رزق کی فکر

ایک جنگلی گائے صبح سویرے صاف ستھری سبز گھاس کھانے کے لیے نکل جاتی۔ سرسبز و شاداب جزیرے میں دن بھر مزے مزے سے چرتی رہتی۔ جب خوب پیٹ بھر جاتا اور اس کا جسم توانا ہوجاتا تو پھر اپنے ٹھکانے پر واپس آجاتی۔ رات کو وہ اس فکر میں مبتلا ہوجاتی کہ آج تو میں سرسبز اور خوب صورت گھاس کھا آئی ہوں، کل کیا کروں گی! ساری رات وہ اس غم میں گھلتی رہتی کہ خدا معلوم اگلے روز گھاس کھانے کو ملے یا نہ ملے۔ اگلے دن کی خوراک کی فکر جب اس کو دامن گیر ہوتی تو اس غم میں صبح تک پھر سوکھ کر کمزور ہوجاتی۔ دوسرے دن صبح سویرے جب پھر جزیرے میں وہ مریضہ ہوس پہنچی تو بڑی حرص کے ساتھ چارہ کھانے لگی اور سارا دن سرسبز و شاداب گھاس کھاتی رہی۔ جب واپس پہنچی تو رات کو پھر اس غم میں گھلنے لگی کہ وہ اگلے روز کیا کھائے گی!
کل کی فکر میں اس کی زندگی کا بیشتر حصہ ایسے ہی گزر گیا۔ اسے یہ سمجھ نہ آئی کہ وہ کسی دن تو بھوکی نہیں رہی۔ وہ اس فکر سے اپنا پیچھا نہ چھڑا سکی اور اس طرح اپنے حال کو ہمیشہ مستقبل کی فکر کرکے خراب اور خستہ حال بناتی رہی۔ ’’گائے نما‘‘ اس انسان کو بھی یہ بات سمجھ نہیں آتی کہ جب خالقِ کائنات ہر روز اس کی روزی کا سامان خود مہیا کردیتا ہے تو پھر کل کی فکر میں گھلنے کی کیا ضرورت ہے!
اگر کوئی تھوڑا بہت غور کی زحمت کرے تو پتا چل جائے گا کہ یہ گائے انسان کا نفس ہے اور سرسبز جنگل یہ دنیا ہے۔ رازق اپنی مخلوق کو ہر روز اپنے وعدے کے مطابق رزق ضرور عطا کرتا ہے لیکن یہ کم عقل، بدفطرت اور حرص و ہوس کا مارا ہوا آدمی پھر اسی فکر میں مبتلا ہوجاتا ہے کہ ہائے! کل کیا کھائوں گا۔ ارے خدا کی عطا کردہ عقل سے یہ تو سوچ کہ روزِ پیدائش سے لے کر اب تک تُو برابر کھا رہا ہے، تیرے اس رزق میں کمی نہیں آئی تو اِن شا اللہ مستقبل میں بھی تیرے رزق کا وہی ضامن ہے۔ جس نے تجھے اب تک دیا ہے آئندہ بھی دے گا۔
درسِ حیات: تُو سالہا سال سے کھا رہا ہے اور تیرے رزق میں کمی نہیں آئی، پس تُو کل کی فکر کو ترک کر، اور ماضی سے سبق لے۔
(مولانا جلال الدین رومیؒ۔ ”حکایاتِ رومیؒ“)