میرؔ کا دل گُم شُدہ تھا، غالبؔ کا گُم گَشتہ
یہ ہفتۂ رفتہ کی بات ہے، ایک ادبی و لسانی اصلاحی محفل سے ہمیں حکم ہوا:
’’جج بن جائیے‘‘۔
ہم نے جھٹ ہاتھ جوڑ دیے، یعنی دست بستہ معذرت کی:
’’صاحب! ایسی بات نہ کیجیے، لوگ عدو ہوجاتے ہیں۔ آج کل تو جیل جانے سے زیادہ ڈر جج بننے سے لگتا ہے ۔ ابھی جج بنے نہیں کہ کارکنانِ قضا و قدر کے ہاتھوں لُولُو بنے۔ دھڑکا ہی لگا رہتا ہے،کہیں ایسا نہ ہو کہ مزید بنانے کی خاطر کوئی نجی گفتگو فیتہ بند کرلے، کوئی نجی ملاقات عکس بند کرلے، کوئی دستار میں رکھ لے، کوئی زیبِ گُلو کرلے،… نابابا نا … ہم نہیں بنتے جج‘‘۔
حکم دینے والے سلیم فاروقی صاحب تھے اورمذکورہ محفل اُن کی’اصلاحِ اُردو محفل‘ تھی، جس کے سیکڑوں شرکاء ہیں۔ اس محفل میں بحث یہ چل رہی تھی کہ ’گُم شدہ‘ اور ’گُم گشتہ‘ میں معنوی اعتبار سے کیا فرق ہے؟ بحث طول پکڑ گئی تو سرکار سے ثالث بننے کا حکم صادر ہوا۔
آج کل کے ثالث حضرات انصاف کا پیمانہ اسے گردانتے ہیں کہ فریقین میں سے کوئی خفا ہوکر خوفناک نہ بننے پائے۔ (یاد آیا کہ ہمارے ذرائع ابلاغ ’فریقین‘ کے لفظ کو ’دو فریقوں‘ کے بجائے آج کل تمام فریقوں پر چسپاں کررہے ہیں: ’عدالت نے تمام فریقین کو طلب کرلیا ہے‘۔ وغیرہ۔ خیر یہ مسئلہ پھر سہی) ہر فریق کو راضی رکھنے کی کوشش پر ایک دلچسپ قصہ یاد آگیا، پہلے یہ قصہ سن لیجیے۔
ہوا یہ کہ ایک دن میراجیؔ ایک مے کدے میں داخل ہوئے تو انھیں دیکھتے ہی شور مچ گیا:
’’میراجیؔ کو حَکَم بنالو…میراجیؔ کو حَکَم بنالو‘‘
معلوم ہوا کہ نشے میں دھت شاعروں کے دو گروہ بن گئے ہیں۔ ایک گروہ کا کہنا تھا کہ مصطفیٰ خان شیفتہؔ مرزا غالبؔ کے شاگرد تھے، جب کہ دوسرے گروہ کا اصرار تھا کہ نہیں، شیفتہؔ تو میر تقی میرؔ کے شاگرد تھے۔ میرا جیؔ نے دونوں گروہوں کے تیور دیکھے۔ نشے کی انتہا پر پہنچے ہوئے فریقین مرنے مارنے پر تُلے ہوئے تھے۔ میراجیؔ کوجان خطرے میں نظر آئی، لہٰذا انھوں نے ثالثی کا رائج الوقت اُصول اپنایا کہ دونوں کو قصور وار ٹھیراؤ یا دونوں کو درست قرار دو۔ سو، میراجیؔ نے دوسرا راستہ اختیار کیا اور بڑے وثوق سے کہا:
’’مصطفیٰ خان شیفتہؔ دونوں کے شاگرد تھے‘‘۔
اب تو دونوں ہی گروہ اُن پر پِل پڑے:
’’جھوٹے ہو، بدمعاش ہو، مکار ہو۔ منافقت کرتے ہو؟ اس دعوے کی دلیل لاؤ‘‘۔
میراجیؔ نے ہاتھ پاؤں چلا کر دونوں کی دست بُرد سے بچنے کی کوشش کرتے ہوئے واویلا کیا:
’’سنوتو سہی… سنوتو سہی… میں دعوے کی دلیل دے رہا ہوں‘‘۔
فریقین نے ہاتھ روک لیے۔ میراجیؔ نے دلیل دیتے ہوئے کہا: ’’میں ہی نہیں کہتا، خود غالبؔ نے بھی اعتراف کیا ہے کہ:
شیفتہؔ کے تمہیں اُستاد نہیں ہو غالبؔ
کہتے ہیں اگلے زمانے میں کوئی میرؔ بھی تھا‘‘
شعر پڑھتے ہی وہاں سے سرپٹ بھاگے۔
اب آئیے گم شدگان و گم گشتگان کی طرف۔ ’شُد‘ فارسی میں فعلِ ماضی ہے۔ اس کا مطلب ہے ’ہوگیا‘ یا ’ہوچکا‘۔ یعنی گزرا ہوا۔ ’ختم شُد‘ اور ’ہلاک شُدگان‘ جیسی تراکیب کا استعمال اُردو میں عام ہے۔ اس کا مصدر ’شُدن‘ ہے، یعنی ہونا۔ وہ جو کہتے ہیں کہ ’ہونے والی بات تھی ہوگئی‘ تو ہونے والی کو ’شُدنی‘ کہا جاتا ہے۔ وہ مصیبت جو قسمت میں لکھی تھی یا وہ بلا جو اچانک نازل ہوگئی۔ جو ’ہونی‘ نہیں ہونی چاہیے تھی یعنی جس کا نہ ہونا بہتر تھا اُسے ’ناشُدنی‘ کہتے ہیں۔ کوئی بات ’ہوتے ہوتے‘ اتنی عام ہوجائے کہ حکمرانوں کے کانوں تک بھی پہنچ جائے تو کہا جاتا ہے کہ ’شُدہ شُدہ‘ یہ بات وزیراعظم تک پہنچ گئی۔ معمولی علم کو ’شُد بُد‘ کہا جاتا ہے۔ اس لحاظ سے ’گُم شدہ‘ کا مطلب ہے: کھویا ہوا، بھولا ہوا، بھٹکا ہوا، بھاگا ہوا، حواس باختہ وغیرہ۔ دراصل لفظ ’گُم‘ کے اور بھی بہت سے معانی ہیں مثلاً مفقود، ضائع، پوشیدہ، نظروں سے غائب وغیرہ۔ اسی سے اسم کیفیت ’گم شُدگی‘ بنا جسے ’گمشدگی‘ لکھا گیا۔ غرض ’گم شدہ‘ وہ چیز ہے جو کھوئی گئی ہو۔ میرؔ کہتے ہیں:
خاک تک کوچۂ دلدار کی چھانی ہم نے
جستجو کی پہ دلِ گم شدہ پایا نہ گیا
افسرؔ الٰہ آبادی کا شعر ہے:
مجھے گم شدہ دل کا غم ہے تو یہ ہے
کہ اس میں بھری تھی محبت کسی کی
’گَشتن‘ فارسی مصدر ہے۔ اس کے معنی ہیں گھومنا پھرنا، سیر کرنا، چہل قدمی کرنا، دورہ کرنا، چکر لگانا، یا پھیرا کرنا۔ اس سے اسم بنا ’گشت‘ جو ہمارے ہاں خوب کیا جاتا ہے۔ بلکہ پولیس تو فقط یہی کرتی رہتی ہے۔ ملکِ فارس میں لوگ ’گُل گشت‘ کرتے ہیں، اپنے ہاں ’مٹر گشت‘ بھی کیا جاتا ہے۔ ملتان کے گُل گشتوں نے تو اس کام کے لیے شہر کا ایک علاقہ مختص کردیا ہے، جس کا یہی نام ہے۔ گُل گشت کا مطلب ہے سیرِ گُل یا سیر گلستاں۔ مٹر گشت شاید مٹر کے کھیت میں جاکر کرتے ہوں گے۔ جو چیز متحرک (Mobile) ہو ہمارے لوگ ہر ایسی چیز کو ’گشتی‘ قرار دیتے ہیں، مثلاً گشتی شفاخانہ، گشتی کتب خانہ، یا گشتی بجلی گھر۔کسی محکمے کے ملازمین یا کسی ادارے کے عملے میں گردش کرنے والے جس حکم نامے کو انگریزی میں Circularکہا جاتا ہے، اُسے اردو میں ’گشتی مراسلہ‘ کہتے ہیں۔ زندہ دلانِ پنجاب تو طوائفوں کو بھی ’گشتی‘ ہی کے نام سے پکارتے ہیں، خواہ وہ اُن کی پکار سنیں یا نہ سنیں۔
’گَشتہ‘ کے لفظی معانی ہیں: پھرا ہوا، اُلٹا ہوا، بدلا ہوا وغیرہ۔ ’برگشتہ‘ منحرف شخص یا رُوگردانی کرنے والے کو کہتے ہیں، اور ’سرگشتہ‘ سرپھرے یا بہکے ہوئے شخص کو۔ اس لحاظ سے ’گُم گَشتہ‘ کے معنی ہوئے وہ شے جسے خود کھو دیا گیا ہو، گم کردیا گیا ہو، پلٹ دیا گیا ہو، یا پھرا دیا گیا ہو۔ مثلاً وہ شان و شوکت جسے مسلمان خود اپنے ہاتھوں ضائع کر بیٹھے۔ میرؔ، کہ خود بدولت کو عشق کی گلیوں میں گم رکھتے تھے، فرماتے ہیں:
میرؔ گم گشتہ کا ملنا اتفاقی امر ہے
جب کبھو پایا ہے خواہش مند پایا ہے بہت
غالبؔجس دلدار کے کوچے میں اپنا دل گم کر کے آگئے تھے، ایک دن اُسی کو یہ خیالی پیغام بھیجتے ہوئے پائے گئے:
پھر ترے کوچے کو جاتا ہے خیال
دلِ گم گشتہ مگر یاد آیا
گویا ’گُم شدہ‘ چیز وہ ہے جو اتفاق یا قضائے الٰہی سے کھو جائے۔ جب کہ ’گم گشتہ‘ شے اپنی ہی کوتاہی، نااہلی، خطا یا غلطی سے جاتی رہتی ہے۔ اب دیکھیے! منع کرنے کے باوجود ’’شجرممنوعہ‘ کا پھل چکھ لینے پر جنت ہاتھ سے نکل گئی۔ اسی وجہ سے وہ ’فردوسِ گم گشتہ‘ کہی جاتی ہے ’گم شدہ‘ نہیں۔ ’گم گشتہ‘ کی ترکیب فصحا ہمیشہ ’گم کردہ‘ یعنی ’گم کیا ہوا‘ کے معنوں میں استعمال کرتے رہے ہیں۔ (باقی صفحہ41پر)
یہ دونوں تراجم اشعار میں بھی ملتے ہیں۔ مثلاً امتِ مسلمہ نے اپنے ہاتھوں اپنی جو شناخت گم کردی، اُس کی بازیافت کی توقع مولانا نعیم صدیقی یوں کرتے ہیں:
ہوا میری خودی کے امتحاں کا اہتمام آخر
ملے گا خود شناسائی کا گم کردہ مقام آخر
اس شعر میں اگر ’گم کردہ‘ کی جگہ ’گم گشتہ‘ پڑھا جائے تب بھی وزن میں فرق پڑے گا نہ معنی میں۔ غالبؔ کہتے ہیں:
غنچہ پھر لگا کھلنے آج ہم نے اپنا دل
خوں کیا ہوا دیکھا گم کیا ہوا پایا
یہی ’گم کیا ہوا‘ فارسی ترکیب میں’گم کردہ‘ اور ’گم گشتہ‘ ہے۔