(دوسرا حصہ)
یہ محض امیر دنیا کا مسئلہ نہیں، یہ تقریباً ہر جگہ ہے۔ لوگ طویل اور صحت مند زندگی جی رہے ہیں۔ معیارِ زندگی بلند ہورہا ہے۔ گاڑیوں، سڑکوں، عمارتوں، ریفریجریٹرز، کمپیوٹرز، اور ائیرکنڈیشنرز کی مانگ بڑھتی جارہی ہے۔ اس طرح اُس توانائی کی ضرورت بڑھ رہی ہے، جو اِن سب میں استعمال ہوتی ہے۔ یوں، فی فرد توانائی کی ضرورت بھی بڑھ جاتی ہے اور فی فرد کاربن کا اخراج بھی زیادہ ہوجاتا ہے۔ توانائی کی یہ ضرورت پوری کرنے کے لیے ذرائع پیدا کیے جارہے ہیں۔ ونڈ ٹربائن، سولر پینل، نیوکلیئر پلانٹس، اور بجلی ذخیرہ کرنے کی تنصیبات میں اضافہ کیا جارہا ہے، جو زیادہ سے زیادہ گیسیں خارج کررہے ہیں۔ بات صرف اتنی سی نہیں ہے کہ ہر فرد زیادہ سے زیادہ توانائی صرف کررہا ہے، بلکہ افراد کی اپنی تعداد بھی بڑھتی چلی جارہی ہے۔ انسانی آبادی صدی کے آخر تک دس ارب ہوجائے گی، اور یہ زیادہ تر اُن شہروں میں بڑھ رہی ہے جو کاربن زدہ ہیں (جہاں سب سے زیادہ آلودگی ہے)۔ شہری آبادی میں اضافہ ہوش ربا ہے۔ 2060ء تک ان شہروں میں عمارتوں کی تعداد اور حجم دگنا ہوجائے گا۔ اس کی مثال کچھ یوں ہے کہ جیسے چالیس سال تک ہرماہ ایک نیا نیویارک شہر آبادکیا جائے۔ یہ بیشتر ترقی پذیر ملکوں چین، بھارت اور نائجیریا میں ہورہا ہے۔
یہ ہر اُس شخص کے لیے اچھی خبر ہے جس کا معیارِ زندگی بلند ہورہا ہے، مگر یہ اُس موسم کے لیے بُری خبر ہے جس میں ہم سب رہ رہے ہیں۔ سوچیے، تقریباً چالیس فیصد کاربن کا اخراج صرف 16فیصد امیر ترین آبادی کے ہاتھوں ہورہا ہے۔ باقی 84 فیصد آبادی جس دن سولہ فیصد کے معیارِ زندگی پر پہنچے گی، تب کیا ہوگا؟
سن 2050ء تک توانائی کی عالمی مانگ پچاس فیصد بڑھ جائے گی، اگر دھویں کا کاروبار یوں ہی چلتا رہا توکاربن بھی اسی تناسب سے بڑھ جائے گی۔ اگر یہ دنیا معجزاتی طور پرآج ہی ’’صفر کاربن‘‘ تک پہنچ بھی جائے، باقی کی دنیا اسی طرح کاربن خارج کرتی رہے گی۔
یہ کوشش غیر عملی اور غیر اخلاقی ہوگی کہ ترقی پذیر دنیا کو معاشی ترقی سے روک دیا جائے۔ ہم یہ توقع نہیں کرسکتے کہ غریب لوگ صرف اس لیے ہمیشہ غریب ہی رہیں کیونکہ امیر دنیا بہت زیادہ کاربن خارج کرتی ہے۔ اور اگر ہم ایسا چاہیں بھی توکوئی راہ نہیں نکلتی۔ اس کے بجائے ہمیں ضرورت اس بات کی ہے کہ کم آمدنی والوں کی معاشی مدد کچھ یوں کی جائے کہ ’موسمی بگاڑ‘ پیدا نہ ہو۔
ہمیں صفر تک پہنچنے کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے زیادہ سے زیادہ صاف ستھری توانائی پیدا کرنی ہوگی، اور کاربن کا اخراج کم سے کم کرنا ہوگا۔ یہ ہمیں جلد سے جلدکرنا ہوگا۔
بدقسمتی سے ہم تاریخ کے غلط رخ پر کھڑے ہیں۔ اگر ماضی کی تبدیلیوں پرنظر کی جائے تو ’جلد از جلد‘ والی بات دور ازکار معلوم ہوتی ہے۔ ہم آج سے پہلے بھی ایک سے دوسری توانائی کی جانب منتقل ہوئے ہیں۔ اس عمل میں دہائیاں لگتی ہیں۔ اس موضوع پر Vaclav Smilکی کتابیں Energy Transitions: History, Requirements, Prospectsاور Energy Myths and Realities بہترین ہیں۔
انسانی تاریخ کے بیشتر ادوار میں ہم نے توانائی کے لیے اپنے زورِ بازو پر بھروسا کیا ہے، مویشیوں اور لکڑیوں کی آگ سے مدد لی ہے۔ 1890ء تک آدھی دنیا کا بھی قدرتی ایندھن پر انحصار نہ تھا۔ ایشیا اور صحرائے افریقا کے کئی حصے ہیں جہاں آج بھی قدرتی ایندھن کا بطور توانائی استعمال نہ ہونے جیسا ہے۔ تیل نے بھی توانائی کا بڑا حصہ بننے میں بڑا وقت لیا ہے۔ اس کی کمرشل پیداوار 1860ء میں جاکر شروع ہوئی ہے۔
قدرتی گیس کا استعمال بھی اسی شرح سے آگے بڑھا۔ 1900ء میں یہ دنیا کی توانائی کا صرف ایک فیصد تھی۔ ستّر برس میں یہ 20 فیصد تک پہنچی۔ جبکہ نیوکلیئر توانائی نسبتاً تیز رفتاری سے آگے بڑھی ہے، یہ27 سال میں 10 فیصد پرپہنچی۔ 1840ء سے 1900ء تک کوئلہ نے 5 فیصد سے50 فیصد تک توانائی دنیا کو پہنچائی۔ جبکہ 1930ء سے 1990ء تک قدرتی گیس 20 فیصد تک گئی۔ مختصراً یہ کہ توانائی کی منتقلی نے ماضی میں طویل وقت لیا ہے۔
صرف تیل کے ذرائع دستیابی ہی مسئلہ نہیں رہے، بلکہ نئی اقسام کی گاڑیوں کے استعمال میں بھی ہمیں وقت لگاہے۔ 1880ء میں پہلی بار انٹرنل کمبسشن انجن متعارف کروایا گیا تھا۔ اس سے پہلے کتنے شہری خاندانوں کے پاس گاڑیاں تھیں؟ تیس سے چالیس سال امریکہ میں، اور ستّر سے اسّی سال برطانیہ میں گاڑیوں کا استعمال عام ہوا۔
اس طرح ہم ماضی میں ایک سے دوسرے ذریعۂ توانائی کی جانب بڑھے۔ ہر نیا ذریعۂ توانائی زیادہ سستا اور زیادہ طاقت ور تھا۔ ہم نے لکڑی چھوڑ کرکوئلہ جلانا شروع کیا کیونکہ ایک پاؤنڈ کوئلہ ایک پاؤنڈ لکڑی سے بہت زیادہ حرارت اور روشنی پیدا کررہا تھا۔ امریکہ سے نئی مثال لے لیتے ہیں، جہاں بجلی کی پیداوار کے لیے کوئلہ کے بجائے قدرتی گیس استعمال کی جاتی ہے کیونکہ ڈرلنگ کے نئے طریقوں نے اس کا حصول بہت سستا بنادیا ہے۔ یہ ماحولیات کا نہیں معاشیات کا معاملہ ہے۔ جبکہ چند سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ قدرتی گیس کوئلے کی نسبت بہت زیادہ نقصان پہنچاتی ہے۔
غرض، یہ لگتا ہے کہ توانائی کے نئے ذرائع بھی استعمال میں فطری وقت لیں گے۔ ایجادات اور ٹیکنالوجی میں جدت کے بغیر ’’صفر کاربن‘‘ تک جلد پہنچنا محال ہوگا۔ ہمیں غیر فطری رفتار سے آگے بڑھنا ہوگا۔ اس میں پبلک پالیسی اور ٹیکنالوجی کا بڑا الجھاؤ بھی سامنے آئے گا۔
کوئلے کے پلانٹ کمپیوٹر چِپ نہیں ہیں
تم نے شاید ’مور کے قانون‘ کے بارے میں سن رکھا ہو، 1965ء میں گورڈن مور نے پیش گوئی کی تھی کہ مائیکرو پراسیسرز ہر دو سال میں اپنی طاقت دگنی کریں گے۔ گورڈن کی یہ پیش گوئی درست ثابت ہوئی، اور مور کا یہ قانون ایک اہم وجہ ہے اُس ترقی کی، جوسافٹ وئیر صنعت نے کی۔ جوں جوں پراسیسرز طاقت ور ہوتے گئے، بہتر سے بہتر سافٹ وئیر سامنے آئے، کمپیوٹرز کی مانگ بڑھتی چلی گئی، اور ہارڈوئیر کمپنیاں بہتر سے بہتر مشینیں تیار کرتی چلی گئیں، اور یہ سلسلہ ترقی کرتا چلا گیا۔
مور کے قانون نے اپنا کام خوبی سے کیا، اورکمپنیاں نئے رستے ہموار کرتی چلی گئیں۔ نئے ٹرانسسٹرز بنائے گئے، چھوٹے چھوٹے سوئچ کمپیوٹر کو زیادہ سے زیادہ قوت مہیا کرتے گئے، اور اس کا حجم کم سے کم ہوتا چلا گیا۔ ہر چپ میں زیادہ سے زیادہ ٹرانسسٹرز کی گنجائش بنتی رہی۔ آج کی کمپیوٹر چپ میں 1970ء کی چپ کے مقابلے میں دس لاکھ زائد ٹرانسسٹرز سماچکے ہیں، یعنی یہ دس لاکھ گنا زیادہ طاقت ور ہوچکی ہے۔
مور کے قانون کی ترقی دیکھتے ہوئے کچھ لوگ خیال کرتے ہیں کہ شاید توانائی کی ترقی میں بھی یہی رفتار عمل میں لائی جاسکتی ہے۔
کمپیوٹر چپ ایک outlierہے، کہ جس میں زیادہ سے زیادہ ٹرانسسٹرز سماسکتے ہیں۔ مگر ہمارے پاس ایسا کوئی طریقہ نہیں ہے کہ گیس کی مقدار دس لاکھ گنا گھٹاکر کارکردگی برقرار رکھی جاسکے۔
یاد کیجیے، جب گاڑی کا پہلا ماڈل Tجسے ہینری فورڈ پراڈکشن نے تیار کیا تھا، ایک گیلن میں21 میل سفر طے کرتی تھی۔ آج بہترین ہائبرڈ کار ایک گیلن میں 58 میل چل جاتی ہے۔ ایک صدی سے بھی زائد عرصے میں تیل والی صنعت تین گنا سے کچھ کم ہی ترقی کرسکی ہے۔ سولر پینل بھی دس لاکھ گنا زیادہ کارکردگی کے حامل نہیں ہوسکے ہیں۔ جب 70 کی دہائی میں کرسٹیلین سلیکون سولر سیل متعارف کروائے گئے تھے، وہ سورج کی روشنی کا صرف15 فیصد بجلی میں ڈھال سکے تھے۔ آج وہ 25 فیصد بجلی پیدا کررہے ہیں۔ یہ اچھی کارکردگی ہے مگر مور کے قانون سے بہت دور ہے۔
ٹیکنالوجی توانائی صنعت کوکمپیوٹر صنعت کی سی رفتار سے نہیں بدل سکتی۔ بلاشبہ توانائی کی صنعت کا حجم بہت بڑا ہے۔ یہ سالانہ پانچ کھرب ڈالربنتا ہے۔ یہ روئے زمین کے سب سے بڑے کاروبارِ زندگی میں سے ایک ہے۔ ظاہر ہے، کسی بھی بہت بڑی اور پیچیدہ صورت حال کا بدل جانا بہت مشکل ہوتا ہے۔
جانے انجانے ہم توانائی کی صنعت میں بہت کچھ داؤ پر لگا چکے ہیں۔ اگر تم کوئلے کے ایک پلانٹ پر ایک ارب ڈالر سرمایہ لگاتے ہو، تو اگلے پلانٹ کی تعمیر میں بھی اتنا ہی سرمایہ لگانا پڑے گا۔ تمہارے سرمایہ کاردوست توقع کریں گے کہ یہ پلانٹ کم از کم تیس سال تک منافع کماکر دیتا رہے گا۔
اگر کوئی بہترٹیکنالوجی کے ساتھ تمہارے پاس آبھی جائے، تو تم اپنا پرانا پلانٹ بند نہیں کروگے، اِلاّ یہ کہ کوئی بہتر مالی پیشکش کردی جائے یا حکومتی دباؤ پڑجائے۔
معاشرہ بھی ’’توانائی‘‘ کے کاروبار میں کم ہی کوئی رسک برداشت کرتا ہے۔ اُسے قابلِ بھروسا خدمات چاہئیں۔ بجلی کی معیاری اور پائیدار فراہمی جاری رہنی چاہیے۔ آبادیوں کو نیوکلیئر پلانٹس اورکوئلے کی آلودگی سے پاک ہونا چاہیے، محفوظ ہونا چاہیے۔ ظاہر ہے ہم سب کو قابلِ بھروسا اور بے ضرر ذریعے سے توانائی چاہیے۔
ہمارے قوانین اورقاعدے قابلِ عمل نہیں رہے
ٹیکس سے لے کر ماحولیات پر ہمارے قاعدے قوانین حکومت کی پالیسیوں کے تابع ہیں، اور یہ ریگولیشنز عوام پر بھرپور اثرانداز ہوتے ہیں۔ ہم ’’صفر کاربن‘‘ تک نہیں پہنچ سکتے جب تک یہ قواعد درست نہ کرلیں، اور ہم اس سے ابھی بہت دور ہیں۔ ایک مسئلہ یہ ہے کہ جب یہ قاعدے قوانین بنائے گئے تھے، موسمی تبدیلیاں اور اس کے اثرات پیش نظر نہ تھے۔ ضابطے بنانے والوں کی نظر دیگر ماحولیاتی مسائل پر تھی، جبکہ آج ہم ان قواعد کے ذریعے کاربن اخراج کم کرنے کی کوشش کررہے ہیں، جو ظاہر ہے ایک ناکام کوشش ہے۔ اس طرح کی کوشش میں بہت سے ضروری پہلو نامکمل رہ جاتے ہیں، اور کاربن کا سدباب ممکن نہیں ہوپاتا۔ اس طرح موجود ماحولیاتی بحران سے نمٹنے کی ضرورتیں قطعی طور پر پوری نہیں ہوتیں۔
ایک اور اہم مسئلہ یہ ہے کہ ہر نئی حکومت نئی ماحولیاتی ترجیحات کے ساتھ وارد ہوتی ہے، اور بہت سے چلتے ہوئے منصوبے رک جاتے ہیں، اور اُن کی جگہ نئے منصوبے شروع ہوجاتے ہیں۔ جبکہ توانائی کے شعبے میں جدتیں دہائیوں بعد ہی کوئی مفید نتائج سامنے لاتی ہیں۔ ایک ایک آئیڈیے پر کئی سال کام ہوتا ہے تب جاکر کوئی کارنامہ سامنے آتا ہے۔ مگر نت نئی حکومتوں میں دن گن گن کرکام کیے جاتے ہیں، جو پائیدار ثابت نہیں ہوتے۔
لہٰذا ہماری موجودہ پالیسیاں کاربن اخراج کے معاملے میں بے کار ہیں۔ مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم پالیسیاں بدل نہیں سکتے یا انہیں بہتر نہیں بناسکتے۔ مجھے یقین ہے کہ ہم یہ کرسکتے ہیں، مگر یہ مشکل ضرور ہوگا۔ نئی پالیسی کی تشکیل کئی مراحل سے گزرتی ہے۔ اسے رائے عامہ کی منظوری درکار ہوتی ہے۔ عدالتی عمل سے گزرنا ہوتا ہے۔ قانونی چیلنج کا جواب دینا ہوتا ہے۔ ان سب مراحل کے بعد ہی یہ پالیسی قابلِ عمل قرار پاتی ہے۔
بات دراصل یہ ہے کہ ماحولیات کے مسئلے پر ایسا اتفاقِ رائے نہیں پایا جاتا جیسا کہ شاید آپ سوچ رہے ہیں۔ میں اُن 97 فیصد سائنس دانوں کی بات نہیں کررہا، جو اتفاق کرتے ہیں کہ انسانی سرگرمیوں نے ماحولیات کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔ یہ سچ ہے کہ ایک چھوٹا مگر مؤثر طبقہ وہ بھی ہے جو سائنس کا قائل نہیں۔ یہ طبقہ سمجھتا ہے کہ موسمی تبدیلی پر بہت بڑی سرمایہ کاری ضروری نہیں۔
بہت سے لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ چلیے مان لیتے ہیں موسم بدل رہا ہے، مگر اس تبدیلی کو روکنے یا قابلِ قبول بنانے کے لیے بہت بڑی سرمایہ کاری کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ ہمیں دیگر زیادہ اہم کاموں پر سرمایہ کاری کی ضرورت ہے جیسے تعلیم اور صحت۔ اس پر میں یہی کہوں گا کہ اگر ہم ’’صفر کاربن‘‘ کی جانب نہ بڑھے، تو پھر ہماری زندگیوں میں ہی موسمی تباہی آجائے گی۔ اس سے بھی بڑھ کرتباہ کاری کا سامنا پوری ایک نسل کو ہوگا۔ اگر موسمی تبدیلی کو ایک حقیقی خطرہ نہ سمجھا گیا تو یہ اکثر لوگوں کے لیے بہت بُرے حالات پیدا کردے گی۔ یہ صحت اور تعلیم جتنا اہم مسئلہ ہے۔
موسمی تبدیلی پر عالمی اتفاقِ رائے انتہائی مشکل سے دوچار ہے۔ ہرملک کو ہر مسئلے پر ہمنوا بنانا بہت مشکل ہے۔ خاص طور پر جب بات ’کاربن اخراج‘ پر قابوپانے کی ہو۔ کوئی بھی اپنے حصے کی کاربن گھٹانا نہیں چاہتا۔ سب چاہتے ہیں کہ پہلے دوسرے کاربن اخراج کم کریں، پھر وہ بھی کردیں گے۔
یہی وجہ ہے کہ Paris Agreementایک بہت اہم کامیابی ہے، کہ جس میں 190ملکوں نے 2030ء تک تین سے چھ ارب ٹن کاربن گھٹانے کا عہد کیا ہے۔ یہ مجموعی سالانہ اخراج کا بارہ فیصد ہے۔ یہ نقطہ آغاز ہے، مگر اس اعتبار سے خوش آئند ہے کہ عالمی تعاون ’’ممکن‘‘ دکھا رہا ہے۔ اگرچہ امریکہ 2015ء میں اس معاہدے سے الگ ہوگیا تھا۔
حاصلِ کلام یہ ہے کہ ہمیں ایک بڑی کوشش کرنی ہوگی۔ ایسی کوشش جو پہلے کبھی نہ کی گئی ہو۔ سائنس اور انجینئرنگ میں بے مثل کارنامے انجام دینے ہوں گے۔ ہمیں وہ اتفاقِ رائے قائم کرنا ہوگا، جس کا ابھی کہیں وجود نہیں ہے۔ نئی پبلک پالیسیاں آگے بڑھانی ہوں گی۔
ہرگز مایوس نہ ہوں! ہم یہ کرسکتے ہیں۔ بہت سارے آئیڈیاز پر کام ہورہا ہے۔