خود کو عقل و دانش کا گہوارہ سمجھنے والا، خودپسند، خوشامد پسند، عقلِ کُل کا مالک ایک بادشاہ تھا۔ جب کہ اس کا وزیر باتدبیر پڑھا لکھا، تحمل مزاج اور سمجھ دار تھا۔ ایک دن چھری کانٹے کے ساتھ پھل کھاتے ہوئے بادشاہ سلامت کی انگلی زخمی ہوگئی۔ دلیر بادشاہ سلامت اپنا خون بہتا ہوا دیکھ کر پریشان ہوگیا۔ وزیر نے کہا: ’’ظل الٰہی فکر کی کوئی بات نہیں، اس میں بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی حکمت پوشیدہ ہوگی‘‘۔
نازک مزاج بادشاہ سلامت چلاّ اٹھے: ”میری انگلی کٹ گئی ہے اور اسے اس میں کوئی بہتری نظر آرہی ہے! داروغہ… داروغہ… اسے جیل میں ڈال دو“۔ وزیر کو جیل میں ڈالنے لگے تو وہ بولا: ’’اس میں بھی میری کوئی بہتری ہوگی‘‘۔ کچھ دنوں بعد بادشاہ کی انگلی ٹھیک ہوگئی۔ وزیر ابھی تک جیل میں ہی تھا۔
بادشاہ سلامت ایک دن اکیلے ہی جنگل کی طرف نکل گئے۔ واپسی پر راستہ بھٹک گئے اور کسی دوسرے علاقے میں پہنچ گئے۔ وہاں کے وحشی لوگ بادشاہ سلامت کو پکڑ کر اپنے سردار کے پاس لے گئے۔ سردار نے کہا: ’’اسے کمرے میں بند کردو، ہفتے کے دن اس کی قربانی ہوگی‘‘۔ مقررہ دن بادشاہ سلامت کو جب قربانی کے لیے چبوترے کی طرف لے کر جارہے تھے تو ان کے مذہبی پروہت کی نظر اس کی انگلی پر پڑی جہاں اسے کٹ کا نشان نظر آیا۔ پروہت نے جنگلیوں کے سردار کو مخاطب کرکے کہا: ’’سردار اس کی قربانی نہیں ہوسکتی کیونکہ یہ داغی ہے‘‘۔ اُس وقت نہ صرف بادشاہ کو آزاد کردیا گیا بلکہ بادشاہ کو وہ وحشی لوگ ملک کی سرحد تک چھوڑ گئے۔ جب بادشاہ محل میں پہنچا تو اس نے فوراً وزیر باتدبیر کو رہا کردیا اور کہنے لگا: ’’تم ٹھیک کہتے تھے کہ انگلی کے کٹنے میں اللہ کی طرف سے کوئی حکمت پوشیدہ ہوگی۔ زخم کے اس داغ کی وجہ سے میری جان بچ گئی‘‘۔ وزیر بولا: ’’بادشاہ سلامت آپ کی تو جان بچی انگلی کٹنے سے، میری جان بچی مجھے جیل میں ڈالے جانے سے، خدانخواستہ میں آپ کے ساتھ ہوتا تو وہ لوگ میری قربانی کردیتے‘‘۔ دونوں کی زبان سے بے اختیار نکلا ”سچ ہے اللہ تعالیٰ کے ہر کام میں حکمت پوشیدہ ہوتی ہے۔“
درسِ حیات: اللہ تعالیٰ کے ہر حکم میں حکمت پوشیدہ ہوتی ہے۔
(مولانا جلال الدین رومیؒ۔ ”حکایاتِ رومیؒ“)