پچھلے کچھ دنوں کی سب سے بڑی خبر کیا تھی؟ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس کی خبر؟ ارے نہیں۔ وہ اتنی بڑی خبر نہیں تھی۔ ٹھیک ہے، کچھ آئین مخالف حضرات نے ایک سازش کی، ناکام ہوگئی۔ سازش کا یہی ہوتا ہے۔ کبھی ناکام ہوجاتی ہے، کبھی کامیاب۔ ہاں اس کیس کی اصل خبر یہ تھی کہ قانون دان طبقہ اور عوامی رائے دونوں جسٹس صاحب کے پیچھے کھڑے ہوگئے اور سازش کمزور ہوکر پہلے ٹھاہ، پھر ٹھس ہوگئی… اور اس میں کچھ خاص بات نہیں ہے۔ ہاں، یہ ضرور ہے کہ آنے والے دنوں میں اس کے اطلاقات آئین، قانون اور جمہوریت کے حوالے سے مثبت نتیجے مرتب کریں گے۔ بس اتنا ہی ہے۔
تو پھر کون سی خبر بڑی تھی؟ کیا کراچی کا ضمنی الیکشن، جہاں پی ٹی آئی 2018ء میں اپنی جیتی بلکہ جتوائی گئی سیٹ پر سے نہ صرف یہ کہ ہار گئی بلکہ الٹی طرف سے پہلے نمبر پہ آئی؟جی نہیں، یہ بھی اتنی بڑی خبر نہیں تھی۔ بس اتنا ہوا کہ جس دستِ قدرت نے لالے کی حنا بندی کی تھی، اب وہ ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ گیا اور حنا بندی کے بغیر لالے کی جو حالت ہونا لازمی تھی، وہی ہوئی۔ اس میں انوکھا پن کیا ہے، کچھ بھی نہیں۔
پھر کون سی خبر بڑی خبر ہے؟ کابینہ میں توسیع کی خبر؟ مزید تین وزیر بنانے سے کابینہ میں وزیروں مشیروں کی گنتی 50 ہوگئی۔ خان صاحب نے کہا تھا: حکومت میں آگیا تو 17سے زیادہ وزیر نہیں رکھوں گا۔ اب 33زیادہ رکھ لیے۔ بڑی خبر تو بنتی ہے۔ لیکن نہیں، اس میں بھی کچھ انوکھا پن نہیں۔
خاں صاحب کی حکومت کی ذمہ داریاں بہت زیادہ ہیں۔ انہیں کھانوں کا افتتاح کرنا ہوتا ہے۔ اکثر تو ایک ہی جگہ کا دو دو تین تین بار افتتاح کرنا ہوتا ہے۔ پرانی حکومت کے منصوبوں کی ’’کرپٹ‘‘ تختیاں اتار کر اپنے نام والی صادق اور امین تختیاں لگانا ہوتی ہیں۔ بہت سے ہائی بلکہ ہائپر(Hyper) پروٹوکول والے دورے کرنا ہوتے ہیں، چارٹرڈ طیاروں سے پروازیں کرکے قوم کو یہ بتانا ہوتا ہے کہ ہالینڈ کا وزیراعظم سائیکل پر دفتر جاتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ اسی طرح کی کئی اور سرگرمیاں۔ اتنی زیادہ سرگرمیوں کے لیے انہیں بہت سے وزیر چاہئیں۔ دیکھا جائے تو پچاس کم ہیں۔ چنانچہ یہ خبر بھی اتنی بڑی نہیں، محض معمول کی یعنی ’’جسٹ نارمل‘‘ خبر ہے۔
اچھا تو پھر وہ خبر ضرور بڑی ہوگی جس میں ایک وزیر نے فرمایا کہ خاں صاحب کو کام سے روکا گیا تو وہ اسمبلیاں توڑ دیں گے؟
جی نہیں، بالکل نہیں۔ اوّل تو یہ ’’اگر‘‘ والی خبر ہے، اور ’’اگر‘‘ بالکل بے معنی ہے۔ یعنی وزیر کا کہنا ہے کہ اگر کام سے روکا گیا تو۔ وزیراعظم دستر خوان بنارہے ہیں۔ کسی نے انہیں لنگر خانے بنانے سے روکا ہے نہ روکے گا۔ اس کے علاوہ خاں صاحب وزیروں کو آئے روز بدلتے رہنے کا کام ہر روز کی بنیادوں پر کرتے ہیں۔ اس کام سے بھی کسی نے نہیں روکا، نہ روکے گا۔ بے چارے وزیر جہاں بھی بٹھا دیے جائیں، بیٹھے دہی سے روٹی کھاتے رہیں گے۔ دہی سے روٹی کھانا کوئی قابل اعتراض کام نہیں۔ کسی نے روکا نہ روکے گا۔ وزیراعظم کی یہی مصروفیات ہیں۔ یا پھر وہ ہائی پروٹوکول دورے کرتے ہیں۔ اسی ہفتے وہ کوئٹہ بھی گئے،37گاڑیوں کا پروٹوکول قافلہ تھا۔ کسی نے اعتراض نہیں کیا۔ 37کے بجائے 38 گاڑیاں ہوتیں تب بھی کسی کو اعتراض نہیں (باقی صفحہ 41پر)
ہونا تھا۔ مطلب یہ کہ ’’اگر‘‘ والی بات ہے ہی فالتو، اور فالتو بات بڑی خبر نہیں ہوتی۔
اچھا، تو پھر وہ جہانگیر ترین کے ساتھیوں کی ’’بغاوت‘‘ ضرور بڑی خبر ہوئی؟ ارے میاں کون سی بغاوت! ترین کے ساتھ 40 ارکان ہوں یا 50،بجٹ تو پاس ہو ہی جائے گا۔ کون سا خاں صاحب کو محنت کرنا ہوگی۔ 40ہوں یا 50، عدم اعتماد تو لانے سے رہے۔ یہ بغاوت یا عدم بغاوت ایک برابر ہے۔ اس خبر میں تو سرے سے خبریت ہی نہیں، بڑی خبر ہونا تو دور کی بات۔ ویسے بھی اسمبلی توڑنے کا انتباہ عوام کو نہیں کیا گیا۔ کن کو کیا گیا، یہ بتانے والی بات نہیں ہے۔ بس اتنا سمجھ جائیے کہ اپنوں نے اپنوں سے روٹھ جانے کی بات کی ہے۔ اپنوں کی آپس کی بات ہے اور آپس کی بات بھی کوئی خبر نہیں ہوا کرتی۔
آخر پھر کون سی خبر بڑی ہے؟ کیا بشیر میمن کے الزامات بڑی خبر نہیں ہیں، جن کی صفائی دینے کے لیے خود وزیراعظم کو میدان میں آنا پڑا اور مبصرین نے اسے ناکافی قرار دیتے ہوئے کہا کہ نہیں، کمیشن بنائو اور تحقیقات کرائو۔ جی بالکل نہیں۔ یہ کوئی بڑی خبر نہیں۔ وزیراعظم نے تو بشیر میمن سے جو بھی کہا ’’اکراس دی بورڈ‘ بلا امتیاز احتساب‘‘ کا کہا اور یہ تو ان کا ٹریڈ مارک ہے۔ ٹریڈ مارک کوئی بڑی خبر نہیں ہوتی۔
اچھا اب تم ہی بتادو کون سی خبر بڑی تھی!
کمال ہے تم نے سب سے بڑی خبر، پچھلے کچھ دن کی نہیں، کچھ مہینوں کی بھی نہیں، صدی کی بھی نہیں، پارلیمانی تاریخ کی سب سے بڑی خبر، حسن کارکردگی کی پوری تاریخ کی سب سے بڑی خبر، ابھی تک پڑھی ہی نہیں؟ نہیں، پڑھی ہوگی، سنی بھی ہوگی، بس دھیان نہیں دیا ہوگا۔ تو سنو۔ سب سے بڑی خبر وزیراعظم کا وہ بیان ہے جس میں انہوں نے بہ بانگ دہل، دن دہاڑے، ڈنکے کی چوٹ پر اعلان کیا کہ:
’’مجھے اپنی ڈھائی سالہ کارکردگی پر فخر ہے۔‘‘
(عبداللہ طارق سہیل۔ روزنامہ 92، منگل 4 مئی 2021ء)