مجلسِ ترقیِ اَدب لاہور کا نام علمی و اَدبی حلقوں میں کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ یہ علمی و اَدبی ادارہ دُنیا میں پاکستان کی علمی روایت کا امین ہے۔ یہ ادارہ گزشتہ ستّر سال سے شائقین ِعلم و اَدب کی تشنہ کامیوں کو سیراب کرنے کا فریضہ بہ خوبی انجا م دیتا نظر آتا ہے۔ مجلسِ ترقیِ اَدب کی مطبوعات نے تحقیق اور اشاعت کا ایک منفرد معیار قائم کیا ہے۔ اس کی مطبوعات نے اپنے موضوعاتی تنوّع اور کم یاب فنون کی اشاعت سے علم و تحقیق کے شعبوں میں اپنا اعتبار قائم کیا ہے۔ علمی و اَدبی موضوعات کی کئی اور کلاسیکی اُردو و فارسی اَدب کی تقریباً تمام کی تمام مطبوعاتِ مجلس اس کے منفرد، اہم اور باوقار علمی مقام کی گواہ ہیں۔ مجلس کا سہ ماہی تحقیقی مجلہ ’’صحیفہ‘‘ اپنے مشمولات، ان کے پایۂ استناد اور اپنے خاص موضوعی شماروں کی بدولت اُردو کے علمی و تحقیقی جرائد کی صفِ اوّل میں جگہ پاتا ہے۔
مجلسِ ترقیِ اَدب لاہور کی یہ علمی و اَدبی اور تحقیقی خدمات کسی خودکار نظام کے تسلسل کے باعث نہیں، بل کہ ان کے پسِ پشت نام ور علما و محققین کی سرپرستی اور تحریری کاوشیں ہیں۔ مجلس کا آغاز مئی ۱۹۵۰ء میں ’’مجلسِ ترجمہ‘‘ کے طور پر ہوا اور پھر کچھ سالوں کے بعد ۱۹۵۴ء میں اسے حیاتِ نو ملی جب اس کا نام ’’مجلسِ ترجمہ‘‘ سے تبدیل کرکے ’’مجلسِ ترقی اَدب ‘‘رکھّا گیا اور اِس کے مقاصد میں بھی وسیع پیمانے پر ترمیم کی گئی۔ اس ادارے کے قیام کے وقت اس کا مقصد محض دنیا کی معیاری اور اہم ترین علمی کتابوں کو اُردو میں ترجمہ کرکے چھاپنا تھا لیکن تنظیمِ نو کے بعد اس کے مقاصد میں اعلا اور بلند پایہ اُردو تصانیف، مشرق و مغرب کی بلند پایہ علمی تصانیف کے اُردو تراجم اور سب سے بڑھ کر اور ترجیحاً اُردو کے کلاسیکی اَدب کا چھاپنا مقرر کیے گئے۔ ۱۹۶۰ء میں اُردو کے اُس وقت کے معروف اہلِ قلم سیّد امتیاز علی تاج کو مجلس کا ناظم مقرر کیا گیا جو برصغیر کے علمی حلقوں میں عزّت کی نظر سے دیکھے جاتے تھے۔ تاج صاحب نے اُردو کے کلاسیکی ادب کی اشاعت کو مجلس کے مقاصد میں سرِفہرست رکھّا اور اپنے معاونین (خاص طور پر خلیل الرحمن داؤدی) کی مدد سے اپنے دس سالہ دور میں کلاسیکی اُردو اور فارسی کی بیسیوں کتابیں مرتّب کراکے شائع کیں۔ دیگر علمی و تحقیقی کتب اور تراجم بھی خاصی تعداد میں شائع کیے۔ مجموعی طور پر اُنھوں نے اپنے دورِ نظامت میں سیکڑوں اہم کتابیں بہترین انداز میں شائع کرکے مجلسِ ترقی اَدب کے نوزائیدہ ادارے کو علمی و اَدبی حلقوں میں منفرد توقیر اور عزّت دلائی۔ اُن کے دور کی مطبوعات نے آئندہ کے لیے مجلس کی مطبوعات کا علمی و اشاعتی معیار بھی متعین کردیا اور اُردو کے علمی و اَدبی حلقوں میں مجلس کو بھی ایک باوقار علمی مقام دلایا۔ تاج صاحب نے خود بھی کلاسیکی اُردو ڈراموں کو بارہ جلدوں میں مرتّب کرکے شائع کیا اور یوں مجلس کی علمی و تحقیقی روایت میں عملاً اپنا حصّہ ڈالا۔
۱۹۷۰ء میں اُن کی وفات کے بعدسابق وائس چانسلر پنجاب یونیورسٹی پروفیسر حمید احمد خاں کو مجلسِ ترقی اَدب کا ناظم مقرر کیا گیا۔ حمید احمد خان کا تعلّق پنجاب کے نام ور علمی خانوادے سے تھا۔ اُن کے بھائی مولانا ظفر علی خاں اور حامد علی خاں علمی و ادبی اور صحافتی دُنیا میں اپنی دھاک بٹھا چکے تھے جو آج بھی اپنی جگہ اور مقام پر قائم ہے۔ خود حمید احمد خاں بھی ممتاز ماہرِ غالبیات اور ماہرِ تعلیم کے طور پر اپنی شناخت رکھتے تھے اور اُن کی یہ شناخت بھی آج تک قائم ہے۔ پروفیسر حمید احمد خاں نے اپنے پیش رو سیّد امتیاز علی تاج کے جاری منصوبوں اور معیار کو قائم رکھا۔ اُن کے دور میں بھی مطبوعاتِ مجلس اپنے معیار، استناد اور تنوّعِ موضوعات کے ساتھ منظرِ عام پر آتی رہیں۔ خود حمید احمد خاں کی تصانیف و تالیفات بھی مجلس سے شائع ہوئیں جن میں غالبؔ پر تحقیقی و تنقیدی مضامین کا مجموعہ ’’مرقّعِ غالب‘‘، تعلیمی مقالات کا مجموعہ ’’تعلیم و تہذیب‘‘ اور ’’دیوانِ غالبؔ (نسخۂ حمیدیہ)‘‘ کی ترتیب شامل ہیں۔
پروفیسر حمید احمد خاں محض چار سال تک مجلس کے ناظم رہے۔ ۱۹۷۴ء میں اُن کا انتقال ہو گیا۔ اس سے اگلے سال نا مور شاعر، افسانہ نگار، ادیب، صحافی، کالم نگار احمد ندیم قاسمی کا تقرر مجلسِ ترقی اَدب کے لیے کیا گیا۔ اُن کے دور میں ایک مرحلے پر مجلسِ ترقی اَدب کو جدید انتظام کے تحت صوبۂ پنجاب کے محکمۂ اطلاعات و ثقافت کے تحت کردیا گیا۔ نئے انتظام کے بعد مجلسِ ترقی اَدب کی سرکاری گرانٹ کم ہوگئی جس کے باعث مجلس کی علمی و اشاعتی سرگرمیوں کے تسلسل میں کچھ فرق پڑا لیکن ان میں تعطّل نہیں آیا۔ سیّد امتیاز علی تاج کے زمانے میں مجلس کی جو علمی و اشاعتی روایت قائم ہوئی، احمد ندیم قاسمی نے اپنے ۳۲ سالہ دور میں اُسے جاری رکھّا اور حسبِ سابق تینوں شعبوں: کلاسیکی اُردو ادب، اعلا تحقیقی و تنقیدی تصانیف اور بلند پایہ علمی کتابوں کے تراجم کی کتابیں شائع ہوتی رہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ مجلس کا سہ ماہی تحقیقی مجلہ ’’صحیفہ‘‘ بھی تسلسل کے ساتھ شائع ہوتا رہا۔
۲۰۰۶ء میں قاسمی صاحب کی وفات کے بعد نام ور شاعر، مترجم، ماہرِ نفسیات اور ادیب شہزاد احمد کا انتخاب مجلس کے ناظم کے طور پر کیا گیا۔ اُنھوں نے ذاتی کوششوں سے مجلس کے مالی حالات بہتر بنانے کے لیے بڑی کاوشیں کیں جن کے نتیجے میں مجلسِ ترقی اَدب کی گرانٹ میں اضافہ ہوا، مجلس کو دیگر ذرائع سے مالی عطیات بھی ملنے لگے اور مطبوعاتِ مجلس کی اشاعت میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہوا۔ ان اقدامات کی وجہ سے مجلسِ ترقی اَدب کے مالی حالات پہلے کی نسبت بہت بہتر ہوگئے تو شہزاد احمد نے مجلس کی علمی و تحقیقی سرگرمیوں میں بہتری لانے کی کاوشیں شروع کیں۔ اُنھوں نے کتب خانۂ مجلس کی تنظیمِ نو کی اور اسے ایک تحقیقی کتب خانے میں ڈھالنے کے راستے پر ڈالا۔ مطبوعاتِ مجلس کی تعداد، پیش کش اور معیار میں اضافہ کرکے اُسے سیّد امتیاز علی تاج کے دور کے برابر لانے کی سعی کی۔ مجلس کا سہ ماہی جریدہ ’’صحیفہ‘‘ اس سے قبل مجلس کے دگرگوں مالی حالات میں اپنی آن بان اور شان قائم نہ رکھ سکا تھا، شہزاد احمد کی کوششوں سے اسے حیاتِ نو ملنی شروع ہوئی اور عرصۂ دراز کے بعد اس کے ضخیم خاص نمبروں کا سلسلہ شروع ہوا۔ شہزاد احمد کے تقریباً چھے سالہ دور میں اوسطاً بیس(۲۰) کتب سالانہ کے حساب سے مطبوعاتِ مجلس منظرِ عام پر آتی رہیں۔ ان میں ڈاکٹر جمیل جالبی کی ’’تاریخِ اَدبِ اُردو‘‘،’’ توزکِ جہاں گیری‘‘، ’’محمد حسین آزاد- تنقید و تحقیق کا دبستانِ لاہور‘‘، ’’مجلسِ مجلسِ ترقی اَدب کی رودادیں‘‘، ’’ماہیّت الامراض‘‘ (۲ جلدیں)، ’’شاخِ زریں‘‘ (۲ جلدیں) اور رشید حسن خاں مرتّبہ کلاسیکی کتابیں: ’’فسانۂ عجائب‘‘، ’’گلزارِ نسیم‘‘ اور ’’سحرالبیان‘‘ جیسی ضخیم کتابیں بھی شامل ہیں۔
شہزاد احمد کی وفات کے بعد ۲۰۱۳ء میں نام ور نقّاد، محقّق، شاعر، مترجم، ماہرِ اقبالیات و غالبیات، ادیب، سابق صدرِ شعبۂ اُردو جامعہ پنجاب لاہور اور اُردو، فارسی، انگریزی زبانوں کے عالم ڈاکٹر تحسین فراقی کا انتخاب ناظمِ مجلسِ ترقی اَدب کے معزّز عہدے پر ہوا۔اُنھوں نے بھی اپنے پیش رووں کی علمی روایات کو نہ صرف قائم رکھّا، بلکہ اس میں بہتری بھی لے کر آئے۔ اُنھوں نے اپنے دور میں مجلس کی کلاسیکی اَدبی، علمی اور دیگر مطبوعات کے متن کا استناد قائم کرنے کی جو سعی کی، وہ اس سے قبل کم ہی دیکھنے میں آتی ہے۔ کارکنانِ مجلس کے ساتھ، بل کہ بعض اوقات اُن سے بھی زیادہ، مطبوعاتِ مجلس کے متن کی ثقاہت، کتابوں کی ترتیب و اشاعت اور پیش کش میں اعلا معیار قائم کرنے میں اپنا عملی حصّہ ڈالتے۔ اُن کے دور کی مطبوعات متن اور اپنی طباعت و پیش کش کے اعتبار سے مثالی تسلیم کی گئی ہیں۔ پاکستان کے بڑے اور اہم تاجرانِ کتب اور قارئین اکثر و بیش تر ڈاکٹر تحسین فراقی کے دور کی مطبوعاتِ مجلس کی ہر لحاظ سے تعریف کرتے رہتے ہیں۔ تبصرہ نگاروں اور مطبوعاتِ مجلس کے ذکر کنندگان نے بھی اپنی تحریروں میں التزاماً، ڈاکٹر تحسین فراقی کے دور کی مطبوعاتِ مجلس کی طباعت، کاغذ، جلد بندی اور مجموعی پیش کش میں بہترین اور قابلِ تقلید معیار کا ذکر خاص طور پر کیا ہے۔ مجلس کی بعض کلاسیکی اور علمی کتابوں کو ڈاکٹر تحسین فراقی اشاعت سے قبل خود ذاتی طور پر ملاحظہ کرتے تھے۔ اس کے نتیجے میں کئی کتابوں میں راہ پا جانے والی سیکڑوں تسامحات اور غلطیاں اُنھوں نے درست کرائیں اور ان کتابوں کی نئی اشاعتیں متن کی تصحیح کے بعد شائع کیں۔ اس کے علاوہ بیسیوں نئی کتابیں بھی شائع کیں۔ اس کے ساتھ ساتھ مجلس کے سہ ماہی تحقیقی مجلے ’’صحیفہ‘‘ کے خاص شماروں کی روایت کو نہ صرف مضبوط کیا بلکہ اہم موضوعات پر ضخیم ترین خاص شمارے جو اُن کے دور میں منظرِ عام پر آئے، ان کی نظیر اس سے قبل مجلس کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ ان میں شبلی نمبر، حالیؔ نمبر، سرسیّد نمبر اور تین حصّوں/ جلدوں میں مکاتیب نمبر شامل ہیں۔
ڈاکٹر تحسین فراقی نے مطبوعاتِ مجلس کے متن اور پیش کش کی ثقاہت کا اعتبار جس طرح قائم رکھنے کی سعی کی، اس کا اندازہ ذیل کی دو مثالوں سے بخوبی کیا جاسکتا ہے۔ مولانا عبدالحلیم شرر لکھنوی کا معروف تاریخی ناول ’’فردوسِ بریں‘‘، مجلسِ ترقی اَدب سے وقار عظیم کے مقدمے کے ساتھ دوبارہ شائع ہوچکا تھا۔ اس کی تازہ اشاعت سے قبل ڈاکٹر تحسین فراقی نے خود اس کے متن کا موازنہ اس ناول کی قدیم اشاعت سے کیا تو معلوم ہوا کہ مجلس کے مطبوعہ متن میں کئی جگہ بڑے بڑے اختلافات ہیں اور موجودہ صورت میں اسے کسی طرح بھی منشاے مصنّف کے مطابق قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اس ناول کو ڈاکٹر سیّد عبداللہ کے نام ور شاگرد ڈاکٹر ممتاز منگلوری نے بھی مرتّب کرکے شائع کرایا تھا۔ اُن کے مرتبہ نسخے کا متن مصنّف کے اصل متن کے قریب ترین ہے، چناں چہ ڈاکٹر تحسین فراقی نے مجلس کے مطبوعہ متن کے بجاے مجلسِ ترقی اَدب سے ڈاکٹر ممتاز منگلوری کا بہتر مرتبہ متن شائع کیا۔
اِسی طرح مولانا الطاف حسین حالیؔ کی معروف تصنیف ’’حیاتِ سعدیؔ‘‘ کی تازہ اشاعت کے لیے اُنھوں نے اس کا متن دیکھنا شروع کیا تو اس کے متن میں بھی بہت خرابیاں نظر آئیں۔ ڈاکٹر تحسین فراقی نے ’’حیاتِ سعدیؔ‘‘ کی قدیم ترین اشاعتوں کی مدد سے اس کا متن ٹھیک / درست کیا، متن پر تفہیمی اور وضاحتی حاشیے لکھّے اور یوں اس کا ایک قابلِ اعتبار اور محقّق متن تیار کرکے شائع کیا۔ کتاب کا مقدمہ بہ ذاتِ خود ایک تحقیقی شاہکار ہے۔
ان تمام تفصیلات سے اندازہ ہوتا ہے کہ مجلسِ ترقی اَدب لاہور کے مقاصد کے عین مطابق ڈاکٹر تحسین فراقی اعلا متنی و اشاعتی معیار کے مطابق بہترین اَدبی اور علمی کتابیں شائع کررہے تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ مجلس کا سہ ماہی تحقیقی مجلہ ’’صحیفہ‘‘ بھی اپنے زرّیں دور سے گزر رہا تھا۔ علمی و کتابی دنیا ڈاکٹر تحسین فراقی اور مجلسِ ترقی اَدب کے ان اقدامات کی تعریف و توصیف کررہی تھی۔ اس دوران غیر علمی حلقوں نے اپنی پرانی روش پر دوبارہ عمل درآمد کرنے کے لیے ڈاکٹر تحسین فراقی کو اُن کے عہدے سے ہٹانے کی سازشیں کرنی شروع کردیں۔ مجلسِ ترقی اَدب اور بزمِ اقبال کی زمین چوں کہ شہر کے مہنگے ترین علاقے میں ہے، اس لیے گزشتہ ستّرسال میں کئی لالچی اور غیرعلمی حکّام کی غاصب نظریں اس کی زمین ہڑپ کرنے کے دَر پے رہی ہیں۔ مجلس اور بزمِ اقبال کی زمین چوں کہ محکمہ بحالیات کے تحت ان اداروں کو الاٹ کی گئی تھی اس لیے یہ نہ تو بیچی جاسکتی ہے، نہ اسے کسی اور کے نام منتقل کیا جاسکتا ہے اور نہ یہ زمین کسی اور مقصد کے لیے استعمال ہوسکتی ہے۔ بارہ تیرہ برس قبل ایسی ہی کوششوں پر اُس وقت کے پنجاب حکومت کے معتمدِ محکمۂ اطلاعات و ثقافت اوریا مقبول جان نے حکومت کو ایک تفصیلی رپورٹ بھی لکھ کر دی تھی جس میں یہ سب باتیں اور قانونی نکتے لکھ دیے تھے اور آئندہ کے لیے اس غصب کا دروازہ بند کرنے کی سعی کی تھی۔اب پھر یہ بے اصول، لالچی اور مطلب پرست مجلس کی جگہ ہڑپ کرنا چاہتے تھے۔ اس اَمر کی منظوری لینے کے لیے اُنھوں نے ڈاکٹر تحسین فراقی پر دباؤ ڈالنا شروع کیا جسے ڈاکٹر تحسین فراقی نے یک سر ردّ کردیا۔ ان مطلب پرست غاصبوں کو چوں کہ حکومتِ وقت کی سیاسی پُشت پناہی حاصل تھی، اس لیے ان کی سازشوں کی بدولت ۲۳ فروری ۲۰۲۱ء کو ڈاکٹر تحسین فراقی کو غیرقانونی طریقے سے جبراً اُن کے عہدے سے ہٹا دیا گیا اور اُن کی جگہ مجلس جیسا نیک نام اور پاکستان کی علمی پہچان علمی و اَدبی ادارہ حکومتی چاپلوس کالم نگار منصور آفاق کے حوالے کردیا گیا۔ تازہ اطلاعات کے مطابق گزشتہ دو مہینے کے عرسے میں مجلسِ ترقی اَدب کی مسلّمہ شناخت ختم کرنے کا کام زور و شور سے جاری ہے۔ یہی نہیں، ڈاکٹر تحسین فراقی کے دور کے آخری دنوں میں دو نہایت اہم کتابیں: ’’شعراے اُردو کے تذکرے‘‘ (ڈاکٹر حنیف نقوی کی مایۂ ناز کتاب) اور ’’یورپ میں دکھنی مخطوطات‘‘ (نصیرالدین ہاشمی کی نہایت اہم اور کم یاب کتاب) شائع ہوچکی تھیں اور پریس سے دفتر آنی باقی تھیں۔ اس مقصد کے لیے مطبع (پریس) والوں نے نئے ڈائریکٹر مجلس منصور آفاق سے رابطہ کیا تو اُنھوں نے جواباً ارشاد فرمایا کہ اُنھیں کتابوں کی ضرورت نہیں اور ان دونوں کتابوں کے تمام نسخے ضائع کردیے جائیں۔ اس طرح ’’صحیفہ‘‘ کے مکاتیب نمبر کا حصّۂ سوم بھی طباعت کے لیے مطبعے میں جاچکا تھا جسے مجلس کے نئے ڈائریکٹر نے واپس منگا لیا اور اسے بھی چھاپنے سے منع کردیا۔
ڈاکٹر تحسین فراقی کو جب غیرقانونی اور انتہائی بھونڈے انداز میں مجلسِ ترقی اَدب کی نظامت سے ہٹایا گیا تو اس غیرقانونی اقدام کو ’’مناسب‘‘ قرار دینے کے کچھ لوگ بغیر تحقیق کے فیس بُک، واٹس ایپ، وغیرہ پر اس غیرقانونی اقدام کی حمایت میں ڈاکٹر تحسین فراقی کے خلاف ہرزہ سرائی پر مبنی تحریریں پوسٹ کرنے لگے۔ ان میں سے ایک نے اپنی جہالت کا مزید ثبوت دیتے ہوئے یہ تک لکھّا کہ مجلس نے ستّر سالہ دور میں کون سے کارنامے انجام دیے ہیں؟ وہ صاحب یہ باور کرانا چاہتے تھے کہ آج تک مجلس میں ایسا کوئی علمی کارنامہ انجام نہیں دیا گیا جس پر اس کے ناظموں کی تعریف کی جائے۔ بین السطور میں وہ یہ باور کرانا چاہتے تھے کہ اصل میں نئے غاصب ڈائریکٹر کے آنے کے بعد مجلس سے صحیح معنوں میں علمی کارنامے سامنے آئیں گے۔ (اوپر میں نے مجلس میں جاری جن موجودہ سرگرمیوں کا ذکر کیا ہے، ممکن ہے ان صاحب کا اشارہ انھی ’’کارناموں‘‘کی جانب ہو)۔
اس کے علاوہ اُن صاحب نے یہ بھی لکھّا کہ ڈاکٹر تحسین فراقی نے اپنے آٹھ سالہ دورِ نظامت میں مجلس سے ایک دو کتابیں ہی شائع کی ہیں اور ’’صحیفہ‘‘ تو ایک چیتھڑے سے زیادہ کی اہمیّت نہیں رکھتا، وغیرہ وغیرہ۔ اُن کی یہ تحریر پڑھ کر مجھے خیال ہوا کہ قارئین و شائقین کی اکثریت ایسی بے بنیاد اور غیرعلمی باتوں پر یقین تو نہیں کرسکتی لیکن یہ اچھا رہے گا کہ اگر اس حوالے سے کچھ ٹھوس شواہد پیش کیے جائیں، تاکہ قارئین اصل صورتِ حال سے پوری طرح آگاہ ہوسکیں، چناں چہ میں نے کچھ کوشش کرکے ڈاکٹر تحسین فراقی کے ساڑھے سات سے آٹھ سالہ دور میں شائع ہونے والی کتابوں کی فہرست تیار کی تو اُن کی تعداد ڈیڑھ سو کے قریب (بل کہ اس سے کچھ اوپر) نکلی۔ ان سب کی فہرست پیش کرنا تو مناسب نہیں لیکن خیال آیا کہ مضمون میں ایسی مطبوعاتِ مجلس کی فہرست کو موضوع وار درج کرنا مناسب ہوگا جو نئی یا تازہ کتابوں کے ذیل میں آتی ہیں اور ڈاکٹر تحسین فراقی ان کی اشاعت کا موجب ہیں۔
کلاسیکی اُردو اَدب کی کتابیں
۱- باغ و بہار: از میر امّن دہلوی، مرتّب: رشید حسن خان۔
۲- طلسمِ گوہر بار: از منیرؔ شکوہ آبادی، مرتّب محمد سلیم الرحمن۔
۳- دردِ جاں ستاں:از ناصر نذیر فراق دہلوی، مرتّب محمد سلیم الرحمن۔
۴-مضامینِ فراقؔ: از ناصر نذیر فراقؔ دہلوی: مرتّب محمد سلیم الرحمن۔
۵- فردوسِ بریں: از عبدالحلیم شررؔ لکھنوی، مرتّب ڈاکٹر ممتاز منگلوری
۶- فسانۂ دل فریب: از فدا علی عیشؔ لکھنوی، مرتّب سلیم سہیل۔
۷-شذراتِ سرسیّد: مرتّب ڈاکٹر اصغر عباس۔
۸-سرسیّد کی سائنٹفک سوسائٹی (رُودادیں)، مرتّب ڈاکٹر اصغر عباس۔
۹-حیاتِ سعدیؔ: از مولانا الطاف حسین حالیؔ، مرتّب محمد اسماعیل پانی پتی؛ مقدمّہ و تحقیق متن و حواشی ڈاکٹر تحسین فراقی
۱۰-عقدِ ثرّیا (تذکرۂ شعرا): از غلام ہمدانی مصحفیؔ؛ ترتیب و حواشی ڈاکٹر شہاب الدین ثاقب۔
۱۱-مِرآۃ الشعر: از مولوی عبدالرحمن؛ مرتّب ڈاکٹر ظہور احمد اظہر۔
۱۲-رسالہ قواعدِ فارسی موسوم بہ صرفِ صغیر؛ از مولوی ڈپٹی نذیر احمد؛ مرتّب ڈاکٹر تحسین فراقی۔
۱۳-دیوانِ نواب محبّت خاں محبّتؔ: مرتب پرتو روہیلہ۔
۱۴-کلیّاتِ میر سوزؔ، جِلد دوم: مرتّب ڈاکٹر زاہد منیر عامر۔
۱۵-مثنوی حجابِ زناں: از منیرؔ شکوہ آبادی؛ مرتّب ڈاکٹر توصیف تبسّم۔
۱۶-مثنوی مجمع اللّسان: از محمد اسماعیل خاں محکم؛ مرتّب ڈاکٹر مظہر محمود شیرانی۔
تحقیقی و تنقیدی تصانیف و تالیفات
۱۷-سوانح سرسیّد – ایک بازدید: از ڈاکٹر شافع قدوائی۔
۱۸-غالبؔ کے فارسی خطوط (مجموعۂ مقالات): از ڈاکٹر حنیف نقوی۔
۱۹-غالبیاتِ مہر (مجموعۂ مقالات و مضامین): از مولانا غلام رسول مہر؛ مرتب محمد عالم مختارِ حق۔
۲۰-کلامِ غالبؔ کا لسانی اور اُسلوبیاتی مطالعہ: از ڈاکٹر نبیلہ ازہر۔
۲۱-گنجینۂ معنی کا طِلِسم (لفظیاتِ غالبؔ): از رشید حسن خاں۔
۲۲-مغرب کے اُردو لغت نگار: از صفدر رشید۔
۲۳-مغربی زبانوں کے ماہر علما: از پروفیسر سیّد محمد سلیم۔
۲۴-لُغوی مباحث (مجموعۂ مقالات): از ڈاکٹر رؤف پاریکھ۔
۲۵-پنجاب میں فارسی اَدب (مجموعۂ مقالات): از ڈاکٹر عارف نوشاہی۔
۲۶-مضامینِ ڈار: از محمد ابراہیم ڈار؛ مرتب افضل حق قرشی۔
۲۷-مقالاتِ علامہ عبدالعزیز میمن: مرتّب محمد راشد شیخ۔
۲۸-مقالاتِ عبدالستّار صدیقی، جلد اوّل: مرتّب مسلم صدیقی۔
۲۹-ایضاً، جلد دوم؛ مرتّب ساجد صدّیق نظامی۔
۳۰-مقالاتِ نذیر: از ڈاکٹر نذیر احمد؛ مرتّب ڈاکٹر ظفر احمد صدیقی۔
۳۱-انتخابِ مخزن (مجموعۂ مقالات و مضامین): مرتّب ڈاکٹر انور سدید۔
۳۲-جدید اُردو نظم میں ہئیت کے تجربے: از ڈاکٹر یٰسین آفاقی۔
۳۳-شعر، شعریات اور فکشن (شمس الرحمن فاروقی کی تنقید کا مطالعہ): از ڈاکٹر صفدر رشید۔
۳۴-نکات (مجموعۂ مقالات)؛ از ڈاکٹر تحسین فراقی۔
۳۵-مکاتیبِ حافظ محمود شیرانی: مرتّب ڈاکٹر مظہر محمود شیرانی۔
۳۶-اُردو ناول میں مابعدالطبیعیاتی عناصر (۱۹۴۷ء کے بعد): از ڈاکٹر راحیلہ لطیف۔
۳۷-اشاریہ سہ ماہی معاصر انٹرنیشنل: مرتّب محمد شاہد حنیف، محمد زاہد حنیف۔
۳۸-کلاسیکی اَدب کی فرہنگ: از رشید حسن خاں۔
۳۹-کلکتّہ میں اُردو کے نادر ذخائر- ایشیاٹک سوسائٹی اور نیشنل لائبریری کے اُردو مخطوطات: از ڈاکٹر معین الدین عقیل۔
۴۰-شبلی نعمانی- حیات و تصانیف: از ڈاکٹر محمد سلیم۔
۴۱-محمد ہادی حسین کی اَدبی خدمات: از ڈاکٹر نگہت جمال۔
۴۲-مہرِ درخشاں (سوانح مولانا غلام رسول مہر): از محمد حمزہ فاروقی۔
۴۳-ن م راشد- حرف و معنی کی جستجو (مجموعۂ مقالات): مرتّب رفاقت علی شاہد۔
۴۴-اُردو صحافت اُنیسویں صدی میں: از ڈاکٹر طاہر مسعود۔
۴۵-سلاطینِ دہلی کے مذہبی رجحانات: ازڈاکٹر خلیق احمد نظامی۔
۴۶-معاصر فکری تحریکیں: از ڈاکٹر نعیم احمد۔
۴۷-مقالاتِ عبدالحمید کمالی: مرتّب انجینئر مسعود اصغر۔
۴۸-شعراے اُردو کے تذکرے: از ڈاکٹر حنیف، نقوی۔
۴۹-یورپ میں دکھنی مخطوطات: از نصیر الدین ہاشمی۔
تراجم:
۵۰-سرسیّد احمد خاں کی مسلم دینیات کی تعبیرِ نو: از کرسچین ڈبلیو ٹرال؛ مترجم قاضی افضال حسین۔
۵۱-رِلکے کے نوحے: مترجم محمد ہادی حسین۔
۵۲-آفرنیش اور اشیاکا بے زمانی نظام: توشیہکو از تسو؛ مترجم ڈاکٹر محمد عمر میمن۔
۵۳-مرقّعِ دہلی: از درگاہ قلی خاں؛ مترجم خواجہ عبدالحمید یزدانی۔
سہ ماہی ’’صحیفہ‘‘ کے خصوصی شماروں کی کتابی اشاعت:
۵۴-سرسیّد احمد خاں نمبر(صفحات ۷۳۸)
۵۵-حالی نمبر (صفحات ۷۳۰)
۵۶-شبلی نمبر (صفحات ۷۴۰)
۵۷-مکاتیب نمبر، حصّہ اوّل (صفحات ۴۱۲)
۵۸-مکاتیب نمبر، حصّۂ دوم (صفحات ۶۱۴)
اس کے علاوہ ۲۰۲۱ء تا ۲۰۲۲ء کے اشاعتی منصوبے میں درج ذیل نئی کتابیں بھی اشاعت کے لیے منظور کرلی گئی تھیں جنھیں نئے ناظم شائع کرنے سے گریزاں ہیں:
۱-حکایاتِ سخن سنج: از منشی انبا پرشاد لکھنوی؛ مرتّب محمد سلیم الرحمن (اُردو کا کلاسیکی ادب)
۲-ایامیٰ : ازڈپٹی نذیر احمد (اُردو کا کلاسیکی ادب)
۳-دیوان میر حسین شاہ حقیقت: مرتّبہ ڈاکٹر سلطانہ نجش (اُردو کا کلاسیکی ادب)
۴-دفترِ فصاحت: خواجہ وزیر (اُردو کا کلاسیکی ادب)
۵-سیرِ کشمیر: از مولانا غلام رسول مہر؛ مرتب ڈاکٹر ظفر حسین ظفر (اُردو کا کلاسیکی ادب)
۶-گفتگو اور جھلکیاں: از سلیم احمد؛ مرتّب ڈاکٹر طاہر مسعود (علمی کتابیں)
۷-برطانیہ میں اُردو: از ڈاکٹر شیر علی (علمی کتابیں)
۸-میر کے اردو اور فارسی کلام کا تقابلی مطالعہ: از ڈاکٹر حمیرا ارشاد(علمی کتابیں)
۹-جدید نظم کی تیسری جہت: از ڈاکٹر طارق ہاشمی (علمی کتابیں)
۱۰-اُردو شاعری میں مسلم نشاۃِ ثانیہ کے عناصر: از ڈاکٹر رضیہ مجید(علمی کتابیں)
۱۱-ڈاکٹر وحید قریشی کی تحقیقی خدمات: از ڈاکٹر نسیم بانو (علمی کتابیں)
۱۲-اُردو داستان میں کایا کلپ: از ڈاکٹر ظہیر عباس (علمی کتابیں)
۱۳-داؤد رہبر کا فکری و فنی ارتقا: از ڈاکٹر عائشہ عظیم (علمی کتابیں)
۱۴-جابر علی سید- حیات اور ادبی خدمات: از انیلہ سلیم (علمی کتابیں)
۱۵-انصاف: از جان گالزوردی؛ مترجم منشی دیانرائن نگم؛ مرتّب محمد سلیم الرحمن (کلاسیکی ادب)
۱۶-پیت کی رِیت: از خواجہ دل محمد (کلاسیکی ادب)
۱۷-گھاس کی پتیاں: از والٹ وٹمین؛ مترجم قیوم نظر (تراجم)
۱۸-تذکرۂ شعراے پنجاب: از کرنل خواجہ عبدالرشید؛ مترجم ڈاکٹر انجم حمید (تراجم)
۱۹-تذکرۃ المعاصرین: ازحزینِ لاہیجی؛ مترجم ڈاکٹر محمد ناصر (تراجم)
۲۰-شکستہ آرزوئیں: از قیصر امین پور؛ مترجمین ڈاکٹر مہر نور محمد، مظفّر علی کشمیری (تراجم)
۲۱-سمن زار: از ضیاء احمد بدایونی (تراجم)
المیہ یہ ہے کہ نئے ناظم کو تحقیقی اور گہر ے علمی مسائل کی کوئی سوجھ بوجھ نہیں نہ انھیں کسی علمی ادارے کے انتظامی امور کا کوئی تجربہ ہے۔ اندیشہ ہے کہ مجلس ترقی ادب اگر چندے ان کے زیر تسلط رہی تو اس کی حیثیت ایک بازی گاہ کی ہو جائے گی۔ اربابِ بست و کشاد کو اس حقیقت کا شعور ہونا چاہیے کہ بڑے علمی اداروں کی موجودگی اور بقا ہی قوموں کے عروج کی ضمانت مہیّا کرسکتی ہے۔