آئی ایم کے احکامات اور شوکت ترین کی حکمت عملی

وفاقی وزیر خزانہ و ریونیو شوکت ترین ایک نئے عزم کے ساتھ وفاقی بجٹ تیار کررہے ہیں۔ ملک کے معاشی حالات اور حقائق بھی اُن کے سامنے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ بجٹ ایسا پیش کیا جائے جس میں پیداواری ذرائع بڑھ جائیں تاکہ مہنگائی کم ہوسکے۔ بجٹ کا دوسرا بڑا بنیادی نکتہ یہ ہوگا کہ آئی ایم ایف کے حکم پر بجلی کے نرخ نہیں بڑھائے جائیں گے۔ وزارتِ خزانہ میں بجٹ کے خدوخال اور اہداف طے کرلیے گئے ہیں، اب ان کی نوک پلک سنواری جارہی ہے۔ بجٹ کے دو حصے ہوں گے، ایک شارٹ اور دوسرا لانگ ٹرم منصوبہ بندی۔ بجٹ کے خدوخال سے تو ظاہر ہورہا ہے کہ کوئی نیا ٹیکس نافذ نہیں کیا جائے گا، تاہم ریلیف دیا گیا تو حکومت کو مالی کمی پوری کرنے کے لیے پہلے سے نافذ کسی ٹیکس میں اضافہ کرنا ہوگا تاکہ محاصل کے لیے آئی ایم ایف کا ہدف متاثر نہ ہوسکے۔
آئی ایم ایف کی ہدایت ہے کہ ٹیکس 5.6 ٹریلین تک ہوں، لیکن یہ ملکی معیشت کے حجم کے باعث ممکن ہی نہیں ہے۔ آئی ایم ایف کہتا ہے کہ مراعات کم کی جائیں اور ٹیکس بڑھائے جائیں۔ لیکن ایسا نہیں ہوگا، البتہ حکومت ٹیکس کی رقم وہی اکٹھا کرنا چاہتی ہے جس طرح آئی ایم ایف کہہ رہا ہے۔ آئی ایم ایف سے حکومت اس ضمن میں رعایت مانگ رہی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ کچھ رعایت مل جائے۔ حکومت کی نئی معاشی ٹیم کا خیال ہے کہ معاشی شرح نمو کی اگر یہی رفتار رہی تو آئندہ مالی سال 2022ء میں 5 فیصد، اور مالی سال 2023ء تک 6 فیصد سے زیادہ کی اقتصادی شرح نمو کے حصول کی توقع ہے۔ قومی معیشت کے 12 مختلف اور اہم شعبوں کے لیے مختصر اور طویل مدتی حکمت عملی بنائی جائے گی۔ حکومت شرح نمو کے حصول کے لیے برآمدات اور ٹیکس وصولیاں بڑھائے گی۔ اگلے دوسال اسی شعبے پرتوجہ دی جائے گی اور ریونیو بڑھایا جائے گا تاکہ شرح نمو میں اضافہ کیا جاسکے۔ اسی کی مدد سے مہنگائی کم ہوگی۔ رواں مالی سال کے دوران معاشی اشاریے 3.94 فیصد ہیں۔ یہ اعداد و شمار اپوزیشن تسلیم نہیں کر رہی ہے، اسے یہ بات تسلیم کرنی چاہیے کہ 2008ء کے مقابلے میں آئی ایم ایف کی شرائط بھی سخت تھیں، اور حکومت تسلیم کرے کہ اس نے غلط سودا کیا۔ حکومت نے مہنگا سودا کرکے ملک میں معاشی سرگرمیاں بھی نہیں بڑھائیں۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ تعمیراتی مافیا حکومت سے چمٹ گیا ہے، جب کہ شعبہ زراعت و صنعت متاثر ہوئے ہیں۔ عام آدمی کی فلاح و بہبود کے لیے زراعت پر توجہ دینا ضروری ہے، حکومت اگر چل رہی ہے تو صرف غیر ملکی زرمبادلہ کی وجہ سے چل رہی ہے، فیڈرل بورڈ آف ریونیو کا اس میں کوئی حصہ نہیں ہے، یہ تومشکلات پیدا کرنے والا ادارہ ہے۔ بجٹ میں قومی معیشت کے 12سیکٹرز میں طویل اور قلیل مدتی منصوبوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔زرعی شعبے پر توجہ سے قومی معیشت میں نمایاں بہتری آئے گی۔ کسانوں کو قرضے دینا بھی وقت کی ضرورت ہے، اسی سے معیشت میں بڑی تبدیلی لائی جاسکتی ہے۔
حکومت 11 جون کو بجٹ لار ہی ہے اور جون میں ہی ایف اے ٹی ایف کا اجلاس ہے۔ یہ بجٹ کے بعد دوسرا بڑا چیلنج ہے۔