تیسرے مصرعے میں’وَر‘ کیا ہے؟
آسام (بھارت) سے محترم محمد محسن صاحب نے علامہ اقبالؔ کی اُس مشہور رباعی کے متعلق ایک سوال اُٹھایا ہے جو علامہ نے اپنے ایک مدّاح محمد رمضان عطائی کو عطا فرمادی تھی۔ اسی وجہ سے یہ رباعی علامہ کے کسی مجموعہ کلام میں نہیں ملتی۔ محسن صاحب رقم طراز ہیں:
’’السلام علیکم ورحمۃ اللہ۔ آپ سے ایک ضروری بات کرنی ہے، اگر مناسب سمجھیں تو وقت نکالیں اور اہلِ ادب کے لیے سوغات پیش کریں۔ علامہ اقبالؔ کی اس رُباعی میں:
تو غنی از ہر دو عالم من فقیر
روزِ محشر عُذر ہائے من پزیر
ور حسابم را تو بینی ناگزیر
از نگاہِ مصطفیؐ پنہاں بگیر
تیسرے مصرعے میں ’ور‘ صحیح ہے یا ’گر‘ ہونا چاہیے؟ سماجی ذرائع ابلاغ پر لوگوں نے اس کے مختلف کتبے بنا رکھے ہیں۔ ’ور‘ لغت میں نہیں ملتا۔ ’ور‘ کی جگہ ’گر‘ ہی موزوں لگ رہا ہے۔ لغوی اعتبار سے شاید یہ ’ور‘ بے معنی ہے۔ باقی ’گر حسابم را تو بینی ناگزیر‘ بھی کیا درست مانا جا سکتا ہے؟ اگر وقت ہو تو تسلی بخش جواب عنایت فرمائیں‘‘۔
’’وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ و برکاتہ۔ محسن ِ محترم!آپ کے سمجھانے پر ہم نے مناسب سمجھ لیا اور وقت بھی نکال لیا۔ باقی، تسلی بخشنا اللہ کا کام ہے، البتہ سوغات پیشِ خدمت ہے‘‘۔
سب سے پہلے تو ہم یہ اعتراف کرتے چلیں کہ اب سے پہلے ہم بھی تیسرے مصرعے کو اس طرح درست سمجھا اور پڑھا کرتے تھے:
گر تو می بینی حسابم ناگزیر
مگر اللہ بھلا کرے محمد محسن(آسامی) صاحب کا، آپ نے برصغیر کی سرحدوں کے آخری سرے سے یہ سوال اُٹھا کر ہمیں بھی اپنی لاعلمی اور ناواقفیت کی سرحدیں کسی حد تک سکیڑ لینے کا موقع عطا فرمایا۔ مختلف کتب سے استفادہ کرنے پرپتا چلا کہ اصل مصرع اس طرح ہے:
ور حسابم را تو بینی ناگزیر
مثلاً ’’منشورات‘‘ لاہور کی شائع کردہ، جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی معرکہ آرا کتاب ’’ناموسِ رسالتؐ، اعلیٰ عدالتی فیصلہ‘‘ میں بھی یہ مصرع اسی طرح درج ہے۔ اب رہا یہ معاملہ کہ ’ور‘ لغت میں نہیں ملتا، تو ایسا بھی نہیں۔ ملتا ہے۔ مثال کے طور پر نوراللغات کھول لیجیے۔ اس میں درج ہے: ’’وَر (ف) کلمۂ نسبت۔۱۔ فارسی ’آور‘ کا مخفف۔ جیسے دانشور۔ ۲۔’واگر‘ کا مخفف، جو’ ورنہ‘ میں مستعمل ہے۔ ۳۔ (اردو) صفت۔ غالب، فائق (رہنا کے ساتھ)‘‘۔
آخری مطلب کی سند کے طور پر مولوی نورالحسن نیرؔ مرحوم نے میر انیسؔ مرحوم کا یہ شعر بھی نقل فرمایا ہے:
طینت میں وفا، رُخ پہ شجاعت کے اثر تھے
گنتی میں بہتّر تھے مگر لاکھ پہ وَر تھے
’دانش آور‘ کا مطلب ہے دانش لانے والا۔ جیسے ہمارے ہاں دست آور، خواب آور وغیرہ ہوتا ہے۔ تاثیر تو آج کل دانش کی بھی ایسی ہی ہوتی ہے، مگر ’دانش آور‘ سے مراد لی جاتی ہے عقل و دانش کی باتیں کرنے والا۔ ’آور‘ مختصر ہوکر ’ور‘ بن گیا۔ اردو میں اِس ’وَر‘ کا مطلب ہوگا ’والا‘۔ جیسے عقل والا، دانش والا، بصیرت والا۔ یوں ’دانش آور‘ صاحب بقراطیاں کر کرکے ’دانش وَر‘ ہوگئے اور دیدے گھما گھما کر ’دیدہ ور‘ بن گئے۔ کسی نے تاج سر پر رکھ دیا تو ’تاج وَر‘ ہوگئے اور سماجی ذرائع ابلاغ پر نیک نامی و بدنامی میں نام کما کماکر ’نام وَر‘بھی ہوگئے۔ وَر والی ان صفات کو ہمیشہ ملا کر لکھا جاتا ہے، جس کے باعث ہمارے ایک دوست انھیں دانشُور، تاجُور اور نامُور پڑھا کرتے ہیں۔
اقبالؔ اپنی اس رُباعی کے تیسرے مصرعے میں کہتے ہیں: ’’اور اگرمیرا حساب لینا تیری نظر میں ضروری ہے تو‘‘۔
فارسی زبان میں ’اور اگر‘ کے لیے ’وَ اگر‘ استعمال ہوگا، جو مختصراً ’وَگر‘ بھی کہا جاتا ہے۔ ضرورتِ شعری کے تحت ’وَ اگر‘ یا ’وَگر‘ کو مختصر کر کے ’وَر‘ کر لیا جاتا ہے۔ بالکل اُسی طرح، جس طرح کہ ’وَ اَز‘ کو مختصر کرکے ’وَز‘ کرلیاگیا۔ مولانا جلال الدین رومیؔ کا مشہور شعر ہے:
بشنو اَز نَے چوں حکایت می کُند
وَز جدائی ہا شکایت می کُند
ایک اور ٹکڑا ہے: ’وَ اگر نہ‘ یعنی: ’’اور اگر ایسا نہیں تو‘‘۔ یہ ’وَاگرنہ‘ مختصر ہوکر ’وگرنہ‘ بنا اور مزید مختصر ہوکر ’ورنہ‘ ہوگیا۔ جعفرؔ بلوچ صاحب ایک بار یہ ’ورنہ‘ استعمال کرکے پھنس گئے تھے۔ صاحب! یوں ہی مان لیجیے، ورنہ برادر عقیل عباس جعفری جیسے دانش وَر کو تصدیق کی زحمت کرنی پڑے گی۔ انھیں بلا کر پوچھنا پڑے گا: ’’عقیل بھائی! یہ شعر اسی طرح درست ہے نا؟ وگرنہ درست فرما دیجیے‘‘۔
کہا جو میں نے ستم سے تُو ہاتھ اُٹھا ورنہ!
تو اُس حسیں نے چمک کر کہا کہ کیا ورنہ؟
پروفیسر جعفرؔ بلوچ مرحوم کا ذکر آگیا ہے تو چند سطریں اُن کی یاد میں بھی ہوجائیں۔ جعفرؔ نعت اور غزل کے بہت عمدہ شاعر تھے۔ قدرتِ کلام کا اندازہ ذیل کے شعر سے لگالیجیے۔ جن لوگوں نے مشہور شاعر، ادیب و کالم نگار ڈاکٹر اجمل ؔنیازی کو دیکھا ہے، انھیں معلوم ہوگا کہ ڈاکٹر صاحب عام قسم کے طویل القامت نہیں، بلکہ میانوالی کے طویل القامت ہیں، جہاں سب باون گز کے ہوتے ہیں۔ اس پر طرہ یہ کہ سر پر طرہ بھی رکھتے ہیں۔ جعفرؔ صاحب کی اجملؔ صاحب سے بے تکلفی دیکھیے، شعر میںشاعر کی کیا گَت بنادی:
عیاں یہ بات تری ایک ایک کَل سے ہے
کہ تُو جمال سے اجمل نہیں، جَمل سے ہے
(نئی نسل کو معلوم ہو کہ جمل اونٹ کو کہتے ہیں) اسی طرح ایک بارمشہور محقق اور ہمارے برادر بزرگ ڈاکٹر تحسینؔ فراقی کو بھی پروفیسر جعفرؔ بلوچ نے اپنے ایک شعر میں لپیٹ لیا:
جب سے اے تحسینؔ فراقی! تیرے سپرد ہوا
عبدالماجد دریا بادی دریا بُرد ہوا
ڈاکٹر اجملؔ نیازی والے شعر میں جعفرؔ صاحب نے لفظ ’کل‘ استعمال کیا ہے۔ اشارہ اُس مشہور محاورے کی طرف ہے جس میں اونٹ سے پوچھا گیا ہے کہ ’اونٹ رے اونٹ تیری کون سی کَل سیدھی؟‘ (وہ تو کہیے کہ اونٹ نے ایسا سوال کرنے والے کو جواباً سیدھا کرکے نہیں رکھ دیا)اِس ’کل‘ کے معنی ہیں پہلو، عضو یا پُرزہ۔ لیکن یہاں آپ کو ایک دلچسپ بات بتاتے چلیں کہ ہرچند لفظ Machine کو اُردو زبان نے قبول کرلیا ہے، اور یہ لفظ مشینی اندازمیں خوب استعمال بھی ہورہا ہے، مگرمشین کے لیے پہلے لفظ ’کل‘ ہی استعمال ہوتا تھا۔ برف کی کل اور بجلی کی کل سے مراد علی الترتیب برف اور بجلی بنانے والی مشینیں ہوا کرتی تھیں۔ سکے مشینوں سے (باقی صفحہ 41پر)
ڈھالے جانے لگے تو کل دار کہلانے لگے۔ کلدار روپیہ یا کلدار سکہ وغیرہ۔ مشین کی طرح کام کرنے والے لوگوں کو محاورتاً ’کَل کا پُتلا‘ کہا جاتا تھا۔ مصحفیؔ کا شعر ہے:
اے مصحفیؔ گر چشمِ حقیقت سے تُو دیکھے
پُتلے ہیں جو سب خاک کے، پُتلے ہیں یہ کَل کے
مرزا فرحت اللہ بیگ کا دلچسپ و پُرمزاح مضمون ’’کَل کا گھوڑا‘‘ اکثر لوگوں نے پڑھا ہوگا، جس میں مصنف کے ایک موجد دوست نے مولوی میرحسنؔ کی مثنوی سے متاثر ہوکر ایک مشینی گھوڑا ایجاد کرلیا تھا۔کَل کا یہ گھوڑا تین سو میل فی گھنٹہ کی رفتار سے دوڑ سکتا تھا۔
آنے والے یا گزرے ہوئے دن کے لیے استعمال ہونے کے علاوہ ’کل‘ کا لفظ سکون، چین اور آرام کے لیے بھی مستعمل ہے۔ اقبالؔ کہتے ہیں:
جل رہا ہوں، کَل نہیں پڑتی کسی پہلو مجھے
ہاں ڈبو دے اے محیط آبِ گنگا تُو مجھے
میرؔ نے ، دیکھیے،اپنے ایک ہی مصرعے میں’ کل‘ کوکتنے معنوں میں استعمال کر ڈالا:
کل سے دل کی کل بگڑی ہے جی مارا بے کل ہو کر
آج لہو آنکھوں میں آیا درد و غم سے رو رو کر
ہماری نانی اماں ہمارے چلبلے بچپن میں اکثر ہمیں گُھرکا کرتی تھیں: ’’کَل سے بیٹھو‘‘۔ پس اے صاحبو! اب ہم کَل سے بیٹھتے ہیں۔ آپ بے شک اگلے ہفتے تک بیکل پھرتے رہیے۔