برائی سے روکنا ایمان کا تقاضا

حضرت ابو سعید خدری ؓ روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتے سنا ’’تم میں سے جو شخص کوئی برائی دیکھے تو اسے اپنے ہاتھ سے مٹائے، پھر اگر اسے طاقت نہیں ہے تو اپنی زبان سے روکے، پس اگر اس کی بھی اسے طاقت نہیں تو اپنے دل میں اسے برا سمجھے۔ یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے‘‘۔
یہ حدیث دعوت و تبلیغ اور نہی عن المنکر کے بارے میں اصولی رہنمائی کرتی ہے۔ اس لیے اسے تفصیل سے بیان کیا جاتا ہے۔ یہ بات ذہن میں رہے کہ امربالمعروف اور نہی عن المنکر دعوت و تبلیغ کا ایک اہم جز ہے۔
دین اسلام خیر و بھلائی کا دین ہے اور مسلم امت کو دنیامیں اس لیے بھیجا گیا ہے کہ وہ نیکی پھیلائے اور برائی کو ختم کرے تاکہ انسان دنیا میں امن و سلامتی کی زندگی گزارے اور زور و جبر اور دکھ تکلیف سے بے فکر ہو کر رہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’تم بہترین امت ہو جسے لوگوں (کی ہدایت اور رہنمائی) کے لیے لایا گیا ہے تا کہ نیکی کا حکم کرو اور برائی سے روکو اور اللہ پر ایمان لائو‘‘۔(آل عمران۔ 11:3)
اس طرح سورۂ بقرہ کی آیت 143 میں بھی اس کو بہتر امت کہا گیا ہے، پھر اس امت کے افراد (مومنوں) کی صفات بیان کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے:
’’مومن مرد اور مومن عورتیں ایک دوسرے کے ساتھی ہیں، نیکی کا حکم کرتے ہیں اور برائی سے روکتے ہیں، نماز قائم کرتے ہیں، زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسولؐ کی فرماں برداری کرتے ہیں، ان ہی پر اللہ رحم فرمائے گا‘‘۔ (التوبہ۔ 71:9)
امر بالمعروف اور نہی عن المنکر نہ صرف امت کی اجتماعی اور عمومی ذمہ داری ہے بلکہ امت کے افراد کی انفرادی ذمہ داری بھی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’نیکی کا حکم دینے والے اور برائی سے روکنے والے‘‘۔ (التوبہ۔ 112:9)
اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضرت لقمان کی وہ نصیحت بیان کی ہے جو انہوں نے اپنے بیٹے کو کی تھی:
’’اے میرے بیٹے! نماز قائم کر اور نیکی کا حکم دے اور برائی سے روک، اور اس راہ میں جو تکلیف پہنچے اس پر صبر کر۔ بلاشبہ یہ اہم کاموں میں سے ہیں‘‘۔
امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی متعدد احادیث وارد ہوئی ہیں جو احادیث کی کتابوں میں موجود ہیں۔ ہم یہاں پر صرف دو حدیثیں بیان کرتے ہیں:
’’حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ٹیک لگائے بیٹھے ہوئے تھے، پھر سیدھے بیٹھ گئے اور فرمایا :نہیں! اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے، تم ضرور لوگوں کو نیکی کا حکم دیتے رہو گے اور برائی سے روکتے رہو گے اور ظالم کا ہاتھ پکڑو گے اور ظالم کو حق پر جھکائو گے، اگر تم لوگ ایسا نہیں کرو گے تو تم سب کے دل بھی ایک ہی طرح کے ہو جائیں گے اور پھر اللہ تم کو اپنی رحمت سے دور پھینک دے گا جس طرح بنی اسرائیل کے ساتھ اس نے معاملہ کیا‘‘۔
مسلم امت امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فرض ادا کرتی رہے اور ظالموں کو ظلم سے روکتی رہے تو دونوں جہاں کی نجات حاصل ہو گی ورنہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے اس طرح دور ہو جائے گی جیسے بنی اسرائیل دور ہو گئے تھے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کام کی اہمیت اور فضیلت بیان کرتے ہوئے فرمایا:
’’ ظالم اور جابر اقتدار اور قوت کے سامنے حق کا کلمہ (بات) کہنا افضل جہاد ہے‘‘۔ (بحوالہ حضرت ابو سعید خدری ؓ)
امتِ محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر دور میں انفرادی طور پر ایسے شخص رہے ہیں جنہوں نے یہ فرض ادا کیا ہے اور اس راہ میں آنے والی تکالیف جھیلی ہیں۔ کتنے حضرات نے اپنی جانیں تک قربان کی ہیں لیکن اس فرض کی ادائیگی سے پیچھے نہیں ہٹے، اس کام کی ادائیگی کے لیے اجتماعی کوششیں بھی کی ہیں، البتہ آج کے اس دور میں اس فرض کی ادائیگی میں خاصی کوتاہی ہو رہی ہے۔ اس کوتاہی کے مختلف اسباب ہیں جیسے اس بارے میں آمدہ آیات و احادیث کی تاویل کرنا، انسانوں کا ڈر، دنیاوی لالچ و حرص، آرام و عیش پرستی، اللہ کی راہ میں تکلیفیں جھیلنے سے کترانا ور مغربی و ملحد لوگوں کا پروپیگنڈہ وغیرہ۔
امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا دائرہ بہت وسیع ہے یعنی ایک فرد، ایک گھر کے بڑے، رئیس، سردار، حاکم سے لے کر تنظیموں برادریوں، جماعتوں، تحریکوں اور حکومت تک پھیلا ہوا ہے۔ ہر شخص اور ہر تنظیم پر اس کی طاقت، اختیار و اقتدار کے مطابق اسے سرانجام دینا فرض ہے۔
علمائے کرام نے اس فریضے کو فرضِ عین بھی کہا ہے اور فرضِ کفایہ بھی۔ فرضِ عین اس لحاظ سے ہے کہ ہر فرد جو گھر کا بڑا ہے اُس کے چند افراد جو ماتحت ہیں، جو اُس کے گھر میں پلتے ہیں اور کھاتے ہیں، انہیں نماز، روزے، دین کی بنیادی باتوں کے ادا کرنے کا حکم دے اور شریعت کی طرف سے حرام کردہ باتوں اور کاموں سے روکے۔ البتہ یہ کام اجتماعی طور پر فرضِ کفایہ ہے، یعنی اگر کچھ جماعتیں، تنظیمیں اور حکومتی ادارے یہ کام کریں تو باقی لوگوں سے یہ فرض ساقط ہو جائے گا، لیکن ایسے ادارے، تنظیمیں اور ایسی حکومت قائم کرنے کے لیے جدوجہد اور کوشش کرنا ضروری ہے تا کہ دین کے تمام احکام قائم وجاری ہوں اور اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی اور برائیاں ختم ہوں اور پورا اسلامی نظام قائم ہو جائے، اگر ایسے ادارے نہیں ہیں اور نہ ہی ایسے اداروں کے قیام کی کوشش ہو رہی ہے اور امربالمعروف اور نہی عن المنکرکا کام نہیں ہو رہا تو پوری امت مجرم ہے۔
قرآن مجید میں ارشاد ہے: ’’تم میں سے ایک امت ایسی ضرور ہونی چاہیے جو نیکی کی طرف بلائے اور نیکی کا حکم دے اور برائی سے روکے۔ اور وہی لوگ کامیاب ہیں‘‘۔ (آل عمران۔104:3)
یہ آیت کریمہ صاف بتاتی ہے کہ یہ کام انفرادی کے ساتھ ساتھ اجتماعی پیمانے پر بھی ہونا چاہیے اور اس سے غفلت نہ برتی جائے۔