کیا ہم مسلمان ہیں؟

کتاب : کیا ہم مسلمان ہیں؟
(حصہ اول، دوئم اور سوئم)
مصنف : شمس نوید عثمانیؒ
ضخامت : 508صفحات
قیمت : آٹھ سو روپے
ناشر : ہدایت الرحمن حسن،
منیجنگ ڈائریکٹر ادارۂ مطبوعات طلبہ
1۔ اے ذیلدار پارک۔ اچھرہ لاہور
فون : 042-37428307
ویب گاہ: www.imtbooks.com

’’آج جب کہ سیاست کے اصول ہی اس بنیاد پر ڈھالے گئے ہیں کہ ہر مفاد حق ہے خواہ وہ کتنا ہی بڑا جھوٹ کیوں نہ ہو، اور مفاد کے خلاف ہر چیز جھوٹ اور باطل ہے خواہ وہ کتنی ہی بڑی سچائی کیوں نہ ہو۔ آج کون ہے جو سیاست کو حق پسندی کا یہ کھویا ہوا کردار عطا کرے۔ دنیا کے نقشے میں بکھرے ہوئے کتنے مسلم ممالک وقت کی اس آواز کو سننا بھی گوارا کرسکتے ہیں! عمل کا تو کوئی سوال ہی نہیں۔ سوچیے کتنی ذلیل پستیوں میں گر جانے کے باوجود ہم اسلام سے یہ مطالبہ کررہے ہیں کہ ہم کو ’’مسلمان‘‘ ہی سمجھا جائے۔‘‘
یہ سطور مرحوم شمس نوید عثمانیؒ کی کتاب ’’کیا ہم مسلمان ہیں؟‘‘ سے لی گئی ہیں، جس کے ہر ہر صفحے پر صحابہ کرامؓ کی زندگیوں کے آئینے میں اسلام کے دورِ اوّلین سے قرون اولیٰ کے مسلمانوں کے حقیقی کردار کو اجاگر کرتے ہوئے دورِ حاضر میں اسلام کے نام لیوائوں کے قلب و ضمیر کو جھنجھوڑا گیا ہے، اور انہیں اپنی سیرت و کردار کی روشنی میں خود سے یہ سوال کرنے پر متوجہ کیا گیا ہے کہ ’’کیا ہم مسلمان ہیں؟‘‘ یہ کتاب دراصل ان مضامین کا مجموعہ ہے جو ابتداً دیوبند بھارت سے مولانا عامر عثمانی مرحوم کی زیر ادارت شائع ہونے والے ماہنامہ ’’تجلی‘‘ کے لیے تحریر کیے گئے۔ اس ماہنامہ نے اپنے دور میں مقبولیت کی بلندیوں کو چھوا۔ مولانا عامر عثمانی مرحوم و مغفور اس ماہنامہ کے ذریعے حق گوئی کا حق ادا کرتے رہے، انہوں نے اپنے بے پناہ مقبول کالم ’’مسجد سے میخانے تک‘‘ میں ’’ملا ابن العرب مکی‘‘ کے قلمی نام سے اپنے دور کے سوشلسٹ، کمیونسٹ، سیکولر، نظام سرمایہ داری کے علَم بردار، مادہ پرست سوچ کے حامل اور بعض ’’ملائوں‘‘ کے کردار اور عمل کو جس جرأت و بے باکی سے بے نقاب کیا اس کی کوئی دوسری مثال تلاش کرنا مشکل ہے۔ اس کالم میں زبان و بیان کی چاشنی اور دلائل کی قوت بیک وقت اپنا اثر دکھاتی تھیں۔ اپنے مضامین و مندرجات کی وجہ سے ماہنامہ ’’تجلی‘‘ بھارت ہی نہیں پاکستان میں بھی اپنا وسیع حلقۂ قارئین رکھتا تھا، اور اس کا شمار اُن جرائد میں ہوتا تھا، مطالعے کا ذوق رکھنے والے جن کا شدت سے انتظار کرتے تھے۔
’’کیا ہم مسلمان ہیں؟‘‘ کا سلسلۂ مضامین شمس نوید عثمانی نے اپنے بھائی مدیر ’’تجلی‘‘ مولانا عامر عثمانی کی خواہش پر شروع کیا تھا۔ سلسلۂ مضامین کے عنوان یا کتاب کے نام سے متعلق خود صاحبِ کتاب نے وضاحت ان الفاظ میں کی ہے: ’’یہ عنوان جس دن میں اپنے ان تاریخی مضامین کے لیے پہلی بار رکھ رہا تھا تو اس کا مفہوم اور منشاء صرف اتنا تھا کہ ’’کیا میں مسلمان ہوں؟‘‘ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی زندگیوں کے آئینے میں، مَیں نے جب خود اپنی تصویر دیکھنا چاہی تو گویا یہ عنوان ایک درد بھری چیخ بن کر میرے دل پر اترا تھا۔ میں نے سوچا کہ شاید اسی طرح بلکہ شاید اس سے بھی بڑھ کر میرے دوسرے بھائی اور بہنیں بھی ان واقعات کو پڑھتے ہوئے اسی طرح محسوس کریں گے اور ان کے دلوں سے بھی ایسی ہی کراہ، ایسی ہی سسکی اور ایسی ہی چیخ نکلے گی… اس لیے میں نے اس نالہ درد کو اپنے تک محدود کرنے کے بجائے اپنے ان نادیدہ سارے بہن بھائیوں تک پھیلا دیا اور ’’کیا میں مسلمان ہوں؟‘‘ کی جگہ اس طرح ’’کیا ہم مسلمان ہیں؟‘‘ نے لے لی۔‘‘ یہ سلسلۂ مضامین اتنا مؤثر اور مفید ثابت ہوا کہ مدیر ’’تجلی‘‘ نے اپنی اوّلین فرصت میں اسے کتابی شکل میں شائع کرنا ضروری سمجھا۔ بھارت میں یہ کتاب مکتبہ ’’تجلی‘‘ کی جانب سے شائع کی گئی، جب کہ پاکستان میں اسلامی جمعیت طلبہ کے اشاعتی ادارے ’’ادارۂ مطبوعات طلبہ‘‘ نے اس کی اشاعت کا بیڑہ اٹھایا۔ اپنی اشاعت کے اوّلین دور ہی سے یہ کتاب نوجوان نسل کی سیرت و کردار کی تعمیر کے لیے اسلامی جمعیت طلبہ کے تربیتی نصاب کا حصہ رہی ہے۔ کتاب کی اثرپذیری سے متعلق مولانا عامر عثمانی اپنے ’’پیش لفظ‘‘ میں یوں رقم طراز ہیں:
’’اگر میں کہوں کہ جو سلسلۂ مضامین عزیزی شمس الرحمٰن سلمہ اللہ تعالیٰ نے ’’کیا ہم مسلمان ہیں؟‘‘ کے عنوان سے (ماہنامہ) تجلی (دیوبند) میں قائم رکھا ہے، اس کی کوئی بھی قسط میں ایسے صبر و سکون کے ساتھ نہیں پڑھ پاتا کہ آنکھیں نہ بھیگیں اور قلب و روح میں گداز گداخت کی ایک خاص کیفیت محسوس نہ ہو تو آپ پلٹ کر کہہ سکتے ہیں کہ تیرے دل کی کمزوری اور اعصاب کے ضعف کا نتیجہ ہے۔ بے شک میں اپنے اعصاب کے قوی ہونے کا مدعی نہیں، مگر یہ تو آپ بھی مانیں گے کہ موم جیسی نرم شے بھی اُسی وقت پگھلتی ہے جب شمع کی لو شعلہ بن کر اسے آنچ پہنچاتی ہے۔ لو شمع نہ بنے یا شعلہ تپش و حدت سے خالی ہو تو موم ٹس سے مس نہیں ہوگا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ میری اثر پذیری کو ضعف کا اثر قرار دینے کے باوجود اس قوتِ تاثیر کا انکار نہیں کیا جا سکتا جو عزیز موصوف کی تحریروں میں پائی جاتی ہے۔ آپ کی آنکھیں ان تحریروں کا مطالعہ کرتے ہوئے نم نہ ہوں اور آپ کے قلب و روح ان سے کوئی گہرا اثر نہ لے سکیں تو یہ ایسا ہی ہوگا جیسے سنگ و آہن پر ہلکی آنچ کے انگارے کوئی اثر نہیں کرتے۔ اس کے باوجود کون ہے جو یہ کہہ سکے کہ انگارے تپش و حدت سے خالی ہیں۔‘‘
کتاب کی مقبولیت کا اندازہ اس امر سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ وطن عزیز میں مطالعے کے ذوق و شوق کے موجودہ زوال پذیر دور میں جب کہ عموماً ہزار، پانچ سو کی تعداد میں شائع ہونے والی کتابوں کی نکاسی بھی ایک مسئلہ بن چکی ہے، ’’کیا ہم مسلمان ہیں؟‘‘ کی 19 ویں اشاعت پیش نظر ہے۔ یوں اب تک یہ کتاب 19 ہزار کی تعداد میں شائع ہوکر قارئین تک پہنچ چکی ہے۔ پہلے یہ الگ الگ تین حصوں میں شائع ہوتی رہی ہے، تاہم اب تینوں حصوں کو یکجا کردیا گیا ہے۔ کتاب میں بعض غیر مطبوعہ مضامین کی شمولیت سے اس کی افادیت میں اضافہ ہوگیا ہے۔ قدرے طویل ایک نظم ’’دوایمان۔ ایک حقیقت۔ دوسرا رسم‘‘ کے عنوان سے شاملِ کتاب کی گئی۔ حصہ اول میں تو نہیں البتہ دوسرے اور تیسرے حصے میں شامل تحریروں کے آخر میں ان کی ماہنامہ ’’تجلی‘‘ دیوبند میں اشاعت کی تاریخ بھی درج کردی گئی ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ زیادہ تر تحریریں گزشتہ صدی کی چھٹی دہائی کے دوران رقم کی گئی ہیں، تاہم کم و بیش ساٹھ برس گزر جانے کے باوجود آج بھی یہ اپنے قاری کے قلب و روح کو براہِ راست متاثر کرتی ہیں ؎
پر نہیں طاقتِ پرواز مگر رکھتی ہے
دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے
حروف خوانی برادرم عرفان جعفر خاں نے خاصی محنت اور محبت سے کی ہے جس سے کتاب بڑی حد تک غلطیوں سے پاک ہوگئی ہے۔ مضبوط جلد، خوبصورت، دیدہ زیب سرِورق اور گرد پوش سے مزین کتاب عمدہ کاغذ پر اعلیٰ معیارِ طباعت کا حسین مرقع ہے۔ توقع کی جانی چاہیے کہ یکجا تینوں حصوں پر مشتمل مکمل کتاب کی بھی حسب ِسابق خوب پذیرائی کی جائے گی اور اسے تمام سرکاری و نجی کتب خانوں کی زینت بنایا جائے گا تاکہ نئی نسل رسول اکرمﷺ اور جلیل القدر صحابہ کرامؓ کی مثالی زندگیوں کے آئینے میں اپنی سیرت و کردار کی تعمیر میں اس سے رہنمائی حاصل کرسکے۔