زاویے

کتاب
:
زاویے
تحقیق و تنقید
مرتب
:
ڈاکٹر اشفاق احمد وِرک
صفحات
:
264 قیمت:500 روپے
ناشر
:
دارالنوادر۔ الحمد مارکیٹ سیکنڈ فلور اردو بازار لاہور-فون 0300-8898639

’’زاویے‘‘ ڈاکٹر اشفاق احمد وِرک کے تحقیقی و تنقیدی مقالات و مضامین کا مجموعہ ہے۔ ڈاکٹر معین نظامی پروفیسر شعبہ فارسی اورینٹل کالج، پنجاب یونیورسٹی لاہور تحریر فرماتے ہیں:
’’زاویے ڈاکٹر اشفاق احمد ورک کے تحقیقی و تنقیدی مضامین کا وقیع مجموعہ ہے جس میں پندرہ قابلِ قدر مضامین شامل ہیں۔ اشفاق احمد وِرک ملکِ عزیز کے صاحبِ طرز مزاح نگار ہیں اور ان کی بنیادی وجۂ شہرت یہی پہلو ہے۔ وہ بہت اعلیٰ مزاح نگار ہی نہیں، اردو مزاح نگاری کی تاریخ اور اس کے متنوع اسالیب کے گہرے پارکھ بھی ہیں۔ ان کے شگفتہ و شائستہ کالم بھی ان کا بہترین تعارفیہ ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر اشفاق احمد وِرک اردو اور فارسی زبان و ادب میں قابلِ رشک مہارت رکھتے ہیں۔ پنجابی شعر و ادب کا ذوق بھی رکھتے ہیں اور اُن بیدار مغز دانش وروں میں سے ہیں جن کے لیے مطالعہ و تجزیہ اور معلومات و نتائج کا مؤثر ابلاغ نظامِ تنفس کی سی اہمیت رکھتا ہے۔ ان کے بھرپور تحقیقی و تنقیدی مضامین ان کی وسعتِ مطالعہ، استدلالی ذہانت، تجزیاتی صلاحیت اور حسنِ ابلاغ کے آئینہ دار ہیں۔ ان کے معتبر منابع کی رنگا رنگی سے ان کے مطالعات کے تنوع کا بھی بہ خوبی اندازہ ہوتا ہے۔ ان مضامین کا ایک خاص پہلو اُن کا وہ دل پذیر اسلوب ہے جس میں یہاں وہاں بے ساختہ طور پر ان کی شگفتہ نگاری جھلک اٹھتی ہے اور علمی ثقاہت کی سنجیدہ فضا کو پل دو پل کے لیے تازہ تر اور پسندیدہ تر بنادیتی ہے۔ اشفاق وِرک نے ان مضامین میں قارئین کے دل و دماغ کو وقتی طور پر فتح کرلینے کے خیال سے مغربی حوالوں کی بھرمار سے عمداً اجتناب کیا ہے، اور بہت اچھا کیا ہے۔ یہ ہدف ان کے پیش کردہ علمی و تحقیقی مواد، تنقیدی نکات اور جاذب اسلوب نے اچھی طرح حاصل کرلیا ہے‘‘۔
ڈاکٹر ضیا الحسن پروفیسر شعبۂ اردو پنجاب یونیورسٹی لاہور رقم طراز ہیں:
ڈاکٹر اشفاق احمد وِرک نے طنز و مزاح اور خاکے لکھے اور اپنے تخلیقی تجربے کے ذریعے اس فن کو گہرائی سے سمجھا، چنانچہ ان کے یہ مقالات درسی تدریسی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے نہیں لکھے گئے، بلکہ ادب کی گہری تفہیم سے برآمد ہوئے ہیں جو مدرس نقادوں کو نصیب نہیں۔ یہ وہ مقالات بھی نہیں جو HEC کی شرائط کو پورا کرنے کے لیے اور اگلے گریڈ میں ترقی حاصل کرنے کے لیے لکھے جاتے ہیں، بلکہ انہیں ڈاکٹر صاحب کا حاصلِ مطالعہ سمجھنا چاہیے۔ انہوں نے طنزومزاح اور خاکہ نگاروں کو ایک مختلف زاویے اور منفرد نظر سے دیکھا ہے۔ چنانچہ ان تمام مقالات پر آپ کو کسی اور کی تحریر کا سایہ بھی نظر نہیں آئے گا۔ یہ مقالات نقاد کے منصب پر فائز ہونے کے لیے بھی نہیں لکھے گئے، اس لیے ان میں وہ علمیت زدہ رعب داب بھی عنقا ہے جو جغادری قسم کے نقادوں میں نظر آتا ہے جو قاری کو ادب سے منسلک کرنے اور مطالعے کا شوق پیدا کرنے کے لیے نہیں لکھتے بلکہ کوشش کرتے ہیں کہ وہ مصنوعی اور اصطلاحات کے بوجھ تلے دبی ایسی نثر لکھیں جو کسی کو سمجھ ہی نہ آئے اور قاری اپنی جہالت اور نقاد کی علمیت کا قائل ہوجائے۔ اس کے برعکس ان کے اسلوبِ تحریر میں وہ روانی، شگفتگی اور زندگی ہے جو قاری کو مطالعے پر مائل کرتی ہے۔ آپ ان مضامین کو پڑھنا شروع کریں تو یہ خود کو آپ سے خود ہی پڑھواتے ہیں۔ کششِ مطالعہ ان مضامین کی ایک اہم خوبی ہے، اور یقیناً کسی بھی تحریر کی بنیادی خوبی ہی یہی ہوتی ہے کہ وہ قاری کے باطن میں اتر جائے اور تحریر کی کشش سے وہ مطالعے میں غرق ہوجائے۔ ان کے اسلوب کی یہ شگفتگی مقالات کی علمی گہرائی کو کم نہیں کرتی بلکہ اسے اور بھی فزوں کرتی ہے، کیوں کہ اس میں نکتہ رسی، نکتہ آفرینی اور نقطہ نظر یوں گھل مل گئے ہیں کہ انہیں الگ کرنا ممکن نہیں ہے۔ ڈاکٹر صاحب اسلام اور پاکستان سے بے حد محبت کرتے ہیں، ان کی یہ محبت ان کے موضوعات، نظریۂ حیات، حتیٰ کہ اسلوبِ تحریر سے بھی مترشخ ہے۔ وہ نام نہاد آزاد خیالی یا ترقی پسند ادیبوں کی طرح فوری پذیرائی حاصل کرنے کے لیے اپنے نظریۂ زندگی سے دست بردار نہیں ہوتے۔ اس حوالے سے ان میں اور ان کی تحریر دونوں میں کسی قسم کا احساسِ کمتری نہیں پایا جاتا، بلکہ وہ اسے باعثِ فخر جانتے ہیں۔
ڈاکٹر صاحب کے تحقیقی و تنقیدی مقالات کا یہ مجموعہ پندرہ مقالات پر مشتمل ہے جن میں دو چار کو چھوڑ کرباقی تمام مقالات کا تعلق طنز و مزاح اور خاکہ نگاری سے ہے۔ پہلا مضمون ’’فارسی شعر و ادب میں طنزومزاح‘‘ اپنے موضوع کے اعتبار سے بہت منفرد اور معلومات افزا ہے۔ یہ مضمون ان کے مطالعے کی وسعت اور فارسی دانی دونوں کا غماز ہے۔ انہوں نے بہت محنت اور مشقت سے فارسی شعر و ادب میں طنزومزاح کے عناصر کا سراغ لگایا ہے اور فارسی ادبیات کو ایک مختلف زاویے سے دیکھا ہے۔ میر، غالب اور اقبال پر مقالات بھی اس عمومیت سے محروم ہیں جو ان عظیم شاعروں پر لکھتے ہوئے بیشتر نقادوں کی تحریروں میں در آتی ہے۔ مثال کے طور پر ’’اقبال اور فینٹسی‘‘ اقبال کو ایک ایسے زاویے سے دیکھنے کی آرزو کا آئینہ دار ہے جو اقبال شناسی میں کم کم دیکھنے کو ملتی ہے، ورنہ اقبال پر ہونے والا زیادہ تر کام ’’ماہرِ اقبال‘‘ بننے کے کام آتا ہے۔
اس مجموعے کا ایک اہم مضمون ’’محمد خالد اختر کے خطوط (مع حواشی)‘‘ ہے۔ یہ مضمون پڑھتے ہوئے میں ان پر رشک کرتا رہا کہ جس ادیب کو پڑھنا میرے لیے باعثِ فخر ہے، وہ میرے اس دوست کے کس قدر قریب تھے۔ اس مضمون سے مجھے خالد اختر کے بارے میں متعدد ایسی معلومات حاصل ہوئیں جن سے میں پہلے آگاہ نہیں تھا، لیکن سب سے زیادہ مجھے انہیں بطور سماجی فرد جاننے کا موقع ملا جس سے ان کی تحریروں کی تفہیم کے نئے در بھی باز ہوئے۔
’’شامِ شعرِ یاراں‘‘ یوسفی صاحب کا پانچواں اور آخری مجموعہ ہے، جس کے بارے میں متضاد آراء کا ازدحام نظر آتا ہے۔ بہت سوں نے پڑھا کم اور سونگھا زیادہ، لیکن رائے میں وہ اصابت کہ لگے حرف حرف پڑھا اور پرکھا ہے۔ اس مضمون میں ڈاکٹر صاحب نے مجموعے میں شامل مضامین کا جائزہ تفصیل سے لیا۔ کتاب کے محاسن کا موازنہ ان کی گزشتہ تحریروں سے کم تر نہیں گردانا جاسکتا۔ چند ایک تقریباتی و تقریظاتی تحریروں کو چھوڑ کر باقی تمام مضامین مزاح کے اعلیٰ نمونے ہیں، اور وہ چند ایک مضامین بھی یوسفی کے معیار پر پورا نہیں اترتے، ورنہ ایسی تحریریں بھی آج کسی کو نصیب نہیں۔ مضمون کا آخری حصہ اس تحقیق پر مشتمل ہے کہ کیا واقعی یہ کتاب یوسفی صاحب کی مرضی کے بغیر یا نیم رضا مندی سے شائع کی گئی، اور یہ نتیجہ برآمد کیا کہ یوسفی کتاب میں شامل بیشتر مضامین کو کئی سال سے مسلسل اپنے مخصوص انداز میں ایڈیٹ کررہے تھے اور وہ ترمیم و اضافے کے مراحل سے گزر چکے تھے۔ یہ کتاب ان کی مکمل تائید اور اجازت سے شائع ہوئی۔ اسے ’’باقیاتِ یوسفی‘‘ صرف وہی لوگ کہتے ہیں جنہوں نے اس کا بالاستیعاب مطالعہ نہیں کیا بلکہ ان کا مدار سنی سنائی پر ہے۔ ڈاکٹر اشفاق احمد ورک کی تحقیق بھی مجموعی اردو تحقیق کی طرح کتابی، میکانکی اور یبوست زدہ نہیں ہے، بلکہ انہوں نے تحقیق کے نئے نئے وسائل سے کام لے کر اسے بھی جاندار بنادیا ہے۔
ڈاکٹر اشفاق احمد ورک کا یہ مجموعۂ مقالات ’’زاویے‘‘ طنز و مزاح اور خاکہ نگاری کی تنقید و تحقیق میں اہم اضافہ ہے اور نئے محققین اور ناقدین کے لیے یہ جاننے کے لیے کہ تحقیق و تنقید کے لیے کس قدر مطالعے، محنت اور ادب کی گہری تفہیم کی ضرورت ہوتی ہے، رہنما بھی ہے۔‘‘
کتاب ان مقالات و مضامین پر مشتمل ہے۔
-1 فارسی شعر و ادب میں طنزومزاح، 2۔ شاعرِ دل گیر، جناب میرؔ (میر تقی میرؔ)، -3 غالب، اردو مزاح کا مجدد، -4 اقبال اور فینٹیسی، -5 محمد خالد اختر بنام اشفاق احمد ورک، -6 وجودِ زن سے ہے تصویرِ ادبیات میں رنگ، -7مزاح اور معاشرہ، -8 مشتاق احمد یوسفی اور شامِ شعرِ یاراں، -9 اردو میں خود نوشت خاکہ، -10 اردو میں نثری تحریف، -11 تدریس ِاردو میں درپیش مسائل (جدید تناظر میں)، -12 حسن کوزہ گر: راشد سناسی کی ایک مثال، -13 ڈاکٹر شیرانی کے تحقیقاکے، -14 مطالعے کا نشہ، -15 کچھ شریف سفرنامے۔
کتاب خوبصورت طبع کی گئی ہے۔ مجلّد ہے اور خوبصورت سرورق سے آراستہ ہے۔ کتاب کے شروع میں جناب عارف عبدالمتین کا ایک شعر دیا گیا ہے، خیال ہوا کہ قارئین کرام کی خدمت میں پیش کرنا چاہیے تا کہ وہ بھی محظوظ ہوں:
خفا ہیں مجھ سے مرے زمانے کے دیدہ ور اس بنا پر عارفؔ
میں اپنی آنکھوں سے دیکھتا ہوں، میں ذہن سے اپنے سوچتا ہوں