اصلِ جَہول و جاہل و مجہول ایک ہے
ہر شخص اپنی دانست میں دانا ہوتا ہے۔ ہونا ہی چاہیے۔ وگرنہ کیسے کٹے زندگی کہاں گزرے؟ جمیل ؔمظہری فرما گئے ہیں:
بقدرِ پیمانۂ تخیل سُرور ہر دل میں ہے خودی کا
اگر نہ ہو یہ فریبِ پیہم تو دَم نکل جائے آدمی کا
مگر احتیاط لازم ہے۔اتنا فریب بھی نہ کھائے کہ دُم نکل آئے آدمی کی۔ خود کو دانا سمجھنے کے باوجود ہر مردِ دانا سے کبھی نہ کبھی کوئی نہ کوئی نادانی ایسی ضرور سرزد ہوجاتی ہے کہ خودی کا سارا سُرور غارت ہوکر خمار میں بدل جاتا ہے (پینے والوں کو تو پتا ہی ہوگا کہ سُرور چڑھتے نشے کو کہتے ہیں اور خمار اُترتے نشے کو)، ایسی نادانی سرزد ہوجانے پر دانا لوگ خود سے کہا کرتے ہیں: ’’اماں! تم تو نرے جاہل ہی نکلے‘‘۔
بس یہی کہنا آدمی کو جہالت سے بچا لیتا ہے۔ سیدنا عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہٗ کا یہ قول آبِ زر سے لکھنے کے لائق ہے:
’’تیرا یہ کہنا بھی علم ہے کہ میں نہیں جانتا‘‘۔
گویا اپنے جہل کا علم ہوجانے سے جہل باقی نہیں رہتا۔
پچھلے دنوں ایک بزم میں یہ بحث چھڑ گئی کہ جہالت اور جاہلیت میں کیا فرق ہے؟ بزم میں بیٹھے بڑے بڑے علما (اور برعکس) اپنی اپنی علمیت (اور بالعکس) کا اظہار فرماتے رہے۔ ہم بھی وہیں موجود تھے۔ ہم سے بھی سب پوچھا کیے۔ ہم چپ رہے، ہم ہنس دیے۔ بقولِ ضمیر جعفری مرحوم:
ہم تو خاموش تھے جہالت سے
وہ ہمیں فلسفی سمجھتے رہے
پَر آج ہم پردہ اُٹھائے دیتے ہیں۔ جہالت و جاہلیت دونوں کا مصدر ایک ہی ہے، یعنی وہی ’جہل‘ جس کا مطلب ہے: نہ جاننا، ناواقف ہونا، لاعلم ہونا اور نادانی وغیرہ۔ اس مصدر سے اسمِ صفت بنا ’جاہل‘ اور اسمِ کیفیت بنا ’جہالت‘۔ یعنی اگر کسی میں وہ کیفیات پائی جاتی ہوں جو اوپر بیان کی گئی ہیں تو اس حالت کو ’جہالت‘ کہیں گے، اور ان کیفیات کے حامل کو ’جاہل‘۔ آج کل تو جو شخص لکھنا پڑھنا نہ جانتا ہو اُسے بھی جاہل کہہ دیا جاتا ہے۔ مگر لکھنے پڑھنے کا ہنر عام ہونے سے قبل کی صدیوں میں ایسا نہ تھا۔ اب بھی ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ ایسے شخص کو آپ ’اَن پڑھ‘ کہہ سکتے ہیں۔ آج بھی بہت سے ہنر ایسے ہیں جن کے ہنرمند کم ہی ملتے ہیں۔ تو کیا ہم باقی سب بے ہنروں کو ’جاہل‘ کہہ لیا کریں؟
اب آئیے ’جاہلیت‘ کی جانب۔ جہالت کی کیفیت کو مستقل اپنائے رکھنا، اس کیفیت کو دُور کرنے کی کوشش نہ کرنا، اسی کیفیت میں ٹُن رہنا پسند فرمانا، اور اپنی جہالت پر ڈٹے رہنے کا عزم بالجزم کیے رکھنا ’جاہلیت‘ کہلاتا ہے۔ اسی وجہ سے ’اسلام‘ کی ضد ’جاہلیت‘ قرار پائی۔ ’زمانۂ جاہلیت‘ کے لوگ اسی کیفیت میں مبتلا تھے۔ جن نفوسِ قدسیہ نے اسلام کی تعلیمات کو اختیار کرنا اپنی زندگی کا شعارکرلیا وہ تو اس کیفیت سے باہر نکل آئے، مگر اسلام کی دعوت کو ٹُھکرانے والے محض ضد اور عناد میں اپنے ’جہل‘ پر ڈٹے رہے۔ عمرو بن ہشام جیسا دانشور جس کا لقب ’ابوالحکم‘ تھا، اپنے جہل کو جانتے بوجھتے ترک نہ کرنے اور اسے دانتوں سے پکڑے رکھنے کی وجہ سے ’ابوجہل‘ کہلایا۔ گویا ’جہالت‘ ناواقف اور لاعلم ہونے کی کیفیت ہے، اور ’جاہلیت‘ اسی کیفیت پر اڑے رہنے کا نام۔ ایسے ہی لوگوں سے زندہ دلانِ پنجاب کہا کرتے ہیں: ’’ مَن گئے بھئی، تہاڈا کاں چِٹّا‘‘(مان لیا بھائی کہ تمھارا کوّا سفید ہی ہے) ان جاہلوں کو دُور ہی سے سلام کرنے کا حکم ہے۔
ہم نے بڑے بڑے اہلِ علم کو مصدرِ جہل سے مشتق الفاظ استعمال کرتے پایا ہے۔ سب سے پہلے تو یہ انکشاف کرتے چلیں کہ ’جَہل‘ کے جیم پر زبر ہے، اسے بالکسر بولنا بھی جہالت ہی ہے۔ اُستاد رشکؔ جاہلوں پر رشک کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
ہو جاتے ہیں دانستہ صغائر بھی کبائر
اس علم سے تو جہلِ مسائل بہت اچھا
اس شعر کی تشریح یہ ہے کہ اگر کوئی عالم یہ علم رکھتے ہوئے جان بوجھ کر گناہِ صغیرہ کا ارتکاب کرتا ہے کہ’’ یہ توگناہِ صغیرہ ہے‘‘ تو ایسی صورت میں گناہِ صغیرہ بھی گناہِ کبیرہ بن جاتا ہے۔ ایسا عالم ہونے سے تو جاہل ہی ہونا اچھا ہے۔
’جاہل‘ کی جمع ’جُہلا‘ ہے، جو جگہ جگہ جمع ہوجاتے ہیں۔ جیسا کہ ہم نے اوپر عرض کیا، اپنے جہل کا علم ہوجائے تو جہل باقی نہیں رہتا۔ لیکن اگر کسی شخص کو اس بات کا بھی علم نہ ہو کہ میں جاہل ہوں اور جاہل ہونے کے باوجود اپنے عالم ہونے پر بھی پورا پورا یقین رکھتا ہو تو اس قدر جاہل شخص کے جہل کو ’جہلِ مُرکّب‘ کہا جاتا ہے (جاہل کی قوت2، یا انگریزی میں ’جاہل اسکوائر‘ کہہ لیجیے)، اس جاہل کا جہل دو جہلوں کا مجموعہ ہے۔ ایک تو عدمِ علم، دوسرے اس بات سے بھی لاعلمی کہ پلّے علم ہئی نہیں۔
انتہائی نادان، انتہائی جاہل اور انتہائی بدعقل شخص کو ’جَہُول‘ کہا جاتا ہے۔ سورۃ الاحزاب کی آیت نمبر 72 میں اللہ تعالیٰ نے انسان کو ’’ظلوماً جہولا‘‘ یعنی انتہائی ظالم و جاہل قرار دیا ہے کہ جس امانت کو آسمانوں، زمین اور پہاڑوں نے ڈر کے مارے اٹھانے سے انکار کردیا، اُسے انسان نے اُٹھا لیا (مگر حق نہ ادا کر سکا)، یہ بڑا ہی ظالم و جاہل ہے۔ میرؔ صاحب بھی اس پر فخر کا اظہار فرماچکے ہیں:
سب پہ جس بار نے گرانی کی
اُس کو یہ ناتواں اُٹھا لایا
نامعلوم یا غیر معروف کے لیے ’مجہول‘ استعمال ہوتا ہے۔وہ فعل جس کا فاعل نامعلوم ہو وہ بھی فعلِ مجہول ہے۔ کسی کے حسب نسب کا پتا نہ چلے تو ایسے شخص کو ’مجہول النّسب‘ کہتے ہیں۔مشتبہ شخص کو بھی مجہول کہا جاتا ہے۔ خاکسار کی ایک غزل کا مطلع ہے:
بات اتنی مختصر نہیں، کچھ طول ہے ضرور
جاہل سبھی نہیں، کوئی مجہول ہے ضرور
اس غزل کا ذکرآ گیا ہے توفقط آپ سے داد لینے کے لالچ میں ایک شعر اور پیش کیے دیتے ہیں:
کچھ بے سبب دراز نہیں دستِ ہر شجر
ان سائلوں کے سامنے مسئول ہے ضرور
جان بوجھ کر نادان بننے کو ’تجاہل‘ کہا جاتا ہے(تجاہُل کے ’ہ‘ پر پیش ہے) یعنی اپنے آپ کو کسی بات سے بے خبر یا غافل ظاہر کرنا۔عام طور پر تجاہل کے ساتھ عارفانہ بھی لگایا جاتا ہے۔ ’تجاہلِ عارفانہ‘ کا مطلب ہے سب کچھ جانتے ہوئے بھی انجان بننا۔کسی معلوم بات سے ارادتاً ناواقفیت ظاہر کرنا۔ذرا جرأتؔ کا تجاہُلِ عارفانہ دیکھیے کہ ایسی جرأت وہی کر سکتے تھے:
صنم سنتے ہیں تیرے بھی کمر ہے
کہاں ہے؟ کس طرف ہے؟ اور کدھر ہے؟
پچھلے کالم میں ہم نے اپنے جہل کا اعتراف( قوسین میں) کرتے ہوئے یہ فقرہ لکھ دیا تھا:
’’مگر’وار‘ کبھی کبھی خالی بھی چلا جاتا ہے۔تب ہندی بھاشا میں دِنوں کے ناموں کے ساتھ لگادیا جاتا ہے( رام جانے کیوں؟)‘‘
بھارت کے صوبہ آسام سے محمد محسن صاحب نے ہمارا یہ جہل دُور فرما دیا ہے۔ رام جانے نہ جانے، اب ہم تو جان گئے ہیں کہ ہندی میں دنوں کے ناموں کے ساتھ ’وار‘کیوں نتھی ہے ۔ جنابِ محسن اپنے مراسلے میں لکھتے ہیں:
’’ہندی میں ’وار‘ کا ایک مطلب دن (Day) بھی ہے۔اتوار میں یہ ’وار‘ بالکل واضح ہوجاتا ہے۔سورج کو ’روی‘ کہتے ہیں اور اتوار کو ’روی وار‘۔ بالکل اُسی طرح جیسے انگریزی میں Sunday کہا جاتا ہے‘‘۔