کشمیر سہ فریقی مسئلہ،کیا آرٹیکل370بھارت کا داخلی مسئلہ ہے؟

’’بھارتی آئین کی دفعہ 370 بھارت کا اندرونی مسئلہ ہے، ہمارا مسئلہ 35A کا خاتمہ ہے جس کے بعد بھارت مقبوضہ علاقے میں آبادی کا تناسب تبدیل کرسکتا ہے‘‘۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی طرف سے ایک ٹی وی پروگرام میں کہے گئے اس جملے سے کشمیری حلقوں میں نیا اضطراب پیدا ہو گیا ہے۔ ان حلقوں نے وزیر خارجہ کی اس بات کو دبئی میں پاکستان اور بھارت کے درمیان سیکورٹی اداروں کی سطح پر ہونے والے مذاکرات اور تجارت کی بحالی کی کوششوں اور خواہشات کی خوردبین سے دیکھنا شروع کیا ہے، اور کچھ کو اس میں ’’اِدھر ہم اُدھر تم‘‘ کی پالیسی کی بُو آنے لگی۔کچھ کا خیال تھا کہ اب پاکستان نے پانچ اگست کے حوالے سے اپنے مؤقف میں نرمی کرلی۔
اس تاثر کو وزیراعظم عمران خان نے ازخود دور کرنے کا فیصلہ کیا اور کہا کہ بھارت کے ساتھ کسی قسم کے مذاکرات نہیں ہورہے، اور پانچ اگست کا اقدام واپس لیے بغیر مذاکرات کی بحالی ممکن نہیں۔ انہوں نے اس سے زیادہ کھل کر بھی بات کی کہ مغرب بھارت کو چین کے مدمقابل کھڑا کرنا چاہتا ہے، اور اگر بھارت نے کھڑا ہونے کی کوشش کی تو تباہ ہوجائے گا۔ وزیراعظم کی اس وضاحت کے بعد آرٹیکل 370کے حوالے سے شاہ محمود قریشی کے بیان کی اہمیت باقی نہیں رہی۔
تاریخ یہ بتاتی ہے کہ کشمیر ایک سہ فریقی مسئلہ ہے اور اس کا کوئی معاملہ بھی کسی ایک فریق کا اندرونی معاملہ نہیں۔ اس حد تک بات ٹھیک ہے کہ بھارتی آئین میں کشمیر کو خصوصی شناخت دینے والی دفعہ370 بھارتی وزیراعظم پنڈت جواہر لعل نہرو اور کشمیری راہنما شیخ محمد عبداللہ کے طویل دوستانہ تعلقات کا مظہر تھی۔ اسی امید پر نہرو نے شیخ عبداللہ کو اپنے ساتھ جوڑے رکھا تھا۔ بھارت کے آئین کی تیاری کے موقع پر سردار پٹیل کا سخت گیر کانگریسی گروپ ایسی کسی شق اور دفعہ کا کھلا مخالف تھا، مگر پنڈت نہرو نے امبیڈکرکی منت سماجت کرکے اور شیخ عبداللہ کے ساتھ اپنے وعدوں اور تعلقات کا واسطہ دے کر اس دفعہ کو آئین کا حصہ بنوایا، جس کے تحت دہلی کے پاس صرف خارجہ امور، مواصلات اور دفاع کے تین شعبے تھے، جبکہ باقی تمام اختیارات مقبوضہ جموں وکشمیر کی حکومت کو حاصل تھے۔ اس دفعہ کے تحت مہاراجا ہری سنگھ کے اسٹیٹ سبجیکٹ قانون کو من وعن اپناکر آئین کا حصہ بنایا گیا۔ اس دفعہ کے تحت مقبوضہ جموں وکشمیر کے عوام کو صدر اور وزیراعظم کے عہدے، اپنے آئین اور پرچم کا حق دیا گیا۔ یوں جموں وکشمیر کی ریاست بھارت میں اپنی نوعیت کی منفرد ریاست تھی جو مہاراجا کے مشروط الحاق کے کچے دھاگے کے ساتھ بھارت کے آئین کا حصہ تھی۔ بھارت کی طرف سے کشمیر کو دی گئی یہ آزادیِ پرواز محض دوسال ہی جاری رہی، اور بھارتی حکومت نے اس دفعہ کو غیر مؤثر بنانے کی کوششوں کا آغاز کرکے کشمیریوں کے بال وپر کترنا شروع کردیے۔ 1953ء میں شیخ عبداللہ کو برطرف کرکے گرفتار کرلیا گیا، اور یوں پنڈت نہرو اور شیخ عبداللہ کے درمیان یارانے کی اس یادگار کی فلک بوس عمارت کی پہلی اینٹ کھسک کر رہ گئی۔
شیخ عبداللہ کی برطرفی اگرچہ دو دوستوں کے درمیان بداعتمادی کی فضا کا شاخسانہ تھی، اور پاکستان اس میں براہِ راست فریق نہیں تھا، مگرشیخ عبداللہ کی برطرفی پر پاکستان نے بھرپور احتجاج کیا۔ وزیراعظم محمد علی بوگرہ نے بھارت کا ہنگامی دورہ کرکے صورت حال پر اپنی تشویش ظاہر کرنے کی کوشش کی، مگر یوں لگتا ہے کہ نہرو نے انہیں اس معاملے میں کودنے سے سختی سے روک دیا، کیونکہ دونوں لیڈروں کی ملاقات کا جو اعلامیہ جاری ہوا اُس میں اس مسئلے کو نظرانداز کیا گیا تھا۔
شیخ محمد عبداللہ کو دی گئی آزادیاں بھارت نے اُن کے جانشین بخشی غلام محمد کے ذریعے واپس لینے کا عمل شروع کیا۔ اسی دوران محمد علی بوگرہ نے کشمیری راہنما چودھری غلام عباس کو بلاکر پوچھا کہ بخشی غلام محمد کیسا شخص ہے اور اُس کے ساتھ کیا رویہ اختیار کیا جائے؟ چودھری غلام عباس نے کہا کہ بخشی اس قدر ذہین شخص ہے کہ اس ذہنی سطح کا کوئی آدمی آپ کی پوری کابینہ میں نہیں۔ گویا کہ بخشی غلام محمد اور نہرو کے باہمی مسئلے سے پاکستان لاتعلق نہیں تھا۔ اس دوران پاکستان شیخ عبداللہ کی اسیری کے ہر مرحلے، اور عوامی ردعمل کے ہر مظاہرے پر اپنا ردعمل جاری کرتا رہا، کیونکہ کشمیریوں کا کوئی مسئلہ بھارت کا اندرونی مسئلہ نہیں۔ اُسی دور میں صدر اور وزیراعظم کے عہدے ختم کرکے گورنر اور وزیراعلیٰ میں بدل دیے گئے۔ بھارتی آڈیٹر جنرل اور الیکشن کمیشن کو کشمیر تک توسیع دی گئی۔ الحاق کو حتمی قرار دیا گیا، آل انڈیا سروسز یعنی انڈین اینڈمنسٹریٹو سروسز اور انڈین پولیس سروسز کا دائرہ بھی کشمیر تک بڑھایا گیا۔ 1964ء میں بھارتی آئین کی دفعہ 356 اور357کے تحت ریاستی حکومت کی ناکامی کی صورت میں صدر راج کا اختیار دے دیا گیا۔ اس سارے ناجائز تجاوز پر بھی پاکستان نے ہر مرحلے پر اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا۔
1975ء میں اندراگاندھی اور شیخ عبداللہ کا معاہدہ ایک اندرونی معاملہ تھا جو کشمیر کی رہی سہی خودمختاری کو چاٹ گیا، اور بھارتی سپریم کورٹ کا دائر جموں و کشمیر تک وسیع ہوگیا۔ پاکستان نے اس مسئلے کو بھارت کا اندرونی مسئلہ قرار دینے کے بجائے عام ہڑتال کی اپیل کی، جس کا دنیا بھر کے ساتھ ساتھ کشمیر میں بھرپور اثر ہوا، اور اپنی ہڑتال کی کال کی اس عوامی پذیرائی کو دیکھتے ہوئے ذوالفقار علی بھٹو نے اعتماد کے ساتھ اعلان کیا کہ کشمیریوں نے اس معاہدے کو کلی طور پر مسترد کردیا ہے۔
اس لحاظ سے دفعہ 370دہلی کے حاکم اور سری نگر کے محکوم حکمرانوں کے درمیان ایک معاہدہ تھا، مگر یہ بھارت کے ڈھانچے میں کشمیر کی الگ شناخت کی علامت تھا۔ بھارت نے آزادی کی اس عمارت کو پہلے خود ہی ویران کیا، پھر اس کے در و دیوار اکھاڑے اور 5 اگست (2019ء) کو اس کا ملبہ بھی چرانے کی کوشش کی تاکہ ثبوت اور آثار باقی نہ رہیں۔ پاکستان کو ماضی کی روایت کے تحت ہر اُس کشمیری کے ساتھ کھڑا ہونا ہے جو لمحۂ موجود میں دہلی کے مقابل کھڑا ہوتا ہے۔ ایک فریق کے طور پر پاکستان کی یہ تاریخی ذمہ داری ہے۔