عید کے تہوار میں عجب سحر ہے، اپنے اندر ہمیشہ خوشیاں، مستیاں اور عجب کیف و سرور لے کر آتا ہے۔ لیکن گزشتہ سال سے کورونا کی وجہ سے عید کو گہن سا لگ گیا ہے۔ عیدالفطر کے دوران کتابوں اور موبائل سے دل بہلاتے رہے لیکن ایک عجیب سی سوگواری طاری ہے۔ پورے ماحول سے اداسی ٹپک رہی ہے۔ اسی دوران ماضی کی عیدوں کا خیال آیا تو ذہن کے دریچے کھلتے چلے گئے، اور ہر دریچہ اپنے اندر بہت سی یادیں سموئے ہوئے تھا۔ یادیں ہی تو ہیں جو ہمارے ساتھ رہتی ہیں۔ کبھی ہنساتی اور کبھی رلاتی ہیں، جبکہ وقت تو تیزی سے گزر جاتا ہے۔
اپنے بچپن کی عیدیں یاد کرتے ہیں تو ایک کے بعد ایک یادیں سامنے سے گزرتی چلی جاتی ہیں۔
ہمارے بچپن کی عید بھی کیا عید ہوا کرتی تھی۔ ہم کراچی کے جس علاقے میں رہتے تھے، وہاں ہمارے تایا، چچا اور دیگر رشتے دار ایک ہی گلی میں رہتے تھے۔ عموماً چاند نظر آنے کا اعلان ریڈیو پر ہوتا، کیونکہ اُس زمانے میں ٹی وی نہ تھا۔ چاند نظر آنے کی خبر آناً فاناً پھیل جاتی تھی۔ شاید میں نے چار پانچ سال کی عمر میں عید کی نماز پڑھنی شروع کی تھی۔ میرے ابو کے تین بھائی اور تھے، ان سے بڑے دو بھائی، جن میں سب سے بڑے کو میں بڑے ابا کہتا، جن کا نام غلام محمد خان تھا، گورے چٹے۔ چونکہ وہ لوگ لکھنؤ سے ہجرت کرکے آئے تھے، اس لیے سفید کرتے پاجامے پر وہ لکھنوی ٹوپی پہنتے تو بہت اچھے لگتے۔ کپڑوں کا ذکر چل نکلا ہے تو یہ بات یاد آئی کہ چونکہ ملک نیا نیا آزاد ہوا تھا، اس لیے اُس زمانے میں لوگوں پر انگریزوں کے اثرات زیادہ تھے اور وہ کرتے پاجامے سے زیادہ پینٹ شرٹ کو اہمیت دیتے تھے، اور عید پر بھی کرتے پاجامے کے بجائے پینٹ شرٹ بنواتے تھے۔ ریڈی میڈ کپڑوں کا اُس دور میں رواج نہ تھا۔
مجھے اس ابتدائی زمانے کی تفصیلی باتیں تو یاد نہیں، ہاں اتنا یاد ہے کہ عیدگاہ گھر سے زیادہ دور نہ تھی۔ عید کی نماز کے بعد جب دعا ہوتی اور جب نمازی یک آواز ہوکر آمین کہتے تو دل پر عجیب سی کیفیت طاری ہوجاتی۔ اس کے بعد جب سب عید ملتے تو مجھے دونوں ہاتھوں سے اٹھاکر اپنے گلے سے لگاتے اور چومتے تھے۔ میری اہمیت کی ایک وجہ یہ تھی کہ ان چاروں بھائیوں میں مَیں ہی پہلی اولاد تھا۔
نماز عید کے بعد جب ہم اپنے گھروں کو واپس ہوتے تو بہت سے لوگوں کا ہجوم دیکھ کر بہت اچھا لگتا۔ میری فرمائش کے بغیر کبھی بڑے ابا اور کبھی منجھلے ابا مجھے غبارے دلا دیتے، اور رنگ برنگے غبارے دیکھ کر مجھے یوں لگتا کہ جیسے دنیا جہان کی خوشیاں مل گئی ہوں۔ بڑے ابا غبارے کا دھاگہ میری انگلی میں لپیٹ دیتے کہ کہیں غبارہ اُڑ نہ جائے۔ جب میں چار پانچ سال کا تھا تو عید مارچ کے مہینے میں ہوتی تھی اور اُس زمانے میں کراچی میں سخت سردیاں پڑا کرتی تھیں، اور اپریل کے مہینے تک موسم خوشگوار رہتا تھا، بلکہ کراچی میں گرمیوں کے مہینے میں بھی سخت گرمی نہیں پڑتی تھی، بلکہ موسم معتدل رہتا تھا اور ساحل کی ٹھنڈی ہوائیں شہریوں کو اپنی جانب بلاتی تھیں، اور لوگ عید کی شام اپنے دوستوں اور اہلِ خانہ کے ساتھ کلفٹن بھی جایا کرتے تھے۔ اُس زمانے میں بہت سے لوگ عید کے تینوں دن سنیما جایا کرتے تھے، ہمارے والدِ محترم کبھی نہیں گئے۔
عید کی نماز کے بعد گھر آتے تو پہلے سب لوگ دادی کے پاس جاتے۔ یوں تو ہم لوگوں کے گھر الگ تھے لیکن چھوٹے چھوٹے دروازوں کے ذریعے وہ آپس میں ملے ہوئے تھے۔ میری دادی بہت شفقت سے گلے ملتیں۔ میرے دادا کا انتقال تو اُس وقت ہوگیا تھا، جب میرے ابو کا بچپن تھا۔ میری دادی کا انتقال ہوا تو میری عمر نو سال تھی۔ عید کے دن میری دادی لکھنؤ کا روایتی قسم کا لباس زیب تن کرتیں، جو زیادہ تر سفید رنگ کا ہوتا۔ ان کی رنگت بھی گوری تھی، اس لیے وہ بہت اچھی لگتی تھیں۔
وہاں سے فارغ ہوکرمیری امی مجھ سے عید ملتیں۔ بڑے ابا، منجھلے ابا، چچا اور چھمن بھائی ہمارے گھر ہی آجاتے اور ان سب کے ساتھ میں بھی شیرخرما کھایا کرتا۔ اُس وقت مجھ سے چھوٹی بہن تھی اور ایک بھائی شکیل چند ماہ کا ہوگا۔ شیر خرما کھانے کے بعد عید ی دی جاتی۔ مجھے سب ایک ایک روپیہ یا آٹھ آنے عیدی دیتے تھے۔ عید کے موقع پر نو دس روپے عیدی جمع ہوجانا بہت بڑی بات تھی، کیونکہ ایک روپے میں سولہ نان ملا کرتی تھیں، اور ہمیں ملنے والی عیدی ختم نہیں ہوتی تھی۔ اس کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ سستا زمانہ تھا، دوسرے یہ کہ بچوں کے کھانے پینے کی زیادہ چیزیں نہ تھیں۔ منا بسکٹ اور گائے والی ٹافی کے علاوہ قلفی یا بنگالی کی چھوٹی سی ہاتھ گاڑی میں شیشے کے مختلف مرتبانوں یا برنیوں میں رنگارنگ مچھلیاں اور مختلف اقسام کے چٹ پٹے چورن ہوا کرتے تھے، جن کا مزا آج تک یاد ہے۔
اس کے علاوہ دوپہر سے پہلے پہلے گلی کے کونے پر چھوٹے سے میدان میں جھولے والے آجاتے۔ لکڑی کے گول گھومنے اور اوپر سے نیچے گھومنے والے جھولے… جس پر مختلف رنگ کیے گئے ہوتے تھے۔ گلیوں میں اونٹ والے اونٹ کی سیر کرانے آجاتے۔ دوپہر تک عیدی کے بہت سے پیسے خرچ ہوجاتے لیکن پھر بھی اچھی خاصی رقم بچ جاتی، جو ہماری امی حفاظت سے رکھنے کے بہانے لے لیتی تھیں اور پھر ہمیں وہ پیسے واپس نہیں ملتے تھے، اور نہ ہی ہم انہیں واپس لینے کا مطالبہ کرتے، بلکہ بھول ہی جاتے تھے۔
جب میں بارہ تیرہ سال کا تھا تو عیدیں سخت سردیوں میں آنے لگی تھیں… سخت کڑاکے دار سردیوں میں۔ جیسا کہ میں نے پہلے کہا کہ کراچی میں اُس زمانے میں شدید سردی پڑا کرتی تھی، اب موسم کے تغیرات کی وجہ سے کراچی میں بھی اتنی سردی نہیں پڑتی۔ اس وقت تک ہمارے بہن بھائی ماشاء اللہ پانچ ہوچکے تھے۔ میں عمر میں سب سے بڑا تھا اور پرانے محلے میں آخری عید 11 دسمبر 1969ء کو منائی تھی۔ اسی طرح اپنے تایاؤں اور چچا کے ساتھ عید کی نماز پڑھنے عیدگا ہ گئے۔ لیکن اب میرے ساتھ میرے دو بھائی یعنی شکیل اور شمیم بھی تھے۔ علی میاں نے بہت ضد کی، لیکن چونکہ وہ صرف دوسال کے تھے، اس لیے انہیں چھوڑ کر ہم عیدگاہ چلے گئے۔
14جنوری 1969ء کو ہم شریف آباد فیڈرل بی ایریا میں اپنے نئے گھر میں شفٹ ہوگئے۔ ہمارے ابو نے دوسو مربع گز پر بہت خوبصورت سنگل اسٹوری گھر بنوایا تھا۔ ہمارا گھر لبِ سڑک تھا اور ہر گھر کے آگے سنبل کے درخت لگے تھے، اس پر سرخ پھول آتے، اور حیرت ہوتی ہے پتّا ایک بھی نہیں اور پھول لاتعداد ہوتے۔ یہ پھول تازگی کا احساس دلاتے تو فضا اور بھی اچھی لگتی۔ شاخ سے ٹوٹ کرگرتے تو دھرتی کو زیورِگل سے معطرکردیتے۔ ہمارے گھر کے سامنے ہی غریب آباد کی بستی تھی، اسے دیکھ کر اپنے محلے پر نظر ڈالتے تو اور اچھا لگتا۔ گھر سے تھوڑے فاصلے پر ریلوے کراسنگ تھی، جہاں سے سرکلر ٹرین گزرا کرتی تھی۔ جب وہ گزرتی تو انجن کی سیٹی اور ٹرین کی آواز سے ہمارے ننھے ننھے دل لرز جاتے تھے۔ چونکہ اُس زمانے میں لوگوں کو گاڑیاں اور موٹرسائیکلیں خریدنے کا جنون سوار نہیں ہوا تھا اس لیے سڑکوں پر رش برائے نام ہوا کرتا تھا، اور کراچی کی آبادی اُس وقت ویسے بھی کم تھی، کراچی اُس وقت بھی پورے ملک کا سب سے بڑا شہر تھا لیکن اُس وقت تک میگا سٹی نہیں بنا تھا۔
ہمارے گھر کے سامنے اور غریب آباد کے درمیان اُس وقت سنگل سڑک تھی اور آگے جاکر بائیں جانب نہیں مڑتی تھی، کیونکہ اُس وقت تک حسن اسکوائر جانے والی سڑک تعمیر نہیں ہوئی تھی، کیونکہ نہ حسن اسکوائر تھا، نہ گلشن اقبال۔ البتہ دائیں طرف ضرور مڑتی تھی کیونکہ وہیں سے لیاقت آباد اور ناظم آباد راستہ جاتا تھا۔
شریف آباد کے گھر میں منتقل ہونے کے بعد پہلی عید 30 نومبر 1970ء کو ہوئی تھی۔ اس مرتبہ عید کا رنگ ہی نرالا تھا، ایک تو اپنے نئے گھر میں منتقل ہونے کا نشہ ابھی تک برقرار تھا، پھر سردیاں تھیں اور سردیوں کے رمضان کی سحریاں ہم نے اپنے کچن کے اندر ہی کی تھیں۔ کیونکہ ویسے تو ہم پانچ بہن بھائی اور والدین تھے، لیکن ایک ہی کچن میں سما جاتے تھے۔ اس کی وجہ ہماری کم عمری تھی۔
نئے گھر میں پہلی عید ہوئی تو نماز ہم نے شریف آباد ریلوے گراؤنڈ میں پڑھی۔ ماضی میں میرے ابو کے بھائی عید کی نماز میں شریک ہوا کرتے تھے، اب فرق یہ آیا کہ ہم تینوں بھائی اپنے ابو کے ساتھ نماز پڑھنے گئے۔ نماز پڑھ کر گھر آئے تو ابو مجھے لے کر اپنے پرانے محلے چلے گئے، وہاں ہم اپنے بڑے ابا، پھوپھی اماں، منجھلے ابا اور چچا کے علاوہ اپنے نانا نانی سے ملے۔ وہاں سے واپس آئے تو ہمارے بہن بھائی پچھلی گلی میں اونٹ کی سواری کررہے تھے۔
عید کے موقع پر دوسرے محلّوں سے ہمارے رشتے دار ملنے آنے لگے۔ جب سب جمع ہوتے تو بہت مزا آتا تھا۔ اپنے ہم عمر کزنز کے ساتھ خوب کھیلتے اور عید کے مزے لیتے۔ اُس زمانے میں ٹیلی ویژن نیا نیا آیا تھا، اس کی نشریات کو سب بہت دلچسپی سے دیکھا کرتے تھے اور عید کی نشریات میں سب ہی کھوجاتے، خاص طورپر پی ٹی وی پر پاکستانی فلم دیکھ کر سب کی عید دوبالا ہوجاتی تھی۔
اگلے سال یعنی 1971ء میں عیدالفطر 20نومبر کو ہوئی تھی، چند روز بعد ہی خوفناک پاک بھارت جنگ شروع ہوئی جس میں ہمارا وطن دولخت ہوا۔ اس کے بعد عید 8 نومبر 1972کو آئی، جب مشرقی پاکستان ہم سے الگ ہوکر بنگلہ دیش بن چکا تھا اور تمام محب وطن پاکستانیوں کے دل خون کے آنسو رو رہے تھے۔
اب ایک اور تبدیلی بھی آئی تھی، وہ یہ کہ میں میٹرک میں آگیا تھا اور میرے دوست بھی بن گئے تھے۔ میرے ابو نے اس حوالے سے میری حوصلہ افزائی کی کہ اچھے دوست بناؤ۔ چنانچہ ابوالکلام، غلام محمد گبول اور مقصود میرے اسکول کے دوست تھے۔ ان میں مقصود تو شریف آباد ہی میں رہتا تھا۔ اس سے عید ملنے جاتے اور کبھی اس کے مشورے پر عید کے دوسرے یا تیسرے دن کلفٹن یا منوڑا کی سیر کرنے جایا کرتے تھے۔
عید کا ذکر چلا تو یادوں کے صفحات پلٹتے ہی چلے جارہے ہیں۔ یوں تورمضان ہر سال آتے ہیں، مگر 1977ء کے رمضان شاید ساری عمر یاد رہیں گے۔ کیونکہ اُس سال صدر جنرل ضیاء الحق کے حکم پر تمام ریستوران اور چائے خانے پورے رمضان بند رہے۔ پہلے رمضانوں میں ریستوران کھلے رہتے تھے، ان پر پردے لٹکا دئیے جاتے تھے۔ لیکن جنرل ضیاء نے احترامِ رمضان آرڈیننس کے تحت رمضان کو صحیح معنوں میں رمضان بنا دیا۔ اگرچہ جنرل ضیاء کی حکومت غیر قانونی تھی، یعنی انہوں نے جمہوری حکومت کو برطرف کرکے مارشل لا نافذ کیا تھا، لیکن اسلامی حوالے سے بہت اچھے کام کیے۔ خاص طور پر ہر کارخانے اور دفتر میں مساجد یا نماز کی جگہ بنانے کا لازمی حکم بھی جاری ہوا، جس کی وجہ سے اُن نمازیوں کو سہولت ہوگئی جو پہلے کونوں کھدروں میں شرمندگی کے ساتھ نماز پڑھتے تھے، اور ان کے اپنے کلمہ گو ساتھی نماز پڑھنے پر ان کا مذاق اڑایا کرتے تھے اور ملاّ کی پھبتی کستے تھے۔
اسی سال بھٹو صاحب کے سیاہ دور کا خاتمہ ہوا، لیکن مارشل لا کے سیاہ ترین دور کا آغاز ہوا۔ اگر بھٹو صاحب مارچ 1977ء کے انتخابات میں تاریخی دھاندلی نہ کرتے اور اس کے بعد عوامی احتجاج کو طاقت سے نہ کچلتے اور پھر حزبِ اختلاف کے پاکستان قومی اتحاد سے سنجیدگی کے ساتھ مذاکرات کرلیتے تو جمہوریت کا تسلسل نہ ٹوٹتا۔ بہرحال 16 ستمبرکو عیدالفطر تھی۔ ہم لوگ ہر سال اپنا فیملی گروپ فوٹوکھنچوانے فوٹو اسٹوڈیو جایا کرتے تھے۔ اس مرتبہ بھی گئے۔ صبح پروفیسر غفور سے عید ملنے گئے، اس کے بعد رشتے داروں اور دوستوں سے ملنے گئے۔
یوں تو ہر سال عید پر کچھ نہ کچھ خاص ہوتا ہی رہا، لیکن طوالت سے بچنے کے لیے20 جون 1985ء کی عید کا ذکر کرتے ہیں۔ اس عید تک زندگی نے پھر ایک کروٹ لی تھی، ہم بہن بھائی بچپن کی حدود سے نکل کر جوان ہوچکے تھے۔ پہلے چھوٹی بہن اور اس کے ایک سال بعد میری شادی ہوچکی تھی۔ اُس وقت تک میں جامعہ کراچی سے ایم اے صحافت (جسے اب ماس کمیونیکیشن کہتے ہیں) میں کامیابی حاصل کرکے حصولِ علم مکمل کرچکا تھا۔ اس کے بعد روزنامہ جنگ اور روزنامہ جسارت میں نیوز رپورٹر کے طور پر کام کرنے کے بعد1985 ء کی عید سے ایک ہفتے قبل ہی پاکستان ٹیلی ویژن میں نیوز پروڈیوسر رپورٹر کی حیثیت سے جوائننگ دے چکا تھا۔ ماضی کی طرح اس سال بھی ہم نے شریف آباد کے ریلوے گراؤنڈ میں اپنے ابو اور بھائیوں کے ہمراہ نماز پڑھی۔ رشتے داروں اور دوستوں سے عید ملی۔
اب عید کی دعوت کا انداز بدل گیا تھا، عید کی دعوت ہوتی تھی، لیکن گزشتہ سال سے میری بہن کی دعوت ہونے لگی تھی، جس کی تین سال قبل شادی ہوئی تھی۔ عید کے اگلے دن میری سسرال میں میری عید کی پہلی دعوت تھی، انہوں نے میرے علاوہ کئی اور رشتے داروں کو بھی مدعو کیا تھا، جس سے لطف دوبالا ہوگیا، اور زندگی میں عید کے بدلتے ہوئے رنگوں میں سے وہ بھی ایک رنگ تھا، لیکن سب سے الگ، پُرکیف اور مسحورکن۔
زمانہ کروٹیں بدلتا رہتا ہے، اسی طرح عید کے رنگ بھی بدلتے رہتے ہیں۔ اب ذکر ہوجائے ایک افسردہ عید کا۔
16 اپریل 1991ء کی عیدالفطر بہت افسردہ تھی۔ چند ماہ قبل 4 جنوری کو ہمارے پیارے ابو کا انتقال ہوگیا تھا۔ اُس دن بوجھل قدموں کے ساتھ عیدگاہ گئے تھے، میرے ساتھ میرے بھائی تو تھے لیکن والدِ محترم نہ تھے۔ رشتے دار ملنے آتے رہے، میری امی سارا دن اداس رہیں اور ان کی آنکھیں اشکبار۔
اس کے بعد رفتہ رفتہ ہم سب بہن بھائیوں کی شادیاں ہوگئیں تو عید کا انداز ایک مرتبہ پھر تبدیل ہوا۔ اب عید کی دعوت میں دونوں بہنیں ہمارے شریف آباد والے گھر میں آتیں۔ اُس وقت تک گھر میں دوکچن بن گئے تھے۔ ایک وقت کا کھانا تمام بہن بھائی میری طرف کھاتے، امی میرے ساتھ ہی تھیں۔ جبکہ دوسرے وقت کے کھانے کے میزبان شمیم اور علی ہوتے۔
اب مجھے 25 اکتوبر 2006ء کی عید یاد آرہی ہے۔ اس عید کا انداز اس طرح جدا تھا کہ میرے بھائی اپنے بیٹوں کے ساتھ صبح ہی میرے گھر آگئے، ہم لوگوں نے ایک ساتھ عیدگاہ میں نمازِ عید ادا کی۔ مجھے اُس وقت اپنا بچپن یاد آگیا، جب میں اپنے تایا، چچا اور ابو کے ساتھ نمازِ عید ادا کرتا تھا، اور اب میرے بھائی اور ان کے بیٹے۔ یعنی اپنے والد، تایا اور چچا کی جگہ ہم لوگ لے چکے تھے اور ہماری جگہ ہمارے بیٹے، گویا شفٹ تبدیل ہوگئی تھی۔
دو سال بعد ہی ایک اداس اور غمگین عید آئی، یعنی یکم اکتوبر 2008ء کی عید۔ اسی سال 16جولائی کو امی ہمیشہ کے لیے ہمیں چھوڑ کر اپنے ربّ کے حضور چلی گئی تھیں اور ان کے بغیر زندگی بے معنی ہوکر رہ گئی تھی۔
8 اگست 2013ء کو عیدالفطر نے پھر ایک نیا موڑ لیا، یعنی ہم نے گلستان جوہر میں اپنے اپارٹمنٹ میں عید منائی، جسے 2012ء کے اواخر میں خریدا تھا۔ بہت عرصے بعد ہم چاروں بھائیوں نے نمازِ عید ایک ساتھ ادا کی، اپنے نئے اپارٹمنٹ کے قریب پارک سے ملحق سڑک پر۔
عیدالفطر میں 2015ء میں ایک اور موڑ آیا، چند ماہ قبل یعنی دسمبر 2014ء کو میرے منہ کے کینسر کا آپریشن ہوا اور 2015ء میں ریڈیو تھراپی، جس کے بعد تکلیفیں بڑھتی چلی گئیں۔ بہرحال 18 جولائی2015ء کو عید تھی، ہم چاروں بھائیوں نے ہر سال کی طرح عید کی نماز اکٹھے ادا کی، عید کے دوسرے دن ہمارے گھر تمام بہن بھائیوں کی دعوت تھی، بہت مزا آیا۔
7 جولائی 2016ء کی عید اپنے ساتھ بہت سی خوشیاں لائی تھی، اسی سال 4فروری کو میرے اکلوتے بچے شہروز کی شادی ہوئی تھی، اور پھر عید کے بعد میں نے شاہانہ کے ہمراہ فریضہ ٔ حج ادا کیا۔ اس سال بھی علی اپنی فیملی کے ساتھ عید منانے کراچی آئے اور ہم چاروں بھائیوں نے اپنے بیٹوں کے ہمراہ قریبی گراؤنڈ میں نمازِ عید ادا کی۔
15 جون 2018ء کو عیدالفطر ہوئی، میری اُس زمانے میں طبیعت بہت زیادہ خراب تھی، گردن میں زخم ہوگئے اور ان سے بہت زیادہ پیپ نکلنے لگی، جبکہ گال اور گردن میں 2017ء کے آخر سے شدید درد شروع ہوگیا تھا۔ بہت علاج کرایا، بس ایک غلطی یہ ہوگئی کہ 2018ء کے شروع میں لیاقت نیشنل اسپتال کے پین مینجمنٹ کے ڈاکٹر سے علاج کرالیا، اُس نے منشیات ملی خاص دوائیں دیں، جن سے درد میں تو بے پناہ کمی ہوئی لیکن صحت برباد ہوگئی اور ہر وقت سونے لگا۔ اس لیے عید کا پتا نہیں چلا۔
5 جون2019ء کی عیدالفطر نسبتاً بہت اچھی تھی، اپنے گھر کے قریب ہی نمازِ عید ادا کرلی۔ خوشی اس امر کی تھی کہ اس سال بیمار ہونے کے باوجود پورے روزے رکھے، اور دکھ اس بات کا کہ علی اپنی فیملی کے ہمراہ اس سال بھی عید منانے کراچی نہیں آسکا۔ گیارہ بجے صبح ادارۂ نورحق گئے اور جماعت اسلامی کے ساتھیوں سے عید ملے۔ شاہانہ کی خواہش پر عید کے اگلے دن یعنی 6 جون کو فیملی عید ڈنر رکھا، لیکن سچ تو یہ ہے کہ اب عید ڈنر رکھنے کی سکت اور ہمت نہیں رہی، صحت ساتھ نہیں دے رہی۔
24 مئی 2020ء کو عیدالفطر سخت گرمی میں آئی، اور اپنے اندر بہت سے ایسے دکھ سمیٹے ہوئے تھی جن کا کوئی مداوا نہ تھا۔ میری طبیعت بہت خراب تھی اور کورونا کی وجہ سے لاک ڈاؤن تھا، اس وجہ سے نہ تو عید کی نماز ادا کرسکے اور نہ ہی یہ یاد کہ مجھ سے ملنے کون کون آیا۔13مئی 2021ء کی عیدالفطر بھی کورونا کے لاک ڈاؤن کا شکار ہوگئی۔ گھر میں بند ہیں اور ماضی کی سہانی عیدوں کو یاد کررہے ہیں۔ ان دو عیدوں کے درمیان کورونا کی وبا سے بہت سے قریبی رشتے دار، دوست، احباب اور ساتھی اس جہانِ فانی سے کوچ کرگئے۔ اناللہ وانا الیہ راجعون۔
یہ بات تو درست ہے کہ مایوسی اور بوریت بڑھ گئی ہے اور عیدالفطر دن بدن اداسی میں تبدیل ہوتی جارہی ہے، لیکن اگر پورے انصاف اور دیانت داری کے ساتھ اپنی زندگی کا جائزہ لوں تو عید بلکہ زندگی کے زیادہ تر دن خوشگوار گزرے اور سہانی یادیں زندگی کا سرمایہ بنیں۔ فطری طور پر میں قنوطی یا مایوسی پسند نہیں بلکہ رجائیت اور خوش امید ہوں۔ اِن شاء اللہ آئندہ وقت بہتر ہوگا اور یہ وقت بھی گزر جائے گا۔
کچھ اور بڑھ گئے جو اندھیرے تو کیا ہوا
مایوس تو نہیں ہیں طلوعِ سحر سے ہم