’ذمے داری‘ سے بچنے کے لیے ’ذمہ واری‘ کی آڑ

اوسلو (ناروے) سے محمد شارق صدیقی صاحب نے سوال فرمایا ہے: ’’ذمہ دار اور ذمہ وار میں سے کون سا درست ہے؟ میرا خیال ہے کہ دونوں ہی درست ہیں کیوں کہ دونوں مستعمل ہیں‘‘۔ صاحب! ہمارا بھی یہی خیال ہے کہ آپ کا خیال درست ہے۔
شارق بھائی اپنے اور ہمارے برادرِ بزرگ محامد صدیقی صاحب کے برادرِ خورد ہیں۔ محامد صدیقی صاحب کوپن ہیگن (ڈنمارک) میں مقیم ہیں۔ مدتوں پہلے قارئین ’جسارت‘ جناب محامد صدیقی کے دلچسپ معلوماتی کالم ’’مکتوبِ ڈنمارک‘‘ سے مستفید ہوا کرتے تھے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ محامد بھائی یہ مفید سلسلہ دوبارہ جاری فرما دیں۔
جہاں تک شارق صاحب کے سوال کا تعلق ہے تو لغات میں ’ذمہ دار‘ بھی درج ہے اور ’ذمہ وار‘ بھی۔ ’ذمہ وار‘ کے متعلق نوراللغات میں بتایا گیا ہے کہ یہ دلّی کی عورتوں کا روزمرہ ہے۔ گویا ’ذمہ واری‘ عام کرنے کی ذمے داری مولوی نیرؔ صاحب نے کرخنداری عورتوں کے سر ڈال دی۔ فرہنگِ آصفیہ سمیت تقریباً تمام مستند لغات میں دونوں تراکیب موجود ہیں، مگر فصحا کے نزدیک ’ذمہ دار‘ کہنا ہی زیادہ صحیح ہے۔
عربی لفظ ’ذِمّہ‘ کے ساتھ لگائے جانے والے یہ دونوں لاحقے فارسی کے ہیں۔ ذِمَّہ کا مطلب ضمانت، کفالت، عہد، پیمان، سپردگی، تحویل، جواب دہی، بار اور فرض وغیرہ ہیں۔ دیکھیے اپنا ذمہ لے کر حضرتِ داغؔ کس طرح حضرتِ ناصح کو ورغلا رہے ہیں:
لگاؤ تو ذرا اے حضرتِ ناصح کہیں دل کو
مرا ذمہ محبت سے نہ ڈرنا بے خطر رہنا
ذِمّہ ہی سے لفظ ’ذِمّی‘ بنا ہے، یعنی وہ غیر مسلم جس کی جان و مال کی حفاظت اور جس کی فلاح و بہبود کی ’ذمے داری‘ اسلامی حکومت لیتی ہے۔ اس خدمت کے عوض ہر ذِمّی حکومت کو ایک معین جزیہ ادا کرتا ہے۔ اسلامی حکومت میں مسلمانوں پر زکوٰۃ عائد ہوتی ہے، خُمس عائد ہوتا ہے، عُشر عائد ہوتا ہے، صدقۃ الفطر عائد ہوتا ہے، جب کہ ذِمّیوںپر صرف جزیہ۔
آئیے، اب ہم ’دار‘ اور ’وار‘ کے معانی کا فرق بھی جاننے کی کوشش کریں۔ عربی میں دار کا مطلب ’گھر‘ ہے۔ مشہور صحابی حضرت ارقم ابن ارقم رضی اللہ عنہٗ کا گھر یعنی ’دارِ ارقم‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم کی تحریک کا ابتدائی مرکز تھا۔ فارسی میں ’دار‘ کے ایک معنی ’سولی‘ کے ہیں، جس پر کبھی کبھی بے گناہ لوگوںکو بھی چڑھا دیا جاتا ہے، مگر جوشؔ صاحب توجوش میں آکر خود ہی چڑھ گئے تھے۔ فرماتے ہیں:
شادی ہوئی تو حدِّ مسرت سے بڑھ گئے
گھوڑے کو لات مار کے سولی پہ چڑھ گئے
(یہ بات سمجھ میں آئی نہیںکہ سولی پر چڑھنے کی خوشی میں بے زبان جانور کو لات مارنے کی کیا ضرورت تھی؟ شرافت سے چڑھ جاتے۔)
’ذمہ‘ کے ساتھ جو ’دار‘ لگایا جاتا ہے اس کا مصدر ’داشتن‘ ہے، جس کا مطلب ’رکھنا‘ ہے۔ ’داشتہ آید بکار‘ کا مطلب ہے ’رکھی ہوئی چیز کام آہی جاتی ہے‘۔ مختار مسعود لکھتے ہیں کہ ’’داشتہ کے ساتھ تو نابکار ہی جچتا ہے‘‘۔ بغیر نکاح کے رکھ لی جانے والی عورت بھی ’داشتہ‘ ہی کہلاتی ہے۔ مختار مسعود صاحب کا اشارہ اسی ’نابکار‘ کی طرف ہے۔ ضمیرؔ جعفری صاحب نے بھی اس فارسی کہاوت سے کچھ ایسا ہی فائدہ اٹھایا ہے:
زوجہ می آید بہ رِکشا
’’داشتہ آید بہ کار‘‘
(می آید = آتی ہے، آتا ہے) داشتہ کا ہندی ترجمہ کرکے اُسے اردو میں ’رکھیل‘ بھی کہہ لیا گیا۔ ’داشتن‘ ہی سے صیغۂ امر بنایا گیا ’دار‘۔ جس کا مطلب ہے ’رکھو‘۔ ’خبردار‘ یعنی خبر رکھو، جان لو یا آگاہ رہو۔ یہی ’دار‘ جب کسی اسم کے بعد آتا ہے تو اس کا فاعل ترکیبی بنادیتا ہے۔ مطلب ہوتا ہے ’رکھنے والا‘۔ مثلاً ’دلدار‘ دل رکھ لینے والا۔ ’آبدار‘ چمک رکھنے والا۔ ’تاجدار‘ تاج رکھنے والا (غالباً سر پر)، اور’ثمردار‘ پھل رکھنے والا۔ یاروں نے ہندی لفظ پھول اور پھل کو بھی ’دار‘ پر چڑھا کر ’پھولدار‘ اور ’پھلدار‘ جیسے ’مزیدار‘ الفاظ بنا لیے جو ماشاء اللہ خوب پھل پھول رہے ہیں۔ ساتھ ہی حصے دار، عہدے دار، پہرے دار، زمیندار، جاگیردار اور چوکیدار وغیرہ بھی اپنی اپنی چوکیاں جمائے بیٹھے ہیں۔ حاصلِ کلام یہ کہ ’ذمے دار‘ بھی ’ذمہ‘ رکھنے یا ’ذمہ‘ لینے والے فرد کوکہا جاتا ہے۔ بعض اوقات ’غیر ذمے دار‘ شخص کو بھی ’ذمے دار‘ قرار دے ڈالا جاتا ہے، ہر قسم کی گڑبڑ کا۔ اسی سے اسمِ کیفیت ذمے داری، دلداری، زمینداری ، جاگیرداری اور چوکیداری وغیرہ بنے ہیں۔
’وار‘ کثیر المعانی ہے۔ چوٹ، ضرب اور مار کے معنوں میں بھی آتا ہے۔ مگر ’وار‘ کبھی کبھی خالی بھی چلا جاتا ہے۔ تب ہندی بھاشا میں دِنوں کے ناموں کے ساتھ لگادیا جاتا ہے ( رام جانے کیوں؟) ایتوار، سوموار، منگلوار اور بدھوار وغیرہ۔ گویا ہر دن آکر وارکرتا ہے۔ کلمۂ نسبت کے طور پر بھی استعمال ہوتا ہے۔ ارے بھئی جیسے آپ کو ’بزرگوار‘ کہہ دیا جاتا ہے۔ اسی طرح ’کے لائق‘ کے معنوں میں بھی مستعمل ہے، مثلاً سزاواراور شاہوار یا شہوار۔ ’دُرِّ شہوار‘ کا مطلب ہے ایسا موتی جو بادشاہوں کے لائق ہو۔ مثل یا مانند کے معنوں میں بھی آتا ہے، جیسے دیوانہ وار، پروانہ وار اور مردانہ وار۔ ’بموجب‘ کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے مثلاً ہفتہ وار، ماہ وار اور ترتیب وار۔ میدان ’ایک جیسا‘ یا ’یکساں‘ ہو تو اسے ’ہموار‘ (ہم وار) کہہ دیتے ہیں۔ انگریزوں کے آگے Warکا نام لے لیجیے تو لڑنے مرنے پر اُتر آئیں گے۔ مگر یہاں تو یہ بتانا مقصود تھا کہ ’ذمہ دار‘ اور ’ذمہ وار‘ پر لڑنا نہیں چاہیے، کیوں کہ ’وار‘ بمعنی صاحب (یا والا) بھی استعمال ہوتا ہے۔ جیسے قصوروار، اُمیدوار، سوگوار اور ذمہ وار وغیرہ۔ ہمارے کئی سیاسی رہنما ’ذمے داری‘ سے بچنے کے لیے ’ذمہ واری‘ ہی کی آڑ لیتے پھرتے ہیں۔
راولا کوٹ (آزاد کشمیر) سے پروفیسر ڈاکٹر ظفر حسین ظفرؔ کا نہایت مختصر مراسلہ موصول ہوا ہے۔ ڈاکٹر صاحب علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد کے شعبۂ اردو میں ایک عرصے تک معلمی کے فرائض سر انجام دیتے رہے ہیں۔ نامور محقق اورمتعدد کتابوں کے مصنف ہیں۔آج کل مظفرآباد یونیورسٹی میں درس و تدریس کا فریضہ ادا کررہے ہیں۔ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں:
’’حاطب صاحب! آپ کے کالم سے ہم بھی استفادہ کرتے ہیں۔ رموز اوقاف میں رابطہ (:) کے ساتھ شاید ’کہ‘ کا آنا درست نہیں ہے۔ یا رابطے کی علامت (:) آئے گی یا ’کہ‘۔ مزید تحقیق فرمالیں‘‘۔
ایک محقق کی تحقیق کے بعد تحقیقِ مزید تو تحصیلِ حاصل ہی ہوگی۔ ڈاکٹر صاحب کا اعتراض درست ہے۔ آئندہ ایسی غلطی سے احتراز کیا جائے گا۔ ڈاکٹر صاحب کا خط پڑھ کر ہمیں اطمینان ہوا کہ صاحبانِ علم و فضل اور ماہرینِ قواعد و انشا نہایت باریک بینی سے ہمارے کالموں پر نظر رکھتے ہیں۔ اس سے امید بندھی کہ اب ہماری ’غلطی ہائے مضامین‘ بھی درست ہوجایا کریں گی۔
پچھلے جمعے کو’’گم شدہ اور گم گشتہ‘‘ کے موضوع پر ہمارا کالم شائع ہوا۔ کالم کی اشاعتِ عام ہوتے ہی علی الصبح (تقریباً پونے گیارہ ہی بجے) پروفیسر ڈاکٹرغازی علم الدین کا فون آگیا۔ بڑے نفیس اور نستعلیق لہجے میں فرمایا:
’’مجھے آپ کے کالم میں شائع ہونے والی ایک بات سے مکمل اتفاق نہیں ہے‘‘۔
ہم ڈر گئے کہ پھر ہماری ’غلطی ہائے مضامین‘ پکڑی گئیں۔ مگر ڈاکٹر صاحب نے فرمایا:
’’اہلِ پنجاب طوائف کو ’گشتی‘ کہتے ہیں تو سراسر غلط کرتے ہیں۔ طوائف کا تو ایک ٹھکانا ہوتا ہے۔ وہ ’گشت‘ تو نہیں کیا کرتی‘‘۔
اگرچہ ’ہم بہو بیٹیاں یہ کیا جانیں‘ مگر ڈاکٹر صاحب نے فرمایا ہے تو بالکل درست فرمایا۔ سنا ہے وہ ساکن بلکہ ’سکنہ‘ ہوتی ہے۔ ہوس کے مارے ہی گشت کرتے ہوئے اُس کے (باقی صفحہ 41پر)
ٹھکانے یا کوٹھے پر جا پہنچتے ہیں۔ ڈاکٹر غازیؔ گو کہ مدتوں سے میرپور (آزاد کشمیر) میں مقیم ہیں، مگر پیدائش کے اعتبار سے آپ خود بھی پنجابی ہیں۔ ڈاکٹر صاحب یکم جنوری 1959ء کو قصور کے ایک نواحی قصبے ’برج کلاں‘ میں پیدا ہوئے۔ ماہر لسانیات، محقق اورکئی کتابوں کے مصنف ہیں۔ ’مقتدرہ قومی زبان‘ سے شائع ہونے والی آپ کی ایک کتاب ’’لسانی مطالعے‘‘معرکے کی کتاب ہے۔ غازیؔ صاحب میرپور کے متعدد تعلیمی اداروں میں پرنسپل کے فرائض سر انجام دینے کے بعد اب بیسویں درجے سے وظیفہ یاب ہوچکے ہیں۔ لہٰذا اب انھوں نے ہمارے توسط سے اہلِ پنجاب کو (فون پر) ڈانٹا ہے:
’’طوائف کو ہرگز ’گشتی‘ نہ کہا جائے۔ اگر کہنا ہی ہے تو اُسے کہہ لیا جایا کرے جسے انگریزی میں “Call Girl” کہتے ہیں، گو کہ وظیفہ ہر دو نابکاروں کا ایک ہی ہے، مگر ’گشت‘ تو صرف ثانی الذکر کرتی ہے۔ ’ہر لحظہ بدامِ دیگرے پیوست‘ رہتی ہے‘‘۔