فلسطین میں آج پھر کربلا کا منظر ہے، جمعۃ الوداع کے موقع پر قبلۂ اوّل کو مسلمانوں کے خون سے نہلایا گیا، اس کے بعد سے ہر طرح کے جدید ترین اسلحہ سے لیس اسرائیلی فوج سفاکی کی انتہا کیے ہوئے ہے، اور کسی روک ٹوک کے بغیر نہتے فلسطینیوں پر آتش و آہن کی بارش کرنے میں مصروف ہے۔ غزہ میں ڈھائی سو کے قریب ننھے منے معصوم بچے، بوڑھے اور عورتیں شہادت کی منزل کو پا چکے ہیں، جب کہ زخمیوں کی تعداد چھ ہزار تک پہنچ چکی ہے۔ پورا غزہ کھنڈر کا منظر پیش کررہا ہے۔ ظالم اسرائیل کے طیاروں کی شب و روز کی بم باری سے کوئی گھر محفوظ ہے نہ اسپتال اور نہ مدرسہ۔ بڑے بڑے میڈیا ہائوسز کے دفاتر بھی خاک کے ڈھیر بنادیے گئے ہیں مگر کسی میں جرأت نہیں کہ ظالم کا ہاتھ روک سکے، اس کی کلائی مروڑ سکے۔ اس کی زبانی مذمت بھی مہذب دنیا کے لیے محال ہوچکی ہے۔ انسانی حقوق کا چیمپئن امریکہ انتہائی ڈھٹائی سے اسرائیل کی پشت پر کھڑا ہے اور دھڑادھڑ اسرائیل کو جدید ترین اسلحہ فراہم کررہا ہے۔ دوسری جانب اقوام متحدہ اور اس کی سلامتی کونسل کو امریکہ نے اس طرح اپنی لونڈی بنا رکھا ہے کہ سلامتی کونسل کے تمام رکن ممالک مل کر بھی ایک بیان تک اسرائیل کی مذمت اور مظلوم فلسطینیوں کی حمایت میں جاری نہیں کرپائے۔ اس سلسلے میں تین بار مشترکہ بیان تیار کیا گیا، مگر امریکہ نے تینوں بار اسے ویٹو کردیا۔ اسلامی ممالک کی تنظیم او آئی سی نے بڑی مشکل سے ایک قرارداد منظور کی ہے، مگر ایسی کہ کسی عملی اقدام کا کہیں شائبہ تک نہیں، حتیٰ کہ اسرائیل کے بائیکاٹ کی دھمکی تک دینے کی ہمت یہ تنظیم نہیں کرسکی۔ پاکستان کی قومی اسمبلی نے بھی ایک متفقہ قرارداد منظور کی ہے جس میں آزاد اور خودمختار فلسطینی ریاست کے قیام اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے اسرائیلی جارحیت رکوانے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ حکومت نے فلسطینی بھائیوں کے ساتھ جمعہ کو یومِ یکجہتی منانے کا اعلان بھی کیا ہے، مگر سوال یہ ہے کہ ماضی میں فلسطین اور کشمیر کے مظلوموں کے حق میں منظور کی گئی ایسی قراردادوں کا حشر کیا ہوا؟ ماضی میں بھی کشمیری، فلسطینی اور دنیا کے دیگر مظلومین کے ساتھ ’’یومِ یکجہتی‘‘ منائے جاتے رہے… کیا کسی نے ان کا کوئی اثر قبول کیا…؟ فلسطین کی تحریک حماس… جس نے پتھروں اور غلیلوں سے مزاحمت کی وہ تاریخ رقم کی ہے کہ دنیا اس کی نظیر پیش کرنے سے قاصر ہے، اس حماس کے سربراہ نے دنیا کے نقشے پر موجود 57 مسلمان ممالک کی بے حمیتی اور یہود کے ظلم و سفاکی پر ان کی خاموشی کا ماتم کرتے ہوئے بجا طور پر ان کے ضمیروں کو جھنجھوڑنے کی کوشش کی ہے، اور پیشکش کی ہے کہ یہ ممالک اپنے اسلحہ کا صرف اور صرف دس فیصد ہمیں دے دیں اور اگلے روز آکر بیت المقدس میں نماز ادا کرلیں۔
یادش بخیر، چند برس قبل پاکستانی مسلح افواج کے سابق سالار جنرل (ر) راحیل شریف کی سربراہی میں چالیس مسلمان ممالک کی ایک مشترکہ ’’اسلامی فوج‘‘ تشکیل دی گئی تھی کہ جب کسی مسلم ملک کی سالمیت کو خطرہ لاحق ہوگا تو یہ اس کا دفاع کرے گی… یہ ’’اسلامی فوج‘‘ آج کہاں ہے؟ اسے سانپ کیوں سونگھ گیا ہے؟ میدان میں کیوں نہیں آرہی؟ آج جب اسرائیل فلسطینیوں کو چن چن کر مار رہا ہے، ان کے گھر جلائے جا رہے ہیں… گھر سے بے گھر، دربدر ان فلسطینیوں کے بازو اپنے پیاروں کے جنازے اٹھا اٹھا کر شل ہوچکے ہیں، یہ ’’اسلامی فوج‘‘ اور اس کے سربراہ و سرپرست کہاں غائب ہیں؟ وہ کس کے انتظار میں ہیں؟ ان کی غیرتِ اسلامی کب جاگے گی؟ اپنے مظلوم، بے بس اور بے کس نہتے فلسطینی بھائیوں کے تحفظ و دفاع کے لیے وہ میدان میں کیوں نہیں آرہے؟ مٹ جائے گی مخلوقِ خدا تو ہوش میں آئو گے؟ کیا حشر بپا کرنے کے لیے فلسطینیوں کے صفحۂ ہستی سے مٹنے کا انتظار ہے؟