!!ادریس بختیار بس یادیں رہ جاتی ہیں

میں نے 1980ء میں جب روزنامہ جنگ سے استعفیٰ دے کر روزنامہ جسارت کراچی میں اپنی پیشہ ورانہ زندگی کے دوسرے دور کا آغاز کیا تو وہاں بہت سینئر صحافی اپنے فرائض کی انجام دہی میں دن رات مصروف تھے۔ اخبار کے مدیر محمد صلاح الدین شہید جیسے عظیم صحافی تھے۔ جبکہ نیوز رپورٹرز میں نذیر خان، زاہد حسین، مقصود یوسفی، قیصر محمود (مرحوم) اور دیگر شامل تھے۔ اُس زمانے میں سب لوگ ایک ہی شخصیت کا بہت محبت اور احترام سے نام لیتے، یعنی ادریس بختیار کا۔ میں ان کے نام سے واقف تھا لیکن اُس وقت تک اُن سے ملاقات نہیں ہوئی تھی۔
چند ہفتوں بعد ہی جب وہ دفترِ جسارت تشریف لائے تو ان سے بھی ملاقات ہوگئی۔ کئی ساتھیوں نے ان سے میرا تعارف کرایا۔ وہ مجھ سے بہت اپنائیت اور محبت سے ملے۔ چونکہ وہ سینئر تھے، اس لیے میں نے ان سے کامیاب رپورٹر کے حوالے سے کئی سوال کیے، وہ پہلے تو اپنے مخصوص انداز میں مسکرائے اور پھر نیوز رپورٹنگ کے حوالے سے چند کام کی باتیں بتائیں۔ اس کے بعد جب بھی ملتے، اپنے تجربات شیئر کرتے تھے، جن سے بہت کچھ سیکھنے کو ملتا تھا۔ اس دوران ان سے کبھی کراچی پریس کلب، کبھی کسی کوریج میں ملاقاتیں ہوتی رہیں۔ مجھے ان کی دوستی کا شرف تو حاصل نہیں ہوسکا، لیکن پھر بھی ان سے بہت محبت اور اپنائیت کا تعلق تھا۔
جسارت میں چند سال گزارنے کے بعد مجھے پاکستان ٹیلی ویژن میں نیوز پروڈیوسر کی حیثیت سے مستقل ملازمت مل گئی تو میں نے پرنٹ میڈیا کو الوداع کہا اور اس کے بعد میرا الیکٹرانک میڈیا کا دور شروع ہوا۔ اس دوران بھی کبھی کبھار ادریس بھائی سے ملاقاتیں ہوجاتی تھیں۔ ایک مرتبہ کسی ملاقات میں کہنے لگے کہ کیا ہمیشہ پی ٹی وی میں رہنے کا ارادہ ہے؟ میں نے کہا کہ سوچا تو یہی ہے۔ اس پر بولے کہ اگر اچھا چانس ملے تب بھی کسی پرائیویٹ ٹی وی چینل میں نہیں جاؤ گے؟ میں نے کہا کہ کیا مطلب؟ اس پر انھوں نے کہا کہ ڈان اخبار والے اپنا انگریزی کا چینل لارہے ہیں، اسے جوائن کروگے؟ میں نے کہا کہ اگر پی ٹی وی سے زیادہ بہتر مراعات ہوئیں تو۔ ادریس بھائی نے کہا کہ ہاں، ایسا ہی ہوگا۔ اس کے کئی ماہ بعد ملے تو میں نے دریافت کیا کہ لگتا ہے آپ نے ڈان نیوز والی بات مذاق میں کی تھی۔ کہنے لگے کہ میں نے کبھی آپ سے ایسا مذاق کیا ہے؟ بات یہ ہے کہ اس معاملے پر بات آگے نہیں بڑھ سکی۔ انہوں نے دوسرے لوگوں کو ہائر کرلیا۔
اس کے چند سال بعد پی ٹی وی کے ساتھیوں نے منور مرزا کے مشورے پر تمام ٹی وی چینلز کے نیوز رپورٹرز، پروڈیوسرز اور کیمرہ مینوں کی تنظیم کی تشکیل کاکام شروع کیا تو امین یوسف (جو اُس زمانے میں پی ٹی وی میں کنٹریکٹ پرتھے)، اقبال جمیل اور منور مرزا نے مجھے تنظیم کی تشکیل کی ذمہ داری دینا چاہی۔ اُس وقت میں نے انکسار سے کام لیتے ہوئے امین یوسف صاحب کو اس کی باگ ڈور دے دی جس کا نام ہمارے پی ٹی وی کے ساتھیوں نے ایسوسی ایشن آف ٹیلی ویژن جرنلسٹس (اے ٹی جے) رکھا تھا۔ اس میں چند ماہ کے اندر ہی مختلف ٹی وی چینلز کے دوستوں کو شامل کیا۔ اس میں کراچی کے بھائی لوگوں کے حامیوں کا پلہ بھاری ہونے لگا تو ایک دن دائیں بازو کے ساتھیوں کی خواہش پر آرٹس کونسل کے سبزہ زار پر ایک اجلاس ہوا۔ اس میں دیگر سینئر ساتھیوں کے ساتھ ادریس بختیار بھائی بھی شریک تھے۔ انہوں نے مجھے الگ لے جاکر کہا کہ بھائی، کیا ہوگیا ہے آپ کو! ایسے مت کریں۔ اے ٹی جے میں اپنے ساتھیوں کو کیوں شامل نہیں کررہے؟ میں نے کہا کہ مجھے انکار کیونکر ہوسکتا ہے! لیکن آپ لوگ اس کا نام بدل کر الیکٹرانک میڈیا جرنلسٹس ایسوسی ایشن رکھنا چاہتے ہیں اور ہم یہ نہیں چاہتے کہ اس میں ریڈیو کے لوگ بھی شامل ہوں۔ اس پر وہ کچھ خفا ہوگئے۔ بعد میں تجربے سے ثابت ہوا کہ ان کی بات درست تھی۔ چند ماہ بعد یعنی 2007ء میں اے ٹی جے کے پہلے انتخابات میں جنرل سیکرٹری کے عہدے پر مجھے صرف چار ووٹوں سے شکست ہوئی، جس کے بعد انہوں نے مجھے اپنی صفوں کے اندر ہی نہیں آنے دیا۔
اس کے بعد ایک مرتبہ اسی تنظیم یعنی اے ٹی جے نے پاکستان ٹیلی ویژن میں صحافیوں کی ورکشاپ کرائی جس میں محترم ادریس بختیار نے بھی لیکچر دیا۔ اُس وقت وہ جیونیوز میں اہم عہدے پر فائز تھے۔
ادریس بھائی سے وقتاً فوقتاً اسی انداز میں ملاقاتیں ہوا کرتی تھیں۔ دسمبر 2014ء میں جب میرے منہ کے کینسر کا آپریشن ہوا تو وہ میری عیادت کو آئے تھے۔ لیکن افسوس کہ رمضان کے اواخر میں 29مئی 2019ء کو ان کے انتقال کی اچانک خبر نے میرے ہوش اڑا کر رکھ دئیے۔ ادریس بھائی ہمیں ہمیشہ کے لیے چھوڑ کر چلے گئے تھے۔
ادریس بختیار کے آباو اجداد اجمیر سے ہجرت کرکے حیدرآباد آکر آباد ہوئے تھے، اور وہیں سے انھوں نے اپنے صحافتی کیریئر کا آغاز انگریزی روزنامہ انڈس ٹائمز سے کیا تھا۔ پھر پاکستان پریس انٹرنیشنل (پی پی آئی) کے کراچی ڈیسک پر کام کیا۔ اپنے دور کے بااثر اور انگریزی زبان کے مشہور ہفت روزہ پاکستان اکنامسٹ، انگریزی زبان کے معتبر ماہنامے ہیرالڈ کے علاوہ کول کتہ کے انگریزی کے بڑے اخبار ٹیلی گراف کے لیے بھی کام کیا، اور انگریزی اخبار عرب نیوز کے لیے سعودی عرب بھی گئے۔ انہوں نے نشریاتی دنیا کے دو بڑے نامور اداروں وائس آف امریکہ اور بی بی سی کے لیے طویل عرصے خدمات انجام دیں۔ آخری برسوں میں وہ جیو نیوز کے ایڈیٹوریل ڈپارٹمنٹ کے سربراہ رہے۔ حکومتِ پاکستان نے ان کی خدمات کے اعتراف میں انھیں 14 اگست 2014ء کو صدارتی تمغا برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا تھا۔
وائس آف جرمنی یا ڈی ڈبلیو سے طویل عرصے وابستہ رہنے والے رفعت سعید نے اُن سے وابستہ اپنی یادوں کا تذکرہ ایک بلاگ میں کیا تھا۔ انھوں نے 10 اگست1999ء کے ایک واقعے کا تذکرہ کیا کہ بھارتی طیاروں نے پاکستان نیوی کا ایک تربیتی طیارہ مار گرایا، تاہم طیارے کا ملبہ سرحد کے قریب پاکستانی علاقے میں گرا۔ اُس وقت ذرائع ابلاغ بہت محدود تھے، لہٰذا پاکستانی فوج کے ترجمان بریگیڈیئر راشد قریشی نے بین الاقوامی نشریاتی اداروں اور خبر رساں ایجنسیوں کے نامہ نگاروں کو کمانڈر نیوی کراچی کے دفتر میں جمع کیا جہاں سے ہیلی کاپٹر کی مدد سے صحافیوں کو اُس مقام پر لے جانا تھا جہاں طیارے کا ملبہ پڑا تھا۔ راستے میں بریگیڈیئر راشد قریشی نے ہیلی کاپٹر زمین پر اترنے سے پہلے ہی ہمیں بریفنگ دینا شروع کردی جس پر ادریس بھائی نے طنزاً کہا کہ راشد صاحب ہم جائے وقوعہ پر اتریں گے؟ راشد قریشی نے جواب میں کہا کہ ادریس صاحب بہت خطرہ ہے، ہم اب بھی انڈین راڈار پر ہیں۔ راشد قریشی کے خوف زدہ جملوں پر ادریس بھائی نے انتہائی بے خوفی سے کہا ’’اگر ہم مرے تو دنیا کی سب سے بڑی خبر ہوگی‘‘۔ ادریس بھائی کے اس ایک جملے سے راشد قریشی لاجواب ہوگئے اور فوری پائلٹ کو ہیلی کاپٹر نیچے اتارنے کی ہدایت کردی۔ ایسے کئی واقعات ہیں جن سے دھیمے مزاج کے ادریس بختیار کا اخلاص، انسان دوستی، اورساتھیوں سے محبت عیاں ہوتی ہے۔
ان کے نواسے حذیفہ وکیل نے ایک پوسٹ میں ان الفاظ میں اپنے نانا کو یاد کیا:
’’دل یہ بات ماننے کو تیار نہیں تھا، لیکن حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم جب اِس دنیا میں نہیں رہے تو ہر کسی کو ایک نہ ایک دن اپنی منزل کی جانب روانہ ہونا ہے۔ یہ بہت چھوٹا سا عرصہ ہوتا ہے بچھڑنے کا، اور ہم بھی انہی کے ساتھ ہمیشگی کی زندگی میں ہوتے ہیں۔
وہ ہر سال لگاتار کراچی انٹرنیشنل بُک فیئر میں مجھے اپنے ساتھ لے کر جاتے، اور بچپن سے لے کر جوانی تک جو کتاب میں نے مانگی، ہمیشہ دلوا دیتے تھے۔ آخری بُک فیئر میں ان کے بغیر جانا پڑا جو کسی کرب سے کم نہ تھا، کیوں کہ جس فرد نے کتابوں سے محبت دلائی آج وہ ساتھ نہیں تھا۔‘‘
امریکہ میں مقیم نامور صحافی اور ہمارے سینئر ساتھی عارف الحق عارف نے ان کی یاد میں ایک بلاگ تحریر کیا تھا، جس کے چند الفاظ یہ ہیں:
’’ہمارے ذہن میں اس وقت اُن سے وابستہ یادوں کا ایک انبار ہے جو پردۂ سیمیں پر فلم کی طرح چل رہا ہے۔ ہمیں ان سے پہلی ملاقات یاد آئی جو 1970ء میں ہوٹل جبیس میں ہوئی تھی، اُس وقت جنرل یحییٰ خان کے مارشل لا کا دور تھا، انتخابات کا اعلان ہوچکا تھا اور اس کی طویل ترین انتخابی مہم شروع ہوچکی تھی۔ جبیس ہوٹل میں انتخابی مہم کے سلسلے ہی میں ایک استقبالیہ تھا جو مولانا شاہ احمد نورانی کے اعزاز میں جمعیت علمائے پاکستان کے تحت ان کی بیرونِ ملک سے واپسی اور ان کے سیاست میں سرگرم حصہ لینے کے بارے میں دیا گیا تھا۔ اُس دور میں زیادہ تر تقریبات جبیس ہوٹل ہی میں منعقد ہوتی تھیں۔ صحافیوں کے لیے مخصوص نشستوں پر ہمارے ساتھ ہی ایک صاحب آن بیٹھے۔ ہم نے ان کو یاد دلایا کہ یہ صحافیوں کی نشستیں ہیں، تو انہوں نے ہماری معلومات میں اضافہ کیا کہ وہ بھی صحافی ہیں اور پی پی آئی کی نمائندگی کرتے ہیں۔ انہوں نے خود ہی اپنا مزید تعارف کرایا کہ وہ حال ہی میں حیدرآباد سے کراچی منتقل ہوئے ہیں۔ ہماری اچانک ہنسی چھوٹ گئی۔ ان کے پوچھنے پر بھی ہم نے اس کی وجہ نہیں بتائی، لیکن جب ان کا اصرار بڑھا تو ہمیں انہیں بتانا پڑا کہ ہمیں آپ کے انکشاف پر ’’حیدرآبادی مافیا‘‘ کی اصطلاح یاد آگئی تھی جو پریس کلب میں حیدرآباد سے کراچی ’’ہجرت‘‘ کرنے والے صحافیوں کے لیے مذاق میں اکثر استعمال کی جاتی تھی۔ اس پر وہ بھی مسکرا دیئے تھے اور ذرا بھی برا نہیں منایا تھا۔ اُس دن جبیس ہوٹل میں ان سے دوستی اور بھائی چارے کا جو تعلق قائم ہوا وہ مسلسل نصف صدی تک جاری رہا‘‘۔
روز افزوں ہے زندگی کا جمال
آدمی ہیں کہ مرتے جاتے ہیں
جون ؔیہ زخم کتنا کاری ہے
یعنی کچھ زخم بھرتے جاتے ہیں
(جون ایلیا)