علامہ اقبال کے زمانے میں سلطنت ِعثمانیہ کے سوا، عالم اسلام کے تمام خطوں پر غاصب استعماری مسلط تھے۔ سلطنتِ عثمانیہ داخلی خلفشار اور طرح طرح کی کمزوریوں کا شکار ہوچکی تھی، اس لیے اس کے مغربی دشمن اسے The sick man of the Europe کہتے تھے، اور پہلی جنگِ عظیم کے بعد اس پر دندانِ آز تیز کیے بیٹھے تھے۔ بیسویں صدی کے ابتدائی عشروں میں ہندستان میں خلافت کی بقا اور بحالی کے لیے جو تحریک شروع ہوئی، اقبال اس کے پوری طرح مُویّد تھے۔ یہی زمانہ تھا جب یہودی سرزمین فلسطین میں اپنے قدم جمارہے تھے مگر مجموعی حیثیت سے ’’مسئلہ فلسطین‘‘ ابھی ابتدائی مراحل میں تھا۔
یہود، فلسطین کے اصل باشندے ( son of the soil) نہیں ہیں۔ وہ تقریباً تیرہ سو برس قبل مسیح اس علاقے میں وارد ہوئے، یہاں کے قدیم فلسطینیوں کو نکال باہر کیا اور خود ان کی سرزمین پر قبضہ کرکے بیٹھ گئے (یہ حرکت بالکل ویسی ہی ہے جیسے یورپ کے سفید فاموں نے ماردھاڑ کرکے امریکہ کے قدیم باشندوں (ریڈ انڈینز) کی نسل کُشی کی اور خود امریکہ پر قابض ہوگئے)۔ آئندہ صدیوں میں یہود کئی بار فلسطین سے نکالے گئے اور ان کے ہیکل سلیمانی کو بھی نیست و نابود کردیا گیا۔ ان کی دربدری کے زمانے میں پورے یورپ میں کوئی اُنھیں منہ نہ لگاتا تھا۔ یہ مسلمان تھے جنھوں نے ان کی دستگیری کی۔ خاص طور پر اندلس کے مسلم حکم رانوں کے حسنِ سلوک کی وجہ سے، اندلس میں یہود طویل عرصے تک نہایت خوش و خرم رہے اور امن و اطمینان کی زندگی بسر کرتے رہے۔ پھر سقوطِ غرناطہ کے بعد جب عیسائیوں نے انھیں کھدیڑ کر وہاں سے نکالا تو وہ: ’’نہ کہیں جہاں میں اماں ملی‘‘ کی سی کیفیت سے دوچار ہوئے۔ ایک بار پھر پورے جہاں میں انھیں کہیں اماں ملی تو عثمانی ترکوں کے ہاں۔ یہود مؤرخ، سلطان سلیم عثمانی(1524ء-1574ء) کے اس احسان کو تسلیم کرتے ہیں کہ اس نے دیوارِ گریہ کی جگہ دریافت کرکے اس جگہ کو صاف کراکے یہود کو وہاں جانے اور گریہ کرنے کی اجازت دی۔
احسان فراموشی یہود کی گھٹی میں پڑی ہے۔ عثمانی سلطنت میں رہتے ہوئے وہ آسودہ و خوش حال ہوئے تو اُنھوں نے پر پُرزے نکالے اور فلسطین اور بیت المقدس پر قبضہ کرنے کی منصوبہ بندی کرنے لگے۔ معروف واقعہ ہے کہ یہودی دانش ور اور راہ نما ڈاکٹر تھیوڈور ہرزل (Theodor Herazl) نے سلطان عبدالحمید ثانی کو مالی امداد کا لالچ دے کر ’’یہودی وطن‘‘ کے لیے ارضِ فلسطین کا ایک حصہ خریدنے کی درخواست کی، جسے سلطان نے حقارت سے ٹھکرا دیا (فلسطین اُس وقت تک سلطنتِ عثمانیہ میں شامل تھا)۔ اس پر یہودی انتقام پر اُتر آئے۔ سلطنتِ عثمانیہ اور سلطان کے خلاف ان کی سازشیں رنگ لائیں۔ ان کی پہلی کامیابی وہ تھی جب انجمن اتحاد و ترقی کی وزارت کے ذریعے 1914ء میں ایک ایسا قانون پاس کرایا گیا، جس کے ذریعے یہودیوں کو فلسطین میں زمینیں اور جائدادیں خریدنے کی اجازت مل گئی۔ 1916ء میں وہ برطانیہ سے صہیونیت کی پشت پناہی کے طلب گار ہوئے۔ برطانیہ نے اس درخواست کو اعلانِ بالفور (دسمبر 1917ء) کی شکل میں پذیرائی بخشی۔
انگریزوں کی ’’بددیانتی کے شاہ کار‘‘ اعلانِ بالفور کو، جنگِ عظیم اوّل کے تمام اتحادیوں کی توثیق حاصل تھی۔ جنگِ عظیم اوّل (1914ء-1918ء) کے خاتمے پر برطانیہ نے عربوں سے کیے گئے تمام تر وعدوں سے انحراف کرتے ہوئے فلسطین پر قبضہ کرلیا۔ جس مجلسِ اقوام (League of Nations) کے بارے میں اقبال نے کہا تھا:
بہرِ تقسیمِ قبور، انجمنے ساختہ اند
اس نے بھی 1922ء میں یہ خطہ برطانیہ کے اِنتداب (mandate) میں دے دیا۔ یہ برطانوی اقتدار ایک یہودی حکومت ہی کے مترادف تھا، کیوں کہ انگریزو ں نے اپنی طرف سے فلسطین میں اپنا جو پہلا ہائی کمشنر مقرر کیا (سربرہٹ سیموئل) وہ بھی یہودی تھا۔
اسی زمانے میں مقاماتِ مقدسہ کے متعلق تنازعات کے حل کے لیے ایک رائل کمیشن کے قیام کی تجویز انگریزوں کے زیرِ غور تھی۔ ایک مسلمان ممبر کے طور پر علامہ اقبال کو کمیشن کا ممبر بننے کی پیش کش کی گئی، مگر انھوں نے بوجوہ، معذرت کرلی۔
انگریزوں کی تائید اور سرپرستی میں دنیا بھر سے یہودی نقل مکانی کرکے، فلسطین پہنچ رہے تھے اور ’آبادکاروں‘ کی حیثیت سے مختلف حیلوں بہانوں سے اور زور زبردستی سے بھی فلسطینیوں کی زمینوں پر قبضہ کرتے چلے جارہے تھے۔ اس کے نتیجے میں 1919ء، 1928ء اور 1929ء میں یہودیوں اور مقامی فلسطینی آبادی کے درمیان متعدد خونریز تصادم ہوئے۔ مختلف ممالک سے یہودی آتے رہے اور اُن کی آبادی میں مسلسل اضافہ ہوتا چلا گیا۔
فلسطین ہو یا عالمِ اسلام کا کوئی اور خطّہ… اقبال افرادِ ملّت کو پیش آمدہ کسی بھی مصیبت یا آزمائش کی خبر سنتے تو بے چین اور پریشان ہوجاتے۔ خنجر کہیں بھی چلتا، وہ اپنی جگہ تڑپ کر رہ جاتے۔ فلسطین تو انبیاؑ کی سرزمین تھی، اقبال وہاں کے باشندوں کے الم ناک مصائب پر رنجیدہ کیوں نہ ہوتے! مسلمانانِ لاہور نے 7 ستمبر 1929ء کو انگریزوں کی یہود نواز پالیسیوں کے خلاف بطور احتجاج ایک جلسہ منعقد کیا جس کی صدارت علامہ اقبال نے کی تھی۔ اُسی زمانے میں یروشلم میں فلسطینیوں کے قتل و غارت کے الم ناک واقعات رونما ہوئے تھے۔ آپ نے اپنے صدارتی خطبے میں یہودیوں کی ’’ہولناک سفاکی‘‘ کی مذمت کی۔ علامہ نے یہودیوں کو یاد دلایا کہ ہیکل سلیمانی کے محلِ وقوع کی دریافت حضرت عمرؓ نے کی تھی اور یہ ان پر حضرت عمرؓ کا احسان ہے۔ پھر یہ کہ یہ مسلمان ہی تھے جنھوں نے بقول اقبال: ’’یورپ کے ستائے ہوئے یہودیوں کو نہ صرف پناہ دی بلکہ انھیں اعلیٰ مناصب پر فائز کیا‘‘۔
یہ کیسی احسان فراموشی ہے کہ باَلفاظِ اقبال: ’’فلسطین میں مسلمان، ان کی عورتیں اور بچے بھیڑ بکریوں کی طرح ذبح کیے جا رہے ہیں‘‘۔ دراصل اعلانِ بالفور ہی کے زمانے میں یہودیوں نے فلسطینیوں کو ان کے وطن سے بے دخل کرکے زور زبردستی کے ذریعے ان کی زمینوں پر قبضہ کرنا شروع کردیا تھا۔ ان کے دیہات کے دیہات تباہ کردیے گئے۔ کتنے کنویں اور کتنے قبرستان بل ڈوز کیے گئے۔ حالیہ دنوں میں شہری آبادیوں میں مکانات، اسپتال، بازار اور ہوٹل زمین بوس کردیے گئے۔ اگر کسی نے مزاحمت کی تو اسے قتل و غارت کا نشانہ بنایا گیا۔
سفرِ انگلستان (1931ء) کے دوران میں، جہاں بھی موقع ملا، علامہ اقبال نے فلسطین کے بارے میں کلمہ خیر کہنے سے گریز نہیں کیا، مثلاً ایک موقعے پر انگریزوں کو اہلِ فلسطین کے ساتھ انصاف کی تلقین کی، اور فرمایا کہ اعلان ِ بالفور بالکل منسوخ کردینا چاہیے۔ علامہ اقبال پر مسئلہ فلسطین کی نزاکت اور اہمیت اُس وقت اور زیادہ واضح ہوئی جب انھوں نے بذاتِ خود فلسطین کا سفر کیا۔
دسمبر 1931ء میں فلسطین کے نو روزہ سفر کا اصل مقصد مؤتمر عالمِ اسلامی (اسلامی کانفرنس) میں شرکت تھی۔ کانفرنس کے داعی سید امین الحسینی تھے۔ اس میں تقریباً 27 ملکوں اور علاقوں کے مندوبین شامل تھے جن میں اربابِ علم و فضل بھی تھے اور سیاسی اور ملّی راہ نما بھی۔ اسی طرح متعدد واجب الاحترام بزرگ شخصیات اور مجاہدینِ آزادی اور اپنے اپنے ملکوں کی سیاست میں سرگرم ارکانِ پارلیمنٹ بھی۔ گویا قبلہ اوّل کے شہر میں عالمِ اسلام کی منتخب شخصیتیں جمع تھیں۔
یوں تو اس کانفرنس کے کئی مقاصد تھے لیکن سب سے اہم مقصد یہ تھا کہ مسلمانوں کو فلسطین پر یہودیوں کے ناجائز قبضے کے سنگین مسئلے کا احساس دلایا جائے اور صہیونی خطرے کے خلاف اتحادِ عالمِ اسلام کی تدابیر پر غور کیا جائے۔ کانفرنس کے دنوں میں علامہ اقبال اور ان کے ہمراہ غلام رسول مہر کانفرنس کی مختلف نشستوں میں شریک رہے۔ ایک نشست میں علامہ اقبال کو نائب صدر بناکر اسٹیج پر بٹھایا گیا۔ انھوں نے بعض کمیٹیوں کے اجلاسوں میں شریک ہوکر رپورٹیں مرتب کرنے میں بھی مدد کی۔
قیامِ فلسطین کے دوران میں علامہ اقبال اور غلام رسول مہر کو جتنا بھی وقت اور موقع ملتا، وہ مقاماتِ مقدسہ اور آثارِ قدیمہ کی زیارت کو نکل جاتے۔ انھوں نے بیت اللحم میں کلیسائے مولد مسیح دیکھا اور الخلیل میں متعدد پیغمبروں کے مدفنوں کی زیارت بھی کی۔ بیت المقدس شہر میں بھی انھوں نے بہت سے قابلِ دید مقامات، عمارات اور آثار دیکھے۔ افسوس ہے کہ انبیاء کے مدفن، اور بیت المقدس شہر کی قابلِ دید بہت سی عمارات تباہ کی جا چکی ہیں۔ ایک دن موقع پاکر انھوں نے فلسطین کے اسلامی اوقاف کا بھی معائنہ کیا۔
کانفرنس کے مندوبین کو فلسطین کے دوسرے شہروں کا دورہ کرنے کی دعوت ملی، مگر وہ سب جگہ نہیں جا سکے۔ قیام کے آخری دن شام کی نشست میں اقبال نے ایک مؤثر تقریر کی، جس میں عالمِ اسلام کو تنبیہ کرتے ہوئے کہا کہ اسلام کو الحادِ مادی اور وطنی قومیت سے خطرہ ہے۔ میں آپ کو نصیحت کرتا ہوں کہ آپ دل سے مسلمان بنیں۔ مجھے اسلام کے دشمنوں سے اندیشہ نہیں ہے، لیکن خود مسلمانوں سے مجھے اندیشہ ہے۔ اقبال نے نوجوانوں کا خاص طور پر ذکر کیا اور مندوبین کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اپنے وطنوں کو واپس جاؤ تو روحِ اخوت کو ہر جگہ پھیلا دو اور اپنے نوجوانوں پر خاص توجہ دو۔
اقبال کے سفرِ فلسطین کا شعری ماحصل وہ معرکہ آرا نظم ہے جو ’ذوق شوق‘ کے عنوان سے بالِ جبریل میں شامل ہے۔ نظم کے ساتھ اقبال نے یہ توضیح لکھنا ضروری سمجھی کہ ’’ان اشعار میں سے اکثر فلسطین میں لکھے گئے‘‘:
لب و نظر کی زندگی دشت میں صبح کا سماں
چشمۂ آفتاب سے نور کی ندیاں رواں!
حسن ازل کی ہے نمود چاک ہے پردۂ وجود
دل کے لیے ہزار سود ایک نگاہ کا زیاں!
سرخ و کبود بدلیاں چھوڑ گیا سحاب شب!
کوہ اضم کو دے گیا رنگ برنگ طیلساں!
گرد سے پاک ہے ہوا برگ نخیل دھل گئے
ریگ نواح کاظمہ نرم ہے مثل پرنیاں
یہ اشعار لکھتے ہوئے فلسطین کے مختلف علاقوں کے خوب صورت مناظر اقبال کے ذہن میں تازہ ہوں گے۔ سرسبز و شاداب علاقہ، پھلوں اور پھولوں کے قطار اندر قطار درخت اور پودے، دُوردُور تک پھیلے ہوئے سبزیوں کے کھیت، انگور، انجیر اور مالٹوں کے باغات، اور پھر موسم بہار کا۔ بقول غلام رسول مہر: عرب دنیا میں اس سے زیادہ حسین خطہ اور کوئی نہ تھا، مگر فلسطینی اپنے ہی خطے میں اور اپنے ہی گھر میں اجنبی بنتے جارہے تھے۔ آج سرزمین فلسطین دھواں دھواں ہے ۔
سفر فلسطین سے واپس آنے کے بعدبھی اقبال وائسرائے ہند اور برطانوی اکابر کو برابر احساس دلاتے رہے کہ برطانیہ کی فلسطین پالیسی صریحاً مسلم مخالفانہ ہے۔ اقبال نے اپنا یہ مطالبہ بھی برابر جاری رکھا کہ فلسطین میں یہودیوں کا داخلہ روکا جائے اور اعلان بالفور واپس لیا جائے۔ اقبال نے یہ بھی کہا کہ برطانوی پالیسی کے سبب مسلمانانِ ہند میں زبردست ہیجان و اضطراب پیدا ہورہا ہے۔ اُسی کا نتیجہ تھا کہ 24، 25 ستمبر 1937ء کو کلکتے میں فلسطین کانفرنس منعقد ہوئی۔ علامہ اقبال اپنی کمزور صحت اور بیماری کے سبب اس میں شریک نہ ہوسکے لیکن وہ اپنے دلی جذبات کا اظہار اس طرح کررہے تھے:
جلتا ہے مگر شام و فلسطین پہ مرا دل
تدبیر سے کھلتا نہیں یہ عقدۂ دشوار
اسی زمانے میں انھوں نے کہاـ:
ہے خاکِ فلسطیں پہ یہودی کا اگر حق
ہسپانیہ پر حق نہیں کیوں اہلِ عَرب کا
مقصد ہے مُلوکیّتِ انگلِیس کا کچھ اور
قصّہ نہیں نارنج کا یا شہد و رُطَب کا
یہ ’’مقصد ہے… کچھ اور‘‘ اس کے سوا کچھ نہ تھا کہ اپنے استعماری عزائم کو جاری رکھنے کے لیے برطانیہ مشرق وسطیٰ میں ایک مستقل اڈا یا ٹھکانا بنانا چاہتا تھا، مگر علامہ اقبال اسے عالمِ اسلام کے لیے ازحد خطرناک سمجھتے تھے اور اس کے سدّباب کے لیے وہ بڑے سے بڑا قدم اٹھانے کے لیے بھی تیار تھے۔ قائداعظم محمد علی جناح کے نام 7؍اکتوبر 1937ء کے خط میں لکھتے ہیں: ’’ذاتی طور پر میں کسی ایسے امر کی خاطر جیل جانے کو بھی تیار ہوں جس سے اسلام اور ہندستان متاثر ہوتے ہوں۔ مشرق کے دروازے پر مغرب کا ایک اڈا بننا اسلام اور ہندستان دونوں کے لیے پُرخطر ہے‘‘۔ اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اقبال آزادیِ فلسطین کی خاطر انتہائی اقدام کے لیے بھی پُرجوش اور پُرعزم تھے۔
مسئلۂ فلسطین کے ضمن میں علامہ اقبال کا کارنامہ صرف یہی نہیں کہ انھوں نے فلسطین میں یہودیوں کی بتدریج بڑھتی ہوئی پیش رفت اور اس کے مضمرات اور خطرناک نتائج کو سمجھا اور اہلِ ہند کو ان سے آگاہ کیا، بلکہ اُس وقت مسلمانانِ ہند کی نمائندہ جماعت مسلم لیگ اور اس کے سربراہ قائداعظم محمد علی جناح کو بھی مسئلہ فلسطین کی نزاکت سے آگاہ کیا۔ چنانچہ اقبال کی وفات کے بعد بھی مسلم لیگ اور قائداعظم نے فلسطینیوں کی حمایت جاری رکھی۔
علامہ اقبال کی وفات کو پون صدی ہو چلی ہے۔ فلسطینی اپنی بقا اور آزادی کے لیےآج بھی بے جگری کے ساتھ لڑ رہے ہیں ۔ان کے پاس ہتھیار نہیں مگر وہ غلیلوں اور پتھروں کے ذریعے دشمن سے نبرد آزما ہیں۔ ان کا عزم ہے کہ فلسطین کی مکمل آزادی تک، اِن شاء اللہ وہ لڑتے رہیں گے، جدوجہد کرتے رہیں گے۔ ضربِ کلیم میں’’فلسطینی عرب سے‘ ‘کے عنوان سے ایک چھوٹی سی نظم ہے جس میں وہ کہتے ہیں:
زمانہ اب بھی نہیں جس کے سوز سے فارغ
میں جانتا ہوں وہ آتش ترے وجود میں ہے!
تری دوا نہ جنیوا میں ہے ،نہ لندن میں
فرنگ کی رگِ جاں پنجہ یہود میں ہے!
سنا ہے میں نے غلامی کی امتوں سے نجات
خودی کی پرورش و لذت ِنمود میں ہے!
فلسطینیوں کی نمائندہ جماعت حماس، فلسطینیوں کی موجودہ تحریکِ آزادی میں مزاحمت کی ایک تابندہ علامت بن چکی ہے، اس نے علامہ اقبال کی نصیحت کو حرزِ جاں بنا لیا ہے اور وہ یہود کی غلامی سے نجات کے لیے اپنی سی تگ و دَو میں مصروف ہے۔ غزہ فی الوقت ایک محصور علاقہ ہے۔ 40کلومیٹر طویل اور10 کلومیٹر عریض۔ لاکھوں فلسطینیوں کو اسی مختصر سے رقبے میں دھکیل دیا گیا ہے۔ یہ آبادی تین اطراف سے دشمنوں سے اور ایک طرف سے’’دوستوں‘‘ سے گھری ہوئی ہے۔ ظلم، زیادتی، گرفتاری، جیل، تعذیب، تشدد، ناکہ بندی، بم باری، مکانوں کا انہدام، غرض کون سا حربہ ہے جو ان کے خلاف نہیں آزمایا گیا۔ ان پر فاسفورس بم تک برسائے گئے۔ شیخ احمد یاسین، عبدالعزیز رنتیسی اور اس طرح کے چوٹی کے فلسطینی دانش ور اور راہ نما شہید کردیے گئے، مگر وہ صہیونیوں کے سامنے ہتھیار ڈالنے سے انکاری ہیں اور ان کے غیرمتزلزل عزم جہاد و مزاحمت میں کمی نہیں آئی۔ آخر کیوں؟ اس لیے کہ ان کا ایمان سلامت ہے۔ اس کے برعکس 57 سے زائد مسلم ملکوں کے حکمران الا ماشا اللہ صہیونیوں اور امریکیوں کے سامنے جھک چکے ہیں بلکہ لیٹ چکے ہیں، یا پھر کچھ بک چکے ہیں۔ یہ حکمران خصوصاً مسلم بادشاہتیں پسپائی اختیار کرچکی ہیں۔ کیوں؟ اس لیے کہ ان کا ایمان کمزور ہے۔ علامہ اقبال کی چشمِ بصیرت نے پون صدی پہلے فلسطینیوں کو خبردار کیا تھا کہ عرب بادشاہتوں پر ہرگز اعتماد نہ کریں، کیونکہ یہ بادشاہ لوگ مسئلہ فلسطین پر کوئی آزادانہ فیصلہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ پون صدی، اقبال کی بصیرت پر گواہی دے رہی ہے۔
یہ بات تو طے ہے کہ جہاد کے بغیر فلسطین کی آزادی ممکن نہیں۔ ’’جہاد‘‘ سے مراد ہے: ہر طرح کا جہاد۔ موجودہ صورتِ حال میں مسلح مزاحمت کے علاوہ بڑے پیمانے پر مسیحی دنیا کو مسئلے کی صحیح نوعیت سمجھانے کی ضرورت ہے۔ حکومتی اور غیر حکومتی وفود، یورپ اور امریکہ کے دورے کرکے وہاں کے مختلف طبقوں کو صحیح صورتِ حال سے آگاہ کریں۔ ایک مختصر تحریر (کتابچہ) پرنٹ میڈیا اور سوشل میڈیا کے ذریعے وسیع پیمانے پر پھیلائی جائے۔ اس طرح کی تدابیر سے مسئلہ حل ہوگا اِن شاءاللہ۔
اور آخر میں، صرف فلسطینیوں کے لیے ہی نہیں، عالمِ اسلام کی تمام اقوام کے لیے، وہ کشمیری ہوں یا افغانی، عراقی ہوں یا شیشانی، اقبال کا پیغام یہ ہے کہ ؎
آسماں ہو گا سحر کے نور سے آئینہ پوش
اور ظلمت رات کی سیماب پا ہو جائے گی
دنیا میں کتنی ہی قومیں ظلمت ِشب کی گریز پائی اور نورِ سحر کے طلوع کا مشاہدہ کر چکی ہیں۔ علامہ اقبال کی بات پر یقین کرنا چاہیے کہ:
شب گریزاں ہو گی آخر جلوۂ خورشید سے
یہ چمن معمور ہو گا نغمۂ توحید سے