ارضِ فلسطین تاریخی جائزہ

فلسطین کا علاقہ… جہاں ناجائز طور پر اسرائیل قائم کیا گیا، اور جہاں یہودیوں نے مظلوم فلسطینی مسلمانوں پر وحشیانہ اور انسانیت سوزمظالم کی انتہا کردی ہے… بے پناہ خوبصورت ہے۔ عام طور پر بیت المقدس اور غزہ کا ذکر کیا جاتا ہے، اور یہودی قابضین کے مظالم کی وجہ سے اس سرزمین کے فطری حسن کے تذکرے کا موقع ہی نہیں مل پاتا۔ اسے دریائے اردن اور بحیرۂ روم نے مزید خوبصورت بنادیا ہے۔ وہاں سرسبز علاقے، باغات، کھیت، پہاڑ اور صحرا سب ہی ہیں۔ مہکتے ہوئے خوشبودار پھول اور نظروں کو خیرہ کردینے والے فطری مناظر، اور سفید ریت والے ساحلوں کی خوبصورتی دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔
فلسطین کا شماردنیا کے اُن قدیم ترین خطوں میں ہوتا ہے جہاں اولین انسانی آبادیاں قائم ہوئیں۔ اس کی تاریخ آٹھ سے دس ہزار سال قدیم ہے (انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا)۔ اس کا قدیم نام کنعان تھا، ماہرینِ آثارِقدیمہ کا خیال ہے کہ یہاں ڈیڑھ لاکھ سال قبل انسانی آبادی تھی۔ بہرحال اس امر پر سب ہی متفق ہیں کہ اس علاقے میں اریحا کا علاقہ آٹھ ہزار سال قبل مسیح میں آباد ہوا۔
یہودیوں کا یہ دعویٰ غلط ہے کہ وہ اس علاقے میں سب سے پہلے آباد ہوئے، کیونکہ خود توریت سے ہی ان کا یہ دعویٰ غلط ثابت ہوتا ہے، کیونکہ توریت میں فلسطین کو ارضِ کنعان کہا جاتا ہے۔ تاریخی حقائق کے مطابق سب سے پہلے سرزمینِ فلسطین میں قبیلہ کنعان آبادہوا۔ وہ لوگ عرب تھے اور جزیرۂ عرب سے ہجرت کرکے وہاں پہنچے تھے۔ اگرچہ وہ لوگ بت پرست تھے، لیکن اس سے یہ بات تو واضح ہوجاتی ہے کہ یہودیوں کا دعویٰ غلط ہے۔ کیونکہ کنعانی وہاں یہودیوں سے بارہ سوسال قبل پہنچے۔ کنعانیوں نے فلسطین کی سرزمین پر دو سو شہر آباد کیے جن میں نابلس، حیفہ، بیسان، عکہ، بیئر سبع اور بیت اللحم بھی شامل ہیں۔ اسی طرح جزیرہ عرب سے ہجرت کرکے قبیلہ یبوس کے لوگ بھی وہاں پہنچے اور انہوں نے ہی بیت المقدس کو آباد کیا، اور اس کو ’’اورسالم‘‘ کے نام سے موسوم کیا، جوکہ بعد میں’’یروشلم‘‘ کے نام سے معروف ہوگیا۔ اس سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ فلسطین کو عربی قبیلوں نے آباد کیا ہے، اور وہی یہاں کے سب سے قدیم باشندے ہیں۔
ارضِ فلسطین کو انبیاء کی سرزمین بھی کہا جاتا ہے، یہی وہ سرزمین ہے جہاں سے معراج کی ابتدا اور انتہا ہوئی ہے، یہ آسمان کا دروازہ ہے، یہ سرزمینِ محشر بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سرزمینِ فلسطین کو خیر وبرکت والی زمین فرمایا ہے۔ ابن جریر طبری فرماتے ہیں کہ یہاں دائمی اور ابدی طور پر خیر و برکت قائم ودائم رہے گی۔ علامہ شوکانی نے برکت کے معنی یہاں کی زراعت اور پھل لیے ہیں، اسی کی پیدوار بہت زیادہ ہوگی۔ دیگر لوگوں نے برکت سے نہریں، پھل، انبیاء اور صلحاء مراد لیے ہیں۔
ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جس سرزمین کے تعلق سے اللہ عزوجل نے یوں فرمایا ہے ’’بَارَکْنَا حَوْلَہُ‘‘ (الاسراء: 1) اس سے مراد ملک شام ہے۔ سریانی زبان میں ’’شام‘‘ کے معنی پاک اور سرسبز زمین کے آتے ہیں، اور ایک قول یہ بھی ہے کہ ملک شام کو مبارک اس لیے کہا گیا کہ یہ انبیاء کا مستقر، ان کا قبلہ اور نزولِ ملائکہ اور وحی کا مقام رہا ہے، یہیں لوگ روزِ محشر میں جمع کیے جائیں گے۔ حضرت حسن اور حضرت قتادہ سے مروی ہے کہ اس مبارک سرزمین سے مراد ملک شام ہے، عبداللہ بن شوذب کہتے ہیں اس سے مراد سرزمینِ فلسطین ہے۔ سرزمینِ فلسطین کو قرآن کریم میں پانچ مقامات پر بابرکت زمین سے مخاطب کیا گیا ہے۔
دو ہزار سال قبل مسیح میں حضرت ابراہیم علیہ السلام عراق کے شہر ار (Ur) سے جو دریائے فرات کے کنارے آباد تھا، ہجرت کرکے یہاں آباد ہوئے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے ایک بیٹے حضرت اسحاق علیہ السلام کو بیت المقدس میں، جبکہ دوسرے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو مکہ میں آباد کیا۔ حضرت اسحاق علیہ السلام کے بیٹے حضرت یعقوب علیہ السلام تھے جن کا نام اسرائیل بھی تھا۔ ان کی اولاد بنی اسرائیل کہلائی۔ حضرت یعقوب علیہ السلام، حضرت یوسف علیہ السلام، حضرت دا ئودعلیہ السلام،حضرت سلیمان علیہ السلام، حضرت یحییٰ علیہ السلام، حضرت موسیٰ علیہ السلام، حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور بہت سے دیگر پیغمبر اسی سرزمین میں پیدا ہوئے یا باہر سے آ کر یہاں آباد ہوئے۔ اسی مناسبت سے یہ علاقہ پیغمبروں کی سرزمین کہلایا۔
ان علاقوں میں عبرانی قومیت کے لوگوں کی آمد کا نشان ولادتِ مسیح سے لگ بھگ 1100 سال قبل میں ملتا ہے۔ حضرت سیموئیل علیہ السلام بنی اسرائیل کے پہلے بادشاہ تھے۔ انہوں نے طویل عرصے حکومت کی، اور جب وہ بوڑھے ہوگئے تو انہوں نے اللہ کے حکم سے حضرت طالوت علیہ السلام کو بادشاہ مقرر کیا۔ اس واقعے کا ذکر قرآن مجید کے پارہ دوم میں سورہ بقرہ میں ملتا ہے۔ اس دوران انہوں نے جنگ کرکے جالوت کو مغلوب کیا اور اس سے تابوتِ سکینہ واپس لیا جس میں حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت ہارون علیہ السلام کے تبرکات تھے۔
حضرت طالوت علیہ السلام کی وفات کے بعد حضرت دائود علیہ السلام بنی اسرائیل کے بادشاہ بنے۔ انہوں نے پہلے الخلیل اور پھر بیت المقدس میں اپنا دارالحکومت قائم کیا۔ حضرت دائود علیہ السلام نے3 سال حکمرانی کی۔ ان کے بعد ان کے بیٹے حضرت سلیمان علیہ السلام نے 965قبل مسیح میں حکومت سنبھالی جو926 قبل مسیح تک 39سال قائم رہی۔
598قبل مسیح میں بابل کے بادشاہ بخت نصر نے حملہ کرکے بیت المقدس سمیت تمام علاقوں کو فتح کرلیا اور شہر کی اینٹ سے اینٹ بجا کر بادشاہ اور ہزاروں شہریوں کو گرفتار کرکے بابل میں قید کردیا۔ 539 قبل مسیح میں ایران کے بادشاہ خسرو نے بابل کو فتح کیا اور قیدیوں کو رہا کرکے لوٹا ہوا مال واپس یروشلم بھیج دیا۔
332قبل مسیح میں بیت المقدس پر سکندراعظم نے قبضہ کرلیا۔ 168 قبل مسیح میں یہاں ایک یہودی بادشاہت کا قیام عمل میں آیا۔ لیکن اگلی صدی میں روما کی سلطنت نے اسے زیر نگین کرلیا۔135 قبل مسیح اور70قبل مسیح میں یہودی بغاوتوں کو کچل دیا گیا۔
حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے زریں عہد میں فلسطین اسلامی سلطنت میں داخل ہوا۔ اُس وقت اس پر عیسائیوں کا تسلط تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت عمرو بن عاص اور حضرت ابوعبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہما کی قیادت میں شام اور بیت المقدس کو فتح کرنے کے لیے اسلامی لشکر روانہ کیا۔ بیت المقدس کے اطراف کے علاقوں کو فتح کرلینے کے بعد جب بیت المقدس کی جانب اسلامی لشکر بڑھا تو حضرت ابوعبیدہ ؓ نے یہ مناسب سمجھا کہ جہاں تک ہوسکے کشت وخون کا موقع نہ آئے، اور جنگ کے بجائے صلح کو فوقیت دی جائے۔ ادھر وہاں کے عیسائیوں نے صلح کی پیشکش کی اور اس میں یہ شرط رکھی کہ خلیفۂ وقت حضرت عمر ؓ خود آکر عہد نامہ لکھیں۔
حضرت عمر ؓ کا سفر 16 ہجری رجب کے مہینے میں ہوا۔ ستوؤں کا ایک تھیلا، ایک اونٹ، ایک غلام اور لکڑی کا ایک پیالہ ہمراہ لے کر حضرت عمرؓ روانہ ہوگئے۔ آپؓ کے اس سفر کی سادگی اور جفاکشی بھی بے مثل وبے نظیر تھی کہ کبھی غلام اونٹ کی مہار پکڑ کر چلتا اور فاروق اعظمؓ اونٹ پر سوار ہوتے، اور کبھی حضرت عمر ؓ اونٹ کی مہار پکڑ کر چلتے اور غلام اونٹ پر سوار ہوتا۔ یہ بے مثل عدل وجفاکشی کا سفر ایسے حاکم وقت، عظیم الشان خلیفۂ اسلام کا تھا جس کی فوجیں قیصر وکسریٰ کے محلات اور تخت وتاج کو اپنے گھوڑوں کی ٹاپوں میں روند چکی تھیں۔
عجب اتفاق کہ جب بیت المقدس کی سرحدکے پاس حضرت عمرؓ پہنچے تو وہ سوار تھے اور غلام اونٹ کی مہار پکڑ کر چل رہا تھا، لیکن یہاں سے غلام کے سوار ہونے کا وقت ہوچکا تھا۔ غلام نے اصرار کیا کہ آگے آپ ہی سوار رہیں، لیکن حضرت عمر ؓ نے اس سے انکار کرکے غلام کو سوار کردیا اور آپؓ اونٹ کی مہار پکڑ کر چلنے لگے، اور اسی حال میں بیت المقدس میں داخل ہوئے۔ جب مسجد اقصیٰ کے دروازے پر پہنچے تو منظر یہ تھا کہ حاکمِ وقت پیادہ پا ہیں، قدموں میں کیچڑ لگی ہے اور غلام سوار ہے۔ اس منظر کو دیکھتے ہی عیسائی پادری نے آپؓ کو انجیل میں مذکور علامتوں کی روشنی میں پہچان لیا اور مسجد اقصیٰ کی کنجی یہ کہتے ہوئے حوالے کی کہ یہ کنجی جس کو ملے گی اس کی تین علامتیں انجیل میں مذکور ہیں:
(1) وہ پیادہ پا آئے گا اور اس کا خادم سوار ہوگا۔
(2) اس کے قدم کیچڑ میں لت پت ہوں گے۔
(3) اس کے کپڑوں میں سترہ پیوند ہوں گے۔ دو علامتیں تو میں نے دیکھ لیں، مجھے اپنے کپڑے دیکھنے دیجیے۔ چنانچہ جب دیکھا تو حضرت عمرؓ کے لباس میں سترہ پیوند لگے ہوئے تھے۔
اس کے بعد فلسطین اسلامی سلطنت کا ایک صوبہ ہوگیا۔ حضرت عمرفاروق اعظم ؓ نے اس کے دو حصے کرکے ایک حصے کا گورنر حضرت علقمہ بن حکیم کو بنایا، اور دوسرے حصے کا گورنر حضرت علقمہ بن محرز کو بنایا۔ اس کے بعد سے ہمیشہ فلسطین پر مسلمانوں کی حکومت رہی، لیکن صلیبی جنگ کے بعد اس پر عیسائیوں کا قبضہ ہوگیا۔
1095ء سے1291ء تک ارضِ فلسطین خاص طور پر بیت المقدس پر عیسائی قبضہ بحال کرنے کے لیے یورپ کے عیسائیوں نے کئی جنگیں لڑیں جنہیں تاریخ میں ’’صلیبی جنگوں‘‘ کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ یہ جنگیں فلسطین اور شام کی حدود میں صلیب کے نام پر لڑی گئیں۔ صلیبی جنگوں کا یہ سلسلہ طویل عرصے تک جاری رہا اور اس دوران 9 بڑی جنگیں لڑی گئیں جن میں لاکھوں انسان قتل ہوئے۔
دولتِ عباسیہ کے خاتمے کے بعد عیسائیوں کے دلوں میں بیت المقدس پر قبضہ کرنے کا خیال پیدا ہوا، اور اس کی خاطر اہلِ یورپ نے مسلمانوں کے خلاف صلیبی جنگیںشروع کیں، جو کم وبیش دو سو سال تک مسلمانوں پر مسلط رہیں۔ ان جنگوں میں تنگ نظری، تعصب، بدعہدی، بداخلاقی اور سفاکی کا جو مظاہرہ اہلِ یورپ نے کیا وہ ان کی پیشانی پر شرمناک داغ ہے۔ ان جنگوںکے نتیجے میں بیت المقدس پر ان کا قبضہ ہوگیا۔
لیکن پھر اللہ نے بیت المقدس کی فتح کے لیے سلطان صلاح الدین ایوبی جیسے عظیم انسان کو پیدا کردیا۔ یہ وہ دور تھا جب عیسائی طاقتیں مسلمانوں کو نیست ونابود کرنے کے درپے تھیں، حتیٰ کہ مدینہ منورہ پر بھی قبضہ کرنے کے ارادے سے عیسائی کمانڈر’’رینالڈو‘‘ نے عیسائی امراء کے سا تھ مل کر حجاز پر حملہ کردیا تھا۔
سلطان صلاح الدین ایوبی نے عیسائیوں کے ناپاک عزائم کو ناکام بنانے اور ان کی روک تھام کے لیے عیسائی کمانڈر ’’رینالڈو‘‘ کا تعاقب کرتے ہوئے مقام حطین میں اسے پالیا۔ اسلامی لشکر نے وہاں دشمن پر ایک ایسا آتش گیر مادہ پھینکا جس سے زمین پر آگ بھڑک اٹھی اور وہاں تاریخ کی خوف ناک ترین لڑائی ہوئی۔ 1187ء میں ہونے والی اس لڑائی میں تیس ہزار عیسائی ہلاک ہوئے اور اتنے ہی قیدی بنا لیے گئے۔ رینالڈو گرفتار ہوا اور سلطان نے اپنے ہاتھ سے اس کا سر قلم کیا۔ اس جنگ کے بعد اسلامی افواج نے ان علاقوں کو عیسائی قابض افواج سے آزاد کرالیا۔
اس کے بعد صلاح الدین ایوبی نے بیت المقدس کو فتح کرنے کے لیے اس کی طرف رخ کیا۔ ایک ہفتے کی خونریز جنگ کے بعد عیسائیوں نے ہتھیار ڈال دیے، اور رحم کی درخواست کی۔ اور بالآخر پورے 91 سال بعد 1187ء میں بیت المقدس دوبارہ مسلمانوں کے قبضے میں آیا اور تمام فلسطین سے عیسائی حکومت کا خاتمہ ہوگیا۔
اس کے بعد سے مسلسل 761سال فلسطین پر مسلمانوں کی حکومت رہی، لیکن خلافتِ عثمانیہ کے زوال کے بعد 1917ء میں برطانیہ نے اس پرغاصبانہ قبضہ کرلیا۔ اسی دوران نازی جرمنی کے یہودیوں پر مظالم کی وجہ سے فلسطین کی جانب یہودیوں کی نقل مکانی شروع ہوچکی تھی، اور بعد میں اس میں بہت اضافہ ہوا۔ 1896ء میں ایک یہودی صحافی ’’تھیوڈورہرتزل‘‘ نے ایک کتاب لکھی جس میں اس نے یہودیوں کے لیے ایک مستقل ریاست کی تشکیل کی دعوت دی اور اس کے لیے اس نے دومقام: فلسطین، یا ارجنٹائن کی جانب اشارہ کیا کہ ان دونوں میں سے کسی ایک کو یہودی ریاست بناکر یہود یہاں جمع ہوجائیں۔ اور پھر اس مقصد کی تکمیل کے لیے یہودیوں کی بہت سی کانفرنسیں ہوئیں اور فنڈ جمع کیے گئے، اور عملاً فلسطین کو یہودی ریاست بنانے کی خاطر اس کی جانب بڑے پیمانے پر یہودیوں نے ہجرت شروع کی۔
1900ء تک فلسطین میں یہودیوں کی آبادی پانچ فیصد کے قریب ہوگئی، جب کہ مسلمان 86 فیصد تھے اورعیسائیوں کی تعداد 9فیصد تھی۔ یہودیوں کی بڑی تعداد میں نقل مکانی کی وجہ سے عربوں میں بے چینی پیدا ہوئی اور 1920، 1921، 1929 اور 1936ء میں عربوں کی طرف سے یہودیوں کی نقل مکانی اور اِس علاقے میں آمد کے خلاف پُرتشدد مظاہرے ہوئے، لیکن یہ سلسلہ جاری رہا۔ پھر بھی انگریزوں کے 1917ء میں قبضے اور یہود یوں کی بڑی تعداد میں نقل مکانی کے باوجود 1923ء تک فلسطین کی اراضی میں سے صرف3 فیصد اراضی یہود کی ملکیت تھی اور97فیصد اراضی عرب باشندوں کی ملکیت تھی۔
دوسری طرف برطانیہ کو اس بات کا بھی شدید خوف تھا کہ کہیں یہودی بڑی تعداد میں برطانیہ کا رخ نہ کرلیں،اور پھر ان کی شرارت پسندی کی وجہ سے برطانیہ کے عیسائی عوام کی زندگی میں درد وکرب اور الجھن پیدا ہوجائے۔ چنانچہ اس نے فلسطین کو یہودی ریاست بنانے کا منصوبہ پیش کیا اور اس کے لیے ہر ممکنہ مدد دینے کا یہودیوں کو یقین دلایا۔
2 نومبر1917ء کو برطانوی سیاست داںآرتھر جیمز بالفور نے صہیونیوں کے نام خط لکھ کراُن کو اس بات کا یقین دلایا کہ وہ فلسطین کی سرزمین میں ایک یہودی ریاست کے قیام میں بھرپور اور عملی مدد دیں گے، اور خط میں یہ بھی بتایا کہ اس معاہدے کی توثیق برطانوی کابینہ کے ایک خفیہ اجلاس میں 31 اکتوبر1917ء کو ہوچکی ہے۔
اسے’’اعلانِ بالفور‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے، اور اسی اعلان کے تحت اسرائیل کا قیام عمل میں آیا۔ چنانچہ 1947ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ایک قرارداد کے ذریعے فلسطین کو تقسیم کرکے ایک اسرائیلی ریاست قائم کرنے کا اعلان کردیا، اور برطانیہ نے اس علاقے سے 1948ء میں اپنی افواج کو واپس بلالیا اور 14 مئی 1948ء کو اسرائیل کی آزاد حکومت قائم کردی گئی۔ اقوام متحدہ نے فلسطین کو عربوں اور یہودیوں کے درمیان ظالمانہ انداز میں تقسیم کیا۔ اصل مالکان اور قدیم باشندوں کو فلسطین کا 45 فیصد حصہ دیا اور یہودیوں کو 55 فیصد۔ جبکہ اُس وقت فلسطین میں صرف 31 فیصد یہود تھے اور وہ صرف 7فیصد اراضی کے مالک تھے۔
اس کے بعد کشمکش کا سلسلہ جاری رہا اور ہر کشمکش کا انجام یہ نکلا کہ یہود نے مزید علاقوں پر قبضہ کرکے اپنی ناجائز ریاست میں انہیں شامل کرلیا۔ اسرائیلی ریاست کے قیام کے فوری بعد 1948ء میں جب برطانیہ نے اپنی فوج کو واپس بلایا تو یہودیوں اور فلسطینیوں کے درمیان محاذ آرائی شروع ہوگئی، جس کے نتیجے میں یہود نے فلسطین کے 78فیصد حصے پر قبضہ کرلیا۔
1948ء ہی میں اسرائیل نے حملہ کرکے بیت المقدس کے نصف مغربی حصے پر قبضہ کرلیا، جبکہ بقیہ نصف حصہ جس میں مسجد اقصیٰ کا حصہ بھی تھا، اردن کے قبضے میں رہا۔ اسی طرح دریائے اردن کے مغربی کنارے پر بھی اردن کا قبضہ رہا اور غزہ پر مصر کی حکومت رہی۔ لیکن چند ہی سال بعد 1967ء میں اسرائیل نے پڑوسی ممالک پر حملہ کرکے ان علاقوں پر بھی قبضہ کرلیا، جسے اقوام متحدہ نے غیر قانونی قرار دیا، اس لیے ان علاقوں کو’’مقبوضہ اراضی‘‘کہا گیا۔ اقوام متحدہ کی جانب سے ان قبضوں کو غیر قانونی کہے جانے کے باوجود اسرائیل نے ان علاقوں میں یہودی بستیوں کی تعمیر کا سلسلہ جاری رکھا، اوراسرائیل کی دعوت پر یہود ی ہجرت کرکے آباد ہوتے رہے۔
حالیہ دنوں میں اسرائیل نے جس غزہ پر بمباری کی، وہ بھی 2005ء تک اسرائیل کے ناجائز قبضے میں تھا، لیکن 2005ء میں حماس اور دیگر فلسطینی گروپوں کے دباؤ میں آکر اسرائیل نے غزہ پر سے اپنا قبضہ ہٹالیا اور فلسطینیوںکو برائے نام خودمختاری دی۔ بمباری کی وجہ سے غزہ کا بیشتر حصہ کھنڈر بن چکا ہے اور سیکڑوں افراد شہید اور زخمی اور ہزاروں بے گھر ہوگئے۔
لیکن وقت سدا ایک سا نہیں رہتا، اگر لگن سچی ہوئی تو فلسطینی مسلمان ضرور کامیاب ہوں گے، اور وہ وقت دور نہیں جب نہ صرف یہ کہ فلسطین آزاد ہوگا، بلکہ اسرائیل کا نام ونشان بھی مٹ جائے گا۔