وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ مرد روبوٹ نہیں ہے، عورت مختصر کپڑے پہنے گی تو مردوں پر اثر تو پڑے گا۔ امریکی ٹی وی کو انٹرویو کے دوران ملک میں فحاشی اور جنسی زیادتیوں کے واقعات پر بات کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ میں نے کبھی نہیں کہا عورتیں برقع پہنیں، عورت کے پردے کا تصور یہ ہے کہ معاشرے میں بے راہ روی سے بچا جائے۔ ہمارے ہاں ڈسکو اور نائٹ کلب نہیں ہیں، لہٰذا اگر معاشرے میں بے راہ روی بہت بڑھ جائے اور نوجوانوں کے پاس اپنے جذبات کے اظہار کی کوئی جگہ نہ ہو، تو اس کے معاشرے کے لیے مضمرات ہوں گے۔ جہاں تک جنسی تشدد ہے، اس کا تعلق معاشرے سے ہے، جس معاشرے میں لوگ ایسی چیزیں نہیں دیکھتے وہاں اس سے اثر پڑے گا، لیکن امریکہ جیسے معاشرے میں کوئی فرق نہیں پڑے گا۔
وزیراعظم کے اس بیان پر ملک کے سیکولر عناصر اور مادر پدر آزادی کی علَم بردار خواتین کی جانب سے شدید ردعمل سامنے آیا ہے، حالانکہ اس کی مخالفت دین سے محبت کرنے والوں اور رسولِ رحمتؐ کے شیدائیوں کی جانب سے کی جانی چاہیے تھی، کیونکہ وزیراعظم نے بظاہر مختصر لباس کو جنسی جرائم میں اضافے کا سبب قرار دیا ہے، مگر ساتھ ہی مغربی دنیا میں ڈسکو یا نائٹ کلب کی وکالت کرتے ہوئے انہیں نوجوانوں کے جذبات کے اظہار کے ذریعے کے طور پر پسندیدہ اور جنسی جرائم میں کمی کا سبب ٹھیرایا ہے، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ مغربی معاشرے میں بے راہ روی کے منفی نتائج ہمارے معاشرے سے کہیں بڑھ کر ہیں، اور اعداد و شمار اس کے گواہ ہیں کہ مغرب میں جنسی تشدد کے واقعات کی تعداد پاکستان جیسے معاشروں سے کہیں زیادہ ہے، جس کی ایک مثال امریکہ اور یورپی ممالک میں بن بیاہی مائوں کی بڑھتی ہوئی تعداد ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ انسان اور حیوان میں بنیادی اور ظاہری فرق لباس ہی کا ہے۔ اسلام نے اس معاملے میں اپنے ماننے والوں کو نہایت متوازن اور محفوظ راستے کی جانب رہنمائی کی ہے۔ وہ جہاں عورتوں کو ساتر لباس پہننے اور حجاب کی تعلیم دیتا ہے تاکہ وہ بدنگاہوں سے محفوظ و مامون رہیں، وہیں مردوں کو بھی نگاہیں نیچی رکھنے، تانک جھانک نہ کرنے اور شرم گاہوں کی حفاظت کا حکم دیتا ہے۔ جناب عمران خان اسلامی جمہوریہ پاکستان کے وزیراعظم ہیں جسے وہ ریاست مدینہ کے نمونے پر استوار کرنے کے دعویدار ہیں، ان کا یہ فرض ہے کہ نہ صرف عورتوں اور مردوں کے مکمل و ساتر لباس اور حجاب کی وکالت کریں بلکہ معاشرے کو اسلامی اقدار و روایات کے مطابق تشکیل دینے کے لیے مؤثر قانون سازی اور ٹھوس عملی اقدامات بھی کریں، کہ وہ اب محض ایک سیاسی و سماجی رہنما اور مصلح نہیںبلکہ مملکتِ خداداد اسلامی جمہوریہ پاکستان کے وزیراعظم اور سیاہ و سفید کے مالک ہیں، جس کی ذمہ داریاں محض وعظ و نصیحت اور تعلیم و تلقین سے پوری نہیں ہوتیں، بلکہ اس کے تقاضے اس سے کہیں بڑھ کر ہیں، جن کے لیے انہیں قیامت کے روز اپنے خالق و مالک کے سامنے بھی جواب دہ ہونا پڑے گا۔
اپنے اسی انٹرویو میں وزیراعظم عمران خان نے دیگر بہت سی باتوں کے علاوہ یہ بھی کہا کہ برصغیر میں ایک ارب چالیس کروڑ کی آبادی ہے جو کشمیر کے تنازعے کی وجہ سے یرغمال بنی ہوئی ہے۔ اگر امریکہ چاہے تو یہ مسئلہ حل ہوسکتا ہے۔ مجھے پاکستان اور بھارت کے ایٹمی ہتھیاروں سے پاک ہونے پر خوشی ہوگی۔ کشمیر کا مسئلہ حل ہوگیا تو ان ہتھیاروں کی ضرورت نہیں رہے گی۔ مغربی دنیا میں کشمیر کو کیوں نظرانداز کیا جاتا ہے؟ کشمیر مغرب کے لیے ایشو نہ ہونا منافقت ہے۔ مسئلہ کشمیر حل ہوگیا تو دونوں ممالک مہذب اقوام کی طرح رہیں گے۔
وزیراعظم کا یہ کہنا بجا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے مابین اہم اور بنیادی تنازع کشمیر ہی ہے، تاہم اول تو دونوں ممالک کے مابین یہ واحد تنازع نہیں، اور بھی بہت سے متنازع امور دونوں ہمسایہ ممالک کے مابین کشیدگی کا سبب ہیں۔ اس ضمن میں یہ بات بھی ہمارے وزیراعظم اور دوسرے فیصلہ سازوں کو فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ مسئلہ کشمیر کے حل کے سلسلے میں امریکہ پر آنکھیں بند کرکے اعتماد نہیں کیا جا سکتا، ایسی صورت میں وہ منافقت جس کی نشاندہی خود وزیراعظم نے اسی انٹرویو میں کی ہے، بروئے کار آنے کا شدید خدشہ موجود ہے، اور امریکہ کا ماضی کا طرزعمل اس کا گواہ بھی ہے۔ وزیراعظم کا یہ کہنا بھی محلِ نظر ہے کہ مسئلہ کشمیر حل ہوجائے تو جوہری ہتھیاروں کی ضرورت نہیں رہے گی اور دونوں ملک مہذب اقوام کی طرح رہیں گے۔ اس ضمن میں بھی وزیراعظم کو بھارت کی حکمران ہندو ذہنیت کو فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ اسے جب بھی موقع ملا ہے اُس نے پاکستان کو نقصان پہنچانے میں کسی ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیں کیا ہے۔ قیامِ پاکستان کے فوری بعد متعدد مسلمان ریاستوں پر بزور طاقت قبضہ، 1965ء میں رات کی تاریکی میں پاکستان پر حملہ، 1971ء میں سازش اور بندوق کے بل پر پاکستان کو دولخت کرنا، سیاچین پر قبضہ، پاکستان کے حصے کے پانی کو بھارت میں روکنے اور افغانستان کے راستے پاکستان کے اندر خصوصاً بلوچستان میں جاری حالیہ بھارتی تخریب کاری اور دہشت گردی سمیت کتنی ہی مثالیں اس ضمن میں قیامِ پاکستان سے اب تک کی تاریخ سے تلاش کی جا سکتی ہیں۔ اس لیے وزیراعظم کو اس قسم کے بیانات دیتے ہوئے حقائق اور احتیاط کے تقاضوں کو لازماً ملحوظِ خاطر رکھنا ہوگا۔