دل کو کسی گھڑی چین نہیں آرہا تھا۔ مجنوں اونٹنی پر سوار ہوا اور لیلیٰ کی بستی کی طرف چل دیا۔ لیلیٰ کے خیال میں مستغرق ہوگیا اور ہاتھ سے اونٹنی کی مہار کی گرفت ڈھیلی ہوگئی۔ اونٹنی نے لیلیٰ کی بستی کی طرف چلنے کے بجائے فوراً اپنا رخ مجنوں کے گھر کی طرف کرلیا، کیونکہ گھر میں اونٹنی کا بچہ تھا جس کی محبت اُس کو بے چین کیے ہوئے تھی۔ جب مجنوں کو عالمِ بے خودی سے افاقہ ہوا تو یہ منظر دیکھ کر حیران رہ گیا کہ جہاں سے چلا تھا پھر وہیں آپہنچا۔ پھر دوبارہ اونٹنی کو لیلیٰ کے گھر کی طرف چلنے پر مجبور کیا۔ آدھا راستہ طے ہوگیا۔ مجنوں پر پھر لیلیٰ کا خیال غالب آیا اور بے خودی طاری ہوگئی۔ مہار کی گرفت جب ڈھیلی ہوئی تو اونٹنی پھر پیچھے بھاگ آئی۔ متعدد بار راستے میں اسی طرح ہوتا رہا۔ مجنوں جب ہوش میں آتا تو خود کو وہیں پاتا جہاں سے چلا تھا۔ لیلیٰ کی یاد میں جب دل زیادہ بے چین ہوگیا تو اونٹنی کو پھر لیلیٰ کی نگری کی طرف چلنے پر مجبور کیا۔ تھوڑی دیر بعد لیلیٰ کی یاد میں پھر بے خودی کا عالم طاری ہوگیا۔
اونٹنی پھر پیچھے بھاگ آئی۔ گھر کے قریب مجنوں کو ہوش آیا تو یہ منظر دیکھ کر اسے غصہ آگیا اور کہنے لگا ”میری لیلیٰ تو آگے ہے اور تیری لیلیٰ پیچھے (یعنی بچے کی محبت) تجھے پیچھے بھاگنے پر مجبور کردیتی ہے، اس طرح یہ راستہ عشق طے نہیں ہوسکتا اور میں اپنے محبوب کی منزل تک تمام عمر نہ پہنچ سکوں گا“۔ مجنوں نے اوپر سے ہی چھلانگ لگادی اور نیچے گرتے ہی زخمی ہوگیا۔
درسِ حیات:انسانی جان صاحبِ عرش و فرش محبوبِ حقیقی کی جدائی میں فاقہ زدہ ہے۔ وہ ا س سے ملنے کی خواہش رکھتی ہے، جب کہ یہ خاکی بدن عیش وعشرت کی جستجو میں مثل اونٹنی کے سمتِ مخالف کو جاتا ہے۔ لیلیٰ ایک انسان ہے جس کے عشق میں مجنوں اس قدر کھویا ہوا ہے اور اس سے ملنے کے لیے تن من کی بازی لگا رہا ہے، اور ہم اللہ اور اس کے پیارے رسولؐ کے عاشقین کہلاتے ہیں۔ ہمیں اپنے قول و فعل کے ذریعے زیادہ عمل کرنے کی ضرورت ہے۔
(مولانا جلال الدین رومی۔”حکایات ِرومی“)