فقیر اباالبرکات قادری راشدی لکی شاہ صدر
جناب مراد علی شاہ صاحب!
جنابِ من! آپ لکیاری سادات ہیں۔ یہ عاجز آپ کے جدِّامجد حضرت شاہ صدر الدین لکیاریؒ کا جاروب کش ہے۔ آپ سے دنیا داری کے حوالے سے جو آخری مکالمہ ہوا تھا اُس میں باجاری صاحب اور راہپوٹو صاحب بھی موجود تھے۔ انہی دنوں میں یہ بحث چل رہی تھی کہ سندھ کے معاملات تین وزیراعلیٰ چلا رہے ہیں۔ آپ پر براہِ راست سلطان آباد ضلع ٹنڈو الہ یار کے رہائشی پیپلزپارٹی کے کسی رہنما نے ’’چوٹ‘‘ کی تھی۔ آپ کا ضبط قابلِ دید تھا۔ خیر وہ بات آئی گئی ہوگئی۔ ہم نے آپ سے دنیا داری کے حوالے سے گزارش کی تھی کہ تاریخی بڈو جبل (پہاڑ) پر آپ کے والد صاحب نے جو پولیس ٹریننگ سینٹر اور ٹی بی سینی ٹوریم کی عمارات تعمیر کروائی تھیں، ان کی مرمت کرائیے اور کروڑوں روپے جن منصوبوں پر خرچ ہوچکے ہیں، ان کا کوئی مصرف ہونا چاہیے۔ آپ کے دونوں مشیروں نے خاموشی اختیار کرلی، ورنہ انہوں نے ہی اس حقیر پرتقصیر کو یہ معاملہ اٹھانے پر اکسایا تھا۔ وہاں پر مالی امور کا کوئی ماہر بھی موجود تھا۔ (قیصر بنگالی نہیں) انہوں نے کہا کہ بڈو جبل کے منصوبے اور جھانگاراباجارہ ائیرپورٹ اب اس شعر کا مصداق بن چکے ہیں:
اچھے دن تو پیچھے گئے، جب ’’ہر‘‘ سے کیا نہ ھیت
اب کیا پچھتاوے ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت
آج یہ سیاہ کار آپ کی خدمت میں خالصتاً ایک دینی معاملے پر چند معروضات پیش کرنا چاہتا ہے۔ چند روز قبل آپ کی سرکردگی میں اہلِ علم حضرات کی ملاقات محترم بلاول بھٹو زرداری صاحب سے ہوئی ہے۔ خواتین و حضرات کے اسمائے گرامی میڈیا میں آگئے ہیں، یہاں پر ان کے بارے میں کسی تفصیلی تعارف کی ضرورت محسوس نہیں ہورہی۔ البتہ جس مسئلے پر یہ حضرات پارٹی قائد سے ملے تھے وہ معاملہ فقط سیکریٹری داخلہ اور آئی جی صاحب حل کرسکتے تھے۔ ان دنوں کوئی پیر صاحب امرجلیل کی ویڈیو پر ردعمل ظاہر کرتے کرتے ایک جملے کے ذریعے غلط جذباتی رو میں بہہ گئے۔ کسی کے سر کی قیمت لگانا نامناسب بات تھی۔ میرے مشاہدے کے مطابق صاحب موصوف عوامی اثرات کے حوالے سے کوئی مقبول راہ نما نہیں تھے۔ حالانکہ سلمان رشدی کے سر کی قیمت علامہ آیت اللہ خمینی نے بھی مقرر کی تھی اور تسلیمہ نسرین کے حوالے سے بھی اس طرح کے بیانات تاریخ کے صفحات میں محفوظ ہیں۔ تاہم مہذب معاشرہ شائستگی کا تقاضا کرتا ہے۔ آپ جب امر جلیل صاحب کے حامیوں کو پارٹی چیئرمین سے ملانے جارہے تھے تو آپ کو سارے حقائق کو سامنے رکھنا تھا۔ مثلاً ویڈیو محکمہ ثقافت سندھ کے ’’نوادرات‘‘ میں پانچ سال تک پناہ گزین رہنے کے بعد آخر آناً فاناً کیسے مشتہر ہوگئی؟ بدین کے کسی صاحب تک یہ ’’مال خانہ‘‘ میں محفوظ مواد کیسے پہنچا اور کس نے پہنچایا؟ محکمہ ثقافت سندھ کے افسران میں میری معلومات کی حد تک ’’محتسب‘‘ اداروں کی پکڑدھکڑ کے بعد ایک بحران تھا اور خود یہ کھاتہ جس انداز سے عدم احتیاط کی روش پر چل نکلا تھا اس کا نتیجہ بھی یہی نکلنا تھا۔ ادبی میلوں کے نام سے جن جن اداروں اور تنظیموں کے ساتھ محکمے کی ’’پارٹنرشپ‘‘ ہے وہاں پر ڈاکٹر مبارک علی سے لے کر امرجلیل صاحبان تک جن اسکالرز کو بلایا جاتا ہے، کیا یہ لوگ اپنی تحریروں اور تقریروں کے حوالے سے عالم آشکار شہرت کے حامل نہیں رہے ہیں! اظہار کی آزادی بڑی خوبصورت چیز ہے، لیکن کیا سرکاری سرپرستی میں عوام کے خون پسینے سے حاصل ہونے والا ٹیکس مذہب دشمنی، ملک دشمنی اور عوامی جذبات سے کھیلنے کے لیے استعمال کرنا بدترین نادانی اور نااہلی نہیں ہے؟ تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ وہ پانچ کتابیں جن پر حکومتی بندش پڑی ہوئی تھی، محکمہ ثقافت نے آخر کس آئینی اور قانونی اختیار سے انہیں زیور طبع سے آراستہ کیا؟ شیخ ایاز بڑے اچھے شاعر اور لکھاری تھے، یہ انہی کی کتب ہیں جن کا فقیر تذکرہ کررہا ہے۔ شیخ ایاز خود اپنی فکر اور فلسفے سے دست بردار ہوکر آخری دس سال دعائیں لکھنے اور سندھو دیش، سوشلزم اور کمیونزم کے خلاف کمربستہ رہے جس کا تفصیلی احوال آپ حافظ محمد موسیٰ بھٹو صاحب کی سندھی اور اردو کتاب ’’شیخ ایاز کے آخری دس سال‘‘ میں پڑھ سکتے ہیں۔ 22 جلدوں میں شیخ ایاز کی تحریروں کی جو سیریز چھاپی گئی ہے اُس میں خرافات کا ایک سمندر ٹھاٹھیں مارتا ہوا نظر آتا ہے۔ نیو فیلڈس نامی ادارے کے پبلشر یہ کتابیں طباعت کے مراحل سے گزار رہے تھے، اُن دنوں شیخ ایاز نے بیسیوں مقامات پر قابلِ اعتراض جملوں کی کاٹ چھانٹ کی تھی، لیکن محکمہ ثقافت نے اسلام اور پاکستان، قائداعظم اور علامہ اقبال سمیت جو مواد مشتہر کیا ہے اس کے … مشتے از خروارے… دو واقعات آپ کے سامنے لانے کی گستاخی کرنے کو جی چاہ رہا ہے: ”اگر پاکستان نہ بنتا تو علامہ اقبال کی شاعری کو کون پوچھتا۔“ دوسری جگہ 1965ء کی پاک بھارت جنگ کے حوالے سے لکھا ہے کہ ”سامنے نارائن شیام ہے(جو سندھی کے اچھے ادیب تھے، شیخ ایاز کے دوست تھے اور تقسیم ہند کے بعد آبائی وطن سندھ سے نقل مکانی کرکے ہندوستان چلے گئے تھے) اس پر میں بندوق کیسے اٹھائوں!“22 جلدی ایازی ملفوظات کے مزید اقتباسات لکھنے پر ملک میں آگ بھڑک سکتی ہے۔ کم سے کم مضر ایک دو سطروں پر اکتفا کرنا ہی ملک دوستی اور سندھ دوستی بھی ہے… فیض احمد فیض کے پورے کلام، خطوط اور زندگی کے کوائف پر مشتمل سندھی میں طویل سیریز چھپی ہے۔ آیا اس دور میں جب ہم جھانگاراباجارا اور میہڑ کے آٹھویں جماعت کے طالب علم سے ’’نسخہ ہائے وفا‘‘ کا لب لباب سمجھ سکتے ہیں تو اتنی کثیر رقم ’’سندھی ترجمہ‘‘ کے نام پر ضائع کرنے کی ضرورت تھی؟ قمر شہباز کے اخباری کالموں پر مشتمل کتاب ہو یا محمد ابراہیم جویو صاحب کی قابلِ مواخذہ تحریریں… اخباری کالموں کے وقتی تجزیے پر مشتمل عامیانہ تحریریں، فلسفہ کے نام پر الحادی لٹریچر، تاریخ اور تہذیب کے کون سے گوشے ظاہر کررہے ہیں؟ اصل میں محکمہ ثقافت کی اشاعتی ٹیم میں ’’دینِ سنائی‘‘ کے شارحین بیٹھے ہوئے ہیں، جو اکبری دور کے ملا فیضی بھی ہیں تو ملا مبارک سے بھی کم نہیں ہیں… حیدرآباد میں ’’کیف خانہ بدوش‘‘ کے نام سےمحکمہ ثقافت کے سندھ میوزم کے احاطے میں جو جگہ کرایہ پر الاٹ کی گئی ہے، وہاں کن موضوعات پر بحث و مباحثے ہوتے ہیں۔ میرا جسم میری مرضی، فیمنسٹ تحریک کی تنظیم کاری… وغیرہ وغیرہ
سندھ یونیورسٹی کے خواتین و حضرات ہوں یا دوسرے سرکاری ملازم، آپ بطور وزیراعلیٰ جامعات کے بھی معاملات سنبھالے ہوئے ہیں اور محکمہ ثقافت بھی سندھ حکومت کا حصہ ہے۔ کیا ’’خانہ بدوش‘‘ ادارے میں سرکاری ملازمائیں ہوں یا ملازم، ان کو اسلام، پاکستان اور آئین پاکستان کے خلاف وسائل مہیا کرنا سندھ دوستی ہے؟ شیخ الجامعہ جامعہ سندھ بھی بازپرس فرمائیں اور بطور وزیراعلیٰ آپ کا بھی فرض بنتا ہے کہ ’’خانہ بدوش‘‘ معاملات کی انکوائری کرائیں… کہ آیا یہ محض الزام ہے یا حقیقت کہ یہاں پر پوری مشرقی تہذیب کو ملیامیٹ کرنے کے منصوبے بنتے ہیں… ساتھ ہی مقتدرہ سندھی زبان کا دفتر ہے… اچھا کام بھی ہورہا ہے۔ لیکن ”سندھیانا انسائیکلوپیڈیا“ میں جو داخلائیں رکھی گئی ہیں، وہ سندھ سے زیادہ ‘‘دینِ سنائی‘‘ سے وابستہ حضرات کا مفصل احوال ہے، کیونکہ جو صاحب ادارے کے دو مرتبہ ناظم اعلیٰ رہے ہیں وہ بچپن سے لے کر آج تک سندھو دیش کے لیے کام کرنے والی جماعت کے مدارالمہام ہیں۔ سندھی ادب کے ’’بے تاج بادشاہ‘‘ کو ہم آپ جانتے ہیں اور ’’مدد خان‘‘ صاحب بھی بادشاہ کے دستِ راست ہیں! مدد پھرتی رہتی ہے۔ یہی ’’مدد‘‘ جام صادق علی اور ارباب غلام رحیم صاحبان کو بھی حاصل تھی، اور یہی از غیبی ”مدد“ آپ کے دور میں بھی مقتدرہ سندھی زبان ہو یا محکمہ ثقافت، جوں کی توں موجود ہے۔ دوسری طرف آرٹس کونسل کراچی بھی… ڈاچی ہٹے ڈہ، توڈی ھٹے تیرھاں… (اونٹنی اگر دس لاتیں مارتی ہے تو اس کی بچی تیرہ لاتیں مارتی ہے) پر عمل پیرا ہے، جسے کمشنر کراچی کنٹرول کرتے ہیں۔ وہاں کے ’’میر جعفر‘‘ بھی اسلام اور مذاہبِ عالم پر بیہودہ تبصرے اور تجزیے کرنے میں تیرھاں لاتیں مار رہے ہیں… میر صادق اورمیر جعفر پر مشہور شعر بھی سنتے جائیے:
جعفر از بنگال و صادق از دکن
ننگِ ملت، ننگِ دین، ننگِ وطن
ان پر کڑی نظر رکھیے۔ کم از کم سرکاری وسائل ’’دینِ سنائی‘‘ کی ترویج و اشاعت کے لیے استعمال نہیں ہونے چاہئیں، ہاں ’’تاجی‘‘ اور مددی گروہ بھی ملکی شہری ہیں۔ انہیں بے روزگار ہرگز نہ کیجیے۔ پہلے اشاعت و طباعت کے حوالے سے محکمہ ثقافت کے موجودہ سیکرٹری اکبرعلی لغاری اور سابقہ سیکرٹریوں عبدالحمید اخوند، شمس جعفرانی، گل محمد عمرانی، محترمہ مہتاب اکبر راشدی صاحبہ، سابق چیف سیکرٹری سید سردار احمد اور سابق آئی جی آفتاب نبی جیسے آئین اور قانون کے شناور حضرات کی کمیٹی بنائیے، جو کتابیں قابلِ گرفت ہیں ان کی مزید خرید و فروخت پر پابندی لگائیے۔ جو کنسلٹنٹ اور ملازم ہیں وہ برقرار رہیں۔ لیکن کانفرنسیں ہوں یا اشاعتِ کتب کا مرحلہ… وہاں پر ماضی کی غلطیاں دہرانے کی قطعی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ مقتدرہ سندھی زبان کے تحقیقی جرنل میں پاکستانی ارکان کی اکثریت مخصوص نظریاتی پس منظر کی حامل ہے۔ جب کہ ہندوستان سے جو ماہر لیے گئے ہیں وہ قابل ضرور ہیں (عکس تحقیقی جرنل ملاحظہ فرمائیے)، تاہم ادارے میں محترم علی نواز آریسر اور محترم زاہد اوٹھو جیسے ملازم موجود تھے تو ہندوستان سے چار مسلمان اسکالرز کی بھی گنجائش نکل سکتی تھی۔ کوٹہ سسٹم کے تحت ہندو اکثریتی ملک کے پانچ ہندو تو کیا اس تعداد کو ڈاکٹر مرلی دھرجیٹلے اور ہیرو ٹھکر سمیت بڑھایا بھی جا سکتا تھا۔ مسلم اسکالرز دارالمصنفین اعظم گڑھ سے لے کر ندوۃ العلماء لکھنؤ تک سے لسانیاتی ماہروں کا تعاون لیا جا سکتا تھا۔ اور تو اور بیکانیر، جیسلمیر، باہڑ میر، جودھپور اور بھج کے اضلاع جو سندھ سے ملحقہ علاقے ہیں وہاں کے علامہ تاج محمد آریسر (کھارچھی)، میاں عبدالغفور سموں (برہان جوتڑ)، مولانا حبیب اللہ راہموں (گھاگھریو)، کلا دھرمتوا (بھج)، میاں شیر محمد سمیجو (وانڈھار)، حاجی قیصر خان نہڑی (ڈیتاٹی)، بیجل مہر (بھنبھارو) اور انور مگنہار (بہیو) جیسے لسانی ماہر، گائک اور شاعر بھی اس مجلس ِمشاورت میں شامل ہوتے تو کہا جا سکتا تھا کہ فکری اور ذہنی وسعت دور سے نظر آرہی ہے۔
میرا خیال ہے کہ آپ کی مصروفیات میں زیادہ مخل ہورہا ہوں۔ آپ اگر …تار چھڑی، راگ پرکھیو… کے مصداق معاملے کی حقیقت کو نہیں سمجھے تو مزید سمع خراشی کی جسارت پر معذرت خواہ ہوں۔ ہندوستانی سندھی مسلمانوں کی مشاورت والی بات تو صریحاً میری خوش فہمی ہے۔ یہ ’’دینِ سنائی‘‘ کے دلدادہ حضرات تو مولانا سید سلیمان ندویؒ کی کتابیں چھاپنے سے بھی دور بھاگتے ہیں۔ حالانکہ سندھ کی ممبئی سے جدائی کا مقدمہ خان بہادر محمد ایوب کھہڑو کی قیادت میں برطانوی سرکار کے سامنے پیش ہورہا تھا تو تمام نہ سہی لیکن 99 فیصد دلائل مولانا ندویؒ کی تحقیق کی روشنی میں مرتب ہوئے تھے۔ سندھ کو آزادی ملی تھی۔ مولانا عبدالحلیم شرر نے سب سے پہلے اردو میں ’’تاریخِ سندھ‘‘ لکھی تھی۔ یہ تو کیا، سندھ کی تاریخ پر قاضی اطہر مبارکپوری کی چھ کتابیں رجال السندھ سمیت بھی مقتدرہ سندھی زبان چھاپنے کے لیے آمادہ نہیں ہے۔ اور مولانا ابو ظفر ندوی، مولانا ڈاکٹر احمد اقبال قاسمی، مولانا ڈاکٹر سید ابوالخیر محمد زبیر، ڈاکٹر وفا راشدی اور حال ہی میں رحلت فرمانے والے ڈاکٹر ابوسلمان شاہجہاں پوری ثم السندھی جیسے سیکڑوں اہلِ علم کا ان اداروں میں داخلہ بند ہے۔ موسلانا ابوالجلال ندویؒ نے ’’موھین جودڑو‘‘ کی لپی پر 25 سالہ محنت سے جو مواد تیار کیا تھا اور شاید اس طرح کی عرق ریزی پہلی مرتبہ منصہ شہود پر آئی تھی، دو جلدوں پر مشتمل اس تحقیق سے استفادے کی اہمیت ہی محسوس نہیں کی گئی۔ آغا محمد یعقوب نے پانچ جلدوں میں (انگریزی زبان میں) کلام پاک کی تفسیر لکھی ہے۔ سندھ حکومت کے دو سابقہ سیکریٹری تاج محمد قرشی (جو سابق چیف جسٹس جسٹس عبدالحئی قریشی کے برادر تھے) اور علی احمد بروہی (جو مشہور قانون دان اے کے بروہی کے برادر تھے) نے اپنے طور پر چھاپی تھی۔ اس تفسیر کا خاص طرئہ امیتاز یہ ہے کہ:
مثنوی و معنوی و مولوی
ہست قرآں در زبانِ پہلوی
میں مولانا عبدالرحمان جامی نے جو دعویٰ کیا ہے اور حضرت شاہ عبداللطیف بھٹائی نے
جے تو بیت بھانئیاں،
سے آیتوں آھین،
نیو من لائین
پریاں سندے پار ڈی
میں جو اشارہ فرمایا ہے، مفسر نے شرح بسط کے ساتھ ایک ایک آیت مبارکہ کا ’’مثنوی مولانا رومؒ‘‘ اور ’’شاہ جو رسالو‘‘ سے موازنہ کیا ہے۔ کیا ’’بھٹ شاہ“ ثقافتی مرکز کی جانب سے یہ حیران کن تحقیق چھاپنا گناہ ہے! مولانا حاجی احمد ملاحؒ نے پورے قرآن پاک کا منظوم ترجمہ ’’نورالقرآن‘‘ کے نام سے کیا ہے، وہ بھی شاہ بھٹائی کے بیتوں کی طرز پر…
دنیا میں یہ سندھی منظوم ترجمہ سعودی عرب نے ہزاروں کی تعداد میں چھاپ کر تقسیم کیا لیکن آشنا… اس محیرالعقول محنت کو منظرعام پر لانے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ سندھی زبان میں سیرتِ سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے موضوع پر غیر منقوط کتاب اسکالر رسول بخش تمیمی صاحب نے لکھی، جسے صدارتی ایوارڈ بھی ملا۔ لیکن اس طرح کی محنت کی سندھ حکومت کے اداروں میں قدر دانی نہ ہونی ہے اور نہ ہی ہو سکی… ’’لطیف اور اقبال‘‘ پروفیسر کریم بخش نظامانی کی کتاب ہے۔ ’’رومی، بھٹائی اور اقبال‘‘ علی گڑھ کے فارغ سندھی عالم عبدالغفوربھرگڑی کی کتاب ہے۔ چونکہ اقبالؒ کا نام آگیا اس لیے یہ کتابیں متروک ہیں ان احباب کے ہاں! علامہ اقبال کے افکار پر ڈاکٹر شیخ محمد ابراہیم خلیل، لطف اللہ بدوی، ڈاکٹر عبدالغفار سومرو، کپٹن (ر) ایس ایم یوسف اور پروفیسر سید قلندر لکیاری جیسے بیسیوں سندھی اہلِ قلم کی کتابیں موجود ہیں۔ دوسری طرف قائداعظم محمد علی جناح کی زندگی پرعبدالغفور بھرگڑی کی معرکۃالآراء کتاب موجود ہے۔ سندھ حکومت کے اشاعتی اداروں میں وزیراعلیٰ صاحب ان کتابوں کو شرفِ باریابی آخر کیوں نہیں بخشا جارہا؟ یہ خط آپ کے توسط سے عوام الناس تک ان شاءاللہ 10 رمضان المبارک ’’یوم باب الاسلام‘‘ کو پہنچے گا۔ میری دلی تمنا ہے کہ اس دن آپ دیبل پر محمد بن قاسم فاتح سندھ کے لشکر کی لنگراندازی والے مقام پر تشریف لے جا کرانہیں خراجِ عقیدت پیش کریں۔ سید سردار علی شاہ عرب دور کے دارالسلطنت ’’منصورہ‘‘ پر تشریف فرما ہوکر اعلان کریں کہ اِن شاء اللہ ڈاکٹر ممتاز حسین پٹھان کی ”المنصورہ“ پر ڈاکٹریٹ کی تھیسز محکمہ ثقافت اگلے سال تک منظر عام پر لائے گا۔ سید ناصر شاہ اروڑ کی مسجد محمد بن قاسم پر حاضری دیں اور سندھ حکومت کی طرف سے اعلان کریں کہ مسجد کی تعمیرِ جدید کا مرحلہ ترنت چالو کیا جائے گا۔
شاہ جی… معاف فرمائیے … تاریخ میں ایم این رائےسے لے کر انگریز مصنفین نے اسلامی کلچر اور عرب تہذیب کے دنیا بشمول سندھ و ہند پر اثرات کے حوالے سے غیر جانبدارانہ تجزیوں میں سندھ کو باب الاسلام کا مقام دیا ہے۔ بشری کمزوریوں کے باوجود عربوں کے احسانات کی طویل فہرست گنوائی ہے۔ جب محمد بن قاسم دیبل پر اترے تھے تو ان کے ساتھ آٹھ ہزار کا لشکر تھا، اور جب ملتان پہنچے تو لشکر 65 ہزار سے بھی بڑھ چکا تھا۔ شاہ صاحب! سندھ حکومت کے مشیر اسکالرز کا بس چلے تو… بن قاسم پورٹ کا نام بھی ’’راجا داہر‘‘ کی طرف منسوب کردیں۔ آپ جواب عنایت فرمائیں ۔