزن سے لرزاں ہے۔ اچانک کسی انہونی کے ہونے کا اندیشہ کھائے چلا جارہا ہے۔
آج کے انسان کا یقین متزلزل ہے۔ اس کا ایمان ختم ہوچکا ہے۔ وہ بھوکا ہے مال کا، اسے ڈر ہے غریب ہونے کا، اس لیے اسے نفرت ہے ماضی سے، حال سے، مستقبل سے۔ اسے مقابلے کی دعوت ہے۔ اسے مقابلے کی تعلیم دی گئی ہے۔ اسے مقابلے کی اہمیت سکھائی گئی ہے، اور اسی تعلیم میں اس کی صفاتِ عالیہ ختم ہوگئی ہیں۔
جب تک انسان اپنے عقیدے کی اصلاح نہیں کرتا، وہ اسی طرح سرگرداں رہے گا۔ وہ ٹکراتا رہے گا، اپنا سر پھوڑتا رہے گا، زندگی کا گلہ کرتا رہے گا، زندگی سے الجھا رہے گا اور اسی الجھائو میں اس کی سانس اکھڑ جائے گی، اور پھر یہ سارے مقابلے، ساری فتوحات، سارے تمغے، سارے سرٹیفکیٹ، سارے سرمائے دھرے کے دھرے رہ جائیں گے۔
وہ دنیا سے اپنے حاصل کو لاحاصل چھوڑتا ہوا رخصت ہوجائے گا… آندھی اور چراغ کو برسرپیکار دیکھنے والوں نے زندگی کوکیا دیکھا… آنکھ والے اندھے رہے۔
آندھی آتی ہے، چڑیا کا نشیمن اڑ جاتا ہے۔ صبح وہی چڑیا اپنی تسبیح و مناجات میں نغمہ سرا ہوتی ہے۔ اسے کسی واقعے اور سانحے کی پروا نہیں۔ وہ بس مجسم تشکر ہے، سراپا نغمہ۔
انسان غور نہیں کرتا کہ اس کی بینائی کیا ہے… آنکھ بنانے والے نے بینائی کو نظاروں کی خوراک مہیا کی ہے۔ نظاروں سے لطف اندوز ہونے کے بجائے انسان نے خود کو کج میں بنا کے رکھ دیا۔ وہ حسن و رنگ تلاش کرنے کے بجائے ان کے نقائص کا متلاشی ہوکر رہ گیا ہے، اس لیے کہ اسے مقابلے کا علم دیا گیا ہے۔ مطالعے اور مشاہدے سے محروم، مقابلہ ہی مقابلہ، جہالت ہی جہالت، حماقت ہی حماقت۔
انسان محفوظ ہونے کی آرزو میں غیر محفوظ ہونا محسوس کرتا ہے، اور اس احساس کو مقابلے کے میدان میں لے جاکر اپنی زندگی برباد کرتا رہا ہے۔ وہ پستول کو اپنی جان کا محافظ سمجھتا ہے اور خود پستول کی حفاظت کرتا رہتا ہے۔ اسے کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ کون کس کا محافظ ہے۔
وہ دولت اکٹھی کرتا ہے تاکہ غریبی سے بچ سکے، اور پھر اس دولت کو خرچ نہیں کرتا کہ غریب نہ ہوجائے، اور اس طرح دولت کی موجودگی میں غریبانہ زندگی بسر کرتا ہوا آخرکار ہلاک ہوجاتا ہے۔ غریبی کا مقابلہ کرتا ہے اور غریبی ہی میں زندگی بسرکرتا ہے۔ اپنے حال کے خود ہی مقابل ہے اور خود ہی خود کو ہلاک کرتا ہے۔
وہ امن چاہتا ہے اور اس کے حصول کو ممکن بنانے کے لیے جنگ کی تیاری کرتا ہے۔ امن کی خاطر جنگ… مقابلے کا کرشمہ ہے۔
انسان ترقی کرنا چاہتا ہے، فیکٹریاں لگاتا ہے، مکان بناتا ہے اور ہر لمحہ، ہر لمحے سے مقابلہ کرتا ہوا فیکٹری اور مکان کو چھوڑتا ہوا مٹی کے ایک تاریک گھروندے میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے روپوش ہوجاتا ہے۔
وہ بڑے بڑے ایام مناتا ہے، یادیں مناتا ہے، مقابلے بیان کرتا ہے… پرانے مقابلے، پرانے واٹر لو… پرانے پانی پت… پرانے ابن قاسم، پرانے غزنوی… پرانے سومنات…
وہ پرانی فتوحات پر نئے چراغاں کرتا ہے… پرانی خانقاہوں پر نئے عرس مناتا ہے… اور نئے چراغاں کے باوجود اس کے اپنے دل میں پرانے اندھیرے رہتے ہیں… انسان نہیں سمجھتا۔ وہ کیسے سمجھے؟ ڈھول کی تھاپ پر اور طبلے کی تال میں دھمال ڈالنے والا انسان بھول جاتا ہے کہ انسان کو عقل نام کی دولت بھی ملی ہوئی تھی۔ نہ جانے یہ دولت کہاں ضائع ہوگئی… وہ تو صرف مقابلہ کرتا ہے… ڈھول کا ڈھول سے، طبلے کا طبلے سے، آواز کا آواز سے… اور اس مقابلے میں اتنا محو ہوتا ہے کہ اصل واقعہ ہی بھول جاتا ہے۔ بس مقابلہ یاد رکھتا ہے، دمادم مست قلندر… نعرے لگاتا ہوا غافل انسان خاموش ہوجاتا ہے۔ یادیں مناتا ہوا خود فراموش ہوجاتا ہے۔
عقیدے کی اصلاح نہ ہو تو مقابلہ جاری رہے گا۔ خیال کا مقابلہ وہم سے، ہوا کا مقابلہ ہوس سے، روایت کا مقابلہ حقائق سے، خواب کا مقابلہ حقیقت سے، مذہب کا مقابلہ ضرورت سے، ذات کا مقابلہ کائنات سے، اور سیاست کا مقابلہ سیأت سے۔
عقیدے کی اصلاح یہ ہے کہ ہم یقین کرلیں کہ زندگی دینے والے نے ان تین باتوں کا فیصلہ کررکھا ہے:
1۔ زندگی کتنا عرصہ قائم رہے گی اور کب ختم ہوجائے گی۔ اسے کوئی حادثہ وقت سے پہلے ختم نہیں کرسکتا، اور کوئی احتیاط اسے وقت کے بعد قائم نہیں رکھ سکتی۔ جب عرصۂ قیام مقرر ہوچکا، تو مقابلہ کیا ہے! زندگی کا انجام جب موت ہی ہے تو پھر یہ کوشش اور مقابلہ کیا ہے؟
2۔ عزت اور ذلت کوشش کے درجے نہیں، نصیب کے مقامات ہیں۔ ذرے کو آفتاب کب بننا ہے اور آفتاب کوگرہن کب لگنا ہے، اس کا فیصلہ ہوچکا ہے… پیدائش کے ساتھ ہی نیک نامی اور بدنامی کے ایام پیدا ہوجاتے ہیں… اب مقابلہ کس بات کا؟
3۔ رزق مقرر ہوچکا… مال کا رزق، سانس کا رزق، بینائی کا رزق، عقل کا رزق، ایمان و ایقان کا رزق۔ کوئی کوتاہی خوش حالی کو زوال نہیں دے سکتی، یہ فیصلہ ہوچکا۔ مقابلہ واہمہ ہے۔
[واصف علی واصفؔ’’دل دریا سمندر‘‘… صفحہ 123]

مری نوائے غم آلود ہے متاعِ عزیز
جہاں میں عام نہیں دولتِ دلِ ناشاد

اس شعر میں علامہ اپنی شاعری کی حقیقت و اہمیت سے آگاہ کرتے ہیں کہ یہ ملّت کے درد و الم کی داستان بھی ہے، اور اس میں حیاتِ نو کا پیغام بھی ہے۔ درد و الم سے معمور، اقبال کا دل ملّت کی غم خواری کے جذبوں کی نمائندگی کررہا ہے۔ ملّت کے تاریخی عروج و زوال کی تفصیلات سے آگاہ مردِ خود آگاہ اقبال کا کلام، بھٹکے ہوئے آہو کی رہنمائی اور رہبری کے لیے وقف ہے۔ ایسا دل اور ایسا کلام، ایسی اپنائیت اور ایسی وفا اقبال سے ہٹ کر کسی اور کے ہاں سے نہیں مل سکتی۔