حکومتی دعوے اور زمینی حقائق, کم از کم اجرت بیس ہزار روپے کے اعلان پر عمل کون کرائے گا؟
یکم مئی کو محنت کشوں کا عالمی دن منایا گیا، جب کہ 3 مئی کو قلم مزدوروں نے یومِ آزادیِ صحافت منایا۔ دن منانا بھی عالمی استعمار کی ایک روایت ہے، جس کا مقصد متعلقہ شعبے کے لوگوں کو کھلونے دے کر بہلانے کے سوا کچھ نہیں۔ عام حالات میں ان ایام میں متعلقہ شعبے سے وابستہ لوگ جلسے، جلوس، مظاہرے اور سیمینار وغیرہ کرتے ہیں اور لمبی چوڑی تقریریں، بلند عزائم اور اونچی آواز میں نعرے لگائے جاتے ہیں، حاضرین کے جذبات سے کھیلا جاتا ہے، ہر قیمت پر حقوق حاصل کرنے کے دعوے کیے جاتے ہیں، اور پھر پورا سال یہ نعرہ زن طبقہ سکون کی نیند سوتا ہے۔ تاہم بھلا ہو کورونا کی وبا کا، جس نے کئی جمی جمائی روایات کو ہلا کر رکھ دیا ہے، چنانچہ اِس سال یومِ مئی اور یومِ صحافت دونوں پر کورونا کی پابندیوں اور جکڑ بندیوں کے سبب جلسے جلوس اور سیمینار کچھ بھی منعقد نہیں کیا جا سکا، اور قائدین کو محض اخباری بیانات پر گزارا کرنا پڑا۔ یوں سادگی اور سماجی فاصلے کو برقرار رکھتے ہوئے دن منانے کی ایک نئی روایت نے جنم لیا۔
رزق حلال کمانے کو بلاشبہ عبادت قرار دیا گیا ہے اور اسلام نے مزدور کو اس کی محنت کا معاوضہ اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے ادا کرنے کا حکم دیا ہے، مگر دنیا پر مسلط سرمایہ دارانہ اور جاگیردارانہ نظام مختلف حیلوں اور حربوں سے غریب محنت کشوں کا استحصال کرکے اپنی تجوریوں کو بھرنا ہی اپنے فن کا کمال سمجھتا ہے۔ اس نظام میں غریب اور مزدور محنت کش کے حقوق کا کوئی تصور موجود نہیں۔ یکم مئی 1886ء کو شکاگو میں محنت کشوں نے اسی ظالمانہ استحصالی نظام کے خاتمے اور اپنے حقوق کے حصول کے لیے جدوجہد کا آغاز کیا، مگر ان نہتے اور بے بس مزدوروں کو گولیوں سے بھون دیا گیا، انہیں لہو میں نہلا کر ان کی آواز دبانے کی کوشش کی گئی۔ محنت کشوں کی اپنے حقوق کے لیے لازوال قربانیوں کی یاد میں یکم مئی کو ’’یوم مزدور‘‘ قرار دیا گیا، مگر سرمایہ دار نے اس دن کو بھی خوبصورت الفاظ اور دلکش نعروں کا لبادہ پہناکر خود اچک لیا۔ چنانچہ گزشتہ ڈیڑھ صدی سے زائد گزرنے کے باوجود محنت کشوں کے دن آج تک نہیں بدل سکے۔ ٹریڈ یونین نے مزدوروں کے حقوق کے تحفظ کے لیے قدرے منظم اور نتیجہ خیز جدوجہد کی، مگر سرمایہ داروں اور ان کے مفادات کے محافظ ریاستی نظام نے اسے قطعی بے اثر بنا کر رکھ دیا ہے، جس کا نتیجہ ہے کہ آج محنت کش ٹھیکیداری نظام کی جکڑ بندیوں اور دیہاڑی داری (ڈیلی ویجز) کے ہاتھوں مجبور اور بے بس ہوچکا ہے، اور ناقابلِ بیان مشکلات و مصائب کا شکار ہے۔ اپنے بچوں کے لیے چھت، تعلیم اور علاج معالجہ کی سہولتیں فراہم کرنا تو دور کی بات ہے، غریب محنت کش کے لیے دو وقت کی روٹی پوری کرنا مشکل ہوگیا ہے۔
حکمران ہر سال ’’یومِ مئی‘‘ پر دل خوش کن اعلانات کے ذریعے محنت کشوں کو سراب دکھانے اور ان سے دھوکہ دہی کے مرتکب ہوتے ہیں۔ ’ریاست مدینہ‘ کی تشکیل کے دعویدار وزیراعظم عمران خان نے اِس سال یوم مئی پر اس اعلان پر اکتفا کافی سمجھا ہے کہ حکومت محنت کشوں کے حالات بہتر بنانے کے لیے پُرعزم ہے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ ان کے اس عزم کی کوئی جھلک گزشتہ تین برس میں کسی کو دکھائی نہیں دی، ہاں البتہ حکومتی کنٹرول میں موجود مختلف اداروں کی نجکاری اور متعدد صنعتوں کی مختلف وجوہ سے بندش کے باعث ہزاروں بلکہ لاکھوں محنت کشوں کو بے روزگاری کے عذاب سے ضرور دوچار کردیا گیا ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے البتہ یکم مئی کے موقع پر محنت کشوں کی کم از کم اجرت بیس ہزار روپے مقرر کرنے کا اعلان کیا ہے، اور دعویٰ کیا ہے کہ پنجاب واحد صوبہ ہے جہاں کم از کم اجرت بیس ہزار روپے کرنے کی منظوری دی گئی ہے، ہم نے تین برس میں کم از کم اجرت میں پانچ ہزار روپے اضافہ کیا ہے۔ وزیراعلیٰ کا یہ دعویٰ درست ہوسکتا ہے، تاہم اس ضمن میں اولین سوال تو یہ ہے کہ جس قدر مہنگائی اور گرانی موجودہ دور میں ہوچکی ہے اور اشیائے ضروریہ کی قیمتیں جس طرح آسمان سے باتیں کررہی ہیں، اس مہنگائی میں کیا بیس ہزار روپے میں خوراک، رہائش، تعلیم اور ادویہ کی ضروریات پوری کرنا کسی طرح بھی ممکن ہے؟ اگر نہیں اور یقیناً نہیں، تو پھر وزیراعلیٰ کس کارنامے پر قوم سے داد طلب ہیں! پہلے سے زیادہ اہم دوسرا سوال یہ جواب طلب ہے کہ وزیراعلیٰ نے بیس ہزار روپے کی کم از کم اجرت تو مقرر کردی ہے، مگر اس پر عمل درآمد کرانے کا نظام کہاں ہے؟ کیا یہ حقیقت نہیں کہ اس وقت بھی محنت کشوں کی اکثریت حکومت کی پہلے سے مقرر کردہ کم از کم اجرت بھی حاصل نہیں کرپاتی، اور ظالم سرمایہ دار کے شکنجے میں جکڑے ہوئے یہ بے بس و بے کس لوگ انتہائی کم معاوضے پر اپنا خون پسینہ ایک کرنے پر مجبور ہیں۔ اس لیے کہ حکومت جو اعلان کرتی ہے اس پر عمل کرانے کا کوئی لائحہ عمل، کوئی نظام موجود نہیں۔ جو نظام ہمارے معاشرے میں بروئے کار ہے وہ غریب ہی کو لتاڑنے پر یقین رکھتا ہے جس پر مرے کو مارے شاہ مدار کی مثال صادق آتی ہے۔ بلکہ اب تو خود حکومت نے بھی اپنے کارندوں کے استحصال پر کمر کس لی ہے اور لوگوں کو باقاعدہ ملازمت دینے کے بجائے عالمی استعمار کے ایجنٹ آئی ایم ایف جیسے اداروں کی ہدایات پر اعلیٰ تعلیم یافتہ بے روز گار نوجوانوں کو انتہائی کم معاوضوں پر کنٹریکٹ پر ملازم رکھا جارہا ہے۔ یوں جب خود حکومت اپنی مقرر کردہ کم از کم اجرت سے بھی قلیل مشاہرے پر کنٹریکٹ پر لوگوں کو ملازم رکھے گی تو وہ نجی شعبے کو کم از کم معاوضے کے قانون پر عمل درآمد پر کیوں کر مجبور کرسکے گی؟ چوں کفر از کعبہ برخیزد، کجا مانند مسلمانی۔
3 مئی کو منائے جانے والے ’’آزادیِ صحافت‘‘ کے دن کا حال بھی یکم مئی کے یوم مزدور سے کچھ مختلف نہیں۔ 3 مئی کو اسلام آباد میں وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت یورپی یونین کی قانونِ توہینِ رسالتؐ سے متعلق منظور کردہ قرارداد پر غور کے لیے منعقدہ اجلاس کی جو رپورٹ اخبارات کے ذریعے منظرعام پر آئی ہے اس کے مطابق اجلاس میں جبری گمشدگی، صحافیوں کے تحفظ اور آزادیِ اظہار کے قوانین بھی جلد پارلیمنٹ میں لانے پر اتفاق کیا گیا۔ اس ضمن میں پہلی بات تو وزیراعظم کے دیگر بے شمار وعدوں کی طرح یہی ہے کہ ؎
ترے وعدے پہ جیے تو یہ جان جھوٹ جانا
خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا
صحافت کے عالمی دن پر اطلاعات و نشریات کے وزیر مملکت فرخ حبیب نے کہا کہ حکومت آزادیِ صحافت پر یقین رکھتی ہے۔ انہوں نے فرائض کی ادائیگی کے دوران جان کا نذرانہ دینے والے صحافیوں کو خراج عقیدت پیش کیا اور کہا کہ ذرائع ابلاغ کو سہولتوں کی فراہمی اور عامل صحافیوں کا معیارِ زندگی بہتر بنانا حکومت کی ترجیح اوّل ہے۔ جہاں تک حکومت کے آزادیِ (باقی صفحہ41پر)
صحافت پر یقین رکھنے کا تعلق ہے تو اس کی ایک نمایاں جھلک تو عوام نے اُس وقت دیکھی جب تحریک لبیک پاکستان نے حکومت کی جانب سے وعدہ خلافی اور تحریک کے امیر کی گرفتاری کے بعد دھرنوں اور احتجاج کا ملک گیر سلسلہ شروع کیا، اس دوران حکومت نے جس طرح ذرائع ابلاغ کو تصویر کا صرف ایک رخ دکھانے اور تحریک کے مؤقف کا مکمل بلیک آئوٹ کرنے پر مجبور کیا، اس عملی مظاہرے کے نظارے کے بعد بھی اگر کوئی حکومت کے آزادیِ صحافت پر یقین کے دعوے پر یقین پر اصرار کرے تو پھر اس کی عقل پر ماتم کے سوا کیا کیا جا سکتا ہے! صحافیوں کے حالاتِ کار، ذرائع ابلاغ کو سہولتوں اور عامل صحافیوں کا معیارِ زندگی بہتر بنانے کی اوّلین ترجیح کی حقیقت جاننے کے لیے انٹرنیشنل فیڈریشن آف جرنلسٹس کی رپورٹ کا مطالعہ کافی ہے جس میں پاکستان کو صحافیوں کے لیے دنیا بھر میں پانچواں خطرناک ترین ملک قرار دیا گیا ہے۔ اسی طرح یہ اعداد و شمار بھی ہر چشم بینا کے لیے یقیناً چشم کشا ہوں گے کہ گزشتہ ایک برس یعنی مئی 2020ء سے اپریل 2021ء کے دوران ذرائع ابلاغ کے پندرہ ہزار کارکنان روزگار سے محروم کیے گئے، جب کہ متعدد صحافتی ادارے بند ہوگئے یا کردیئے گئے۔