موت کا خوف

موت سے زیادہ خوفناک شے موت کا ڈر ہے۔ جیسے جیسے زندگی کا شعور بڑھتا ہے، زندگی کی محبت بڑھتی ہے، موت کا خوف بھی بڑھنے لگتا ہے۔ جس کو زندگی سے محبت نہ ہو، اُسے موت کا خوف کیا ہوسکتا ہے!
جب انسان کے دل میں موت کا خوف پیدا ہوجائے، تو اُس کی حالت عجیب ہوتی ہے۔ ایسے، جیسے کوئی انسان رات کو اندھیرے سے بھاگ جانا چاہے، یا دن کو سورج سے بھاگ جانا چاہے، بھاگ نہیں سکتا۔
کہتے ہیں کہ ایک آدمی کو موت کا خطرہ اور خوف لاحق ہوگیا۔ وہ بھاگنے لگا… تیز، بہت تیز۔ اسے آواز آئی ’’موت تمہارے پیچھے نہیں، تمہارے آگے ہے‘‘۔ وہ آدمی فوراً مڑا اور الٹی سمت بھاگنے لگا۔ آواز آئی… ’’موت تمہارے پیچھے نہیں، تمہارے آگے ہے‘‘۔ وہ آدمی بولا ’’عجیب بات ہے، پیچھے کو دوڑتا ہوں تو پھر بھی موت آگے ہے۔ آگے کو دوڑتا ہوں تو پھر بھی موت آگے ہے؟‘‘ آواز آئی ’’موت تمہارے ساتھ ہے۔ تمہارے اندر ہے۔ ٹھیر جائو۔ تم بھاگ کر نہیں جاسکتے۔ جو علاقہ زندگی کا ہے، وہ سارا علاقہ موت کا ہے‘‘۔ اس آدمی نے کہا ’’اب میں کیا کروں؟‘‘ جواب ملا ’’صرف انتظار کرو۔ موت اُس وقت خود ہی آجائے گی جب زندگی ختم ہوگی، اور زندگی ضرور ختم ہوگی۔ زندگی کا ایک نام ہے، موت… زندگی اپنا عمل ترک کردے تو اسے موت کہتے ہیں‘‘۔ اس آدمی نے پھر سوال کیا ’’مجھے موت کی شکل دکھا دو تاکہ میں اسے پہچان لوں‘‘… آواز آئی ’’آئینہ دیکھو، موت کا چہرہ تمہارا اپنا چہرہ ہے۔ اسی کو میت بننا ہے۔ اسی کو مُردہ کہلانا ہے۔ موت سے بچنا ممکن نہیں‘‘۔
موت کے خوف کا کیا علاج! لاعلاج کا بھی کوئی علاج ہے! لاعلاج مرض، مہلک مرض صرف زندگی کا عارضہ ہے جس کا انجام صرف موت ہے۔ زندگی ایک طویل مرض ہے، جس کا خاتمہ موت کہلاتا ہے۔ روزِ اوّل سے زندگی کا یہی سلسلہ چلا آرہا ہے کہ زندگی کا آخری مرحلہ موت ہے۔ اس سے ڈرنے کی ضرورت نہیں۔ یہ زندگی کا آخری حصہ ہے۔ ہم کشاں کشاں اس کی طرف سفر کرتے رہتے ہیں۔ ہم خود ہی اس کے پاس پہنچتے ہیں۔ زندگی کے امکانات تلاش کرتے کرتے ہم اُس بند گلی تک آجاتے ہیں جہاں سے مڑنا ممکن نہیں ہوتا۔ آگے راستہ بند ہوتا ہے۔ ہم گھبرا جاتے ہیں اور پھر ہم شور مچاتے مچاتے خاموش ہوجاتے ہیں۔ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے۔
موت نہ ہو تو شاید زندگی ایک طویل المیہ بن جائے۔ ایک طویل دورانیے کا بے ربط ڈراما، کہ ٹی وی چلتا رہے اور لوگ بور ہوکر سوجانا پسند کریں۔ کہتے ہیں کہ ایک لافانی دیوی کو ایک جوان اور خوبصورت لیکن فانی انسان سے محبت ہوگئی۔ اس نے غلطی کو محسوس کیا کہ یہ تو فانی انسان ہے، مر جائے گا۔ وہ دیوتائوں کے عظیم سردار کے پاس گئی کہ اے عظیم دیوتا! میرے محبوب کو لافانی بنادو… دیوتا نے کہا: یہ نہیں ہوسکتا۔ انسان کو موت کا حق دار بنایا جاچکا ہے۔ دیوی نے اصرار کیا۔ فیصلہ ہوگیا کہ اسے موت نہیں آئے گی۔ دیوی خوش ہوگئی۔ وقت گزرتا گیا۔ بڑھاپا آیا… خوبصورت چہرے پر جھریاں نظر آنے لگیں… توانائی، کمزوری کی زد میں آگئی۔ وقت گزرتا گیا۔ بینائی رخصت ہوگئی۔ سماعت بند ہوگئی۔ یادداشت ختم سی ہوگئی۔ مضمحل ہوگئے قویٰ سارے۔
وہ انسان چلاّیا ’’اے دیوی! خدا کے لیے مجھے نجات دلائیں۔ اس عذاب کو برداشت نہیں کرسکتا‘‘۔ دیوی نے اپنی دوسری غلطی کو بھی محسوس کیا۔ پھر حاضر ہوئی، دیوتائوں کے عظیم سردار کے پاس کہ ’’اے دیوتائوں کے بادشاہ!… میرے محبوب کو موت عطا کرو۔ انسان کو انسان کا انجام دے دو‘‘۔
بس یہی راز ہے کہ انسان کو انسان کا انجام ہی راس آتا ہے۔ بات سمجھنے کی ہے، گھبرانے کی نہیں۔ مقام غور کا ہے، خوف کا نہیں۔ زندگی صرف عمل ہی نہیں عرصہ بھی ہے۔ اگر صرف عمل ہوتا تو کوئی حرج نہ تھا، اس عمل کے لیے ایک وقت بھی مقرر ہوچکا ہے۔ اس وقت کے اندر اندر ہی سب کچھ ہونا ہے، کیونکہ اس وقت کے بعد کچھ بھی نہیں ہونا۔ ہمارا ہونا، صرف نہ ہونے تک ہے۔ اگر ہم زندگی کو دینے والے کا عمل مان لیں تو اس کے ختم ہونے کا اندیشہ نہ رہے۔
(’’قطرہ قطرہ قلزم‘‘…واصف علی واصفؔ)

مری نوائے غم آلود ہے متاعِ عزیز
جہاں میں عام نہیں دولتِ دلِ ناشاد
اس شعر میں علامہ اپنی شاعری کی حقیقت و اہمیت سے آگاہ کرتے ہیں کہ یہ ملّت کے درد و الم کی داستان بھی ہے، اور اس میں حیاتِ نو کا پیغام بھی ہے۔ درد و الم سے معمور، اقبال کا دل ملّت کی غم خواری کے جذبوں کی نمائندگی کررہا ہے۔ ملّت کے تاریخی عروج و زوال کی تفصیلات سے آگاہ مردِ خود آگاہ اقبال کا کلام، بھٹکے ہوئے آہو کی رہنمائی اور رہبری کے لیے وقف ہے۔ ایسا دل اور ایسا کلام، ایسی اپنائیت اور ایسی وفا اقبال سے ہٹ کر کسی اور کے ہاں سے نہیں مل سکتی۔