مسلم اکثریتی جزائر لکشدیپ بھارتی نشانے پر

بھارت کے جنوبی صوبے کیرالا اور خلیج عدن کے درمیان بحیرہ عرب کے نقشے کو اگر زوم کرکے غور سے دیکھا جائے، تو موتیوں کی ایک مالا بکھری ہوئی نظر آئے گی، جو جزائر لکشدیپ ہیں۔ ان جزائر کے باسی آج کل انتہائی اضطراب میں ہیں۔ کشمیریوں کی طرح ان کا بھی قصور بس اتنا ہے کہ وہ مسلمان ہیں اور بھارت کے موجودہ ہندو قوم پرست حکمرانوں کی آنکھوں میں شہتیر کی طرح کھٹکتے ہیں۔ جس طرح 5اگست 2019ء کو وزیراعظم نریندر مودی نے مسلم اکثریتی جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کرکے وہاں آبادیاتی تناسب کو بگاڑنے کی راہ ہموار کی، اسی طرح حال ہی میں مرکز کے زیر انتظام جزائر لکشدیپ کے ایڈمنسٹریٹر پرفل کھوڑا پٹیل نے ان جزائر کی ترقی کے نام پر کئی ایسے اقدامات کا اعلان کیا ہے، جن سے ان کے آبادیاتی تناسب کو بگاڑنے اور مقامی آبادی کو اپنے ہی علاقے میں بیگانہ کرنے کی سازش کی بو آتی ہے۔ پٹیل کا سیاسی کیریئر متنازع رہا ہے۔ فروری 2021ء میں دادرا اور نگر حویلی سے سات بار ممبر آف پارلیمنٹ رہے موہن ڈیلکر نے ممبئی کے ایک ہوٹل میں خودکشی کرلی تھی۔ اپنے خودکشی نوٹ میں انہوں نے پرفل پٹیل کو ذمہ دار قرار دیا تھا۔ موہن ڈیلکر کی موت کے بعد ان کے بیٹے ابھینو نے ممبئی میں پرفل پٹیل کے خلاف ایف آئی آر درج کراتے ہوئے الزام لگایا تھا کہ پٹیل نے ان کے باپ سے پچیس کروڑ کی رشوت مانگی تھی، نہ دینے کی صورت میں جھوٹے مقدمات میں پھنسانے کی دھمکی دی تھی۔ اسی ذہنی دباؤ کی وجہ سے ڈیلکر نے خودکشی کرلی۔
36 جزائر پر مشتمل لکشدیب میں 2011ء کی مردم شماری کے مطابق 64,429نفوس رہتے ہیں اور ان میں 96فیصد مسلمان ہیں۔ کیرالا کے ساحل سے تقریبا ً 400کلومیٹر دور سمندر میں پھیلے ہوئے یہ جزائر زبان، ثقافت اور رہن سہن کے اعتبار سے اسی ریاست کا حصہ لگتے ہیں۔ 1947ء تک برطانوی عمل داری میں مدراس پریزیڈنسی ان کو کنٹرول کرتی تھی۔ یہ علاقہ ٹیپو سلطان کی مملکت میں شامل تھا اور ان کی موت کے بعد برطانیہ کے قبضے میں آگیا تھا۔ آزادی کے بعد اس خدشے کے پیش نظر کہ مسلم اکثریتی علاقہ ہونے کی وجہ سے یہ کہیں پاکستان میں شامل نہ ہوجائے، ملک کے پہلے وزیر داخلہ سردار پٹیل نے بحریہ کو فی الفور ان جزائر کا کنٹرول حاصل کرنے کا حکم دے دیا۔ بتایا جاتا ہے کہ چند روز بعد پاکستانی بحریہ اس علاقے میں پہنچی تھی، مگر تب تک بھارتی افواج نے اس کا مکمل کنٹرول حاصل کرلیا تھا۔ ان کی ثقافت، مذہبی و نسلی شناخت اور ان کی زمین و جائدادوں کی حفاظت کے لیے جزائر کے باشندوں کو شیڈولڈ ٹرائب یعنی درج فہرست قبائلیوں کے زمرے میں رکھا گیا۔ 1971ء تک پاکستانی بحری جہازوں کو مشرقی بازو (بنگلہ دیش) کی طرف سفر کرتے ہوئے ان ہی جزائر کے پاس سے ہوکر گزرنا پڑتا تھا۔ چونکہ یہ جزائر ہندوستان کے ساحلوں کی طرف آتے ہوئے عرب تاجروں کی راہ میں پڑتے تھے، اس لیے لگتا ہے کہ یہ ان کا پڑاو ہوتا تھا۔ ان جزائر میں بھی اسلام کی تبلیغ کیرالا ہی کی طرح نبی کریم محمدﷺ کے دور ہی میں ہوئی ہے۔ بھارت کے ایک معمر سیاست دان پی ایم سعید ان ہی جزائر سے تعلق رکھتے تھے اور 1962ء سے 2004ء تک لگاتار دس مرتبہ لوک سبھا یعنی ایوان زیریں کے لیے منتخب ہوتے آرہے تھے۔ ان کی اس کامیابی پر 2004ء میں بریک لگ گئے، جب ایک مقامی ڈاکٹر نے ان کو 74ووٹوں کے فرق سے ہرایا۔ چونکہ کانگریس مرکز میں برسراقتدار آگئی تھی، اس لیے ان کو راجیہ سبھا یا ایوان بالا میں نامزد کرکے مرکزی وزیر مقرر کیا گیا۔ مگر ایک سال بعد ہی ان کا انتقال ہوگیا۔ 1998ء سے 2004ء تک وہ لوک سبھا کے ڈپٹی اسپیکر بھی رہے۔ اس دوران انہوں نے کئی بار دہلی کے صحافیوں کو ان جزائر کا دورہ کرایا اور ان کو سیاحتی نقشے پر لانے کی جستجو کی۔ کئی بار انہوں نے مجھے بھی اپنے ساتھ ان جزائر پر لے جانے کی پیشکش کی۔ مگر ہر بار کوئی نہ کوئی مصروفیت آڑے آتی تھی۔ 2006ء میں جب پینگوئن نے میری جیل کی سرگزشت My Days in Prison کے نام سے شائع کی، تو اس کا پہلا ترجمہ ملیالم زبان میں منظر عام پر آیا۔ ملیالم زبان کے ناشر نے اس کی رونمائی کے لیے کیرالا مدعو کیا اور تقریباً ہر ضلع اور شہر میں پروگراموں کا انعقاد کیا تھا۔ صوبے کے اقتصادی دارالحکومت کوچی کی تقریب میں میرے تہاڑ جیل کے زمانے کے سپرنٹنڈنٹ اے کے کوشل بھی موجود تھے۔ معلوم ہوا کہ وہ اُس وقت لکشدیب جزائر کے ایڈمنسٹریٹر مقرر ہوگئے تھے اور وہاں جانے کے لیے ہی کوچی آئے تھے، کیونکہ ان جزائر کو جانے کے لیے فلائٹ یا بحری جہاز کوچی سے ہی روانہ ہوتے ہیں۔ انہوں نے لکشدیب آنے کے لیے خاصا اصرار کیا اور میرے ہاتھ میں اجازت نامہ بھی تھما دیا۔ شاید ان کی جیل سپرنٹنڈنٹی کے زمانے میں میرے ساتھ جو کچھ بیتی تھی، وہ اس کی تلافی کرنا چاہتے تھے۔ خیر کئی روز کے بعد کوچی سے فلائٹ لے کر میں ان جزائر کی طرف روانہ ہوگیا۔ 60سیٹوں والا چھوٹا سا جہاز بحیرہ عرب کے پانیوں کے اوپر سے گزرتے ہوئے ڈیڑھ گھنٹے کے بعد آگاتی جزیرے پر موجود واحد ائیر پورٹ پر اترا۔ صاف و شفاف پانیوں، سفید نرم ریتیلے ساحل اور ناریل کے درختوں سے گھرے یہ جزائر موتی کے دانے لگتے تھے۔ معلوم ہوا کہ باقی دنیا سے رابطے کے لیے بس یہ واحد فلائٹ روز لینڈ کرتی ہے، اور ہفتے میں ایک بار کوچی سے بحری جہاز مسافروں کو لانے لے جانے اور ساز و سامان کے ساتھ وارد ہوتا ہے۔ 36جزائر میں بس 10 میں ہی آبادی ہے۔ پانچ جزائر تو سیاحوں کے لیے بند ہیں، کیونکہ ان میں بحریہ کے اڈے ہیں۔ ایک غیر آباد جزیرے بانگارام میں غیر ملکی سیاحوں کے لیے ریزورٹس کا انتظام ہے۔ یہ واحد جزیرہ ہے جہاں شراب نوشی کی اجازت ہے۔ گرم موسم مگر خوشگوار ہوا ماحول کو مسحورکن بنا دیتی ہے۔ بھارت کے ساحلی علاقوں میں یہ واحد جگہ ہے، جہاں تہہ در تہہ رنگا رنگ مونگے یعنی مرجان کی چٹانوں کے سلسلے موجود ہیں۔ سمندر کا پانی اتنا شفاف کہ مٹر کا دانہ بھی گر جائے تو تہہ میں نظر آجائے گا۔ جزیرے پر بڑے ریسٹورنٹ یا ہوٹل موجود تو نہیں ہیں، مگر کاٹیج اور خیموں میں رہنے کے انتظامات ہیں، اور مقامی آبادی بھی سیاحوں کے لیے گھروں کے دروازے کھول کر ان کی میزبانی کرتی ہے۔ بحری جہاز ایم وی ٹیپو سلطان میں بھی رہائش کا انتظام ہے اور وہ دیگر جزائر کی سیر بھی کراتا ہے۔ مقامی آبادی میں بہت زیادہ امارت تو نہیں ہے، مگر غربت بھی نہیں ہے۔ دیگر علاقوں کی طرح ہی سماج میں طبقاتی نظام ہے، جس میں کویا، زمیندار یا ناریل کے باغات کے مالکان ہیں۔ مالمی جہازوں پر ملاح اور کشتی بانی کا کام کرتے ہیں۔ ان 36جزائر کا آپس میں رابطہ اسی کمیونٹی کی مرہون منت ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ یہ بہترین ملاح ہوتے ہیں اور سمندر کے نبض شناس ہیں۔ ملاچاری کمیونٹی تو بے زمین مزدور ہیں، مگر ناریل کے اونچے پیڑوں سے ناریل توڑ کر لانے میں ان کو مہارت حاصل ہے، نیز ان جزائر کی اقتصادیات کی ریڑھ کی ہڈی یعنی ناریل کے ریشوں سے بنائی جانے والی اشیاء ان کے ہی کاریگر ہاتھوں سے تیار ہوتی ہیں۔
(افتخار گیلانی، روزنامہ 92، منگل یکم جون 2021ء)