نواب بگٹی اچھے موڈ میں ہوتے تو اپنی نجی زندگی کے واقعات بڑی دلچسپی سے سناتے تھے۔ وہ ایسا اُس وقت کرتے جب لوگ محفل سے چلے جاتے تھے اور ہم دونوں ہی ہوتے۔ اُن سے بے تکلفی تھی، بعض باتیں پوچھتا تو وہ کھل کر بتاتے۔ اُن سے سوال کیا کہ کوئی ایسا واقعہ جو آپ کو اب بھی یاد ہو اور اسے فراموش نہ کرسکے ہوں؟ اس پر انہوں نے دل کی بات میرے سامنے رکھ دی۔ انہوں نے کہا کہ میری عمر اُس وقت 30 سال ہوگی، میں کھلی جیپ میں سندھ کے ایک دیہی علاقے سے گزر رہا تھا، اتنے میں دیکھا کہ کچھ دیہاتی نوجوان لڑکیاں مٹکوں میں پانی اپنے سروں پر رکھ کر لے جارہی ہیں۔ ایک سرسری نظر ڈالی اور گزر گیا۔ پھر اچانک خیال آیا اور میں دوبارہ اس طرف لوٹ گیا، اور اس گروہ میں ایک لڑکی نے مجھے ’’HUNT‘‘ کرلیا۔ اُن سے پوچھا کہ ایسی کیا بات تھی جس نے آپ کو لوٹنے پر مجبور کردیا؟ انہوں نے کہا کہ اُس کی عمر 18 یا 19 سال ہوگی، وہ اپنے سر پر پانی کا چھوٹا مٹکا لیے خراماں خراماں چلی جارہی تھی، اُس کی چال نے مجھے ایسا سحر زدہ کردیا کہ میں دور تک اُسی کو دیکھتا رہا اور جیپ آہستہ کردی۔ یہ بات میں اب تک نہیں بھولا ہوں۔ جب نواب صاحب یہ قصہ سنا رہے تھے تو اُن کی عمر 70 سال سے اوپر تھی۔ اُن کی نگاہوں کی طرف دیکھا تو مجھے لگا جیسے نواب صاحب کچھ کھو سے گئے ہیں۔
وہ مجھے شیکسپیئر اور ورڈز ورتھ کے اشعار کے ساتھ ساتھ بلوچی اشعار سناتے اور ساتھ ساتھ ترجمہ بھی کرتے تھے۔ ان کا موڈ خوشگوار ہوتا تو راتیں بھیگتی چلی جاتی تھیں اور مجھ سے پوچھتے کہ چائے پیو گے یا کافی؟ میں کافی کا کہتا۔ کافی کا اس لیے کہ نیند نہ آئے۔
نواب صاحب کو دیر تک جاگنے کی عادت تھی، وہ کم سوتے تھے۔ صبح قریب ہوتی تو وہ سوجاتے تھے۔ جب اُن کا موڈ اچھا ہوتا تو گھر کے اندر ایک چھوٹے سے کمرے میں بیٹھتے اور شام کا کھانا وہیں کھاتے۔ اس کمرے میں 4 یا 5 افراد ہوتے جو اُن کے بہت قریب تھے۔ ایک دن ایک افغان کمانڈر ان کی محفل میں شریک تھا۔ وہ نواب صاحب سے اپنے ایک کمانڈر کی بیوی کا ذکر کررہا تھا جو اغوا ہوگئی تھی، اور الزام لگا رہا تھا کہ اس اغوا میں حزبِ اسلامی کے ایک کمانڈر کا ہاتھ ہے، وہ نواب صاحب سے اس سلسلے میںمدد طلب کررہا تھا، اُس کا خیال تھا کہ مغوی خاتون کو بلوچستان لایا گیا ہے۔ نواب صاحب نے فوراً میری طرف اشارہ کیا کہ یہ گلبدین کا حامی اور اس کا آدمی ہے، یہ آپ کی مدد کرسکتا ہے، یہ کہہ کر وہ خوب ہنسے۔ کمانڈر نے میری طرف حیرت سے دیکھا۔ میں نے اُس سے پشتو میں کہا کہ نواب صاحب آپ سے مذاق کررہے ہیں۔ اس سے مجھے اندازہ ہوا کہ اُن کے تعلقات افغانستان میں بعض کمانڈروں اور اہم شخصیات سے تھے۔
نواب صاحب نے جب جنرل پرویزمشرف سے لڑنے کا فیصلہ کرلیا تو اپنے اہلِ خانہ کو ڈیرہ بگٹی سے چلے جانے کا کہا۔ یوں پورا خاندان اپنے آبائی علاقے سے رخصت ہوگیا۔ انہوں نے اپنے چھوٹے بیٹوں کو بھی رخصت کیا۔ سلیم بگٹی اُس وقت زندہ تھے، وہ بیماری کی وجہ سے فوت ہوگئے۔ نواب صاحب کے چھوٹے بھائی احمد نواز بھی فوت ہوگئے تھے۔ صرف جمیل بگٹی حیات تھے جو بلوچ ماں سے نہ تھے، وہ بھی کراچی میں تھے۔ نواب صاحب نے یہ فیصلہ اُس وقت کیا جب اُن کے قلعہ پر فوج نے راکٹ پھینکے۔ اس حملے کے بعد نواب صاحب نے آخری معرکے کی تیاری کرلی تھی۔ اب نواب صاحب اپنے محافظین کے ہمراہ اکیلے رہ گئے تھے۔ انہوں نے اپنا آبائی علاقہ چھوڑ دیا اور ذرا محفوظ علاقے میں چلے گئے تھے۔ وہ چلنے پھرنے سے معذور ہوچکے تھے۔
نواب صاحب کے تعلقات افغانستان میں اہم شخصیات سے تھے، اس لیے اپنے پوتوں کو وہاں بھیج دیا تاکہ وہ محفوظ رہ سکیں۔ اُن کی یہ پالیسی وقت کے لحاظ سے بالکل درست تھی۔ ان کا ایک پوتا براہمداغ بگٹی افغانستان سے اُس وقت چلا گیا جب وہاں حالات بگڑ گئے تھے۔ اب وہ یورپ میں ہے اور بہت عرصے سے خاموش ہے، اس کا کوئی بیان اور سرگرمی نہیں نظر آرہی۔
سطور بالا میں نواب صاحب کے جس کمرے کا ذکر کیا، اُس کے سامنے مغرب کی جانب ایک چھوٹا سا کمرہ اور بھی تھا۔ اس کمرے میں بھی اُن سے گفتگو کا سلسلہ چلتا رہتا تھا۔ یہ نواب صاحب کے سونے کا کمرہ تھا۔ ان کے بیڈ کے سرہانے ٹیبل پر قائداعظم محمد علی جناح مرحوم کے ساتھ ان کی تصویر تھی۔ قائداعظم جب کوئٹہ تشریف لائے تھے تو نواب بگٹی ایئرپورٹ پر ان کے استقبال کے لیے موجود تھے۔ یہ 1948ء کا سال تھا۔ قائداعظم سبی دربار میں خطاب کرنے کے لیے آئے تھے جہاں انہوں نے قبائلی سرداروں اور اہم شخصیات سے ملاقاتیں کیں اور خطاب بھی کیا۔ قائداعظم نے کوئٹہ گورنر ہائوس میں پارسی خاندان کے لوگوں سے بھی ملاقاتیں کیں اور اُن کے مطالبات کو بھی سنا اور جواب دیا۔ نواب صاحب اس تصویر میں قائداعظم سے احتراماً جھک کر مل رہے ہیں اور چہرے پر مسکراہٹ نظر آرہی ہے۔ نواب صاحب کی عمر اُس وقت 22 یا 23 سال ہوگی۔
جس دور کا ذکر کررہا ہوں اُن دنوں میں نوجوان تھا اور شادی نہیں ہوئی تھی، اس لیے دیر تک نواب صاحب کے ساتھ رہتا تھا اور مجلسیں چلتی رہتی تھیں۔ اُن کی محفل میں اکثر آنے والی شخصیات میں خدائے نور، ملک انور کاسی، سیف الرحمان مزاری، حاجی سلطان بنگلزئی، ڈاکٹر غلام محمد اور ان کا چھوٹا بھائی احمد نواز بگٹی شامل تھے۔ ارجن داس بگٹی ان کا خاص آدمی تھا، بعد میں نواب صاحب نے اسے ڈپٹی اسپیکر بنوادیا۔ وہ روزانہ آتا تھا۔ میرا اس سے مذاق چلتا رہتا تھا۔ جب حالات ڈیرہ بگٹی میں بگڑ گئے تو نواب صاحب نے اپنے علاقے کے تمام ہندوئوں کو چلے جانے کا کہا اور ارجن داس بگٹی سے کہا کہ میرے بعد معلوم نہیں تمہارے ساتھ کیا سلوک ہوگا، بہتر ہے کہ میری زندگی میں اپنے خاندان سمیت بھارت چلے جائو۔ یوں ارجن داس بگٹی بھارت چلا گیا اور پھر لوٹ کر نہیں آیا۔ کوئی کہتا ہے کہ دہلی میں ہے، کوئی اس کا پتا ممبئی کا بتاتا ہے۔ ایک موقع پر جب نواب بگٹی لندن سے لوٹ کر کوئٹہ آرہے تھے تو ایئرپورٹ پر میری ارجن داس بگٹی سے دلچسپ بات چیت ہوئی۔ (باقی صفحہ 41پر)
اس سے مذاقاً کہا کہ تم مسلم لیگ میں شامل ہوجاتے، تو اس نے فوراً کہا کہ میں ہندو ہوں کیسے مسلم لیگ میں شامل ہوسکتا ہوں! میں نے فوراً کہا کہ ارجن داس تم ہندو جب بگٹی بن سکتے ہو تو مسلم لیگ میں کیوں نہیں جاسکتے؟ اس پر وہ خوب ہنسا اور مجھ سے کہا کہ نواب صاحب کو یہ بات بتادوں؟ میں نے کہا بتادیں۔ ارجن داس خوش مزاج شخصیت کا مالک تھا۔ ایک دن جناح روڈ کے ہوٹل میں مجھے ملا اور کہا: شادیزئی صاحب میں نے اسلامی فلسفہ میں PHD کرلی ہے۔ میں خوب زور سے ہنسا اور کہا کہ تم مذاق کررہے ہو۔ اس نے قسم کھاکر کہا کہ اس نے PHD کرلی ہے۔ اس سے کہا کہ سندھ یونیورسٹی میں تو ڈگریاں بکتی ہیں، تم کو بھی شام کمار نے لا کر دے دی ہوگی۔ شام کمار ایک ہندو تھا، لیفٹ کا آدمی تھا، وہ بھی نواب صاحب کی محفل میں اکثر آتا تھا۔
ایک شام نواب صاحب خوشگوار موڈ میں تھے، محفل جاری تھی اور مہمان آہستہ آہستہ جارہے تھے۔ ان سے کہا: اب مجھے جانے دیں، رات گزر رہی ہے اور خاصا وقت ہوگیا ہے۔ مجھ سے پوچھا: تمہاری شادی ہوگئی ہے؟ میں نے کہا: نہیں۔ خوب ہنسے اور کہا: جب تمہاری بیوی نہیں ہے اور تمہارا انتظار کرنے والا کوئی نہیں ہے تو بیٹھے رہو۔ اور کافی کا آرڈر دے دیا۔ اپنے ملازم کو کہا کہ سلال کو بلائو۔ کچھ دیر بعد سلال بگٹی آگیا۔ اس کی عمر اُس وقت کوئی 9 سال ہوگی۔ لمبے بال تھے اور بڑی گھیر والی بلوچی طرز کی شلوار پہنے ہوئے تھا۔ اس سے بلوچی میں کہا کہ البم لائو۔ کچھ دیر بعد اس کے ہاتھ میں ایک بڑا البم تھا۔ انہوں نے اسے کھولا اور مجھ سے کہا کہ قریب آجائو۔ انہوں نے البم کھولا تو پہلے صفحے پر وہ اپنے والد (مرحوم) کی گود میں تھے۔ دوسرا ورق پلٹا تو وہ کوئی 10 سال کے ہوں گے۔ دائیں طرف وہ تھے اور بائیں طرف احمد نواز بگٹی اپنے والد کے ساتھ تھے۔ یوں وہ اپنی زندگی کے اوراق پلٹتے چلے جارہے تھے اور میں محو ہوکر دیکھ رہا تھا۔ وہ ہر تصویر کے ساتھ مختصر تبصرہ بھی کرتے چلے جارہے تھے۔ اچانک ایک صفحہ پلٹا تو فوراً البم کو بند کردیا، میں نے اس دوران اُس صفحے پر اپنا ہاتھ رکھ دیا۔ میرا ہاتھ البم کے صفحے پر تھا اور اُن کا بھاری ہاتھ البم کے اوپر تھا، وہ خوب زور سے ہنسے اور مجھ سے کہا کہ اپنا ہاتھ نکالو اس تصویر کو دیکھنے کی تمہیں اجازت نہیں ہے، یہ تمہارے لیے سنسر ہے۔ اس دوران جب وہ ورق پلٹ رہے تھے تو میں تصویر دیکھ چکا تھا، لیکن میں نے ایسے ظاہر کیا جیسے میں نے وہ تصویر نہیں دیکھی ہے۔
(جاری ہے)